اکثر اوقات ہم اپنے بہت سے خیالات اور کیفیات کا مختلف وجوہات کی بنا پر اظہار نہیں کر پاتے یا ہم اپنے اندر ان صورت احوال کے منطقی اور جذباتی رد عمل کا سامنا کرنے کی جراءت نہیں رکھتے جن کا ان کیفیات کے اظہار کے بعد ہمیں سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بالخصوص ایسے موضوعات اور مواقع کے بارے میں جنکا تعلق انفرادی کے بجائے اجتماعی جذباتیت اور نظریات سے ہو۔ تب یہ اور بھی زیادہ سنجیدہ عمل بن جاتا ہے جب کسی ایسی ہی صورت حال کا تعلق افراد اور معاشروں کے سب زیادہ حساس پہلو مذہب یا کسی مخصوص مذہبی شعار و تہوار سے۔
عید جسے ہم خود ساختہ سرشاری میں "عید سعید” کہتے ہیں، عنقا سرخوشی کی کلی تو یہیں سے کھل جاتی ہے۔ ایک بڑی ہی مخفی مگر مسلم حقیقت جس کا تعلق اس سوال سے ہے کہ آخری عید سعید میں "سعید” کو ہم کہاں تلاش کر یں۔ ہمارے لیے یہ موقع آخر کوئی انبساط کیوں نہیں رکھتا؟ تو پھر کیوں یہ موقع جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ روزہ دار کے لیے رمضان میں رب تعالی کے بے شمار انعامات کے بعد دو فرحاں مواقع بلخصوص عنایت کئے گیے ہیں، ایک جب وہ دن بھر رب کی رضا میں نفس کو قابو میں رکھ کر اور بھوکا پیاسا رہ کر رب کے عطا کردہ رزق پر افطار کرتا ہے اور دوسرا موقع عید کا دن۔ یعنی امتحان کے بعد کامیابی کی مبسوط نوید۔
"دانش” کے ایڈیٹر شاہد اعوان صاحب نے عید کے اس پر مسرت موقع پر اسی عنقا مسرت کو اپنا سوال بناتے ہوئے ایک پوسٹ کی شکل میں اپنی فیس بک وال پہ لگایا تو دوستوں کے بے شمار توثیقی اور توضیحی تبصرے حیران کن تھے۔ بے شمار لوگوں نے کہا کہ یہ گویا انکے دل کا حال لکھ دیا گیا ہے۔ بہت سے افراد کے ان تبصروں نے اس مخفی مگر عمومی کیفیت کو موضوع بحث بناتے ہوئے اس کیفیت کے تعین کی کوشش کی۔ یہ سب پڑھ کے مجھے خیال آیا کہ یہ تمام ماجرا دانش کے قارئین کے لئے ایک مضمون کی شکل میں پیش کردیا جائے، شاید بہت سے قارئین کو اس پوری بحث سے مسئلہ کی تفہیم میں مدد مل سکے۔
اصل پوسٹ کچھ یوں تھی:
"مجھے یاد نھیں، شاید اسکا آغاز بچپن کے اختتامی برسوں میں ہوا یا کچھ بعد میں لیکن عید کے دن کے ساتھ ایک مخصوص گھمبیرتا، لایعنیت، کلبیت، اداسی اور بے نام اضطراب کی سی کیفیت پیدا ہوتی چلی گئی جو ہر گذرتے برس گہری ہوتی رہی۔ اب تو لگتا ہے یہ کیفیت گویا عید سے ہی مخصوص ہے۔ کار دنیا کی انجام دہی کے دوران اگر معمول کے دنوں بھی کبھی یہ کیفیت آن گھیرے تو لگتا ہے “عید” ہوگئی۔
زندگی کی چار سے زائد دھائیاں گذارنے کے باوجود آج بھی اس کیفیت کی توضیح کرنے سے اتنا ہی قاصر ہوں جتنا آغاز میں۔ یوم عید کی جملہ رسومات کی ادائی اور بچوں کی خوشی میں خوش ہونے کے باوجود عید کے تین دن، نیمے دروں نیمے بروں اور گہے افتم گہے خیزم کی تصویر بنے کسی اور ہی دنیا میں معلق رکھتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے زندگی سے معنویت سلب کرلی گئی ہو یا اچانک سے اجنبی ہوگئی ہو۔ شاید “معمول” کی غیر معمولی جکڑن اس احساس کا سبب ہو۔
ہم بندے شب و روز میں جکڑے ہوئے بندے
اپنی عادت کے برعکس، آج پہلی بار ذاتی نوعیت کے اس اظھاریہ کی وجہ یہ امید کہ شاید یکساں کیفیت کے شکار کچھ دیگر احباب کے تبصرے اس گرہ کو کھولنے میں مدد کریں”۔
اس سوال نے جیسے مضطرب مگر خاموش عمومی احوال کو زبان دے دی۔ جس پر خود نا چیز بھی کسی بھی رائے کے اظہار سے پہلے فی البدیہہ اتنا ہی کہہ سکا۔ جملہ کیفیت کو آپ بہر حال زبان تو دی ہے۔ اس سوال پر بہت سے احباب نے کچھ ایسے ہی منطقی اور مدلل خیالات کا اظہار کیا ہے۔ جو ہمیں اللہ کی اس عطا کردہ خوشی پر پڑی ہماری بیزاری، اضطرب و یاسیت کی گرد کو جھاڑنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ کچھ منتخب تبصرے درج ذیل ہیں۔ ان تبصروں کو انکے مفہوم کے اعتبار سے عنوان ہمارا دیا ہوا ہے۔
روحانی خوشی۔
وجہ صاف ظاہر ہے۔ بچپن سے نکل کر بھی ہم عید کو بطور تہوار بچپن والے نظریہ سے دیکھتے ہیں اور اسی طور نہ منا سکنے پر افسردہ و رنجیدہ و غمگین پھرتے ہیں۔
لیکن اگر ہم سچ مچ بڑے ہو کر بطور مسلمان عید کے فلسفہ پر نگاہ کریں تو شاید ایسا نہ ہو۔ روزہ کا اہتمام اور اس کے لوازمات کا خیال مہینہ بھر رہا ہو اور دلجمعی سے عبادت کی ہو تو ماہ صیام کے اختتام پر آپ روحانی خوشی محسوس کر سکتے ہیں کہ اس رمضان میں عبادت پروردگار کا حق ادا کرنے کی مقدور بھر کوشش کی حقوق العباد کماحقہ ادا کرنے کی اچھی کوشش کی۔
مگر ہم اس دن سے ایک مجرد تہوار کا تصور وابستہ کرتے اور خوش ہونے کی امید رکھتے ہیں جو بوجوہ ممکن نہیں ہے۔ اور ایسا نہ ہوسکنا ہی ہماری اداسی کا سبب ہے۔ (عثمان سہیل)۔
سماجی رویہ۔
بے خودی بے سبب نہیں غالب 🙂
ہماری شخصیت کی تعمیر میں ہر ہر واقعہ اور ہمارے ساتھ روا ہر ہر رویہ بہت آہم کردار ادا کرتا ہے. کچی عمر اور ذہن کی سادہ سلیٹ پہ کوئ خوشگوار یا خوفناک واقعہ پہلے ہمارے شعور اور پھر لاشعور میں ایسی تبدیلی یا گرہ ڈال دیتا ہے جس تک پہنچنا اور اسے کھولنا عمومأ ممکن نہیں ہوتا. اگر ذہن پر زور دے کر خود ایسے کسی واقع کو یاد کر سکیں اور اپنی اس کیفیت سے ریلیٹ کر سکیں تو بہتر ورنہ کسی ماہر نفسیات سے تحلیل نفسی کرا کے اس مسئلہ کو حل کیا جا سکتا ہے.
(ارشد محمود)
رجحانات۔
1- جو لوگ افادیت پسند اور منضبط نظم الاوقات کے قائل ہوں ان کے لیے تین دن عید گویا وقت کا ضیاع ہیں۔ اس کا علاج معاشی سرگرمی کے علاوہ کسی بھی طرز سے کیا جاسکتا ہے مثلاً اپنی فکری جولانگاہ کے تناظر میں چند ارباب فکر و نظر سے ملاقات کا پروگرام بنائیے۔ یوں سیر حاصل گفتگو کسی حد تک اداسی کا مداوا کر سکے گی۔
2- اگر حلقہ یاراں کی دستیابی کے مسائل ہوں تو پڑھنے لکھنے والے احباب کچھ نئی کتب کے بالاستیعاب مطالعہ سے تین دن بہرہ مند ہو سکتے ہیں ایسا شیڈول بھی لایعنیت کے احساس کی تلافی کرسکے گا۔
3- بچپن کی کوئی محرومی (مثلاً عید کے قریب کسی کی وفات یا کوئی حادثہ) بسا اوقات غم کی کیفیت سے نہیں نکلنے دیتی اس کا علاج ان بزرگوں/ عزیزوں کی قبر پر حاضری، خیراتی کام یا فلاح عامہ کے ساتھ وابستگی سے کسی درجے میں ہوسکے۔
4- علم نجوم کی روشنی میں ایام فرحت و عید میں وہ لوگ عجب سی بے چینی محسوس کرتے ہیں جن کے زائچہ میں زحل (Saturn) حاوی ہوتا ہے .ایسی صورت حال میں گویا آپ مزاجاً ہر خوشی کی محفل جیسے شادی بیاہ میں بھی کسی لمحے اس یاس کی کیفیت سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ یہ مزاج کا فطری رویہ ہے کسی حد تک اداسی رہتی ہے تاہم اگر تھوڑا وقت نکال کر لاحو ل ولاقوۃ الا باللہ کی تسبیح پڑھ لی جائے تو افاقہ رب کریم سے فضل سے بعید نہیں۔
5- لایعنیت کے احساس سے بچنے کے لیے پہلے سے ایام عید کا نظم الاوقات مرتب کرلینا بھی فائدہ سے خالی نہیں۔ ۔ اس میں سیر و تفریح کو شامل کیجیے۔ یہ صرف لانگ ڈرائیو بھی ہوسکتی ہے۔
(سراج الدین احمد)
اسکی ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ہم عید کے تہوار سے امید باندھتے ہیں کہ وہ خوشی و سرور کو ہمارے اندر انسٹال کرے گا۔ ۔ اور ہم کیسی ہی کیفیت میں ہو۔ ۔ عید آنے پر ہمیں ازخود فرحت ونشاط مل جائے گی۔ ۔ ۔ کیونکہ بھئی عید جو ہے۔
تو گھمبیرتا کی وجہ اسی لاشعوری امید کا ٹوٹنا ہے کہ عید نے تو کچھ نہیں کیا۔ ۔ تو عید نے کرنا بھی کیا تھا ؟۔ ۔ ۔
اندرونی کیفیت اندر سے ہی ٹھیک ہو تو ہو۔ ۔ ۔ یا بیرون میں کسی پر تاثیر شے سے۔ ۔
بصورت دیگر یہی ہے۔
(خدیجہ خان)
طبقاتی تقسیم۔
عید پر ملنے ملانے کی نصیحتیں کرنے والے ایک بڑی تعداد سے جڑی تمدنی تبدیلیوں سے سطحی بھی واقفیت نہیں رکھتے۔ سرمایہ داری نے سماج میں امیر غریب کے درمیان جس خلیج کا اضافہ کیا ہے وہ خلیج زیادہ تر مقامات پر ایک گھر، ایک خاندان، ایک ہمسائیگی، ایک کلاس کے ڈبے میں سفر کرنے والے شدت سے محسوس کرنے لگے ہیں۔
ایک محلے میں امیر غریب کی رہائش گاہیں تو تمدن کی ترقی کے پہلے قدم سے ستم ڈھاتی رہی ہیں۔ امیروں، متوسط طبقوں اور غریبوں کی آبادیوں میں یہ تفاوت تو جاگیرداری سماج سے چلی آتی ہے۔ لیکن مشینی اور روبوٹک صنعتکار کا مال بیچنے کے لیے بنائے گئے میڈیا نے کم مائیگی کے جس احساس کو خون نچوڑنے کے لیے آگ دکھائی ہے وہ اپنی زندگی کو تقابل میں دیکھنے والے ہر شخص کی نیندیں اڑا چکی اور اس کے اعصاب شل کر چکی ہے۔
اس اعصاب شکن ماحول میں انسانوں کے درمیان محبت سے زیادہ مسابقت اور حسد کے رشتے توانا ہوئے ہیں۔ عام دنوں میں یہ رشتے مفادات کی رنگین دھول میں خوش رنگ دکھائی دیتے ہیں لیکن لمبی چھٹیوں میں اس نفاق کا اظہار مجبوراً رک جاتا ہے، پردہ اٹھتا ہے تو فرد اچانک خود کو تنہا، بے وقعت اور بے معنی محسوس کرنے لگتا ہے۔ بڑے شہر خالی ہو جاتے ہیں اور چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں لوٹنے والے رونق دیکھتے ہیں۔ اس رونق میں بھی وسائل کی تفاوت زہر گھولتی اور چنگاریاں اڑاتی ہے لیکن سطحیت کی خیر ہو کہ یہ سب سے پہلے اندر کے حیوان کو ناصح بنا دیتی ہے۔
اس صورتِ حال کو مذہب کی درست تفہیم، تزکیۂ نفس، اخلاقیات کی بنیادی تعلیمات اور تربیت کے جس معیار سے قابلِ قبول بنایا جا سکتا تھا وہ عنقا ہو چکی۔
مدت ہوئی کہ ایک ہی گھر کے باسیوں، ایک مسجد کے نمازیوں، ایک ہی حلقۂ ارادت کے رفقاء، ایک سیکولر نظریے کے حامیوں اور ایک ہی دفتر کے کارکنان کے درمیان محبت کے رشتے کی بازیافت کی امید بھی دم توڑ چکی۔
(سجاد خالد)
احساس محرومی۔
قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں.
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں…
عارضی ٹھکانے پر رکا انسان کبھی سیر نہیں ہو سکتا… جب حقیقی منزل کو پا لے گا تبھی سیرابی کی صورت نکلے گی..
بچہ خوش نہیں ہوتا بلکہ اپنے بل بوتے پر خوشی چھین لیتا ہے..
کبھی کسی غریب زادے کی حسرت بھری آنکھوں میں جھانکیئے گا، آپ کو دور دور تک خوشی کا شائبہ تک نہ ملے گا…
نامکمل زندگی اور ناتمام سفر…
(سلطان محمود)۔
کرب آگاہی۔
سارے غم اور دکھ، ساری بےچینیاں، آگاہی ہی کی وجہ سے تو ہیں…
فنا کا دکھ، عدم کی طرف کشاں کشاں بڑھتے جانے کا دکھ، کمزور ارادے کا دکھ، وقت کی جبریت کا دکھ، منصوبہ بندی میں ناکامی کا دکھ، کمزور لمحوں میں خدا کے بجائے نفس امارہ کی بات ماننے کا دکھ، طول امل کا دکھ….
جس شعور اور جس آگاہی نے، بحیثیت مسلمان ہمیں پرُسکون رکھنا تھا، وہی شعور اور آگاہی، اب مضطرب رکھتی ہے، کمی کہاں رہ گئی، کیا رہ گئی؟؟؟؟
(اطہر وقار عظیم)
یہ بھی پڑھئے: فلسفیانہ اداسی اور وجودی لایعنیت ۔ خالد بلغاری
ان تبصروں میں احباب نے اس سوال پر اپنے اپنے مشاہدے کی رو سے حقیقت سے قریب تر محسوس ہوتے عمدہ نقاط بیان کیے ہیں۔ جو مذہب سے بیزاری اور روحانی خوشی کی عدم خواہش و ادراک، ہماری معمولاتی اشغال سے مرحوم رجحانات، سماجی مرتباتی تقسیم، اگاہی و شعور کی گھمبیر اور کسی انجان منزل کے متلاشی شعور و آگاہی اور احساس محرومی یاسیت اور لاتعلقی و بیزاریت سے عبارت اس سوال کے ممکنہ جواب ہو سکتے ہیں۔
لیکن اگر ہم اس سوال کے جواب کی ایک جامع اور کلی توضیح پیش کر نا چاہیں تو ہماری نظر بالاخر مذہبی میلان ہر ہی رکتی ہے۔ چونکہ یہ ایک خالصتا مذہبی تہوار ہے جو اللہ تعالی کے فرض کردہ ماہ صیام کا انعام ہے۔ اور انعام کی وصولی میں سرشاری تب ہی پائی جائے گی جب امتحان محنت شاقہ سے دیا ہو اور پاس ہونے کی یقین کی حد تک امید ہو۔ بصورت دیگر خوش پو شاکی، عید ملن پارٹیز یا کسی تفریحی مقام پر قیام طعام کا بندوبست کسی طور سے بھی اس خوشی کا متبادل نہیں ہو سکتے جو قیام و طعام کے بجائے صیام النہار اور قیام الیل سے حاصل ہو سکتی ہے۔
عید ہی نہیں ایمان باللہ اور اللہ کے احکام کی بجا آوری، حقوق العباد میں اخلاص اور حقوق اللہ میں خشوع ایک ہمہ وقت عید ہے، ایک ہمہ وقت سرشاری اور سکینت ہے۔ بحثیت مسلمان ہماری تو دنیا دین اور دین دنیا ہے۔ ہمارے مذہبی تعلیمات نے ہمیں ایک باضابطہ فلسفہء حیات دیتے ہوئے ہمارے لیے زندگی کو انتہائی آسان بنا دیا ہے۔ جس کی تصدیق آج کا سائنٹفک نفساتی مطالعہ اور اسکا اعتراف ہنر مند اہل مغرب بھی کرنے پر مجبور ہیں۔
ولیم جیمز ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر تھے۔ کہتے ہیں، "پریشانی کا شاہی علاج مذہبی عقیدہ ہے۔”
ساڑھے تین سو سال قبل فرانسس بیکن نے بالکل درست کہا تھا کہ، "تھوڑا سا فلسفہ انسان کو دہریت کی طرف لے جاتا ہے۔ لیکن فلسفے کی گہرایاں اور گیرائیاں انسان کو مذہب کی طرف مائل کر دیتی ہیں”۔
ایک انتہائی خوبصورت اور جامع توضیح، اس سوال کے جواب میں کہ، انسان کس بات سے مذہب پرست بنتا ہے؟
اس کا جواب ایڈنبرا یونیورسٹی کے دینیات کے ایک ممتاز پروفیسر جان بیلی دیتے ہیں،
"چند نظریات کو ذہنی طور پر قبول کرنے اور کسی خاص اصول کو اختیار کرنے سے کوئی شخص مذہب کا پابند نہیں بن سکتا۔ سچا مذہبی بننے کے لئے مخصوص روح کا مالک ہونا اور مخصوص زندگی کو اختیار کرنا ضروری ہے”۔
نفسیات جدید کے باوا ولیم جیمز نے اپنے دوست کو لکھا تھا کہ "جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے، میرا خدا پر ایمان بڑھتا جاتا ہے۔
لہذا ایمان ہی ان قوتوں میں سے ایک قوت ہے جن کے سہارے انسان زندہ رہتا ہے اور اس کی عدم موجودگی کا نتیجہ شکست و ریخت، مایوسی اور انحطاط ہوتا ہے۔
اسکے بعد اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پختہ ایمان سے اس قدر اطمینان، تسکین، امن اور ایک روحانی سر شاری کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
"سطح سمندر پر ابھرنے والی بل کھاتی ہوئ طوفانی اور بلند آہنگ موجیں سمندر کے زیر سطح عمیق سکوت میں مخل نہیں ہو سکتیں۔ جس شخص کی گرفت وسیع تر اور ابدی حقیقتوں پر ہوتی ہے اسے اپنی تقدیر کی لمحاتی نیرنگیاں نسبتا غیر اہم اور بے وقعت چیزیں نظر آتی ہیں۔
چانچہ سچا مذہب پرست انسان اولوالعزم، ثابت قدم اور مستقل مزاج ہوتا ہے، اسکے اندر شانتی، سلامتی طبع اور سکون قلب کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہوتا ہے اور ہر فرض کی انجام دہی اسکے لیے باعث سکون و فرحت ہوتی ہے۔
مضمون کا نفس مضمون جس سوال پر مشتمل ہے اس سوال کے جواب میں ہمارا ایمان اور دینی میلان ہی کسوٹی ہے۔ جو بحثیت مسلمان ہمارے لیے محور حیات ہے۔
جب ہم بات کسی مذہبی شعار اور تہوار کی کریں تو مذہبی تہوار میں خوشی ہم کسی بھی غیر مذہبی، رجحان فعل، و رسومات سے سے کیسے پا سکتے ہیں۔ ایمان اور مذہب سے محبت و قربت ہی وہ طاقت ہے جو ہمیں "حقیقی آزادی”عطا کرتا ہے۔ جسے پا کر ہم اسکی رو حانی سرشاری کو پا سکتے ہیں۔
اگر ہم بے قرار ہیں تو پھر کیوں نہ خدا کو آزمائیں۔ عمانول کانٹ کے الفاظ، "خدا پر ایمان لے آئیں کیونکہ ہمیں ایسے ایمان کی ضرورت ہے”۔
اہل تثلیث کے بعد مہاتما گاندھی جاتے ہوئے لکھ گیا، "اگر بھجن نہ ہوتے تو میں بہت عرصہ پہلے پاگل ہو گیا ہوتا۔”
اللہ ہمیں عید فرحاں پانے کی توفیق عطا فرمائے۔