تذکروں میں لکھا ہے کہ ایک بزرگ زاویئے میں بیٹھے گفتگو فرما رہے تھے کہ ایک مرید پریشان صورت ہانپتا کانپتا ان کی خدمت میں حاضر ہوا اورکوئی بات ان کے کان میں کہی۔ اطلاع وحشت اثر ثابت ہوئی جس پر اس بزرگ نے ایک آہ سرد بھری اور قریباً رو دینے کے انداز میں فرمایا کہ تیری ماں تجھ کو روئے، تو نے ایک بے گناہ کو مار ڈالا۔ پھر کہا: ’’جب حق کے نام پر ناحق اور محبت کے پردے میں نفرت راہ پا جائے تو پھر ڈرو، اس لیے کہ قدرت کہیں تمھارا انجام بھی کچھ ایسا ہی نہ لکھ ڈالے‘‘۔
مردان کی جامعہ سے مشعال خان کی مظلومانہ موت کے زیر اثر اس حکایت کی یاد آئی اور میں نے سوچا کہ اُس بزرگ نے قدرت کے جس انتقام کی وعید سنائی تھی، اْس انجام سے تو ہم کب کے دوچار ہو چکے لیکن کیا سبب ہے کہ آنکھیں اب بھی کھلنے سے انکاری ہیں؟ پھر ایک سفر کی یاد آئی۔ ویگن بس اسٹاپ پر رکی اور مسافر دم لینے کو اترے۔ لوٹے تو ویگن میں جگہ جگہ ایک اسٹکر چسپاں تھا جس پر ایک اقلیتی فرقے کا نام لے کر انھیں ناپاک قرار دینے کے بعد ان کے گھروںسے قرآن پاک اٹھا لینے کو دین کا اولیں فریضہ قرار دیا گیا تھا۔ میرے قریب ایک نوعمر سر پہ رومال لپیٹے بیٹھا تھا، میں نے سن گن لینے کی خاطر اس سے پوچھا کہ برادر! کچھ دیر پہلے تو یہ تحریر یہاں نظر نہ آتی تھی، کون چھلاوا پل کی پل میں اسے یہاں پوت گیا ہے؟ اس نوجوان نے سوال کا سیدھا جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کیا کہ کیا آپ کو اس سے کوئی اختلاف ہے؟ عرض کیا کہ بیٹا! اختلاف کی نوبت تو بعد میں آئے گی، پہلے بات تو سمجھ میں آئے۔ جس طبقے کا اس تحریر میں ذکر کیا گیا ہے، وہ اپنے گھر میں کچھ بھی رکھیں، ہم اعتراض کرنے والے کون؟ اچھا چلو اگر کوئی بات قابل اعتراض ہے بھی تو کسی کے گھر کی چار دیواری پھلانگ کر کوئی ایسی چیز جو صاحب خانہ کی ملکیت ہو، کیسے اٹھائی جا سکتی ہے؟ اس نوجوان نے یہ بات ایسے سنی جیسے اس کے برابر بیٹھا شخص اس جیسا انسان نہیں کوئی نجس مخلوق ہے پھر اپنے کپڑے لپیٹ کر وہ تھوڑاسمٹا پھر اس نے نہایت بے مروتی کے ساتھ آنکھیں ماتھے پر رکھتے ہوئے اقلیتی فرقے کا نام لے کر سوال کیا کہ کیا تم بھی وہی مرتد ہو؟ مسافر کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی جب کوئی سیدھا آپ کے عقیدے پر حملہ کر ڈالے، اس کے بعد کیابچتا ہے؟ ایسے خطرناک موقع پر خاموشی مزید خطرناک ہو سکتی ہے، اس لیے ہمت پکڑ کر کہا کہ اللہ کا اس ناچیز پر بہت فضل و کرم ہے اور جب وہ روز قیامت بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں بغرض شفاعت حاضر ہو گا تو اس معاملے میں اس کا سر ندامت سرنگوں نہ ہوگا مگر میرے پیش نظر تو چادر اور چار دیواری کے تقدس کی بات ہے، تم جانتے ہوگے کہ ایک بدنصیب شخص ایسا بھی ہو گزرا ہے جس پر امیر المومینین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حد جاری کرنے کا سوچا لیکن اُس گناہ گار نے خلیفہ وقت کو یہ کہہ کر لاجواب کردیا کہ آپ کو میرے گھر میں تانک جھانک کی اجازت کس نے دی؟ دوسرا پہلو اس معاملے کا یہ ہے کہ اگر کسی گمراہ کو قرآن سے محروم کردیا جائے گا تو وہ ہدایت کیسے پائے گا؟ یہ سوالات اس نوجوان کے سر سے گزر گئے اور اس نے دھمکی آمیز لہجے میں حکم دیا کہ اپنے گھر کا پتہ بتاؤ تم سے نمٹ لیا جائے گا۔ معلوم ہوا کہ یہ نوجوان وسطی پنجاب میں کڑانا بار کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک پرُجوش شخصیت کا عقیدت مند ہے جو معاشرے میں ہیجان برپا کرنے کے بہت شوقین تھے۔ ان صاحب کو میں ایک زمانے سے جانتا تھا۔ ایک بار یہ صاحب کسی ہنگامی صورت حال میں افواہیں پھیلانے کے الزام میں میرے سامنے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے۔
عمومی تاثر یہی ہے کہ معاشرہ اسی کی دہائی سے قرنوں آگے نکل چکا لیکن مردان کے واقعے نے بتا دیا کہ ہم نے بہت ترقی کرلی ہوگی لیکن شفاف پانی جیسے معاشرے کو جوہڑ میں بدلنے کی صلاحیت رکھنے والے بہت سے ’’طوفانی‘‘آج بھی متحرک و مؤثر ہیں اور اب ان کی رسائی اپنے محدود حلقے سے نکل کر تعلیم کے جدید اداروں تک بھی جا پہنچی ہے اور نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ایسے لوگوں نے الزام لگانے، ’’انصاف ‘‘کرنے اور ’’انصاف‘‘ کے نفاذ کا اختیار بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ اس ذہنی سطح کو پہنچے ہوئے لوگوں کی نظر میں ریاست کی کوئی اہمیت ہوتی ہے، نہ قانون کی اور اگر سچ پوچھیں تو دین کی بھی۔ کیا عجب کہ یہ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا ہو کہ ان کی زبان پر قرآن کی آیات ہوں گی مگر دل ان سے بے گانہ۔
اقبالؒ کی تشخیص یاد آتی ہے۔ انھوں نے برصغیر کے مسلمانوں کی ذہنی کیفیت کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ عہد غلامی میں وہ اپنے دین کو ملغوبیت سے بچانے کے لیے مذہبی معاملے میں سخت گیر ہوگئے جس کے نتیجے میں اجتہاد کی جگہ تقلید نے لے لی۔ اس زمانے میں جو ہوا سو ہوا،سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج ایسا کون سا خطرہ درپیش ہے؟ ریاست کا آئین دین اور اس کی تعلیمات کو تحفظ فراہم کرتا ہے، کس کی مجال ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کرسکے؟ ایسے ماحول میں ریاست کو نہ ماننا اور قانون کو ہاتھ میں لے لینا فتنوں کے دروازے تو کھول سکتا ہے، دین کی کسی منشا کی تکمیل نہیں کرسکتا۔ اس طرز عمل کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہمارے جدید پڑھے لکھے نوجوان جن کی روح و بدن میں دین کی محبت خون کی طرح دوڑاکرتی ہے، دین سے دور ہوجائیں گے اور اس کا ذمے دار کوئی دین دشمن نہ ہوگا۔ اس کے نتیجے میں جو تباہی مچے گی اس کی زد میں نہ صرف مشعال خان جیسے لوگ اور بظاہر جدید وضع قطع رکھنے والا ہر مسلمان آئے گا لیکن یہ بات اس جگہ رکے گی نہیں بلکہ اس آگ کو بھڑکانے والوں کو بھی اس آگ میںجلنا پڑے گا۔ اس لیے محراب و منبر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ڈیڑھ دو صدی پرانے انداز فکر کا جائزہ اس عہد کے حقائق کی روشنی میں لے کر معاصر دنیا میں سانس لینے کی کوشش کرے۔ دین اور دنیا کا بھلا اسی میں ہے۔ خدانخواستہ آج ہم۔اس راہ پر گامزن نہ ہوسکے تو پھر ہمارے عہد کے کسی درویش کو آہ بھر کر ہماری بدنصیبی کا اعلان کرنا پڑے گا۔
previous post