کیا فیض کی شاعری انسان اور خدا کے رُوحانی تعلق سے عاری ہے؟ یہ سوال "اقبالیات” میں ڈاکٹر ریاض قدیر کے مضمون ’اقبال اور فیض: قربتیں اور فاصلے‘ سے تازہ ہو گیا۔ ڈاکٹر قدیر نے جہاں سے شہر کو دیکھا وہاں سے ایسا نظر آتا ہو گا لیکن ادب میں یہی لطف ہے کہ اسے مختلف زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں فیض کی شاعری میں آخرت کا واضح تصور موجود ہے مگر اُن کی شاعری کو کبھی وہاں سے دیکھا ہی نہیں گیا جہاں سے یہ پہلو سامنے آتا۔
بعض نئی جہتیں دریافت کرنے کے لیے تین بنیادی موضوعات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں:
ا- شاعر اورمعاشرے کا تعلق
ب- عشق
ج-آخرت
شاعر اور معاشرے کا تعلق
فیض اور اُن کے معاشرے میں بنیادی تعلق اختلاف اور عناد کا ہے۔ اُنھوں نے مزدوروں، کسانوں اور عام آدمیوں کی طرف سے بات کی ہو تو وہ مزدور، کسان اور عام آدمی رُوس کے رہے ہوں گے، پاکستان کے تو نہیں ہو سکتے تھے۔ یہاں عوام نے ۶-۱۹۴۵ء کے انتخابات میں سوشلزم کو رد کر دیا۔ اُنہیں زبردستی اُس طرف ہانکنا اگر دوستانہ رویہ کہلائے تو ویسی بات ہو گی جیسے اسکول کے کئی بچے ’’نیکی‘‘ کرنے کے لیے اُس بڑھیا کو سڑک پار کروائیں جو سڑک پار کرنا نہیں چاہتی!
فیض جو نظریہ پیش کرتے تھے عوام اُسے پہلے ہی رد کر چکے تھے اور عوام نے جس چیز کو قبول کیا وہ فیض کو قبول نہیں تھی۔ پاکستان کے بارے میں اُن کا خیال تھا، ’’وہ انتظار تھا جس کا،یہ وہ سحر تو نہیں‘‘ (نظم ’صبحِ آزادی‘ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد لکھی گئی یعنی یہ بعد میں پیدا ہونے والی کسی مایوسی کی وجہ سے نہ تھی بلکہ عوام کے فیصلے سے بنیادی اختلاف کا اظہار تھی)۔ وجہ یہ نہ تھی کہ فیض ملک دشمن رہے ہوں۔دراصل اُنھوں نے معاشرے کے بارے میں جو نظریات اپنائے وہ یہی بتاتے تھے کہ عوام کا شعور اعتماد کے قابل نہیں ہوتا، اُنہیں اچھے برے کی تمیز نہیں ہوتی اور وہ اپنی مرضی سے نظامِ زندگی منتخب کرنے کا حق نہیں رکھتے:
پبلک کا ذہن تو اُن چیزوں کا عادی ہو جاتا ہے جو آپ اُن کو دکھاتے ہیں۔ اِس سے خاص طرح کی کنڈیشننگ ہو جاتی ہے۔ اِس کنڈیشننگ کی وجہ سے ایک خاص طرح کا ردِ عمل پیدا ہوتا ہے۔ (متاعِ لوح و قلم، ص۲۵۰)
شورش کاشمیری نے "اُس بازار میں” میں ۱۹۴۸ء میں اقبال کی برسی کا حال لکھا ہے۔ بازارِ حسن میں ’’نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے‘‘ پر مجرا ہو رہا تھا اور نوٹ لٹائے جا رہے تھے:
فیض پوری نیک نیتی کے ساتھ سمجھتے تھے کہ اُن کا کام اُس جراح جیسا ہے جسے ایک دیوانے کی فصد کھولنی ہے۔ممکن ہے اِس معاملے میں وہ درست اور عوام غلط رہے ہوں مگر دو باتوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا:
۱- فیض اور پاکستانی عوام کے درمیان نظریاتی اختلاف موجود تھا
۲- فیض کی نظر میں عوام صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہ رکھتے تھے
ہر ادیب کو حق ہے کہ وہ عوام کی رائے کا احترام نہ کرے، یہ حق فیض کو بھی حاصل تھا اور اُنھوں نے عمر بھر اِستعمال کیا۔ اُن کی شاعری کی افادیت یہی ہے کہ تجزیہ کرنے پر معلوم ہو سکتا ہے کہ معاشرے کی اکثریت کو حق ِ خوداِرادی سے محروم کرنے والے ادیب کا کرب اور مشکلات، سوز و ساز اور ہجر و وصال کیسے ہوتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ ایسے ادیب کا پہلا مسئلہ یہ ہو گا کہ اُس کے انفس اور آفاق میں تعلق ٹوٹ جائے گا یعنی اپنی باطنی کیفیات کے درست یا غلط ہونے کی تصدیق سامعین سے نہ کروا سکے گا (جدید مغربی ادب میں یہ رویہ غالباً بودلئر کے ساتھ پوری طرح کھل کر سامنے آیا اور میتھو آرنلڈ نے اِسے ایک نظریے میں تبدیل کیا مگر یہ دونوں صرف حوالے ہیں ورنہ ’’یہ بھی ہیں، ایسے کئی اور مضمون ہوں گے‘‘)۔ ادبِ عالیہ کا دعویٰ رکھنے والے ادیبوں کو یہ مسئلہ پیش آ سکتا ہے کہ اپنے ہی نظریات پر بھروسہ کرنا پڑے اور ناظرین سے مدد نہ لے سکیں کیونکہ ادبِ عالیہ کا مطلب یہی ہے کہ عام قاری کی رائے اعتبار کے قابل نہیں۔
چنانچہ فیض کا کفر خدا کا نہیں بلکہ انسان کا انکار ہے (ڈاکٹر قدیر نے بھی اُس پنجابی نظم کا حوالہ دیا ہے جس میں ’’ربیا سچّیا‘‘ کو مخاطب کر کے خلافت ِ آدم پر طنز کیا گیا )۔ فیض کے یہاں ہر قدم پر احساس ہوتا ہے کہ وہ اور اُن کے چند ہم خیال ہی ’’اہلِ صفا‘‘ ہیں، باقی سب ’’پیرویِ کذب و ریا‘‘ کرنے والے ہیں۔ اِس رویے کی موجودگی میں کم سے کم وہ عشق تو ممکن نہیں جس میں کسی ایک سے لگاؤ سب سے محبت کا اعتراف ہوتا ہے، جیسے قیس کو صرف لیلیٰ سے محبت تھی مگر اُس جذبے کی زد میں صحرا کے چرند و پرند سے لے کر حور، جبرئیل اور خدا سبھی تھے یا جس طرح میر نے کہا، سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق!
تصورِ عشق
سامعین کے انسانی جوہر سے منکر ہونے کی پہلی زد فیض کے عشق پر پڑی۔ ہمہ گیر نہ رہا بلکہ یوں لگا، ’’اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔۔۔‘‘ مولانا نظامی گنجوی سے لے کر علامہ اقبال تک ہمارے کسی بڑے شاعر کے یہاں محبت کے سوا کوئی اور دُکھ نہیں بلکہ سارے غم اِسی کی مختلف صورتیں ہیں۔ اقبال نے تو یہاں تک کہا کہ شریعت کا مطلب بھی اُن کی سمجھ میں یہی آیا ہے کہ کافر وہ ہوتا ہے جو عشق کا انکار کرے:
ز رسم و راہِ شریعت نکردہ ام تحقیق
جز اینکہ منکرِ عشق است کافر و زندیق
فیض منکرِ دیں نہیں، منکرِ عشق تھے۔ یہاں عشق کے فلسفے سے بحث نہیں کیونکہ اُس میں اختلاف ہو سکتا ہے، یہ دیکھنا چاہیے کہ عشق کا انکار کرنے سے شاعری میں کون سی کیفیات پیدا ہوئیں جو فیض کو دُوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ عشق کے بارے میں ’’تبدیلیِ مذہب‘‘ کا اعلان کرنے کے لیے اُنھوں نے نظامی گنجوی کا مصرع استعمال کیا جو نقش فریادی کے حصہ دوم میں سرنامے کے طور پر لکھا ہے، ’’دلے بفروختم، جانے خریدم۔‘‘ فیض کو پڑھنے والے عام طور پر پورے شعر سے واقف نہیں ہوتے اِس لیے صرف دُوسرا مصرع پڑھ کر سمجھ بیٹھتے ہیں کہ دل ’’بیچ کر‘‘ رُوح ’’خریدنا‘‘ اُس طرح ہے جیسے بعض ستم رسیدہ اپنا گردہ بیچ کر ضرورت کی کوئی چیز خرید لیتے ہیں۔ بے شک فیض نے یہی مفہوم پیش کیا مگر نظامی کا مطلب برعکس تھا:
چو من بے عشق خود را جاں ندیدم
دلے بفروختم جانے خریدم
یعنی جب میں نے عشق کے بغیر اپنے آپ کو بے رُوح پایا تو میں بھی کسی سے دل لگا بیٹھا اور یوں ’’دل دینے‘‘ سے مجھے رُوح مل گئی۔ نظامی ایک طرح سے اُس تصورِ عشق کے موجد تھے جو بعد میں مشرقی ادب میں رائج ہوا۔ فیض کی وسعت ِ مطالعہ کا ثبوت ہے کہ اُنھوں نے عشق کے انکار کے لیے اِسی شاعر کا مصرع لیا (اور ظاہر ہے کہ نظامی سے اختلاف رکھنے کا حق بھی رکھتے تھے)۔ غلط فہمی یوں پیدا ہوئی کہ اکثر دانشور یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ فیض نے نظامی کے پیش کیے ہوئے تصورِ عشق سے انکار کیا اور چونکہ ہمارے تمام بڑے شعرا نظامی ہی کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا عشق کے موضوع پر فیض اوراُن سب کے درمیان واضح اختلاف موجود ہے جس کی مثالیں نسخہ ہائے وفا میں قدم قدم پر دیکھی جا سکتی ہیں۔
عشق کی ہمہ گیری سے انکار کرنے کی وجہ سے فیض کو ’دو عشق‘ بنانے پڑے ہیں۔وہ عورت کے پرکشش ہونے سے انکار نہیں کرتے مگر اُس کشش میں کسی بلند جذبے کی تلاش کو فضول سمجھتے ہیں: ’’یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے‘‘ (بالکل اُس طرح جیسے نانگا پربت میں مستنصر حسین تارڑ کے ایک کمیونسٹ دوست چناب میں ٹھنڈے کیے ہوئے تربوز کو جنت کا میوہ قرار دیتے ہیں اور تارڑ یاد دلاتے ہیں کہ آپ تو جنت پر یقین نہیں رکھتے تو دوست کہتے ہیں، ’’پر میں جنت کے میووں پر تو یقین رکھتا ہوں تارڑ صاحب‘‘)!
اب خواہ لیلائے وطن کو بھی اُسی رنگ میں چاہتے ہوں جس رنگ میں دوسری لیلاؤں کو چاہا کرتے تھے مگر بہرحال عشق ایک سے زیادہ ہوں تو ہوس کہلاتے ہیں۔ دونوں میں فرق یہی ہے کہ عشق ایک سے ہوتا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات محبوب اور خدا بھی ادبی اعتبار سے الگ نہیں رہتے (اقبال نے بھی اپنے آپ کو ’عاشقِ ہرجائی‘ نہیں کہا بلکہ اعتراض کرنے والوں سے یہ عنوان لے کر اُس کی نفی کی، ’’جستجو کُل کی لیے پھرتی ہے اجزا میں مجھے‘‘)!
یہ بھی ملاحظہ کریں: تیری آواز کے سائے…… حبیبہ طلعت
جائز ہے کہ اگلے تمام شاعروں نے کسی چیز کو عشق کہا اور فیض اُس کی ضد کو عشق کہتے ہیں تو سمجھا جائے کہ تمام شاعر غلط اور فیض درست رہے ہوںگے۔ اُن کی وحشت، اِن کی شہرت ہی سہی مگر مشکل یہ ہو گی کہ اگر عشق یہ ہے تو پھر اگلے شاعر جسے عشق کہتے تھے وہ کیا تھا؟ ہمارے بیشتر دانشوروں نے نادانستگی میں یہی راستہ اختیار کیا اور اگلے شاعروں کے جذبات پر طرح طرح کے عنوانات لگانے پڑے، مثلاً میر کے یہاں کسی اور قسم کی جمالیات دریافت ہوئی، غالب کے یہاں دوسری طرح کی اور اقبال تک پہنچتے پہنچتے کہنا پڑا کہ وہاں صرف قوم کا عشق ہے، مجاز کی کوئی بات نہیں۔ اقبال کے بارے میں یہ غلط فہمی فیض کے بعد ہی عام ہوئی ورنہ اگلی نسل کو اقبال کی شاعری میں اپنے تمام جذبات کی تسکین مل جاتی تھی۔ شورش کاشمیری نے "اُس بازار میں” میں ۱۹۴۸ء میں اقبال کی برسی کا حال لکھا ہے۔ بازارِ حسن میں ’’نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے‘‘ پر مجرا ہو رہا تھا اور نوٹ لٹائے جا رہے تھے:
فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے
ہمارے ادبِ عالیہ کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر عشق اُسے سمجھا جائے جو رُوس اور فرانس کے دورِ انحطاط سے برآمد کیا گیا تو پھر مشرق کے عظیم شعرا کا عشق کچھ اور چیز ثابت ہوتا ہے یہاں تک کہ نظامی کی لیلیٰ مجنوں فراریت پسندی کا شاہکار ٹھہرتی ہے۔ بزرگوں کا اعتبار کریں تو فیض کی کیفیات ہوس قرار پاتی ہیں مگر اِس صورت میں مغالطے پیدا ہونے کا امکان کم ہے اور فیض کا یہ امتیاز بھی کھل کر سامنے آتا ہے کہ اگلوں نے جس چیز کو شجرِ ممنوعہ سمجھ کر چھوڑ دیا اِنھوں نے ہمیں اُس کی داخلی کیفیات کا تجربہ کر دکھایا۔
چنانچہ اگلے شاعروں کے یہاں ہوس کی جتنی نشانیاں ’’غیر‘‘ کے حوالے سے بیان ہوئیں اُن میں سے اکثر فیض کے یہاں اپنی کیفیات کے طور پر ملتی ہیں، مثلاً:
ہر داغ ہے اِس دل میں بجز داغِ ندامت
اگلے شاعروں نے عشق کی پہچان یہی بتائی کہ اُس میں ندامت، نیازمندی اور خوداحتسابی ہوتی ہے یہاں تک کہ اقبال جو ہمیشہ خودی کا دم بھرتے تھے اُن کا ’’داغِ ندامت‘‘ غالباً سب سے زیادہ چمکتا ہے۔ فیض اُردو کے منفرد شاعر ہیں کہ مجبوری اور بے بسی پھٹی پڑتی ہیں مگر نیازمندی مشکل سے ملتی ہے اور ندامت نام کو نہیں ہے۔
ہوس کا سب سے زیادہ چونکا دینے والا پہلو فیض کے یہاں یہ سامنے آتا ہے کہ گہرے تجزیے پر کبھی کبھی اُن کا محبوب واہمہ اور باطل بھی ثابت ہوتا ہے اور یہ غالباً شاعرانہ مہارت کا کمال ہے:
دشتِ تنہائی میں، اے جانِ جہاں، لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے،ترے ہونٹوں کے سراب
دشتِ تنہائی میں، دُوری کے خس و خاک تلے
کھِل رہے ہیں، ترے پہلو کے سمن اور گلاب
محبوب کی تین چیزوں میں سے صرف آخری یعنی ’’پہلو‘‘ کو ایسی تشبیہ دی گئی جو سچ مچ وجود رکھتی ہو یعنی ’’سمن اور گلاب‘‘! اُس سے پہلے محبوب کی ’’آواز‘‘ اور ’’ہونٹوں‘‘ کو بالترتیب ’’سائے‘‘ اور ’’سراب‘‘ سے تشبیہ دی جا چکی لہٰذا تیسری چیز اور اُس کی تشبیہ بھی سائے اور سراب کی طرح فرضی محسوس ہونے لگتی ہیں۔ نظم کا عنوان ’یاد‘ ہے اس لیے محبوب غائب ہو تو حرج نہیں مگر پوری نظم میں کوئی ایسی بات سامنے نہیں آتی جس سے معلوم ہو کہ محبوب شاعر کے محسوسات سے باہر کوئی وجود رکھتا بھی ہے۔
فیض نے ہر جگہ تو نہیں مگر متعدد مقامات پر استعاروں کو اِسی طرح گھمایا ہے کہ وہ محبوب کے وجود کو واہمہ اور طلسم ماننے کی راہ میں حائل نہیں ہوتے، ’’جیسے بچھڑے ہوئے کعبے میں صنم آتے ہیں،‘‘مثلاً:
یہ رات اُس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے، تجھ سے عظیم تر ہے
وہ درد کون سا ہے جو محبوب سے بھی عظیم تر ہے؟ سوانح کی روشنی میں جو بھی ہو مگر نظم اپنے آپ میں بھی اُس درد کی دلچسپ تصویر پیش کرتی ہے جس کے رنگ جتنے گہرے اور دلکش ہوتے جائیں، منظر اُتنا ہی غیرحقیقی اور خوابناک ہوتا جاتا ہے۔ یہ اذیت انگیز اور مضطرب کرنے والے خواب کی صرف تصویرکشی نہیں بلکہ قاری کو اُس وہم کی دنیا میں پہنچا دینے کا ذریعہ بھی ہے۔ یہی خوبی ہے۔
چنانچہ ہوس کی تین اہم خصوصیات کا تجربہ فیض کی شاعری سے بآسانی ہو جاتا ہے:
۱- یہ ندامت، نیازمندی اور خوداحتسابی کی متحمل نہیں
۲- محبوب ’’کافی‘‘ نہیں ہے
۳- محبوب واہمہ اور باطل بھی ہو سکتا ہے
غور کیجیے تو یہ ساری باتیں شاعر اور عوام کی باہمی دشمنی سے نکلی ہوئی معلوم ہوتی ہیں جس کا پہلے ذکر ہوا۔ شاعر اپنا نظریہ عوام پر زبردستی مسلط کرنا چاہتا ہے اور اُنہیں وہ قبول نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ رویہ یکطرفہ محبت، ہوس اور وہم کی طرف لے جانے والا ہے (چونکہ فیض کی ہمت ِ کفرنے اُنہیں خدا کا نہیں بلکہ انسان کا انکار کرنے کی طرف مائل کیا لہٰذا اُن کے کفر میں محبوب کے ’’حقیقی‘‘ ہونے کا انکار بھی شامل ہو گیا)۔
تصورِ آخرت
عوام دشمنی اور عشق سے انکار کو سمجھنے کے بعد فیض کے تصورِ آخرت کو بہتر طور پر پہچانا جا سکتا ہے اور میرے خیال میں اُسے شخصی رجحانات اور ذاتی عقائد کی بجائے نظریے اور ادبی مطمع نظر سے منسوب کرنا بہتر ہو گا۔ فیض کا تصورِ آخرت جہنم ہے۔
فیض کے یہاں جہنم کی روایتی تصویرکشی نہیں (وہ تنبیہ کے لیے ہوتی ہے اِس لیے عموماً بیرونی طور پر کی جاتی ہے)۔ فیض کی شاعری میں موت کے بعد کی زندگی جہنم کا داخلی تجربہ ہے، مثلاً ’ہارٹ اٹیک‘ میں موت محبوب سے وصل نہیں بلکہ دُوری کی طرف لے جارہی ہے۔ اِسی طرح جب کبھی اُن کی شاعری میں وہ تصورات آئیں جو حیات بعد الموت کے استعارے ہوتے ہیں، مثلاً بہار، برسات وغیرہ تو اُن کے ساتھ عذاب کا تصور عام طور پر خودبخود اُبھرتا ہے:
آئے کچھ اَبر، کچھ شراب آئے
اُس کے بعد آئے جو عذاب آئے
ظاہر ہے شراب نوشی کا یہ تصور غالب سے بہت مختلف ہے جو اِس لیے شراب پیتے ہیں کہ آخرت میں ملے گی تو یہاں کیوں نہ پی جائے، اور آخرت میں شراب یافتہ ہونے کا یقین اِس لیے کیونکہ مسلمان ہیں (’’یہ سوئے ظن ہے ساقی ٔ کوثرؐ کے باب میں‘‘)! فیض کے یہاں شراب کے ساتھ کوثر اور رحمت نہیں بلکہ آخرت کے عذاب کا تصور اُبھرتا ہے۔’بہار آئی‘ کے دلکش اور خوبصورت استعاروں میں یہ جہنم پوری طرح سمٹ آیا جو فیض کے تصورِ آخرت کی بنیاد ہے:
اُبل پڑے ہیں عذاب سارے
ملالِ احوالِ دوستاں بھی
خمارِ آغوشِ مہ وشاں بھی
دیکھنے میں سادہ نظم ہے مگر صرف انہی تین مصرعوں کو پوری طرح محسوس کر لیا جائے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ کون سی کیفیت اور مقام ہے جہاں ’’خمارِ آغوشِ مہ وشاں‘‘ عذاب ہو جائے؟ ظاہر ہے دائمی مایوسی کی وہ وادی جہاں آغوش کی اُمید نہ رہی ہو، صرف اُس کا خمار ملے اور اِس وجہ سے سزا بن جائے!
چنانچہ جن لوگوں کے خیال میں فیض کے یہاں آخرت کا تصور موجود نہیں وہ غالباً حوروں اور فرشتوں کا تذکرہ تلاش کرتے رہے اور یہ بھول گئے کہ نسخہ ہائے وفا کا شاعرجس راستے پر چلا اُس کا منطقی انجام جہنم ہے جو نہایت خوبی کے ساتھ وہاں موجود ہے۔ جہنم کا داخلی تجربہ ییٹس کے یہاں بھی ملتا ہے (مثلاً جہاں وہ خواہش ظاہر کرتا ہے کہ مرنے کے بعد پھر انسانی یا فطری صورت میں واپس آنے کی بجائے غیر ذی روح ہو جائے) اور دلچسپ بات ہے کہ فیض کی طرح ییٹس کو بھی اِس کا اعتراف نہیں کہ جہنم میں پہنچ چکا ہے مگر سادہ سے سادہ الفاظ میں زیادہ سے زیادہ پیچیدہ کیفیات کا تجربہ کروانے اور مکروہ ترین افعال اور اقدار کو زیادہ سے زیادہ دلکش بنانے میں فیض کا نمایاں امتیاز اُردو زبان کے امکانات کو بھی ظاہر کرتا ہے کیونکہ جدید ادب میں صرف پسندیدہ ہی نہیں بلکہ ناپسندیدہ موضوعات بھی اہمیت رکھتے ہیں:
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ِ ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے