مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جناب امام حسین علیہ السلام کی قربانی اسلام کو واقعتا بچانے کے لیے اپنا سب کچھ لٹانے کی ایک ادا ہے۔ خلافت برطرف کر دی گئی اور خاندانی شہنشاہیت کا نظام اپنا لیا گیا۔ خاندانی شہنشاہیت جبرواستبداد کے ذریعے لوگوں پر اپنے احکامات مسلط کرتی ہے۔ جناب امام حسین علیہ السلام نے بیعت نہیں کی اور اس نظامِ ملوکیت کے خلاف اپنی جان کی قربانی دی۔ اصل واقعہ تو یہی ہے۔
اب اس واقعہ کو کس کس طرح بیان کیا گیا ہے اسے میں دو ادوار میں تقسیم کرتا ہوں۔ پہلا دور ہے ملوکیت کا اور دوسرا دور ہے علامہ اقبال کا۔ اب تک ہمارے ہاں اُردو اور دیگر پاکستانی زبانوں میں جو مرثیے لکھے جاتے ہیں، پڑھے جاتے ہیں، انہوں نے اسلام کی کوئی بڑی خدمت نہیں کی بلکہ ملوکیت کے نظام کو گوارا بنانے کے لیے کام کیا، شعوری طور پر یا غیر شعوری طورپر، اب یہ ایسی بات ہے کہ میں صرف آپ ہی سے کہہ سکتا ہوں، تلاش کے لیے، تجسس کے لیے اور سمجھنے کے لیے۔ بات یہ ہے کہ شہنشاہ قتل کرتے ہیں اور مقتول کے لواحقین کو آزادی دیتے ہیں کہ وہ گِریہ اور سینہ کوبی کریں۔ اردو میں ۱۸۵۷ء تک رثائی ادب کے نام سے جو ذخیرہ آیا ہے، وہ مجھے ملوکیت کے اسی چوکھٹے میں پابند نظر آتا ہے۔ ہم نے جو سب سے بڑا مرثیہ نگار پیدا کیا ہے، ادبی اعتبار سے بھی اور مقبولیت کے اعتبار سے بھی وہ میر انیس ہے۔ انیسؔ نے اپنے زمانے میں بادشاہوں اور درباروں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھا۔ وہ ایک درویش صفت انسان تھے اور اپنے طور پر سمجھتے تھے کہ اُن کی شاعری عبادت ہے۔ یہاں میں ان کے ایک دو اشعار پیش کرتا ہوں۔ اپنے مقبول ترین مرثیے کے اختتامی بندمیں کہتے ہیں۔ ع:
’اب ڈوبتی ہے آلِ رسولِ خدا کی نائو‘…
اور یہ کہ:
جنگل سے آئی، فاطمہ زہراء کی یہ صدا
اُمت نے مجھ کو لوٹ لیا وا محمدا
اب غور کریں تو کھلتا ہے کہ شاعر نے غیر شعوری طور پر یزید اور اس کی فوجوں کے گناہِ کبیرہ کی تمامتر ذمہ داری بادشاہوں کے کندھوں سے اُتار کر اُمّت کے کندھوں پر ڈال دی ہے۔ اس گزارش کے بعد آپ حضرات کے سامنے مجھے مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ سوال یہ ہے کہ انسان مجبور ہے یا مختار؟ اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ یہ ساری بحثیں بنو امیہ کے زمانے میں چھڑیں اور ساری کوشش یہ تھی کہ جو گناہ بادشاہوں سے سرزد ہوا ہے اس کے بوجھ سے اور اس کی بدنامی سے بادشاہوں کو نجات دلائی جائے اور کہا جائے کہ مقدر ہی ایسا تھا۔ غلطی یزید کی نہیں، امت کی ہے۔ اس بند کا اختتامی مصرعہ ہے:
عالم پسند لفظ ہیں، سلطاں پسند بند!
یہاں انیسؔؔ کی قادر الکلامی پر کوئی شک نہیں بلکہ مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے کہ ایک نوجوان نے علامہ اقبال کو اپنا کلام دکھایا اور اصلاح کی درخواست کی تو علامہ اقبال نے فرمایا کہ شاعری میں تمہیں کسی استاد کی کوئی ضرورت نہیں، بس تم انیسؔؔ کے کلام کو پڑھتے جائو، پڑھتے جائو خود ہی شاعر بن جائو گے۔ انیسؔؔ کی قدرت کلام اور نفاست اظہار اپنی جگہ لیکن سارا زور اس بات پر ہے کہ اِس ظلم کی ذمہ داری خاندانی بادشاہت کے کندھوں سے اُتار دی جائے اور لوگوں کو ایک ایسی سمت میں سرگرم عمل کر دیا جائے کہ وہ سمجھیں کہ رو لئے، گر یہ کر لیا، ماتم کر لیا اور حق ادا ہوگیا۔ ہمارے سارے دورِ ملوکیت کے مراثی کا مجموعی تاثر یہی ہے۔
اِس کے برعکس علامہ اقبال کے ہاں سانحہء کربلا کی اصل روح استقامت ہے، حق و باطل کے معرکے میں بے سر و سامانی کے باوجود حق کی خاطر باطل کے مقابلے میں ڈٹ جانے کی ادا۔ اقبال کے ہاں نوحہ و ماتم کی فضا نہیں جشنِ حریّت کا سماں ہے۔جناب امام حسن علیہ السلام تو بیٹھے رہے، وہ بھی بھائی تھے، کوئی مجبوری تو نہیں تھی، یہ تو انتخاب تھا کہ باطل کے ساتھ زندہ رہنا ہے یا حق کی خاطر مر جانا ہے تو انہی کے خاندان کے اِکا دُکا لوگ باطل کے ساتھ زندہ رہنے میں عافیت سمجھتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ باطل نے تو انہیں بھی زہر دے کر مار دیا۔ اس قربانی سے جو سبق ملتا ہے وہ تو ہے حق پر استقامت۔ حق ہے خلافت اور باطل ہے ملوکیت۔ ہمارے شاعروں اور ادیبوں نے اس حقیقت کو بہت الجھایا ہے۔
اس سے قطع نظر سانحہء کربلا اور اُس کے متعلقات کے موضوع پر وجود میں آنے والی ادبی تخلیقات نے ہمارے ادب کو بہت کچھ دیا ہے۔ نثر میں فضلی کی ’’کربل کتھا‘‘ ابتدائی اردو کے حُسن اور طاقت کی بہترین ادبی دستاویز ہے۔ اسی طرح فضلی کی ’’کربل کتھا‘‘ کہ ہر سال جو مجلسیں برپا ہوتی تھیں وہ حرم میں بھی ہوتی تھیں اور جنوبی ایشیاء کی خواتین بھی اس کارثواب میں شریک ہونا چاہتی تھیں، بہرحال کچھ بھی ہے ان ساری باتوں میں اس سانحہ کی اصل روح کہاں گئی، اسے ہمارے شاعروں، ادیبوں نے چھپایا ہے۔ کیوں چھپایا ہے؟ ملوکیت کے زیرِ اثر۔ یہ تقیہ کہاں سے آیا؟ یہ ہمارا سارا رثائی ادب شاعروں اور ادیبوں کا تقیہ ہے کہ آپ روئیں، چیخیں، چلائیں، شہدائے کرام کے سارے اوصاف بیان کریں اور مجموعی تاثر یہ ہے کہ ایک صرف خاندان، ایک گھر، ایک نسل پر مصیبت آئی اور بس۔ حالانکہ یہ تو پورے نظام خلافت پر اُفتاد تھی کہ خلافت کا نام باقی رکھا گیا اور قیصر و کسریٰ کا نظام جاری کر دیا گیا۔ نتیجہ یہ کہ خاندانی بادشاہت کا نظام آ گیا اسلام جس کی اجازت نہیں دیتا۔ جناب امام حسین علیہ السلام نے اپنے چند رفیقوں کے ساتھ اس نظام کو چیلنج کر کے اِس حقیقت پرصداقت کی مہر ثبت کر دی کہ نہیں، یہ اسلام کا سیاسی نظام نہیں ہے اور یوں اقبال کے لفظوں میں:
تا قیامت قطع استبداد کرد
موجِ خونِ اُو چمن ایجاد کرد
ہماری ادبی تاریخ میں پہلا شخص اور شاعر اقبال ہے جو گریہ و زاری کے اس شاعرانہ اندازِ نظر کو رد کرتا ہے۔ جو روتا نہیں ہے، مصائب کا ذکر نہیں کرتا اور جس کے ہاں واقعہ کربلا ایک جشن حریت کا بیان ہے، خوشی کی بات ہے کہ ایک شخص تھا جس نے اسلام میں حریت کے بنیادی تصور کو اپنایا۔ آپ ’’اسرار و رموز‘‘ کو دیکھ لیں جو ۱۹۱۸ء میں پہلی دفعہ چھپی۔ اس میں ایک باب ہے ’’در بیان حریت اسلامیہ و سرّ واقعہ کربلا‘‘۔ اس کی ترتیب میں بھی توحید ہے، رسالت اور حریت ہے۔ اس میں سے مَیں چند اشعار لایا ہوں کہ باقی سب کچھ تو ریڈیو پر، ٹیلی ویژن پر اور اخبارات میں آتا ہے لیکن ’’اسرار و رموز‘‘ کے یہ اشعار کہیں بھی نہیں نظر آتے کہ:
تیغ لا چوں از میان بیروں کشید
از رگِ اربابِ باطن خوں کشید
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم کلمہ تو پڑھتے رہے، نمازیں تو پڑھتے رہے، رسومات ادا کرتے رہے لیکن اگر کسی یزید کے سامنے ’’لا‘‘ نہ کہا تو ہم نے کیا کیا؟ اس شعر میں ’’لا‘‘ تو کہا انہیں یعنی یزید کو، قیصر و کسریٰ کے جانشینوں کو لیکن یہیں پر بس تو نہیں، آگے فرماتے ہیں:
نقشِ اِلّا اللہ بر صحرا نوشت
سطرِ عنوان نجاتِ ما نوشت
سانحۂ کربلا کے بعد ہمارے ہاں اضطراب کی ایسی کیفیت پیدا ہو گئی تھی کہ لوگ اِس طرح کے سوالات اُٹھانے لگے تھے کہ اتنے بڑے گناہ کے بعد کیا اب ہم مسلماں رہ گئے ہیں؟ سوالات لوگ جا جا کے پوچھتے تھے خواجہ حسن بصریؒ سے کہ حضرت یہ بنو امیّہ والے تو کہتے ہیں کہ ہم تو مجبور محض ہیں اور یہ تو حسین کا مقدّر تھا۔ اس پر جناب حسن بصری فرماتے: یہ جھوٹ بولتے ہیں، اپنے گناہ کی ذمہ داری اللہ پر ڈالتے ہیں۔ یہ سوالات شہادت حسین کے فوراً بعد پیدا ہوئے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ حضرات نے سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی خلافت و ملوکیت پڑھ رکھی ہو گی۔ اس میں اس واقعہ کی ۹۰ فیصد جزئیات آ گئی ہیں جن پر دینی حلقوں میں بڑی ہنگامہ خیز بحث چھڑ گئی تھی۔ اس ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے مولانا مودودی نے کتاب کے نئے ایڈیشن کے آخر میں ان سوالات و اعتراضات کا جواب شامل کردیا تھا۔ ہمارے ادب میں واقعۂ کربلا کس کس انداز میں بیان کیا گیا ہے اور اس کے پیچھے کس طرح کی سوچ کارفرما ہے اور ملوکیت کا جادو کس طرح ہمارے ادب میں شامل ہے اس کو سمجھنے کے لیے خلافت و ملوکیت پڑھنا ضروری ہے۔ میں نے اقبال کے بعد مودودی صاحب کا نام لیا اس لیے لیا کہ اقبال پہلے شاعر اور فلسفی ہیں جنہوں نے اس سانحہء عظیم کو اُس کے صحیح تناظر میں پیش کیا تھا۔ ان کا تخاطب چونکہ مغربی علوم کے زیرِ اثر بدلتے ہوئے مزاج کے نوجوانوں سے تھا، یا یورپ سے تھا، یا نئی دنیا سے تھا اس لیے انہوں نے جدید اصطلاحات استعمال کرتے ہوئے کہ وہ یزید سے شروع ہونے والی خاندانی بادشاہت کی روایت کو Arabian Imperialism (عرب ملوکیت) کہتے ہیں اور مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی اسے جاہلیتِ خالصہ سے موسوم کرتے ہیں۔ دونوں کا مطلب ایک ہی ہے۔ سیّد مودودی کے مخاطب ہماری مسجدوں میں، خانقاہوں میں، ہمارے دینی حلقوں کے لوگ ہیں وہ ایسے لفظیات اور استعارات میں بات کرتے ہیں جوبہ آسانی اُن کے سامعین اور قارئین کی سمجھ میںآ سکے ۔ اِس باب میںہر دوکا مطلب و مفہو م ایک ہے۔
یہ علامہ اقبال کی ۱۹۱۸ء کی مثنوی اسرار و رموزکا فیضان ہے کہ ہمارے ہاں ’’اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد‘‘ جیسی شاعری وجود میں آنے اور عام ہونے لگی۔ اقبال کا کارنامہ یہ ہے کہ اس واقعہ کو محض واقعہ نگاری کے طور پر مصائب و مشکلات اور عزم و استقامت کی کہانی کے طور پر بھی پیش کیا اوراسے ایک ابدی استعارہ بھی بنا دیا:
حقیقت ابدی ہے مقامِ شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز، کوفی و شامی
تو انہیں جب پڑھتے ہیں تو اقبال کے ہاں کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اپنے خاص وقت تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ ہمارا ماضی بھی ہے، حال بھی ہے اور اگر ہمیں زندہ رہنا ہے توہمارا مستقبل بھی یہی ہے۔ آج اس وقت، اس لمحے دنیائے اسلام کو جو چیلنج درپیش ہے اس میں آج جس طرح کی فکری صلابت اور نظریاتی استقامت کی ضرورت ہے وہ ہمیں اقبال ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اقبال ہمیںآج بھی بڑی حسرت کے ساتھ یہ کہتے سُنائی دیتے ہیں:
ریگِ عراق منتظر، کشتِ حجاز تشنہ کام
خونِ حسین باز دہ کوفہ و شامِ خویش را
قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اقبال آج ہی، ہمارے اِس لمحہء رواں کے لیے ہی کہہ رہے ہوں۔ہر وہ مسلمان حکمران جو اپنے آپ کو لبرل کہتا ہے، وہ فراخدلانہ گرانٹ دے گا، کہ شہردر شہرعَلَم بنائیں اور جلوس نکالیں اور سبیلیں لگائیں۔ حکمرانوں کے لیے یہ بہت آسان ہے کہ وہ ماتم کریں، جلوس نکالیں، یاد کریں اس واقعہ کو، اس سے کیا ہوتا ہے۔ اب ہمارے اندر جو کوفہ و شام بس رہے ہیں وہ تو ویسے کے ویسے ہی سرسبز وشاداب رہیں گے۔ آج کی دُنیائے اسلام میں مشکل تو وہی ہے جوکل کے کوفہ و شام میں تھی۔ دل حسین کے ساتھ اور تلوار یزید کے ساتھ۔ یہ صورت حال اس زمانے سے لے کر اب تک چلی آ رہی ہے۔ اب ایک طرف وہ لوگ ہیں جو سانحہء کربلا کی اصل معنویت یعنی عزم و استقلال اورصبر و ایثار قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف وہ عاشقانِ حسین علیہ السلام ہیںجو گریہ و زاری اور زنجیر زنی کو کافی سمجھتے ہیں۔ کل کی طرح آج کے حکمران بھی عوام کے عزم و استقامت سے خائف ہیں ۔ حکمران کل بھی خائف تھے اور آج بھی خائف ہیں۔ نتیجہ یہ کہ وہ اس طرح کے ادب کی سرپرستی کرتے ہیں جس میں اصل روح حریت کو تو فراموش کر دیا گیا ہو اور چھوٹے بڑے انسانی مصائب پر گریہ و زاری اور ماتم گساری کے بعدگھر جا کر سوجایا جائے اور دوسری صبح اُٹھ کر پھرسے یزید کی اطاعت کا دم بھرا جائے۔ یہ ہیں وہ دو روّیے جن کا ہمارے ادب میں اب تک اظہار ہوتا آیا ہے
اقبال وہ شخص اور شاعر ہے جس نے اس پر رونے کے بجائے اسے اسلام کی حیاتِ نو سے تعبیر کیا ہے اور بتایا ہے کہ ’’لَااِلٰہَ اِلّا اللّٰہ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ باطل کے سامنے ’’لا‘‘ کہاجائے ۔ یہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ اقبال کے بعد بھی ہماری شاعری اقبال کے ظہور سے پیشترکی ملوکیت نوازفکر کوپروان چڑھانے میں مصروف ہے۔ آج بھی جب عشرہء محرم الحرام آتا ہے تویار لوگ اپنے اپنے مرثیے لے کر آ جاتے ہیں۔ بالعموم ان مرثیوں میں بھی یہی انداز اپنایا جاتا ہے کہ بہت ظلم ہوا، مصائب کے بہت پہاڑ توڑے گئے۔ سوال یہ ہے کہ آپ اُس شخصیت کوجسے علامہ اقبال نے ’’مرکزِ پرکارِ عشق ‘‘اور ’’کارواں سالارِ عشق‘‘ کے اسمائے صفت کے ساتھ یاد کیا ہے اور جس کی کی قربانی کو ’’موجِ خونِ اُو چمن ایجاد کرد‘‘ سے تعبیر کیا ہے اُسے امام مظلوم کیوں کہتے ہیں؟ جب وہ مجبور نہیں بلکہ مختار تھے۔ جب اُنھوں نے اپنے اختیارِ کامل کو استعمال کرتے ہوئے اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ میں دینے کی بجائے اپنا گلا پیش کر دیا، جب اُنھوں نے باطل کے ساتھ زندہ رہنے کی بجائے حق کی خاطر جان دے دینے کا انتخاب کیاتو وہ مظلوم کیسے قرار پائے؟ وہ تو حق کا ایک لازوال استعارہ بن گئے۔
سانحہء کربلا کو جس طرح اقبال نے اپنی مثنوی ’’رموزِ بے خودی‘‘ میں اسلامی حریّت کی حقیقت اور معرکہء کربلا کے اسرار کے عنوان سے بیان کیا ہے اس سے مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اِس معرکہء عظیم کو شاعری میں بیان کرنے والے دو گروہ سرگرمِ کار ہیں۔ غالب اکثریت اُن شعراء کی ہے جو دورِ ملوکیت میں پیدا ہونے اور پروان چڑھنے والی رثائی شاعری کی روایت کے اسیر ہیں اوردوسری روایت صوفیائے کرام کے اندازِ نظر سے پھوٹی ہے جس کا فیضان اقبال کی شاعری میںعام ہے۔ہماری صوفیانہ شاعری کا یہ مصرعہ زبان زدِ عام ہے:’سرداد، نہ داد دست در دستِ یزید‘۔ صوفیائے کرام کے ہاں یہ روایت رہی ہے کہ انہوں نے اس واقعے کی اصل روح کو پہچانا اور اسے ہی بیان کیا۔
اِس باب میں اقبال کا سرچشمہ ء فیضان یہ صوفیانہ شاعری ہے۔ اقبال کی عطا یہ ہے کہ اقبال نے اس واقعے کو اپنے زمانے کی دنیائے اسلام کی سیاسی و تہذیبی کشمکش کے حوالے سے بھی بیان کیا ہے اور بہت سے مقامات پر ہوتا یوں ہے کہ ذکرکسی عصری صورتِ حال کا ہو رہا ہے مگر معرکہء کربلا کی رزمِ حق و باطل پسِ خیال موجود ہے۔ اس وقت مجھے اقبال کی مشہور نظم ’’ساقی نامہ‘‘ کا درج ذیل شعر یاد آ رہا ہے:
مرا دل، مری رزمگاہِ حیات
گمانوں کے لشکر، یقیں کا ثبات
گویا اقبال کی باطنی زندگی میں ایک جنگ برپا ہے۔ کربلا کی سی جنگ جہاں گمانوں کے لشکر یقین کے ثبات کے مقابلے میں لرزاں اور ترساں ہیں۔ سارے ساتھی ایک ایک کر کے تہِ تیغ ہو چکے ہیں بس ایک بیمار زین العابدین رہ گئے ہیں:
درمیان کار زارِ کفر و دیں
جان من تنہا جو زین العابدیں
بیسویں صدی میں اپنی صورتِ حال کو وہ جناب زین العابدین کی سی صورتِ حال سے مماثل سمجھتے ہیں اور یوں بیان کرتے ہیں کہ آج ہم جویہاں بیٹھے ہیں تو ہم میں سے ہر ایک شخص یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ درمیان کارزارِ کفر و دیں تنہا ہے۔ جنگ تو ہو بھی چکی، باطل غالب آگیا اور بچ گیا ایک بیمار، زین العابدین۔ ہمارے عہد کے اِس زین العابدین یعنی علامہ محمد اقبال نے تنہا، موجِ خونِ حسین سے اپنے فکر وتخیّل کی دُنیا میں چمن ایجاد کر دکھایا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کربلا: اسلامی تاریخ کا سیکولر مخالف حوالہ ---- عزیز ابن الحسن
1 comment
بہت اعلیٰ
واقعی ملوکیت نے امام حسین علیہ السلام کے اصل کارنامے کو دھندلا دیا ہے