قصہ کچھ یوں ہے کہ میں نے ارادہ باندھا کہ ذرا چل کر سہانے موسم میں لاہور کی سڑکوں کو ناپا جائے۔ انارکلی سے چہل قدمی کرتے کرتے کچھ ہی دیر میں خود کو اپنی جامعہ کے پاس پایا۔ جی سی کی مشہور و معروف گاتھک لیڈی کو خصوصی طور پر روشنیوں سے سجایا گیا تھا تو اس کے سامنے ٹھہر جانا لازمی امر تھا۔ اب معلوم نہیں کہ یہ انتظام و انصرام حال ہی میں اختتام کو پہنچے رمضان المبارک کے باعث ہے یا عید کے واسطے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ روشنیوں کا بند و بست معمول کے مطابق ہی ہو۔ ذہن پر ذرا زور ڈالا تو کچھ یاد نہیں پڑا کہ کبھی رات کے اس پہر جی سی کے پاس سے گزر ہوا ہو۔ بہرکیف رنگ و نور کے جھرمٹ میں جی سی کی گاتھک لیڈی خاصی شوخ و پُرشکوہ معلوم ہو رہی تھی۔ ڈبلیو ڈی پرڈن کے تخیل کا یہ مجسم روپ، سرو قد گاتھک لیڈی آج اپنے پورے جوبن پر تھی۔ دائرے میں موجود سفید تختی پر ١٨٧٥ء کا سن بھی آویزاں تھا۔ اب ظاہر ہے کہ بندہ تاریخ کا طالب علم ہے سو میں یہ سوچنے بیٹھ گیا کہ انیسویں صدی کی آخری چند دہائیوں میں جب اس کی تعمیر کی تکمیل ہوئی ہو گی تو بھلا کیسا منظر ہو گا۔ گر احباب کو معلوم نہ ہو تو بتاتا چلوں کہ پہلے پہل گورنمنٹ کالج یوں چار دیواری میں مقید نہیں ہوا کرتا تھا۔ یعنی اس عمارت سے باہر بسنے والے انسان بھی اس عمارت کو جب مرضی و تادیر دیکھ سکتے تھے اور یونہی اپنی آنکھوں کے خواب میں سجا بھی سکتے تھے۔
ذرا پس منظر کی بات کریں تو قریباً ڈیڑھ سو برس قبل جب اس گاتھک لیڈی کی تعمیر جاری تھی، ہنوز نوآبادیاتی حکمران ابھی اس خطے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کو کوشاں تھے۔ اس سے قبل شہر لاہور میں چند اہم انگریزی عمارات تعمیر کی جا چکی تھیں۔ مثلاً لاہور کا قلعہ مانند ریلوے اسٹیشن جو سب کچھ ہے مگر کسی بھی زوایے سے ریل گاڑی کے مسافران کے لیے استقبالیہ کا دفتر نہیں ہے۔ آپ اس کے گول کونے، فائرنگ اسپاٹ، بلند در و دیوار تو دیکھیں۔ پھر سن ١٨٥٧ء کی جنگ کے فقط ایک برس بعد یعنی ١٨٥٨ء میں اس کی پہلی اینٹ رکھتے ہوئے جنابِ لارنس کی تقریر ملاحظہ کریں۔ جو کہ جنگ و امن دونوں میں اس عمارت کے قابل قدر استعمال کی بابت ہے اور اس عمارت کی معنی خیزی کی جناب واضح اشارہ کرتی ہے۔ یونہی ١٨٤٨ء میں پنجاب پر باقاعدہ قبضہ کے فوری بعد تعمیر ہونے والا لارنس ہال اور منٹگمری ہال جو کہ دیسی طرز تعمیر کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے نیو گاتھک اسٹائل میں بنایا گیا۔ ویسے منٹگمری ہال تو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں یعنی کالے انگریزوں کا اپنے آقا کو ہدیہ تبرک تھا مگر پھر بھی اس کی بنا میں سوائے روپیہ کے کہیں خاص ہندوستانی آمیزش دکھائی نہیں دیتی۔
زمین میں گاڑے گئے اینٹ و پتھر کے یہ مرصع شاہکار دراصل ہمیشہ سے مؤثر پروپیگنڈہ کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں۔ جب لاہور میں برطانوی راج کے اولین دور میں ایسی عمارات تعمیر کی گئیں جن میں مقامی آمیزش نہیں تھی اور یورپی کلاسیکی نقوش کو جدید طرز میں متعارف کرایا گیا تو یہ نقش و نگار دراصل نوآبادیاتی حکمرانوں کی ثقافتی و نسلی برتری کو اجاگر کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ عمارات سازی کے ضمن میں انگریز راج کے دوران دو اہم مکاتب فکر تھے یعنی اول ایسی عمارات تعمیر کرنے کے قائل تھے جن میں کلاسیکیت سے تحریک لے کر سامراجی شان و شوکت کا اظہار ہو اور دوئم وہ جو مقامی روایات کے احیاء کی حمایت کر رہے تھے۔ لیکن یہاں ہمیں اس عہد میں اول الذکر کے موقف کو ترجیح ملتی دکھائی دیتی ہے۔ یوں ایسی عمارات تعمیر کی گئیں جن سے بیک وقت مقامی لوگ متاثر ہوں اور ان پر سامراج کی برتری واضح بھی ہو۔ ١٨٧٧ میں وائسرائے کی کونسل میں امور خانہ کے ایک فریق نے وضاحت کی تھی کہ تنظیمی دفاتر وغیرہ کی عمارت سازی میں ہندوستانی طرز تعمیر کی بجائے یورپی اسٹائل کو ترجیح دی جائے۔ اس کی واضح وجہ وہ تفریق تھی جو عمارات کے ذریعے حکمران طبقے و مقامی آبادی میں واضح کرنے کی کوشش کی گئی۔ دلچسپ بات ہے کہ ہند کی دھرتی میں جہاں اجنتا و ایلورا کے غار، نارک مندر و تاج محل موجود تھے وہاں ان سے صرف نظر کرتے ہوئے نوآبادیاتی سرکار نے مغربی عمارت سازی کے نمونوں کو ہند میں درآمد کرنا مناسب گردانا۔
ایڈورڈ سعید کے کام کے تناظر میں دیکھا جائے تو ان عمارات نے دو طرح سے اثر کیا یعنی جب مقامی روایات کو نظر انداز کیا گیا تو لوگوں نے انہیں کم تر جانا اور جب انہوں نے مغرب سے درآمد شدہ نئے نقوش کا مشاہدہ کیا تو وہ لازمی طور پر اسے سے متاثر ہوئے۔ یوں وہ ان عمارات کے ذریعے بیک وقت مغرب کے دبدبے و برتری کے بھی قائل ہو گئے اور اپنی روایات سے متنفر بھی۔
سو یہ تھا جی سی کی گاتھک لیڈی کا پس منظر جو کہ شاید قدرے طویل ہو گیا ہے۔ پہلے پہل جب بھی میں نوآبادیاتی دور میں ہونے والی مزاحمتی تحاریک و لاہور کو دیکھتا تھا تو مجھے ان میں گورنمنٹ کالج کے طلباء خال خال نظر آتے تھے۔ میں جب اس کا تقابل دیال سنگھ، دیانند اینگلو ویدک کالج یا جامعہ پنجاب سے کرتا تو مجھے حیرت ہوتی تھی۔ مگر جب میں اب بھی اپنے ساتھ طلباء کو گاتھک لیڈی کے بنانے والوں یعنی بظاہر جا چکے انگریز راج کے آقاؤں کی شان میں رطب اللسان دیکھتا ہوں تو روز بروز میری حیرت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔
مجھے معلوم نہیں پر نہ جانے کیوں مجھے اس ٹاور کے گڑھیال سے انگریز راج میں اپنے ہم نسل ہندوستانیوں یعنی کالوں کو رسید کیے جانے والے چابک کی آواز آتی ہے۔ آج اس کو انواع و اقسام کے برقی قمقموں میں روشن دیکھ کر بھی مجھے یہ سرخ لباس میں ملبوس دکھائی دے رہی ہے۔ وہ سرخ لباس جس کی سرخی انارکلی میں ١٨٥٧ میں توپ دم کیے گے ہندوستانیوں کے خون سے آئی ہے۔ اس کی بلندی کو دیکھ مجھے سن ٥٧ میں ہی لاہور چھاؤنی سے دہلی کو جانے والے ان ٦٣٥ سپاہیوں کی لاشوں کا ڈھیر یاد آ جاتا ہے جن میں مردہ و نیم مردہ ہندوستانیوں کو اجنالہ کے مقام پر ایک کنویں میں پھینک کر چونا پھینکوا دیا گیا تھا۔ میں بھی گاتھک لیڈی کی تصاویر سجانا چاہتا ہوں مگر میں باوجود کوشش کے ایسا کر نہیں پاتا۔ میری معلوم یاداشت کے مطابق جی سی میں سات سال کے دوران گاتھک لیڈی کے آگے میں نے بطور خاص فقط دو مرتبہ تصویر لی ہے۔ ایک اُس روز جب میرا یہاں داخلہ ہوا تھا اور دوسری ساتھی طلباء کے اصرار پر اپنی آنرز کی ڈگری کی تکمیل پر۔ اس سے انکار ممکن نہیں کہ نوآبادیاتی دور میں جو کچھ ہوا اس سے شاید گاتھک لیڈی کو بآسانی مبرا قرار دیا جا سکتا ہے۔
مجھے اس امر کا بھی اقرار ہے کہ ورثہ، تہذیب و ثقافت کی بھاری بھرکم درجنوں تعریفات پڑھنے کے باوجود میں ہنوز ان الفاظ کی گہرائی و گیرائی تک پہنچنے سے قاصر ہوں۔ ممکنہ طور پر اسی باعث فکری کشمکش کا شکار ہوں۔ بہرکیف آپ یہ مت سمجھیے گا کہ میں کسی طور عمارات یا سابقہ نوآبادیاتی حکمرانوں کے دیس کے موجودہ باشندوں کو اس دور میں ہونے والے ظلم، جبر و ستم کا ذمہ دار سمجھتا ہوں۔ لیکن یقین جانیے میں جتنا فینن، سعید، البرٹ میمی یا فوکو کو پڑھتا ہوں، اتنا ہی میرے لیئے نوآبادیاتی عہد کے واقعات سے ان نوآبادیاتی دور کی نشانیوں کو الگ کرنا مشکل ہوتا چلا جاتا ہے۔ سو اے گاتھک لیڈی آج اس خوبصورت موسم میں، تجھے یوں سجا سنورا اوج کمال پر دیکھ کر، تیرے زیر سایہ بیٹھ کر، تجھے اجاگر کرنے کو لگائی گئی روشنیوں سے فیض اٹھاتے اور یہ سطور لکھتے ہوئے بھی میں تیری تحسین سے خود کو معذور جانتا ہوں۔