بلھے شاہ سے کون واقف نہیں۔ بلھے شاہ سے میری شناسائ کا بڑا محرک استاد نصرت فتح علی خان ہیں جنہوں نے ان کے درجنوں کلام گا کر انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔ حضرت بلھے شاہ (1680ء-1757ء) ایک مشہور صوفی شاعر اور موسیقار تھے۔ انہوں نے شاہ عنایت قادری سے بیعت کی اور اپنے مرشد سے تصوف کے رموز و اسرار سیکھے۔ شاہ عنایت قادری نے بلھے شاہ کی روحانی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ شاہ عنایت اللہ قادری شطاری قصوری لاہوری پنجاب کے اکابر صوفیاء و اولیاء میں سے تھے۔ ابو المعارف محمد عنایت اللہ حنفی قادری شطاری قصوری ثم لاہوری والد کا نام پیر محمد تھا شاہ عنایت قادری 1643ء کو قصور میں پید اہوئے آپ شاہ عنایت قادری کے نام سے معروف ہیں۔ آبا و اجداد کا تعلق لاہور سے ہے جو پشت در پشت یہاں آباد تھے‘ ذات کے آرائیں تھے۔ کاشتکاری اور باغبانی سے وابستہ یہ خانوادہ خدارسیدہ بزرگوں پر مشتمل ہے۔ مفتی غلام سرور قادری کے مطابق ’’شاہ عنایت از قوم باغبان یعنی زمیندار بود‘‘ شاہ عنایت قادری کے بزرگ لاہور کے علاقہ مزنگ میں ایک وسیع عریض رقبہ پر کاشتکاری کرتے تھے۔ کھیتی باڑی آپ کا ذریعہ معاش تھا۔ ابتدائی تعلیم قصور میں حاصل کی اس کے بعد لاہور پہنچ کر شاہ محمد رضا قادری الشطاری لاہوری کی حلقہ درس میں شامل ہوئے انہی کے ہاتھ پر سلسلہ قادریہ میں بیعت ہوئے اور خدمت مرشد میں رہ کر تکمیل سلوک اور خرقہ خلافت حاصل کیا مرشد کے حکم پر قصور آ گئے وہاں پر حلقہ درس بہت وسیع ہو گیا ایک خلق کثیر علمی و روحانی پیاس بجھانے لگی قصور کے حاکم حسین خان خویشگی (افغان) کو یہ بات ایک آنکھ نہ بھائی تو قصور سے نکل جانے کا حکم دیا آپ پھر لاہور تشریف لے آئے اور مستقل سکونت اختیار کی مریدین میں بابا بھلے شاہ کا نام سر فہرست ہے۔ شاہ عنایت قادری بلند پایہ مفسر، فقہیہ اور پنجاب کے اکابر علما و صلحا میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی تصنیفات میں سے چند ایک یہ ہیں۔
غایت الحواشی
ملتقط الحقائق شرح کنز الدقائق
تنقیح المرام فی مبحث الوجود
لطائف غیبیہ
اذکار قادریہ
مجموعہ عرفانی شرح مجموعہ سلطانی
رسالہ در مسئلہ حرب و دار الحرب
ذیل ااغلاط فی مسائل الغصب فی الافراط
دستور العمل
اذکار غیبیہ
کلمات التامہ فی ردمطاعن الشفات،
رسالہ بہز الطاعات
حواشی جواہر خمسہ،
رسالہ من قال ان الدعا فی الرزق کفر
رسالہ فی حل شرب الدخان،
شاہ عنایت شاہ قادریؒ کا شہرہ اور حلقہ ارادت کو بڑھتے ہوئے دیکھ کرآپ کے مخالفین اور حاسدین کا ایک گروہ پیدا ہو گیا اور خاص کر جب حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے آپ کی بیعت کی تو ایک طوفان برپا ہو گیا کہ ایک سیدہ زادہ ایک آرائیں کا مرید ہوگیا ہے۔ لیکن حضرت بابا بلھے شاہ نے اپنے مرشد کا بھرپور دفاع کیا اور اپنے سید ہونے کی مذمت کی۔
بلھے نو سمجھا ون آئیاں بہناں تے بھرجائیاں
من لیا بلھیا ساڈا کہنا چھڈ دے پلہ آرائیاں
آل نبی دی اولاد علی دی توں کیوں لیکاں لائیاں
جیہڑا سانوں سید آکھے دوزخ ملن سزائیاں
جیہڑا ساہنوں آرائیں آکھے بہشت پینگاں پائیاں
اپنے مرشد کی سر بلندی قائم رکھنے کے لئے حضرت بابا بلھے شاہ سید ہونے کی بجائے آرائیں ہونے کو ترجیح دیتے ہیں، مرشد کے لئے یہ فریفتگی غیر معمولی ہےاور تاریخ میں اس کی بہت کم نظیر ملتی ہے۔ شاہ عنایت قادری، قادری سلسلے کے پیر تھے اور مذہبی تعلیم اور تصوف (قادری سلسلہ )کا درس دیتے تھے۔ آپ کا تعلق بغداد کے روحانی پیشوا پیران پیرحضور غوثِ اعظم حضرت شاہ عبدالقادرجیلانی سے جاملتا ہے۔ اس کی تصدیق بلھے شاہ اس طرح کرتے ہیں۔
پیراں پیر بغدادا ساڈا،مرشد تخت لاہور
اوہ اسیں سبھ اکو کوئی آپ گڈی آپ ڈور
حضرت شاہ عنایت قادری، بابابلھے شاہ کی شاعری کا متن ہیں اور مرشد سے محبت و عقیدت بلھے شاہ کی شاعری سے چھلکتی ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ بلھے شاہ اور حضرت شاہ عنایت قادری ایک ہی رسی کے دوسرے ہیں جو ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ بلھے شاہ کی ایک کافی کا مقطع ملاحظہ کیجیے
عرش منور ملیاں بانگاں سنڑیاں تخت لہور
شاہ عنایت کنڈیاں پایاں لک چھپ کھچدا ڈور
مرشد سے مؤدت و عقیدت کایہ عالم تھا کہ ہمہ دم ان سے عقیدت کا دم بھرتے دکھائ دیتے ہیں۔ کوئ ساعت ایسی نہیں جس میں آپ مرشد سے اپنی وابستگی کا اعلان کرتے نہ دکھائ دے رہے ہوں۔
بلھے شاہ نوں سدوں شاہ عنایت دے بوہے
جس نے پواۓ سانوں چولے ساوے تے سوئے
سانوں گھائل کرکے فیر خبر نالئی آ
تیرے عشق نچایا کرکے تھیا تھیا
بلھے شاہ نے شاہ عنایت قادری کو اپنی شاعری میں جہاں مختلف القابات سے نوازا ہے وہاں ایک منفرد اور عجیب لفظ "ٹھگ” استعمال کیا۔ انکی ایک کافی کا شعر ملاحظہ کیجیے۔
دے دیدار ہویا جد راہی، اچنچیت پئ گل پھاہی
ڈاڈھی کیتی لاپرواہی، مینوں مل گیا ٹھگ لاہور
انہوں نے شاہ عنایت کو "لاہور کا ٹھگ” کہہ کر اپنے منفرد اور اچھوتےاسلوب کو برقرار رکھا۔ صوفی بزرگوں کے کلام میں اکثر رمزیت ہوتی ہے۔ "ٹھگ” کا لفظ یہاں ایک صوفیانہ رمز کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ ٹھگ وہ لوگ ہوتے تھے جو لوگوں کو دھوکہ دے کر ان کا مال و متاع چھین لیتے تھے۔ صوفی نقطہ نظر سے، "ٹھگ” دنیاوی تعلقات اور خواہشات کی علامت ہے۔ شاہ عنایت کو "لاہور کا ٹھگ” کہہ کر بلھے شاہ یہ بتانا چاہتے تھے کہ ان کے مرشد نے انہیں دنیاوی تعلقات اور خواہشات سے دور رہنے کی تلقین کی تھی۔ بلھے شاہ اور شاہ عنایت کے تعلقات کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے تعلقات بہت اچھے تھے، جبکہ دوسروں کا خیال ہے کہ ان میں کچھ اختلافات تھے۔ تاریخی حوالوں کے مطابق ان میں کچھ عرصہ دوری بھی رہی جس کی کچھ وجوہات تھیں لیکن بعد ازاں آپ نے مرشد کو راضی کرنے کیلئے بہت جتن کیے اور ان کو راضی کرنے میں کامیاب ہوئے۔ بلھے شاہ کے شاہ عنایت کو "لاہور کا ٹھگ” کہنے کی وجہ کچھ بھی ہو، یہ بات واضح ہے کہ ان کا یہ بیان ایک صوفیانہ رمز، تنقید، حقیقت پسندی، یا ذاتی تجربے کا اظہار ہے جو بہت خوبصورت اور منفرد ہے جو انہیں دیگر کلاسیکی پنجابی شعراء بالخصوص صوفی شعراء سے ممتاز و ممیز کرتا ہے۔