خواتین اور پدر سری سماج : کچھ مثبت اور منفی پہلو
سماجی
-
-
-
امریکہ میں لفظ ’اسلام‘ اور اس کے تلازمات کے بارے میں جاننا چاہیں تو کتابوں کی کسی دکان میں داخل ہو جائیں۔ خون خشک کردینے والے عنوانات اور سرورق فوراً آپ کو اپنی طرف متوجہ کرلیں گے۔ یہ سنسنی خیز، صحافیانہ ادب مسلمانوں کی امریکہ دشمنی اور اس کے خلاف دہشت گردی کے لرزا دینے والے منصوبوں کو طشت از بام کر تا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ الماریوں میں ایسی کتابیں بھی موجودہیں جن میں نہایت سنجیدہ اور محققانہ انداز میں مسلم تہذیب کی ناکامی اور اسلام اور مغرب کے درمیان تصادم کی پیش گوئیوں کی تصدیق کی گئی ہے۔ وہیں کسی گوشے میں، اسلام کے فلسفۂ مذہب اور تاریخ سے متعلق، بیزار کن اور پیچیدہ نثرمیں نصابی مباحث پر مبنی کچھ جائزے اور مطالعات بھی مل جاتے ہیں۔ شاید چند ایک مسلمان مصنفین کی اسلام کے خلاف الزام تراشیوں کے جواب میں دفاعی نقطۂ نظر سے لکھی گئی، معذرت خواہانہ انداز کی تحریریں بھی مل جائیں اور آخر میں دو تین تراجمِ قرآن ـــ۔ ایک اجنبی زبان کا پر اسرار اور ناقابل فہم متن۔ تو پھر اسلام سے شناسائی کیسے ہو؟۱
-
تازہ ترینتراجمتنقیددیگرسماجیعلم و ادبعلمیفلسفہکالمنایاب کتب
از منہ وسطی میں نظریہِ تصور The Wake of Imagination ۔۔ رچرڈ کیئرنی-ترجمہ: ناصر فاروق
by دانش ڈیسکby دانش ڈیسکہرجگہ، آج ہم جہاں بھی رخ کرتے ہیں، خود کو تصویروں میں گھرا پاتے ہیں۔ گھر کے ٹی وی سے بل بورڈ کے اشتہاروں تک، انتخابات کے پوسٹرز سے نیون سائن تک، ہماری مغربی تہذیب تیزی سے ’تصویر کی تہذیب‘ بنتی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ ہماری زندگی کے وہ گوشے کہ جن کے بارے میں ہمیں یہ خوش گمانی ہے، کہ ’تصویروں‘ سے بچے ہوئے ہیں، وہ بھی کسی نہ کسی طور جھلملاتی تصویروں کی زد میں ہیں۔ یہ درحقیقت ممکن ہی نہ رہا کہ کوئی نام نہاد فطری ماحول سازی مکمل طور پر کی جاسکے۔ ہر جگہ صارفیت پسند تصویریں پس منظر سے جھانکتی نظر آجاتی ہیں۔ ایک پہاڑی مہم جوئی مارلبورو سگریٹ کے بغیر نظر نہیں آتی، سمندر کا تاحد نظر منظر اب سیاحتی کمرشل سے جڑا ہوتا ہے، اور دیگرفطری مناظر کی معصومیت بھی اشتہار زدہ ہوچکی ہے۔ یہاں تک کہ ہمارا داخلی لاشعور بھی اس سے خالی نہیں۔ ہمارے جسم کی مانند، ہماری نفسیات کی دنیا بھی تصویری صنعت کی نوآبادی بن چکی ہے۔ یہاں تک کہ نجی جنسی زندگی بھی لپیٹ میں ہے۔ ٹی وی سوپ اوپرا جیسے کہ ڈلاس اینڈ ڈائناسٹی Dallas and Dynasty پرلاکھوں کروڑوں ڈالر صرف کیے گئے ہیں۔ اس بات پر کہیں کوئی تاسف نظر نہیں آتا کہ پندرہ سال عمر سے کم تقریبا پچاس فیصد امریکی بچوں نے شاید ہی کوئی ٹی وی پروگرام شروع سے آخر تک دیکھا ہوگا!
-
تازہ ترینسماجیسیاسیعلمیکالممذہبی
مذہبی انقلابی جماعتیں: سماجی اور نفسیاتی مسائل —- شاہد رشید
by دانش ڈیسکby دانش ڈیسکایک انقلابی جماعت میں موجود مختلف جنریشنز کا اگر باہم مقابلہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدائی دور کے لوگ زیادہ تخلیقی اور mature ہوتے ہیں۔ آہستہ آہستہ تقلیدی رجحان بڑھتا جاتا ہے۔ انقلابی جماعت کے بانی راہنماوں پر رنگ رنگ کے اثرات ہوتے ہیں جبکہ دوسری اور تیسری جنریشن مکمل طور پر صرف اپنی جماعت کے لیڈرز کے زیر اثر ہوتی ہے۔ اس میں "تنظیمیت” بڑھ جاتی ہے لیکن سوچ ماند پڑ جاتی ہے۔ فکر کی جگہ ڈسپلن اور Quality کی جگہ Quantity لے لیتی ہے۔ انقلابی جماعت کا یک رخا پن اور گہرا ہو جاتا ہے۔
-
-
تازہ ترینسماجیکالم
"باجی "میرا کیا قصور ہے؟— عورت کو کیا ہوا؟ ——- فارینہ الماس
by فارینہ الماسby فارینہ الماسان واقعات کو پڑھتے اور سنتے ہوئے رونگھٹے تو کھڑے ہوتے ہیں لیکن ان کی دلگدازی کا بڑا سبب یہ حقیقت ہے کہ ظلم و بربریت کے ان واقعات کے تسلسل میں مرکزی مجرم کا کردار "عورت” نے نبھایا ہے
-
سماجیکالممذہبی
مذہب کو ماننے لیکن مذہب کی نہ ماننے والے لوگ — فارینہ الماس
by فارینہ الماسby فارینہ الماسمذہب کے فعال ہونے کی پہلی دلیل ہی یہ ہے کہ وہ انسانی سچائیوں سے…
-
ڈیجیٹل آمریت کے حوالے سے بہت باتیں ہو رہی ہیں۔ ایک نقطۂ نظر یہ ہے…
-
Editor's Picksتازہ ترینسماجیسیاسیعلمیکالم
مرحوم اشتراکیت، پوسٹ ماڈرن نراجیت، ریاست اور نادان قوم پرست —– سلیم احسن نقوی
by دانش ڈیسکby دانش ڈیسکپوسٹ ماڈرنسٹ کہتے ہیں کہ ماڈرنزم نے دنیا کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے اس لیے ان اقدار کو رد کر دینا چاہیے۔ اور یوں چاہے وہ اپنے ملکوں میں انقلاب لا کر موجود نظام تباہ کرنے کی بات نہ بھی کریں لیکن دلیل، منطق، سائنسی ثبوت اور مسلمہ سچائیوں جیسی چیزوں کی نفی کر کے وہ اپنے ملکوں میں رائج نظام کو تو ڈھانا چاہتے ہی ہیں، اپنی اس کوشش میں وہ اپنے ملکوں کے سماجی ڈھانچے کو بھی تباہ کر رہے ہیں۔