نائن الیون کے بعد پاکستان اور افواج پاکستان پر بہت کچھ لکھا گیا۔ کتابیں، مقالے، مضامین، الیکٹرانک میڈیا پر چلنے والی ڈاکومینٹریز وغیرہ۔ مشرف کی فوجی حکومت کے آخری دنوں اور بعد ازاں دو سویلین حکومتوں کے ادوار میں ملک کے طول وعرض صرف بم دھماکوں کا راج تھا۔ ان بم دھماکوں کے اسباب کی تلاش میں میڈیائی مخلوق چند دانشوروں کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچی کہ اس ملک کے قیام میں ہی کچھ خرابی مضمر ہے۔ نظریہ پاکستان، مذہب اور غربت ان تشدد آمیز کارروائیوں کی بنیادی وجہ گردانے جاتے۔ مگر دو ہزار پندرہ کے بعد جب امریکہ نے افغانستان سے انخلاء کے لیے سنجیدگی سے معاملات آگے بڑھانے شروع کیے تو یہ تینوں "برائیاں” نظریہ پاکستان، مذہب اور غربت پاکستان میں ویسے ہی موجود تھے مگر تشدد اور بم دھماکے آہستہ آہستہ کم ہونے شروع ہو گئے۔
پندرہ سال اسلام آباد کو ہر اس طرف سے گھیرا گیا جہاں سے استعمار کو کوئی کمک میسر آ سکتی تھی۔ مذہبی لبادہ اوڑھے متشدد گروہوں کو جب ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو پھر حسین حقانی کے ذریعے سے قوم پرست سیاسی پتلیوں کے تماشے کا اسٹیج لگایا گیا۔ مذہبیت اور قوم پرستی کا گٹھ جوڑ اس خطے میں کانگریس کے قیام (1884) کے ساتھ ہی سامنے آیا۔ بلکہ اس کے کچھ اجزاء کانگریس کے قیام سے پہلے بھی موجود تھے مگر کسی منظم ترتیب کے بغیر بکھرے پڑے تھے۔
وار آن ٹیرر کے سب سے زیادہ متاثرہ صوبے میں موجود یہ مذہبیت اور قوم پرستی کا یہ مظہر تقریباً ڈیڑھ سو سالہ سیاسی پس منظر اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ جن لوگوں نے نفاذ شریعت کا علم بلند کیا اور ان کے بعد جنہوں نے حسین حقانی کی سر پرستی میں "حقوق” کی پامالی کا راگ الاپا، یہ دونوں گروہ اپنی نسبت ان رہنماؤں کی طرف کرتے ہیں جن کی تقسیم سے قبل نظریاتی ہم آہنگی اور سیاسی تعلقات رہے ہیں۔
سندھی قوم پرستوں کے الیکشن میں ن لیگ کے ساتھ اتحاد کے باوجود سندھ کی سیاست میں وہ کوئی نمایاں حیثیت حاصل نہیں کر پائے۔ عسکریت کے لیے جس قسم کا جغرافیہ اور تنظیم چاہیے وہ بھی ان کے پاس موجود نہیں ہے۔ ہاں گاہے گاہے کسی کریکر دھماکے اور پاکستانی جھنڈے کو جلا کر یہ اپنی موجودگی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ لیکن جدید دنیا میں شہری آبادی سیاسی طور پر فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے۔ تعلیم یافتہ مڈل کلاس کی اندرون سندھ غیر موجودگی اور سندھ کے بڑے شہروں میں لسانی بنیادوں پر آبادی کا جو تناسب موجود ہے اس میں ان قوم پرستوں کے لیے کوئی ایسا امکان موجود نہیں ہے جس کی بنیاد پر یہ اپنے آدرشوں کو زمینی حقیقت بنانے کا خواب دے سکیں۔
وہ مذہبیت اور قوم پرستی جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اس کی ریاست پاکستان میں ٹھوس سیاسی موجودگی کئ دہائیوں سے چلی آرہی ہے۔ اور ان کی موجودگی اصلا پاکستان کی خالق مسلم لیگ کی ناکامی ہی کہی جا سکتی ہے۔ سیاسی سطح پر ان کا ووٹ بینک موجود ہے اور عسکریت کے جوہر بھی دونوں گروہوں میں موجود ہیں۔ بیس سال امریکیوں کی سر پرستی میں میں چلنے والا یہ شو اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے اگر طالبان واقعی ہی ایک مضبوط حکومت بنانے میں مخلص ہیں۔
برصغیر کی ملت اسلامیہ سیاسی طور پر اپنے ماضی سے زیادہ کمزور ہے۔ اس سیاسی بحران سے نکلنا ہی اس خطے میں مسلمانوں کی بقا ہے۔ مغربی سرحد سے خطرہ کم ہوا ہے مگر جنوب مشرقی سرحد سے خطرات ابھی ٹلے نہیں۔ بھارت کا ناکام ہوتا سیکولر ازم جسے مشییر الحسن جیسے تاریخ دانوں کی مدد بھی بچا نہیں پا رہی۔ اب ہندواتوا کی صورت طاقت حاصل کر رہا ہے۔ اس ہندو قوم پرستی کے مظہر پر ہمارے ہاں کوئی سنجیدہ کام دیکھنے میں نظر نہیں آ رہا۔ ضرورت یہ ہے کہ البیرونی کی طرح جس نے قدیم ہندو مذہب پر تفہیم کے در وا کیے تھے اب اس جدید ہندو قوم پرستی پر کوئی شخص البیرونی کی دقت نظر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کام کو آگے بڑھائے اور اس ہندو قوم پرستی پر دو قومی نظریے کے ذریعے محاکمہ کرے۔
پاکستان کی حد تک مسلمانوں کی اس سیاسی کمزوری کو سیاسی طاقت میں بدلنے کے سر دست دو راستے نظر آتے ہیں۔ یہ ہیں تعلیم اور مضبوط سیاسی جماعتیں۔ ریاست کی طرف سے تعلیم پر سب سے کم بجٹ لگایا جا رہا ہے۔ سیاسی پارٹیاں ذاتی اور خاندانی مفادات کا کلب بنی ہوئی ہیں۔ معاشرے میں پھیلا ہوا ظلم، عدل میں اسی وقت ڈھل سکتا ہے جب سیاسی جماعتیں لوگوں کی فلاح کو اپنے منشور اور عمل میں مرکزی جگہ دیں گی۔ سویلین بالا دستی کا قیام مضبوط سیاسی جماعت کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
پچھلی دو دہائیوں میں سروس سیکٹر کا پھیلاؤ خوش آئند ہے مگر اس کے ساتھ زراعت اور اس سے متعلق صنعت کی کسمپرسی ہمارے پالیسی سازوں کی ذہنی کسمپرسی کی عکاس ہے۔ جدید زرعی آلات کی عدم فراہمی اور زراعت کو ملٹی نیشنل کے ہاتھ گروی رکھنے کا نتیجہ ہی ہے جو ابھی تک پنجاب کے دیہات میں اس سیاست کو برقرار رکھے ہوئے ہے جو برادری، تھانہ اور کچہری کے گرد گھومتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پنجاب میں مہاجر، غیر مہاجر اور 1985 کا غیر جماعتی الیکشن پنجاب کی سیاست پر فالج کے وہ حملے ہیں جس سے مریض ابھی تک صحت یاب نہیں ہوا۔
وینٹی لیٹر پر پڑا زرعی انفراسٹرکچر اور تعلیم ریاست کی عدم توجہ کی وجہ سے ناکامی کے انہیں ابواب میں ایک باب کا اضافہ ہیں جو پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں ایک ضخیم کتاب بن چکی ہے۔ سیاسی ناکامی ہی واحد ناکامی ہے۔ جس کی وجہ سے ظلم پاکستانی معاشرے میں شتر بے مہار ہے اور اس سیاسی ناکامی کی وجہ سے جدید تعلیم کے بندوبست کے وسائل کی عدم دستیابی ہے جو ہماری عسکری ناکامی میں ڈھل سکتی ہے۔