ڈاکٹرنجیبہ عارف ایک ہمہ گیر شخصیت کی مالک ہیں۔ بتیس سال سے درس و تدریس و تحقیق سے وابستہ اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ اردو کی سربراہ رہیں۔ ڈاکٹرصاحبہ نے پبلک ایڈمنسٹریشن، اردو اور انگریزی زبان و ادب میں ماسٹرز کیے۔ اقبالیات میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی اور اردو میں پی ایچ ڈی کیا۔ ہومیوپیتھک سسٹم میں ڈپلوما بھی حاصل کیا۔ اردو میں بی ایس سے پی ایچ ڈی کے نصاب کی تشکیل سے وابستہ رہیں۔ ممتاز مفتی کی شخصیت و فن پر کتاب تحریر کی۔ ان کی شاعری کا مجموعہ ’’معانی سے زیادہ‘‘ دو ہزار پندرہ میں شائع ہوا۔ اردو ادب کا منظرنامہ ’’رفتہ وآئندہ‘‘ لکھا۔ عکسی مفتی کی کتاب ’’اللہ، ماورا کا تعین‘‘ کا ترجمہ کیا۔ حال ہی میں ناول ’’مکھوٹا‘‘ اور افسانوں کا مجموعہ ’’میٹھے نلکے‘‘ بھی شائع ہوچکے ہیں۔ سفرنامہ ’’یادیں، جگہیں، چہرے اور خیال‘‘ زیر طبع ہے۔ ان کے پچاس سے زائد مقالات پاکستان، امریکا، جرمنی اور بھارت کے جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔ ان کے فکروفن پر مضامین، ایم اے اور ایم فل کے لیے کئی مقالات لکھے جا چکے ہیں۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف کوحال ہی میں اکادمی ادبیات کا صدر نشین مقررکیا گیا ہے۔
ڈاکٹرنجیبہ عارف کی والدہ نے پچاسی برس کی عمر میں آپ بیتی ’’جیون دھارا‘‘ لکھی۔ ان کے شوہرعارف جمیل کا دلچسپ سفرنامہ حج ’’حاضر سائیں‘‘ شائع ہوچکا ہے۔ نجیبہ عارف کی تصوف کی رنگ میں ڈوبی منفرد آپ بیتی ’’راگنی کی تلاش‘‘ نے مقبولیت حاصل کی۔ اس آپ بیتی میں مرشد عبیداللہ درانی اورنجیبہ عارف کی داستان اس طرح ایک دوسرے میں باہم پیوست ہیں کہ انہیں الگ کرنا مشکل ہے۔
ڈاکٹرنجیبہ عارف کا تازہ شاہکار سیدنا امام شرف الدین محمد بوصیری کے ساڑھے سات سوسال سے مقبول ’’قصیدہ بردہ شریف‘‘ کا منظوم اردو ترجمہ ہے۔ جس کا عنوان انہوں نے ’’نواح کاظمہ‘‘ دیا ہے اور اس شاہکار کوایمل مطبوعات کے شاہد اعوان نے بہت خوبصورت اور دلکش انداز سے شائع کیا ہے۔ ترجمہ اصل عربی اشعار کے ساتھ معروف خطاط سجاد خالد صاحب کی بے مثال خطاطی سے آراستہ، خوب صورت کاغذ پر شائع کیا گیا ہے۔ پیش کش کی یہ دل پذیر روش ایسے متون کے باب میں صدیوں سے ہمارا روحانی اورثقافتی معمول رہا ہے۔ منفرد چوکور شکل میں روح پرور ڈسٹ کورسے آراستہ، رنگین اور دیدہ زیب کاغذ، جس کے ہرصفحے پرعمدہ نقاشی اور انتہائی نادرکیلی گرافی نے کتاب کے حسن میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ اس صوری و معنوی حسن سے آراستہ کتاب کی اپنی عمدہ طباعت کی بنا پر پانچ ہزار قیمت زیادہ تو نہیں۔ لیکن عام قاری کی قوت خرید سے باہر ضرور ہے۔ جبکہ ’’نواح کاظمہ‘‘ ایک ایسی کتاب ہے۔ جسے ہر مسلمان گھر میں رکھنا اور بار بار اس کا مطالعہ کرنا چاہے گا۔
نواحِ کاظمہ کا انتساب بھی دل پذیرہے۔ ’’مبتدائے کائنات/ مظہرِ ذات وصفات/ منزلِ شام وسحر/ محورقلب ونظر/ آستانِ روشنی کی/ بارگاہِ نازمیں! اس انتساب کے بعد احساس تشکرامام محمدشرف الدین البوصیری کے نام ہے۔
قصیدہ بردہ شریف سدا بہار کلام ہے۔ دوجہانوں کے سردارحضورﷺ کی تعریف وتوصیف میں صدیوں سے مختلف زبانوں میں بے شمار کلام کہا جاتا رہا ہے اور کہا جاتا رہے گا۔ تمام سمندروں کے پانی کوسیاہی اوردرختوں کو قلم بنا دیا جائے تب بھی اس توصیف کا حق ادا نہ ہوسکے گا۔ لیکن ساڑھے سات سوسال سے قصیدہ بردہ شریف کو جو مقام اور مقبولیت حاصل ہے۔ اس میں کبھی کمی نہیں آئی۔ مختلف زبانوں میں قصیدے کے ان گنت تراجم کیے گئے اور یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ اردو میں بھی قصیدہ بردہ شریف کے متعدد ترجمے ہوچکے ہیں۔
بیک پیچ پر پروفیسر ڈاکٹر شیرمحمد زمان لکھتے ہیں۔
’’کیا ہی مبارک و مسعود ساعت تھی جب عبدالمطلب نے اپنے یتیم پوتے کا نام محمد رکھا تھا۔ بارگاہ کریمی میں حسن قبول کا یہ عالم کہ ان کی ثناخوانی اعدا نے بھی صادق و امین کے القاب سے کی۔ مدحت سرائی کا یہ لامتناہی سلسلہ حسان بن ثابت ؓ، عبداللہ بن رواجہ ؓ، کعب بن زہیرؓ سے ہوتا ہوا ساتویں صدی ہجری میں البوصیری کے شہرہ آفاق نعتیہ قصیددے البردۃ تک پہنچتا ہے۔ نعت گویانِ محمدﷺ کا یہ سعید سفر اب تک جاری ہے اور تا ابد جاری رہے گا۔
البردۃ کی مقبولیت کا اندازہ کیجئے کہ سوسے زیادہ شرحوں کے علاوہ اس کے بیسویں تراجم اردو، انگریزی، لاطینی، جرمن،فارسی اور ترکی وغیرہ میں شائع ہوچکے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف کا زیرنظر منظوم ترجمہ منفرد مقام کاحامل ہے۔ وہ قائلِ قیل و قال نہیں، صاحب حال ہیں۔ قسام ازل نے ان کے دوسرے امتیازات کے ساتھ یہ عظیم سعادت بھی ان کے لیے مقدرکی تھی کہ اس بابرکت قصیدے کو، جسے شفاالاامراض اور دفع بلیات وظیفے کی حیثیت حاصل رہی ہے، اردو میں تازہ شعری جامہ پہنائیں۔
عربی قصیدے کی روح کو کسی بھی اور زبان میں منتقل کرنا کارِدشوار ہے مگر یہ ترجمہ زبان کی شستگی و ثروت مندی، تراکیب کی چستی اور صحت ِ ابلاغِ معانی میں ممتاز ہے۔ جادہ شوق کے راہ نورد اس ترجمے میں ادبی تلذذ کے ساتھ ساتھ روحانی وجد و ابتہاج کی دہری کیفیت سے بہرہ مند ہوں گے۔
اورینٹیل کالج پنجاب یونیورسٹی کے استاد محترم اور نامورشاعرمعین نظامی نے’’صدقہ جاریہ کا زندہ رود‘‘ کے عنوان سے کتاب کا کیا خوب تعارف کرایا ہے، جس کا طویل اقتباس پیش کیے بغیر’’نواح کاظمہ‘‘ پر بھرپور تبصرہ ممکن نہیں ہے۔
’’قصیدہ بردہ کواسلامی دنیا میں جوحیرت انگیزعزت و وقار اور شہرت اور مقبولیت حاصل ہے، اس کی وجوہات احساساتی، ادبی اور فنی تو ہیں ہی،یقینا کچھ اور بھی ہے، نقدونظر کے جامع و مستندمشرقی و مغربی منابع جس کی تعریف و تعین سے خالی ہیں۔ کسی ادبی شاہ پارے کی نسل در نسل ایسی غیر معمولی پذیرائی کا غالباً واحد سبب خواجہ حافظ شیرازی نے اپنے ضرب المثل مصرعے میں یوں بتایاہے: قبول خاطر و لطفِ سخن خداداد است۔ قصیدہ بردہ خداداد لطفِ سخن اور قبول خاطر کی مثالوں کا تاج دار ہے۔
اس کے شاعرامام شرف الدین بوصیری تیرھویں صدی عیسوی کے ہیں۔ وہ فارسی میں صوفیانہ اور اخلاقی شاعری کے بانی حکیم سنائی غزنوی کی طرح شروع میں ایک متوسط درجے کے مداح اور ہجو و ہزل گو شاعر تھے۔ ان کا کلام معروف اور مقبول نہیں تھا۔ نعت رسولﷺ نے ان کی ایسی مسیحائی کی کہ اس اکسیر محبت سے انھیں ظاہری شفا بھی ملی اور باطنی وجاہت بھی۔ ان کا ارمغان ِ مودت و عقیدت خداکے ہاں بھی باریاب ہوا اور ممدوحِ خدا کی بارگاہ میں بھی۔ یہ مبارک قصیدہ اپنے شاعر کے تولدِ دیگر کا روحانی اعلامیہ بھی ہے۔ اس کا شاعر بوصیری پہلے والا بوصیری نہیں، کوئی اورہے۔ اندر باہرسے یکسر مختلف۔ اب وہ مجہول الاحوال شاعر نہیں ہے جس کے کلام میں کوئی خاص کشش نہیں تھی۔
عربی زبان وادب کے رمز شناسوں نے اسے سنا تو اس کے وفورِتخلیق، اخلاصِ بیان اور فصاحت و بلاغت کے اعتراف و احترام میں بے ساختہ سرجھکا دیے۔ بعدکی صدیوں نے بوصیری کوہمیشہ امام کے لقب سے یاد کیا اور ان کے قصیدے کو لفظ لفظ حرزِ جاں بنایا۔ اہل نظرنے قصیدہ بردہ پر لگی مہر قبول کی خوشبو پہچان کر اسے داخل اوراد کیا، عالموں اور صوفیو ںنے اپنے شب و روز کے معمولات میں شامل کیا، داؤدی لحن رکھنے والوں نے اسے صرف گلے اور زبان سے نہیں دل سے پڑھا،خوش نویسوں نے اس کی صدرنگ خطاطی کی، نقاش خونِ جگر سے اس پر مشقِ ہنر کرتے رہے، عمارت گروں نے مقدس عمارات پر اس کے یادگار کتبے لکھے، ہزاروں بیماروں نے اس کی برکت سے شفاپائی اوراس کے طفیل نہ جانے کتنوں کی ظاہری اور باطنی حاجت روائی ہوتی رہی۔ یوں قصیدہ بردہ سرچشمہ فیوض و برکات چلا آتا ہے۔
امام بوصیری کی سبیل ارادت، صدقہ جاریہ کازندہ رودہے۔ دنیا بھر کی زبانوں میں قصیدہ بردہ کے ترجمے ہوئے، شرحیں لکھی گئیں، اسے تضمین کیاگیا اوراس کے مطالب و محاسن پر مختلف ملکوں کی دانش گاہوں اور تحقیقی مراکز نے خوب داد تحقیق دی۔ قصیدہ بردہ کا زیرنظر منظوم ترجمہ محترمہ نجیبہ عارف کی کاوش جمیل ہے۔ جس جذبہ بے اختیارنے انھیں اس شاہکار کے ترجمے پر ابھارا، وہ قابل داد بھی ہے اور قابل رشک بھی۔ والہانہ لگن کے بغیر ایسے کام نہیں ہوا کرتے۔
ڈاکٹر نجیبہ کو جاننے والے جانتے ہیں کہ اس گراں قدر خدمت کے لیے ناگزیر معیارِ شرائط پر وہ اچھی طرح پورا اترتی ہیں۔ وہ نیک نام اہل علم و تحقیق اور صاحبِ مطالعہ و تجزیہ بھی ہیں، شعروادب میں انھوں نے اپنے جوہرِتخلیق و ریاضت سے عزت و شہرت کمائی ہے، دین و عرفان سے ان کی دیرینہ شعوری وابستگی بھی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں،خدمتِ خلق کی طرف ان کا طبعی میلان اور روحانیات میں ان کا بڑھتا ہوا انہماک بھی ان کی خوش گوار شخصیت کا نہایت پسندیدہ رنگ ہے۔ ‘‘
حرف ناشر میں شاہد اعوان لکھتے ہیں۔
’’قصیدہ بردہ شریف کا ڈاکٹر نجیبہ عارف کا منظوم ترجمہ پڑھنا گویا اس غیر موجود اجنبیت اور پہلے سے مانوس کو باضابطہ جاننے کاعمل ثابت ہوا۔ لاشعور سے شعور کا سفر۔ ایک ایسا روحانی تجربہ کہ جیسے کوئی چیزتکمیل پذیر ہوگئی ہو، روح شانت ہو گئی۔ رب سے ملاقات اور نبی کریم کا سامنا ہونے پہ کم ازکم یہ شرمندگی نہیں ہوگی کہ اس شاہکار کی مکمل تفہیم سے محروم رہا۔
مختصر وقت کے باوجود اس کام کو تہذیبی و جمالیاتی روایت کے اندر رہتے ہوئے پیش کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ ہمزاد، سجاد خالدد کی مقامی نستعلیق میں اردو ترجمے کی خطاطی نے بطور تزئین کار میرا کام آسان کیا۔ خواہش ہے کہ اگلے ممکنہ ایڈیشن میں صوری حسن میں اضافے کے لیے وہ سب کر سکوں جو اس بار رہ گیا۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف کی طرف سے کام کرنے کی مکمل آزادی نے ہمارے قومی مزاج کے برعکس اعلیٰ درجے میں بروئے کار رکھا۔ بطور ناشر اس کلاسک کی اشاعت میرے لیے توشہ تو ہے، کارے کردم کی شادمانی کا سامان بھی۔‘‘
قصیدہ برد ہ شریف کا تعارف ڈاکٹرنجیبہ عارف کے مرشد قاضی احمد سعیدؒ نے انہیں خواب میں کرایا تھا۔ گو قاضی انہیں قصیدہ دیے بغیر دو ہزار تین میں رخصت ہوگئے اور یہ خواب بھی ان کے ذہن سے محو ہوگیا۔ مدینے سے واپسی کا دن آیا اور آخری سلام کرنے روضہ رسولﷺ پر حاضرہوئیں تو دوبارہ حاضری کی خواہش سے بے اختیار دعا کی کہ مجھے دوبارہ حاضری کی سعادت عطا فرمائیں تو میں یہاں بیٹھ کر قصیدہ بردہ شریف سناؤں گی۔ قصیدے کا خیال کیوں آیا اور انہوں نے اس کا وعدہ کیوں کیا۔ ان کے پاس اس کی کوئی توجیہ نہیں ہے۔ ان کے بقول انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ قصیدہ بردہ شریف کتنا طویل ہے اور اس کی تاریخی، ادبی اور روحانی اہمیت کیا ہے۔ اس کے باوجود قصیدے کا ترجمہ کیوں کر کیا؟ یہ دلچسپ تفیصل ڈاکٹر نجیبہ عارف نے ’’نواحِ کاظمہ‘‘ کے پیش لفظ ’’تحدیث نعمت‘‘ میں بیان کی ہے۔
’’قصیدہ بردہ شریف سے میراپہلا رابطہ بیس اکیس برس پہلے ایک خواب میں ہواتھا۔ بس اتنا سا خواب تھا کہ میری عزیز ترین مادر علمی گورنمنٹ گرلز ہائی سکول خوشاب کی ہیڈ مسٹریس مس عنایت کے دفتر میں قاضی احمد سعید صاحبؒ کھڑے ہیں اور مجھے ایک کتابچہ دے کر کہتے ہیں، یہ قصیدہ بردہ شریف ہے، رکھ لو۔ میں بڑے شوق سے وہ کتابچہ ان سے لے لیتی ہوں۔ کتابوں کی چھان پھٹک میں چھوٹی سی چوکور کتاب میرے ہاتھ آگئی جس پر قصیدہ بردہ شریف کا عنوان درج تھا۔ کتاب میں عربی متن کے ساتھ چار زبانوں میں قصیدے کے نو تراجم بھی شامل تھے۔ ان میں چھ تراجم پنجابی میں اور ایک ایک فارسی، اردو اور انگریزی میں تھا۔ عربی جاننے کا دعویٰ نہیں، مگر ابتدائی سطح کی عربی سے واقف تھی۔ پڑھنا جانتی تھی۔ اس کے باوجود قصیدے کا متن پڑھنا مجھے اتنا مشکل لگا کہ میں نے بہت جلد ہمت ہار دی۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ متن سے اجنبیت محسوس ہوئی تھی، وہی ترجمہ بھی ہوئی۔ کسی ایک لفظ نے بھی مجھے پکڑائی نہ دی۔
بعض کتابیں اپنے قاری کو رد کر دیتی ہیں اور اس پر کھلنے سے انکار کر دیتی ہیں۔ مجھے بھی ایسااحساس ہوا۔۔ یہ خیال بھی آیا کہ میں نے اپنی کم علمی کے باعث کیسا بڑا دعویٰ کر دیا تھا ایسا وعدہ کرآئی تھی،جسے پوراکرنا شاید میری بساط سے باہر ہو۔ ربیع الاول کی ساتویں رات تھی اور اکتوبر دو ہزار اکیس کی بارہ، میں سوچ رہی تھی کہ اس مہینے میں کیا خاص کام کیا جائے۔ میرا جی چاہا کہ قصیدہ بردہ شریف کے کچھ اشعار کا ترجمہ کرنے کی کوشش کروں اور یہ خیال آتے ہی وہی چوکور کتاب اٹھالی۔ اب تک قصیدے کے متن نے مجھ سے جو غیریت برتی تھی، اس کے بعد ایسی سوچ کا پیدا ہونا تعجب انگیز تھا۔
میں نے قصیدے میں سے کچھ مانوس اور نسبتاً آسان اشعار تلاش کیے اور ان کاترجمہ کرنے لگی۔ بحر منتخب کرنے میں دیر لگی۔ لیکن صبح سے پہلے پندرہ اشعار کا ترجمہ ہوگیا۔ ایک مدت سے غزل کہنا چھوڑ رکھا تھا۔ پابند نظم کہے بھی عرصہ بیت چکا تھا۔ ایک مصرع بھی موزوں نہیں ہوتا تھا۔ ترجمہ اپنی دوست شاعرہ حمیدہ شاہین اورشاعر و ادیب مبین مرزا کو بھیجا اور رائے مانگی۔ دونوں کی طرف سے مثبت جواب ملا۔ مبین مرزا نے اصرار کیا کہ رکے بغیر پورے قصیدے کا ترجمہ کر ڈالوں کیوں کہ ایسے کام اسی وقت کرنے چاہئیں جب طبیعت رواں ہو۔ دل تو میرا بھی یہی چاہتا تھا مگر یہ سوچ کر ڈر لگتا تھا کہ روز روز تو یہ واقعہ نہیں ہوسکتا۔ ایک سو ساٹھ سے زیادہ اشعار کا ترجمہ بھلا مجھ سے کیسے ہو پائے گا۔
اگلی رات آئی تو پھر دل میں ہڑک اٹھی۔ خیال آیا ترتیب سے شروع کرتی ہوں۔ تشبیب کے اشعاردیکھے تو تغزل سے بھرپور تھے۔ بہت آسانی سے ترجمہ ہونے لگا۔ معروف شاعرہ اور دوست یاسمین حمید کو دکھایا انھوں نے بہت دل بڑھایا۔ پھر تو میں نے پختہ ارادہ کرلیا کہ ترجمہ مکمل کروں گی۔ باقی کاموں سے فارغ ہو کر بیٹھ جاتی اور تین چار بجے تک دس پندرہ اشعار کا ترجمہ کر ڈالتی۔ بہت جلد مجھے یہ احساس ہوگیا کہ ترجمہ کرتے ہوئے میری اہلیت اور استعداد کام نہیں آرہی بلکہ کوئی اور قوت کارفرماہے۔ یہ بات میں نہ توکسی مصنوعی عجز کے اظہار کے طور پر کر رہی ہوں اور نہ اپنی بڑائی جتانا مقصود ہے۔ فقط امر واقعہ اور تحدیث نعمت کے طور پرعرض ہے کہ یہ کام میرے بس کا نہیں تھا۔ عربی متن بہت کم سمجھ میں آرہا تھا۔ میں ترجمہ کرتے ہوئے ہر شعر کا عربی متن پڑھتی، اکثر کچھ بھی سمجھ میں نہ آتا۔ پھر ایک ایک کر کے اس کے سبھی تراجم دیکھتی اور ان کی مدد سے اپنا ترجمہ کر لیتی۔ ربیع الاول کا مبارک مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی قصیدے کا ترجمہ مکمل ہوگیا۔ ‘‘
ترجمہ کی یہ دلچسپ کہانی بھی اس کی اہمیت دوچند کر دیتی ہے۔ جس طرح امام البوصیری سے فالج کے دوران قصیدہ کہلوایا گیا اور ان کی بیماری دور ہوگئی۔ اسی طرح ڈاکٹرنجیبہ عارف سے کسی انجانی قوت نے یہ بے مثال ترجمہ کرادیا۔
نجیبہ عارف نے قصیدہ بردہ شریف کا ترجمہ کسی انجانی قوت کے زیر اثر کیا ہو یا نہ کیا ہو، لیکن ایسا کام گہری عقیدت اور توفیق خداوندی کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ رسول مقبولﷺ کی شان میں کہا گیا قصیدہ جو صدیوں سے مرجع خلائق اور خاص وعام میں مقبول ہے اور جس کے اردو سمیت مختلف زبانوں میں ان گنت تراجم ہوئے اور شرحیں لکھی گئیں۔ اس کا ایک اور ترجمہ وہ بھی آسان،عام فہم اور ہر ایک کی سمجھ میں آنے والے انداز میں توفیق الہٰی سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ مترجمہ نے کمال ہنرمندی کے ساتھ اصل لغت سے تعلق برقرار رکھا اور عربی کے ہم معنی الفاظ سے استفادہ کیا جو اس ترجمے کی بڑی خوبی ہے۔ زبان سادہ اور رواں ہے،جس میں اصل قصیدے کی فضا کو خوش اسلوبی سے عربی سے اردو میں منتقل کیا گیا ہے۔
اس ترجمے کے لیے قصیدے کے جس متن کو بنیاد بنایا گیا ہے اسے شیخ ابراہیم باجوری نے مرتب کیا ہے اور مکتبہ الصفا، جامعہ الازہر، قاہرہ نے شائع کیا ہے۔ اس متن کے مطابق قصیدے کے اشعارکی تعداد ایک سو اکسٹھ ہے۔ تاہم ڈاکٹر نجیبہ عارف نے استاد محترم کی ہدایت پر ایک شعر، یعنی شعرنمبر پچپن، جو شیخ باجوری کے متن میں شامل نہیں،نسخہ ابر حجر متیمی سے بھی لیا گیا ہے۔ باجوری نے قصیدے کے اختتام پر درود و سلام اور دعائیہ مضامین پرمبنی چند ایسے اشعار بھی درج کیے ہیں جن کی بابت طے نہیں کہ اسی قصیدے کا جز ہیں۔ ان میں صرف ایک شعرآخر میں شامل کیا گیا ہے۔ اس طرح ’’نواح کاظمہ‘‘ میں ترجمہ شدہ اشعار کی تعداد ایک سو تریسٹھ ہے۔
قصیدے کے ابتدائی تین اشعارسے ہی ترجمے کی سادگی،سلاست اور روانی واضح ہوتی ہے۔ ملاحظہ کریں۔
یاد پھرسے آگئے کیا ہم نشینِ ذی سلم؟
خون ہو کر بہہ رہا ہے دل مسلسل دم بہ دم
کاظمہ سے کیا کوئی پیغام لائی ہے صبا؟
برق سا ں جلوہ نما ہے کون بر کوہ ِ اضم؟
اس قدر گریہ کناں آنکھیں! سنبھلتی ہی نہیں
اس قدرآشفتگی! اٹھتا نہیں ہے بارِ غم
معنی آفریں یہ اشعار دیکھیں، کیا وجہ ہے کہ قصیدہ بردہ شریف صدیوں سے ہرخاص وعام میں مقبول ہے۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف کے ترجمے میں بھی وہی دل میں اترنے والے مفاہیم بدرجہ اتم موجود ہیں۔
کھل گیا اپنے پرائے سب پہ میرا حالِ دل
روگ کیسے چھپ سکے جب درداٹھتا ہو اتم
ناصحوں کی اچھی اچھی باتیں سن کر ٹال دیں
عاشقوں کے حق میں گویا اک غنیمت ہے صمم
عہدِ پیری کی نصیحت بھی موثر کب ہوئی
گرچہ پیری کی نصیحت سننا ہوتا ہے اہم
کیا اثر ہو اس نصیحت کا نہیں جس پر عمل
دوسروں کو کچھ بتائیں، خود کریں کچھ اورہم
جز فرائض میری گٹھری میں نہیں اعمال کچھ
جیت خالی اور سفر درپیش ہے سوئے عدم
ذرا بعثت نبوی ﷺ کے بارے میں ان اشعار کی گہرائی اور گیرائی پر غورکریں۔ ایک نیا جہانِ دانش آپ پر کھل جائے گا۔
آمرونا ہی نبی ٹھہرے ہمارے ہی نبی !
قولِ حق میں سب سے بڑھ کر، حرف’’لا‘‘ہویا’’نعم
کون ہوگا شافعِ محشر سوائے آپ کے
خوف میں امید رکھیں اور کس سے اہل غم
آپ ہی نے حق کے رستے پر بلا یا خلق کو
ایسے رشتے میں پرویا جو نہ ہوگا کالعدم
خلق میں اورخُلق میں سب انبیا سے بالا تر
ہے کوئی ایسی مثال ِ رحمت وعلم وکرم !
’’نواح فاطمہ‘‘ کے اشعارسے مثالیں پیش کرتا جاؤں تو گویا پورا قصیدہ ہی یہاں پیش کرنا پڑجائے۔ بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ قصیدہ بردہ شریف کے ترجمے میں ڈاکٹرنجیبہ عارف نے اپنا دل نکال کررکھ دیاہے۔ ایک ایک لفظ عقیدت و مودت سے لبریز،ہرشعردل میں اترتا جائے۔ اردوداں طبقے کے لیے یہ ترجمہ تحفہ خاص ہے۔ جس طرح قرآن پاک صرف ناظرہ پڑھنے سے تلاوت کا حق تو ادا ہوجاتاہے لیکن قاری کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ اس کے لیے ترجمہ پڑھنا ضروری ہے۔ اسی طرح عام قاری عام فہم اورسادہ زبان میں اس منظوم ترجمے سے قصیدہ بردہ کے معنی و مفہوم سمجھ کراسے پڑھنے کااصل لطف اٹھا سکتاہے۔
پبلشراورڈیزائنر کی عقیدت ومودت بھی ’’نواح کاظمہ‘‘ کے ہر صفحے پر جلوہ گرہے۔ خصوصی اہتمام سے ابتدا میں قصیدہ بردہ شریف کا ڈاکٹر نجیبہ عارف کے ترجمہ شدہ اردو اشعار انتہائی دیدہ زیب اندازسے درج کیے گئے ہیں۔ رنگین اوردبیزانتہائی خوبصورت کاغذ پرکیلی گرافی سے آراستہ ایک صفحہ پر ایک سے تین اشعاردیے گئے ہیں۔ جس کی فصل اول ’’تشبیب‘‘، فصل دوم ’’اعتراف گناہ اورنفس کی مذمت‘‘،فصل سوم مدح حضورپاکﷺ،فصل چہارم میلادالنبیﷺ،فصل پنجم دعوت وارشاد، فصل ششم شرف ِ قرآنی، فصل ہفتم معراج النبیﷺ، فصل ہشتم جہاد النبیﷺ،فصل نہم طلب مغفرت اورفصل دہم کومناجات اورعرضِ حاجات کاعنوان دیا گیاہے۔ اشعارکے ایک جانب مشکل الفاظ کے معنی بھی درج ہیں۔ جس کے بعدرشیدبٹ کی قصیدہ بردہ شریف کی ایک انتہائی دلکش خطاطی کا عکس ہے۔ پندرھویں اورسولہویں صدی میں خط نسخ میں قصیدے کی خطاطی کے نادرنمونوں نے کتاب کی اہمیت و وقعت میں بے پناہ اضافہ کیاہے اوراسے انمول بنادیا۔ جس کے بعد پورے قصیدہ بردہ شریف کا اصل عربی متن اوراس کا اردوترجمہ ایک صفحے پرایک دوسرے کے مقابل دیاگیاہے۔ جس سے قاری کواصل مسودہ اورترجمہ سمجھنے کا موقع ملتاہے۔ ان تمام کی عربی اور اردو متن کتابت نہیں بلکہ خطاطی ہی کی صورت میں درج ہے۔ جس سے کتاب کا صوری حسن بے نظیر ہوگیاہے۔
آخر میں ڈاکٹر نجیبہ عارف کوایسا سلیس اور دلکش ترجمہ کرنے پرڈھیروں مبارک باد۔ ایمبل مطبوعات اورشاہداعوان کو ایسی دل پذیرکتاب کی اشاعت بہت مبارک ہو۔ ساتھ ہی ایک تجویزکہ قارئین کی اکثریت تک پہنچانے کی غرض سے اگر ’’نواحِ کاظمہ‘‘ کا پیپربیک ایڈیشن شائع کیا جائے، جس میں صرف عربی اور اردومتن ایک صفحے پر درج ہو، لیکن صرف اردو متن، کیلی گرافی اورنادر ونایاب خطاطی کے عکس شامل نہ کیے جائیں۔