ماہ ربیع الاول کی آمد سرو ر و انبساط کی بہجت آفرینی کا عجب ساماں رکھتی ہے کیو ں نہ ہو کہ اس ماہِ مقدس میں سرورِ کائنات، فخرِ موجودات، باعث تخلیق انس و جاں، خاتم النبیین، رحمۃ للعلمین حضرت محمد مصطفی علیہ اکمل التحیۃ واجمل الثناء رونقِ گیتی ہوئے۔ ربِّ ذوالجلال کے اس احسانِ عظیم کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ اللھم لک الحمد ولک الشکر لا احصی ثناءً علیک انت کما اثنیت علی نفسک۔
لیکن کیا کیا جائے ایک طرف عقیدت کیشی کے مظاہر میں بے اعتدالی اور اظہارِ مسرت میں خودسری جھلکتی ہے تو دوسری طرف تذکارِ ولادت سے گریزپائی چھپائے نہیں چھپتی۔ کچھ لوگ ایام ولادت و وصال کی تاریخوں میں اختلاف اور عدمِ تعیین کو امت کے عمومی رویہ اور مزاج کا نمونہ قرار دے کر ان ایام کی اہمیت و خصوصیت گھٹانے کے درپے ہیں۔ تو دوسری طرف اہل محبت اور عشاقانِ جمال ان ایام کی کما حقہ قدرو منزلت کی خاطر واضح تعیین اور اس پر قومی اتفاق رائے کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں ۔ حدیث و سیرت کی کتب میں پیغمبرِ آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یومِ ولادت و وصال کے ضمن میں مختلف روایتیں ملتی ہیں۔ لہذا اس صورت ِ حال میں موزوں طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے ؟ یہ ایک اہم سوال ہے حدیث و سیرت اور تاریخ و آثار سے آشنائی رکھنے والے جانتے ہیں کہ دین اسلام میں ساعاتِ سعید یا مبارک ایّام کے حوالے سے دوٹوک اور واضح موقف نہیں ملتا۔ جمعہ کے دن قبولیتِ دُعا کی ساعت ہو یا لیلۃُ القدر ایسی اہم رات، واضح تعیین کہیں نہیں ملتی ۔ باوجودیکہ ثانی الذکر کی اہمیت خود نصوص قرآنی سے عیاں ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس اخفا میں کونسی حکمت پوشیدہ ہے؟
اوقات کی عدمِ تعیین کی حکمت یہی معلوم ہوتی ہے کہ مخصوص دن یا وقت کو پانے کے لیے فرزندان اسلام خوب تلاش و جستجو سے کام لیں نیز اگر کوئی ایک وقت میں مطلوبہ قربات سے دامن مراد نہیں بھر سکا تو دوسرے اوقات کو قیمتی بنا لے یہی وجہ ہے کہ لیلۃ القدر کی تلاش کے لیے رمضان کا آخری عشرہ اہم ٹھہرا۔ نیز اعتکاف کے اہتمام کا حکم ہوا۔ اسی طرح جمعہ کی اس قیمتی ساعت کا حصول جمعہ کے پورے دن کے خصوصی اہتمام پر مُنتَج ہوا۔ یہی چیز حضور ختمی المرتبت علیہ الصلاۃ والسلام کے یوم ولادت (مثلاً ۲ ربیع الاول سے لیکر ۷، ۸، ۹، ۱۲ کی تاریخیں ملتی ہیں) اور ایام وصال ( مثلاً ۲۸ صفر، یکم ربیع الاول، ۲، ۲۱ ربیع الاول کی تاریخیں ملتی ہیں) کے متعلق بھی راہنمائی کرتی ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ ایام ولادت و وصال میں محدثین کی آراء مختلف ہیں۔ مورخین اور فلکیات دانوں کی تحقیقات بھی جدا جدا ہیں۔ نیز صوفیہ کرام کے اپنے مشاہدات و مکاشفات ہیں۔ قدوۃ المکاشفین سیدی عبد العزیز دباغ رح کے حوالے سے "الابریز” نے ۷ ربیع الأول کو یوم ولادت مانا ہے۔ جب کہ ہندوستان کے مشائخ بالخصوص مشائخ چشت ۲ ربیع الاول کو یومِ وصال مان کر عرس مبارک کی تقریب منعقد کرتے ہیں ۔ تقریبات کا یہ تنوع بھی خیرات و برکات کی وسعتوں کا امین ہے۔ اصل مقصد اس نعمتِ کبریٰ پر جذبات تشکر و امتنان کا اظہار ہے۔ نیز "وذکرھم بایام اللہ” کی لطافتوں سے آشنا ہونا، لہذا دین اسلام کی عمومی تعلیمات سامنے رکھی جائیں تو دن کی تعیین کی بجائے ربیع الاول کا پورا مہینہ کم از کم پہلے دو عشرے تو کثرت درود پاک سے معمور ہوں۔ مختلف اوقات میں محافل میلاد، تذکارِ سیرت اور فروغ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مملو تقریبات منعقد کی جائیں تاکہ کما حقہ ان ساعاتِ مسعود و ایام مُقدَّسہ کی برکات نصیب ہوں۔ اللھم صل علی سیدنا محمد وعلی آل سیدنا محمد کما تحب و ترضی لہ۔
آمین