اقبال ایک ایسا دانشور شاعرہے جس نے نہ صرف اپنے روحانی تہذیبی وجود سے معذرت خواہی کی بجائے ایک فاخرانہ وابستگی اختیار کی بلکہ اسے نکھارنے اور مزید نمایاں کرنے میں بے مثال تاریخی کردار ادا کیا۔ اس کے شعر و فکر سے مرتب ہونے والے وسیع اثرات کا ایک روشن مظہر تشکیلِ پاکستان کا شاندار کرشمہ بھی ہے۔ اقبال کی اپنی فکری تہذیبی روایت سے دلی وابستگی کا عمل ان کی زندگی کے آخری دنوں میں آغاز ہونے والی اردو ادب کی بہت بڑی تحریک میں کوئی خاص اعتنا حاصل نہ کر سکا۔ تشکیلِ پاکستان کے بعد جدیدیت، وجودیت اور لسانی تشکیلات کی تحریکات نے بھی اپنے اجتماعی روحانی وجود سے بے اعتنائی کو مزیدبڑھاوا دیا۔ اور اب تو اس ’ کارِ خیر‘ میں ساختیات اور مابعد جدیدیت جیسی ادبی تھیوریوں نے معاملے کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے۔ یہ سب فکری زاویے کسی نہ کسی طور ہمارے مرکزی فکری تہذیبی بہائو سے اُدھر منڈی کی معیشت اور عالمی سامراجی مقاصد سے ہم آہنگ گلوبلائزیشن کا راستہ ہموار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ذرا گہرائی میں جا کر دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ یہ سارا عمل ہماری اجتماعی پہچان اور مرکزی تہذیبی دھارے کی قوتِ مزاحمت کو پسپا کرنے میںکوشاں ہے جو فکرِ اقبال سے توانائی حاصل کرتی چلی آرہی ہے۔
ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ مقامی و عالمی مزعومہ مفاداتی قوتیں انہی تہذیبی عناصر کو اپنی استحصالی کاروائیوں کا ذریعہ بناتی ہیں جو کسی معاشرے کی اجتماعی نفسیات میں اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ چنانچہ اس کا حل یہ نہیں ہوتا کہ اہل ِفکر و دانش ایسے فکر ی و تہذیبی حوالوں ہی سے دست کش ہو جائیں اور میدان کلی طور پر انسان دشمن قوتوں کے سپرد کر دیں۔ اقبال ہمیں بتاتاہے کہ اجتماعی تہذیبی جوہر کو استحصالیوں کا ہتھیار بننے سے کیسے بچایا جا سکتا ہے۔ اقبال نے اپنے روحانی تہذیبی جوہر کو ملائیت اور دوسرے استحصالی عناصر کے ناجائز قبضے سے چھڑا کر حقیقی معنوں میں تخلیقی و فکری طاقت بنا دیا تھا۔ افسوس کہ ہمارے ادبی و فکری دانشوروں کے گریز وبے اعتنائی نے نہ صرف پھر سے یہ اثاثہ رجعتی حلقوںکو سونپ دیا بلکہ اجتماعی دھارے سے کٹ کرخود بھی مغائرت کی دلدل میں اترتے اوربے حوالہ ہوتے چلے گئے۔ جس کے نتیجے میں ادبی و فکری محاذپر مقامی و عالمی استحصالی قوتوں کے خلاف مزاحمت نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ مغرب میں چرچ کی بالا دستی کے خاتمے اور تحریکِ احیائے علوم سے ہمارے بیشتر اذہان اس مغالطے کا شکار ہو ئے کہ انہوں نے اسلام کو بھی پاپائیت والی عیسائیت سے تعبیر کرنا شروع کر دیا۔ اقبال نے اسلام میں رہبانی تصوف کے منفی اثرات کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ مغرب کے آنکھ بند پیروکار دانشوروں کی حرکی و انقلابی اسلامی روح سے نا آشنائی کی معذوری کو بھی سمجھ لیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اسلام ان معنوں میں مذہب نہیں ہے جن معنوں میں انسانیت چرچ کے غلبے اور پاپائی عیسائیت کے تجربے سے گزری ہے۔ یہ کہ اسلام تو ایک مسلسل عمرانی تحریک کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں پاپائیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس بنیادی نکتے پر غور کریں تو اسی حرکیت کی زائیدہ اقبال کی فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کی قدرو قیمت اور اہمیت کا درست اندازہ ممکن ہے۔ اس سے یہ حقیقت بھی کھلتی ہے کہ مغرب کی علمی و فکری تاریخ میں معاشرتی و اجتماعی قوت کے طور پر مذہب کے قصۂ پارینہ ہو جانے کے باوجود بیسویں صدی میں اسلامی حرکی فکر مسلم آبادیوں کے کتنے علاقوں میں جد و جہدِ ٓازادی کا زندہ حوالہ بنی ور اقبال کے افکار سے تحریک پانے والے علی شریعتی کی تعلیمات نے کیسے انقلابِ ایران کا حیرت انگیزاور شاندار کارنامہ سر انجام دیا۔
اور تو اور ہمارے اسلامی دانشوروں کا ایک قبیلہ بھی یہ سمجھتا ہے کہ اقبال نے ارتقا و تحرک کا عنصر شامل کر کے اسلامی فکر کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
اس کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی سامنے آتا ہے کہ کسی بڑی تخلیقی واردات سے برآمد ہونے والی غیر معمولی فکر کتنی بڑی عمرانی قوت بننے کے امکانات رکھتی ہے۔ کیوں کہ خالص فلفسیانہ فکر ایک ایسابے جوش ذہنی و فکری عمل ہوتا ہے جو انسان کی سماجی و تہذیبی زندگی پر اتنے گہرے اثرات مرتب نہیں کر پاتا جتنے کہ انسان کی جیتی جاگتی شخصیت کی کلیت سے جنم لینے والی زرخیز او ر حیات افروز تخلیقی واردات سے نمو پاتے ہیں۔ اسی حوالے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اقبال کے لیکچرز خالص فلسفے کی بجائے اس کی عظیم شعری واردات ہی کی علمی و فکری تفہیم کا جتن اور اشاریہ ہیں۔ لہٰذا ان میں خالص فلسفیانہ بنیادوں پرنظر آنے والے بعض تضادات اس کی شعری واردات کی روشنی میں آسانی سے زائل ہو جاتے ہیں۔ تو اقبال سے یہ نکتہ سیکھ لینے میں بھی کیا ہرج ہے کہ اپنے فکری رویوں کواپنی تخلیقی واردات سے ہم آہنگ رکھ کر زیادہ بہتر معاشرتی وتہذیبی معنویت سے ہمکنارہوا جا سکتا ہے۔
بڑی تخلیقی واردات کے کثیر الجہت ثمرات میں نئی لسانی پیش رفتوں کا عمل بھی شامل ہے۔ یہاں مجھے یاد آیا کہ ۱۹۶۵۔ ۱۹۶۶ میں جب میں پنجاب یونیورسٹی میں سوشیالوجی کا طالب علم تھا، یہ لسانی تشکیلات کی بحثوں کے عروج کا زمانہ تھا۔ ان بحثوں کے بڑے آغاز کار افتخار جالب سے اکثر ملاقاتیں رہتی تھیں۔ میں طالب علمانہ بے باکی میں بہت کچھ غلط سلط بھی کہہ جایا کرتا تھا۔ اسی رو میں میں نے ایک نشست میں ان سے یہ بھی کہہ دیا کہ جناب نئی لسانی تشکیل مضامین لکھنے سے نہیں ہوتی۔ بڑی تخلیق واردات خود بخود یہ کارنامہ سر انجام دے جاتی ہے۔ آج بھی اس تحریک کے تحت لکھی ہوئی تحریروں کو دیکھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ مثال کے طور پر بھی کہیں شعرِ اقبال، بالخصوص’ بالِ جبریل‘ کا حوالہ دکھائی نہیں دیتا۔ کیایہ بھی اپنی تخلیقی روایت سے بے اعتنائی ہی کا شاخسانہ نہیں!
اقبال کی فکر کا سر چشمۂ تحریک زندگی کی کلیت سے معاملہ کرنے والی قرآنی تعلیمات ہیں۔ چنانچہ اقبال کے شعر و فکر میں جلالی و جمالی دونوں طرح کے عناصر کارفرما ہیں۔ بلکہ زیادہ بہتر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کے ہاں جلالِ بے جمال اور جمالِ بے جلال کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ اور زندگی کے عظیم پیراڈاکس میں ایسی ہی فکری تعبیر کار آمد ہو سکتی ہے۔ کوئی یک طرفگی کی حامل اپروچ حیات و کائنات کے متبائن و متناقض پہلوئوں کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ لہٰذا کسی یک عاملی اندازِ نظر سے کی ہوئی تعبیر اقبال کی ہمہ جہت فکر کی درست تفہیم تک نہیں پہنچاسکتی۔ مجھے یاد ہے میں نے ایک بار اقبال کی ایک عالمی شہرت یافتہ جرمن اسکالر خاتون این میری شمل سے یہ شکایت کی کہ وہ اپنی تحریروں اور تقریروں میں اقبال کو صرف ایک صوفی کے طور پر کیوں پیش کرتی ہیں جبکہ اقبال کی سوچ تو ایک صوفی مجاہد کی سوچ ہے۔ اور اقبال پوری للہیت کے ساتھ خیر و شر کی آویزش میں غلبہ ِخیر کے لئے تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا قائل ہے۔ اور یہ کہ اس کی اپروچ میں حرا کے مراقبہ و انہماک سے لے کر بدر و حنین تک کے سارے مراحل شامل ہیں۔ تو موصوفہ نے بس اتنا کہا کہ مجھے اقبال کا صوفیانہ پہلو ہی زیادہ پسند ہے۔
اور تو اور ہمارے اسلامی دانشوروں کا ایک قبیلہ بھی یہ سمجھتا ہے کہ اقبال نے ارتقا و تحرک کا عنصر شامل کر کے اسلامی فکر کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اقبال نے جب ختمِ نبوت کی تعبیر کرتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا کہ وحیِ الٰہی رسولٌ اللہ کے ساتھ اپنی تکمیل کو پہنچ گئی اور انسانی شعور بھی بلوغت کو پہنچ گیا۔ چنانچہ اب تبدیل ہوتی ہوئی زندگی کے مسائل کو اجتہادی سوچ بچار سے حل کرنا ہو گا۔ اسی نتیجے کی بنا پر اقبال نے اپنے خطبات کو ’’اسلامی فکر کی تشکیلِ نو‘‘ کا عنوان دیا۔ تو ہمارے ان دوستوں نے اس منطق کا شکار ہوکر کہ اگر زندگی تبدیل ہو رہی ہے تو پھر چودہ سو سال پہلے کی تعلیماتِ وحی کیسے با حوالہ رہ جائیں گی، زندگی کے تغیر پذیر ہونے ہی کا انکار کر دیا اور رینے گینوں اور اس کے ساتھیوں کی پیروی میں اسلام کوایک سکونی تہذیب قرار دے دیا۔ اقبال کو اسی لئے فلسفہِ محض سے بریت کا اظہار کرنا پڑا کہ وہ سمجھتا تھا کہ کہ فلسفہ زندگی کی متبائن و متناقض صداقتوں کی ہم آہنگ اور جامع تفہیم و تعبیر نہیں کرپاتا۔ ظاہر ہے جب اقبال یہ سمجھتا ہے کہ انسان الوہی ہدایت کا محتاج ہے۔ اور یہ الوہی ہدایت کتاب و سنتِ رسولٌ کے ساتھ مکمل ہوچکی ہے، تو وہ خالص فلسفے کے دائرے سے باہر نکل جاتا ہے۔ البتہ وہ بدلتی ہوئی دنیا کے مسائل پرقطعی اور آخری الوہی ہدایت کی روشنی میں اجتہادی غور و فکر کواللہ کے خلیفے یعنی انسان کا انتہائی اہم فرض قرار دیتا ہے۔ اور پھر اجماع تک پہنچنے کی عمرانی حرکیات کو زیرِ بحث لاتا ہے۔ یہ وہ ذمہ داری ہے جسے ’کل یوم ہوَفی شان‘ کی حکمت کی تفہیمی بصیرت سے مسلسل ادا کرتے رہنے میں ہی ہماری فلاح ہے نہ کہ زندگی کی تغیر پذیری کا انکار کر کے زوالِ دانش اورانسان کے کلی تصورِ صداقت سے دور ہو جانے کا رونا روتے رہنے میں۔