یہ تیرہویں صدی عیسوی کا دور تھا. چھ صدیاں قبل جزیرہ نما عرب میں ہونے والے اسلامی انقلاب کی سیاسی اور علمی جڑیں مغربی دنیا تک جا پہنچی تھیں۔ نویں صدی عیسوی میں ہونے والے یونانی کتب کے تراجم نے مسلم دنیا میں بالخصوص اور مذہبی دنیا میں بالعموم عقل اور وحی کے درمیان پائے جانے والے تعلق کی نوعیت کا جائزہ لینا شروع کر دیا تھا جس کے باعث دنیا کے تینوں توحید پرست مذاہب میں ارسطو اور افلاطون کے افکار کا اثر داخل ہو رہا تھا. یہودیت میں میمونائڈز اور عیسائیت میں سینٹ آگسٹائن سمیت اسلام کے جلیل القدر علماء و متکلمین و فلاسفہ جیسے ابن سینا، الغزالی، الفارابی، الکندی و ابن رشد وغیرہ میں یہ بحث سامنے آ رہی تھی کہ افلاطون یا ارسطو میں سے مذہب کے زیادہ قریب کون ہے اور عقل کس قدر مذہبی حقائق تک پہنچ سکتی ہے. تب عیسائی دنیا کے ایک اہم ترین اور نامور فلسفی یا متکلم سینٹ تھامس اکوائنس نے غزالی کی کتاب "احیائے علوم الدین” کی طرز پر پوری عیسائیت کا مقدمہ لکھا جسے اس نے "سما تھیالوجیکا” کا نام دیا. بالکل اسلام کے مدارس کی مانند یہ کتاب پادریوں کے سلیبس کا اہم حصہ ہے۔ اس کتاب میں تھامس اکوائنس نے وجودِ باری تعالیٰ پر پانچ عقلی دلائل بھی پیش کیے. یہ دلائل وجودِ الہی پر ہونے والے قریباً تمام مباحث میں نظر آتے ہیں. یوں کہا جا سکتا ہے کہ یونانی فکر نے مسلم دنیا میں پہنچ کر جس نئے فلسفے کو جنم دیا تھا اور اس سے جو دلائل و نتائج سامنے آئے تھے، انہیں تھامس اکوائنس نے ایک ڈیڑھ صفحات میں مختصر مگر جامع لکھ ڈالا. ان دلائل کی اہمیت کے پیش نظر مترجم نے سوچا کہ انہیں اردو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔
سما تھیالوجیا، مصنف سینٹ تھامس اکوائنس، پارٹ ۱، سوال ۲، مضمون وجود خدا کے پانچ دلائل: ۳
ترجمہ : محمد علی شہباز
خدا کے وجود کو پانچ طرح سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔
۱۔ دلیل حرکت:
پہلا اور سب سے واضح طریقہ حرکت کی دلیل ہے۔ ہمارے حواس ہمیں واضح اور قطعی طور پر بتاتے ہیں کہ دنیا میں کچھ اشیاء حرکت میں ہیں۔ اب کوئی شے اپنے آپ میں حرکت نہیں کر سکتی؛ کیونکہ اگر کوئی شے اپنے منتہی کے لحاظ سے ممکن حالت میں نہیں ہے تو وہ لازمی طور پر اسکی جانب حرکت میں ہوگی۔ جان لو کہ حرکت سے مراد کسی شے کا امکان سے حقیقت کی جانب سفر ہے۔ لیکن حقیقت کی جانب اس کا یہ سفر کسی حقیقی شے کے باعث ہی ہو سکے گا۔ جیسے کہ لکڑی کے اندر حرارت کے امکان کو حقیقت بنانے کے لیے آگ جیسی حقیقی شے لازمی ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ ایک شے بیک وقت امکان اور حقیقت دونوں حالتوں میں موجود ہو بشرطیکہ کچھ حالات کی تبدیلی واقع نہ ہوجائے۔ یعنی جو شے حقیقی طور پر ٹھنڈی ہوگی اس میں اب گرم یا سرد ہونے کا امکان نہیں ہوگا۔ لیکن جب وہ حقیقی طور پر ٹھنڈی نہیں ہوگی تب گرمی و سردی دونوں کا امکان ایک شے میں موجود ہو سکتا ہے۔ ایسے ہی ایک شے بیک وقت قابل حرکت اور حقیقی حرکت کی حامل نہیں ہو سکتی یعنی وہ خود اپنی حرکت کا باعث نہیں بن سکتی۔ اس لیے اس کو حرکت دینے کے لیے کسی اورحقیقی شے کا موجود ہونا لازمی ہے۔ اگر پہلی شے کو حرکت میں لانے کے لیے مجوزہ دوسری شے بھی حقیقی حرکت میں نہیں ہوگی تو (پھر یہ بھی قابل حرکت ہوگی) تو پھر اس دوسری شے کے لیے کوئی تیسری حقیقی شے کا ہونا لازمی ہوگا اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا جائے گا۔ لیکن یہ لامتناہی سلسلہ کسی بھی شے کی حقیقی حرکت کا جواز نہیں بن سکتا جب تک کہ کوئی ایسا محرک اول نہ ہو جس سے یہ تمام حرکت جاری ہورہی ہے۔ دیگر تمام اشیاء کی حرکت تبھی حقیقی ہو سکتی ہے اگر انہیں محرک اول کی طرف سے حرکت دیا گیا ہو اور تبھی یہ سلسلہ چلتا ہوا ہماری پہلی شے میں حقیقی حرکت پیدا کر سکے گا۔ لہذا حرکت کے لیے کسی محرک اول کا وجود لازمی ہےاور یہ محرک اول ہی خدا ہے۔
۲۔ دلیل علت فعالی:
دوسرا طریقہ علت فعال کی نوعیت میں ہے۔ عالم حواس میں ہمیں فعال علتوں کی ایک ترتیب نظر آتی ہے۔ ایسی کوئی صورتحال ہمارے سامنے نہیں ہے (اور ہو سکتی ہے) کہ جس میں کسی شے کی فعالی علت اسی کے اندر ہو کیونکہ پھر وہ شے خود ہی اپنے سے پہلے موجود ہوگی جو کہ ناممکن ہے۔ فعالی علتوں کے سلسلے کا بھی لامتناہی ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ پہلی فعالی علت کا معلول درمیانی فعالی علت ہوگی اور درمیانی علت (خواہ ایک ہو یا کثیر) پھر حتمی شے کی علت ہوگی۔ اب چونکہ علت کی نفی سے معلول کی نفی واقع ہوجاتی ہے اس لیے پہلی علت کی نفی سے درمیانی اور حتمی علتوں کی بھی نفی ہو جائے گی۔ اور اگر علتوں کا یہ سلسلہ لامتناہی ہوگا تو پھر نہ کوئی پہلی علت ہوگی اور نہ ہی کوئی درمیانی یا حتمی علت ہوگی، جو کہ سیدھی سیدھی غلط بات ہے۔ اس لیے ایک پہلی علت فعال کا ہونا لازمی ہے جسے خدا کے نام سے جانا جاتا ہے۔
۳۔ دلیل وجودی:
تیسرا رستہ ممکن اور واجب کی طرف سے ملتا ہے اور وہ یہ ہے: ہم دیکھتے ہیں کہ فطرت میں اشیاء موجود و ناموجود سے برابر فاصلے پر ہوتی ہیں کیونکہ ان میں پیدائش و تخریب کا عمل ہوتا رہتا ہے اس لیے وہ ممکن الوجود ہیں۔ ایسی اشیاء کے لیے موجود ہونا لازمی نہیں ہوتا کیونکہ ممکن ہے وہ کسی لمحے موجود نہ ہوں۔ چونکہ یہ بات فطرت کی ہر شے پر لاگو ہوتی ہے اس لیے ایسا وقت بھی ممکن ہے کہ جب کچھ بھی موجود نہ رہا ہو۔ اور اگر ایسا تھا تو پھر آج بھی کچھ بھی موجود نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جو موجود ہی نہیں تھا (عدم تھا) تو اسے وجود میں لانے کے لیے کسی ایسے کا ہونا لازم ہے جو پہلے خود وجود رکھتا ہو۔ یعنی آج بھی کسی شے کا وجود نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مغالطہ ہے (اشیاء موجود ہیں)۔ لہذا کسی ایسے وجود کا ہونا لازم ہے جو پہلے سےلازمی موجود ہو (واجب الوجود) ۔ لیکن ہر واجب الوجود بھی یا خودبخود موجود ہوگا یا نہیں۔ لیکن جیسا کہ فعال علتوں کی دلیل میں کہا گیا تھا کہ واجب الوجود کا بھی یہ سلسلہ لامتناہی نہیں ہوسکتا۔ لہذا ہمیں یہ فرض کرنا ہوگا کہ ایک ایسا وجود ہے جو خودبخود اور لازمی طور پر موجود ہونا چاہیے جو کہ دیگر تمام ممکنات کو وجود میں لا سکے۔ اسی کا نام انسانوں نے خدا رکھا ہوا ہے۔
۴۔ دلیل مراتب :
چوتھا طریقہ اشیاء میں پائے جانے والی صفات کے مراتب سے اخذ ہوتا ہے۔ حق، خیر، پاکی اور ایسی صفات کے لحاظ سے اشیاء کم وبیش ہوتی ہیں۔ لیکن زیادہ اور کم ہونے کا تعلق مختلف اشیاء سے موازنہ کرنے پر منحصر ہے۔ جیسے زیادہ گرم ہونے کامطلب ہے کہ کسی شے میں حرارت کی مقدار کسی دوسری شے (تھرما میٹر وغیرہ) کے مقابلے زیادہ ہے۔ لہذا کوئی ایسی شے ہے جو کہ حق کا کامل معیار ہے، جیسا کہ میٹافر دوئم میں لکھا ہے۔ اسی طرح کسی جنس میں کامل معیارہی اس جنس کا باعث ہے۔ جیسے کہ آگ جو کہ کامل حرارت ہے، کسی شے میں حرارت کا باعث ہے۔ لہذا کامل صفات کی حامل ایسی ہستی لازمی ہے جو ان تمام صفات یعنی خیر، حق یا پاکی وغیرہ کا باعث ہو۔ یہ کامل ترین ہستی ہی خدا ہے۔
۵۔ دلیل غائی:
پانچواں رستہ تکوین عالم کی جانب سے نکلتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ذہانت سے عاری اشیاء یعنی اشیائے فطرت (انسان کے علاوہ زمین و آسمان کی تمام مخلوق) کسی مقصد کی جانب حرکت میں رہتی ہیں۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ یا قریب قریب ہمیشہ ایک ہی لگے بندھے انداز میں بہترین نتیجے کے حصول (جیسے خوراک، جنسی بڑھوتری وغیرہ) میں مگن ہیں۔ سو یہ واضح ہے کہ محض اتفاق نہیں بلکہ کسی منصوبے کے تحت وہ مطلوبہ نتائج حاصل کرتی ہیں۔ اب یہ واضح ہے کہ ذہانت سے عاری کوئی شے خود بخود کوئی مقصد طے نہیں کر سکتی جب تک کہ کوئی ذہین وفطین وجود انہیں اس جانب گامزن نہ کرے۔ جس طرح کمان میں سے تیر کو نشانے کی جانب پھینکا جاتا ہے (پھینکنے والا ذہین ہے)۔ اس لیے ایک ایسی ذہین ہستی موجود ہے جو تمام فطرت کی رہنمائی کرتی ہے۔ اس ہستی کو ہم خدا کہتے ہیں۔