[ پاکستان کا فوجی بجٹ ]
اس چیپٹر کے چار حصے ہیں:
پہلے حصے میں فوجی بجٹ کا تفصیلی تذکرہ ہے جس کی مالیت 869 ارب ہے۔
دوسرے حصے میں سول بیوروکریسی جس کا بجٹ 421 ارب ہے۔
تیسرے حصے میں 90% بجٹ کھا جانے والوں کا ذکر ہے۔
اور چوتھے نمبر پہ حاصل شدہ بجٹ کا 70% کھانے والوں کا تزکرہ ہے۔
ملک چلانے کے ذمہ دار چونکہ سیاستدان ہیں اس لئے اپنی بدحالی کا پہلا سوال کرنا انہی سے بنتا ہے لیکن سیاسی حلقے اور ان کے لےپالک میڈیا پرسن ایسی بات ہمیشہ فوج کے اوپر پلٹ دیتے ہیں بلکہ سیاسی ذوق رکھنے والے طبقات میں اس پروپیگنڈے کے تحت یہ پرسیپشن بہت عام ہے کہ جس ملک کا 80% بجٹ فوج کھا جاتی ہو اور کرتی بھی کچھ نہ ہو تو اس ملک میں کسی کا کیا بھلا ہو سکتا ہے، اس لئے سوچا کہ معیشت کے اس جائزے میں افواج پاکستان کا فوجی بجٹ بھی ڈسکس کر لینا چاہئے تاکہ اس بھولی بھولی عوام کو اس بے بنیاد صدمے سے بھی نجات مل جائے۔
میرا موضوع معیشت ہے اسلئے سیاست پر بات نہیں ہوگی لیکن یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ فوج نے جب بھی عنان حکومت سنبھالی ہے وہ داخلی سیاسی جوتم پیزار کے ادوار میں ہی سنبھالی ہے اگر فوجی ادوار کو ملکی تاریخ سے نکال کے دیکھا جائے تو پیچھے صرف سیاسی رسہ کشی بچتی ہے جو فوج کے نہ آنے سے بہرصورت انارکی کی صورت اختیار کر جاتی جبکہ فوجی حکومتوں نے بہتر مالی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور انفرسٹرکچر کی ڈویلپمنٹ میں بھی اہم ترین کردار ادا کیا، واپس اپنے موضوع پر چلتے ہیں۔
فوجی بجٹ کا دائرہ کار:
فوجی بجٹ صرف آرمی استعمال نہیں کرتی بلکہ وزرات دفاع کے ذیلی سب محکمے جن میں آرمی، ائیرفورس، نیوی، جی۔ایچ۔کیو، پیرا ملٹری فورسز، بارڈر فورسز، فوجی چھاؤنیوں کا انتظام، فوجی ہسپتال، فوجی اسکول، کالونیاں، ویلفئیر اور پینشن کے علاوہ بالخصوص اسلحے کی مقامی تیاری و بیرونی خریداری، وار۔ٹول۔مشینری، ٹینک، توپیں، جہازوں کی خریداری، فاضل پرزہ جات، ریپئیر اینڈ مینٹیننس، کنزیوم ایبل اسٹورز اور فیول کے علاوہ نہ جانے کیا کیا اسی بجٹ میں انجام دیا جاتا ہے۔
فوج اپنی کالونیوں، سکولوں اور ہسپتالوں کا نظام اس لئے نہیں چلاتی کہ وہ کوئی سپیشل لوگ ہیں بلکہ اس کا پہلا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فوجی اطمینان کے ساتھ اپنے کام پر توجہ رکھیں اور ان کے گھر کی ضروریات کیلئے ایک منظم نظام موجود ہو تاکہ جب کوئی بیس کروڑ کا جہاز لیکر فلائینگ پر جائے تو پیچھے بیمار بیوی بچے یا والدین اور دیگر گھریلو کاموں کی کوئی فکر اس کے پر پہ سوار نہ ہو ورنہ گھریلو تفکرات میں مبتلا جوان ہر ضروری مشن کو خراب ہی کریں گے، واضع رہے کہ ان سہولتوں میں سے کوئی بھی فری میں نہیں ملتی بلکہ میڈیکل سمیت ہرچیز کی کاسٹ فوجی کو اپنی جیب سے ادا کرنی پڑتی ہے البتہ یہ سہولت سول انتظام جیسی مہنگی ترین نہیں ہوتی۔
اس سسٹم کا ثانوی مقصد فوج کو عوام کیساتھ ایک ونڈو پر مکس۔اپ ہونے سے باز رکھنا ہے ورنہ جہاں سکول، ہسپتال اور بینک میں آپ بل جمع کرانے کھڑے ہوں گے وہاں فوج بھی اپنی ضروریات کیلئے آئے گی تو فوج اور عوام کے درمیان بیشمار بدمزگیاں پیدا ہونے کا خطرہ ہوگا، ہر جگہ یہاں جان پہچان سے کام ہوتا ہے تو فوجی بھی عوام کیساتھ یا تو جان پہچان کے چکر میں پڑیں گے یا پھر دھکم پیل میں ملوث ہوں گے، پھر کام کے وقت ہر کوئی ان چکروں کیلئے چھٹیاں بھی مانگتا رہے گا تو فوج کا اپنا کام کون کرے گا۔
فوجی بجٹ کی ایلوکیشن اور فیصد کا طریقہ کار:
دسویں چیپٹر میں یہ بیان ہوا تھا کہ ریوینیو کلیکشن اور بجٹ دو علیحدہ چیزیں ہیں، بجٹ ہمیشہ کلیکشن سے زیادہ ہوتا ہے اس کی کمپوزیشن اور وجوہات بھی وہاں بیان ہو چکی ہیں، فوجی بجٹ ایک طرف مرکزی ریوینیو کلیکشن سے ادا ہوتا ہے تو دوسری طرف اس کی ایلوکیشن بھی مرکزی بجٹ سے ہوتی ہے، تیسری طرف ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ فوجی بجٹ قوم مہیا کرتی ہی اسلئے پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ قوم کا وہ پرنسپل فنڈ کونسا ہے جس کا 80% فوجی بجٹ بنتا ہے کیونکہ مرکزی بجٹ تو قوم کا کل بجٹ نہیں ہے نہ مرکزی کلیکشن قوم کی کل کلیکشن ہے اس کیساتھ صوبوں کو بھی ملایا جائے تو ہی کل ریوینیو یا کل بجٹ کا والیم سامنے آئے گا۔
ہمارے پاس ایسی تین رقمیں موجود ہیں جن کیساتھ فوجی بجٹ کی فیصد معلوم کی جا سکتی ہے، حقیقی طور پر یہ شرح مرکزی بجٹ سے ہی نکالنی چاہئے لیکن ایکبار ہم ان تینوں آپشنز کو بھی چیک کریں گے تاکہ اس بحث کا کوئی گوشہ مخفی نہ رہ جائے، رواں سال میں مرکزی کلیکشن 2700 ارب، تمام صوبوں کی کلیکش 3470 ارب اور کل ملا کر یہ رقم 6170 ارب روپے بنتے ہیں، اس لحاظ سے 869 ارب کا فوجی بجٹ 2700 ارب کا 32.18 %، 3470 ارب کا 25.04 %، ٹوٹل رقم 6170 ارب کا 14.08% اور جی۔ڈی۔پی کا 2.8% بنتا ہے۔
2016 کی ہماری آبادی اندازاً 201.995 ملیئن تھی، جی۔ڈی۔پی کو کل آبادی پر تقسیم کیا جائے تو فی کس سالانہ آمدنی تقریباً 145000 روپے بنتی ہے، اگر فوجی بجٹ کو کل آبادی پر تقسیم کیا جائے تو فی کس 4300 روپے آتے ہیں، یعنی ہر بندہ 4300 روپے فوجی بجٹ میں دیتا ہے اور لاکھ روپے کی باتیں سنا جاتا ہے۔
ذیل میں گذشتہ 28 سال کی ورکنگ دے رہا ہوں جو صرف مرکزی بجٹ پر کی گئی ہے، جب اسی ورکنگ کو کل ملکی بجٹ پر کریں گے تو یہ شرح بہرصورت ±10% کے آس پاس ہی رہے گی کیونکہ فوجی بجٹ پوری قوم کے بیہاف پہ دیا جاتا ہے اسلئے مرکز اور تمام صوبوں کے بجٹ ملا کر ہی اس سے فوجی بجٹ کی فیصد نکالی جانی چاہئے لیکن میرے پاس چونکہ ماضی کے صرف مرکزی بجٹ کے فیگرز ہیں لہذا ان کے حساب سے جو فیصد بنتی ہے وہ اس طرح سے ہے۔
1988 مرکزی بجٹ 186.40 ارب، فوجی بجٹ 49.00 ارب… 26.28%
1989 مرکزی بجٹ 216.31 ارب، فوجی بجٹ 53.00 ارب… 24.50%
1990 مرکزی بجٹ 230.18 ارب، فوجی بجٹ 61.00 ارب… 26.50%
1991 مرکزی بجٹ 258.30 ارب، فوجی بجٹ 73.00 ارب… 28.25%
1992 مرکزی بجٹ 393.00 ارب فوجی بجٹ 85.00 ارب.… 21.62%
1993 مرکزی بجٹ 332.51 ارب فوجی بجٹ 93.00 ارب… 27.96%
1994 مرکزی بجٹ 385.00 ارب فوجی بجٹ 101.50 ارب… 26.36%
1995 مرکزی بجٹ 431.22 ارب فوجی بجٹ 116.00 ارب… 26.90%
1996 مرکزی بجٹ 520.00 ارب فوجی بجٹ 128.00 ارب… 24.61%
1997 مرکزی بجٹ 552.00 ارب فوجی بجٹ 136.50 ارب… 24.72%
1998 مرکزی بجٹ 606.30 ارب فوجی بجٹ 145.00 ارب… 23.91%
1999 مرکزی بجٹ 648.20 ارب فوجی بجٹ 152.50 ارب… 23.52%
2000 مرکزی بجٹ 698.00 ارب فوجی بجٹ 159.50 ارب.… 22.85%۔
2001 مرکزی بجٹ 751.70 ارب فوجی بجٹ 176.00 ارب… 23.41%
2002 مرکزی بجٹ 742.00 ارب فوجی بجٹ 195.50 ارب… 26.34%
2003 مرکزی بجٹ 805.23 ارب فوجی بجٹ 215.00 ارب… 26.70%
2004 مرکزی بجٹ 902.77 ارب فوجی بجٹ 240.50 ارب… 26.64%
2005 مرکزی بجٹ 1098.50 ارب فوجی بجٹ 273.00 ارب… 24.85%
2006 مرکزی بجٹ 1315.00 ارب فوجی بجٹ 299.50 ارب… 22.77%
2007 مرکزی بجٹ 1874.00 ارب فوجی بجٹ 324.50 ارب… 17.31%
2008 مرکزی بجٹ 2010.00 ارب فوجی بجٹ 368.00 ارب… 18.30%
2009 مرکزی بجٹ 2897.10 ارب فوجی بجٹ 431.00 ارب… 14.87%
2010 مرکزی بجٹ 3259.00 ارب فوجی بجٹ 444.00 ارب…13.62%
2011 مرکزی بجٹ 3767.00 ارب، فوجی بجٹ 494.00 ارب… 13.11%
2012 مرکزی بجٹ 2767.00 ارب، فوجی بجٹ 698.59 ارب… 25.24%
2013 مرکزی بجٹ 3510.00 ارب، فوجی بجٹ 777.00 ارب… 22.13%
2014 مرکزی بجٹ 3800.00 ارب، فوجی بجٹ 875.02 ارب… 23.02%
2015 مرکزی بجٹ 4313.00 ارب، فوجی بجٹ 780.30 ارب… 18.09%
2016 مرکزی بجٹ 4394.00 ارب، فوجی بجٹ 869.00 ارب… 19.78%
ایوب خان صاحب نے اپنے دور میں 10 بجٹ پیش کئے ہیں، یحٰی خان صاحب نے 03، ضیاءالحق صاحب نے 11 اور مشرف صاحب نے 08 بجٹ پیش کئے ہیں، کل ملا کر ان 32 بجٹوں میں دو بہت ہی عجیب و غریب باتیں نظر آتی ہیں، پہلی یہ کہ ان فوجی صدر مملکت صاحبان کے ادوار میں ایک بھی فائنانس ایوارڈ متفقہ طور پر جاری نہیں ہوا حالانکہ مرکز اور صوبوں میں فائنانس منسٹرز بھی خود انہی کے مقرر کردہ تھے اور ایوارڈ بھی چونکہ صدر صاحبان کی نگرانی اور منظوری سے جاری ہوتا ہے پھر بھی یہ "ڈکٹیٹر حضرات” اپنے ہی مقرر کردہ منسٹروں کو ڈنڈا دے کر ایک بھی متفقہ ایوارڈ جاری نہ کرا سکے۔
دوسری بات یہ کہ فوج سے بدگمان عوام کے خیال میں تو جرنیلوں کے منہ کو پیسہ لگ گیا ہے اور فوج گاہے بگاہے لوٹ مار کرنے ہی آتی ہے لیکن کتنی حیرت کی بات ہے کہ نہ تو فوجی ڈکٹیٹر اپنی مرضی کا متفقہ ایوارڈ کروا سکے اور نہ ہی عوام پر بھاری ٹیکسز ڈال کر اپنی مرضی کا کھلا ڈُلا فوجی بجٹ ہی منوا سکے بلکہ آخری ڈکٹیٹر معیشت کے معاملے میں جو احسان اس قوم پر کر گیا ہے اس کا ادراک بہت بعد میں جا کے ہوگا یا پھر تعصب کی پٹی اترنے کے بعد ہوگا، فوج نے اگر لوٹ کھوٹ ہی کرنی تھی تو اپنے ادوار میں کم از کم فوجی بجٹ تو کھلا ڈُلا ارینج کر ہی سکتی تھی اور منسٹروں پر سختی کرکے متفقہ ایوارڈ کروانے کی بجائے انہیں ان کی مرضی پر چھوڑ دینا بھی ڈکٹیٹرشپ کے منافی رویہ دکھائی دیتا ہے۔
ایک دوسرا اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ افواج پاکستان اپنے بجٹ کو جسٹیفائی کرنے کیلئے مسئلہ کشمیر اور دیگر کشیدہ امور حل نہیں ہونے دیتیں تاکہ ان کو بجٹ ملتا رہے یہی الزام پڑوسی فوج پر بھی لگایا جاتا ہے کہ یہ تنازعات اگر حل ہوگئے تو ان افواج کو اتنا بجٹ کون دے گا؟ لیکن کیا وجہ ہے کہ بنگلہ دیش کا کرنٹ بجٹ 280 ارب، سری لنکا کا 230 ارب، ایران، اومان، تائیوان، ملائیشیا اور ترکی کا 1000 ارب، جاپان، فرانس، انگلینڈ، جرمنی اور انڈیا کا 5000 ارب سے اوپر ہے اور سعودی عرب کا 8000 ارب ہے، ان ممالک کو کونسا مسئلہ کشمیر درپیش ہے جی…؟
پاک آرمی کا بجٹ کل جی۔ڈی۔پی کا 2.8% ہے جبکہ امریکن آرمی کا 4.7%، روسی فوج کا 3.9%، اسرائیل کا 6.9%، سعودیہ کا 11.4%، امارات کا 6.9%، جبکہ ان کی اکانومی بھی ہم سے کئی گنا بڑی ہے جس کا یہ فیصد ہے، افغانستان کا 6.4 اور انڈیا کا 2.25% ہے، انڈیا کا بجٹ ہمارے فوجی بجٹ سے چھ گنا زیادہ بلکہ جرمنی، برازیل، ساؤتھ کوریا، اٹلی اور کینیڈا سے بھی زیادہ ہے جس کی مالیت پرچیز پاور کے حساب سے 5100 ارب روپے بنتی ہے۔
پاکستان ایک نطریاتی ملک ہے اور بہت اہم جیو سٹریٹجک لوکیشن پر واقع ہے، آپ کی نظر میں شائد ایسا نہ ہو لیکن دنیا کی نظر میں ایسا ہی ہے اس لئے طاقتور اقوام عالم کا یہ مشترکہ ایجنڈا ہے کہ کسی طرح اسے ختم کیا جائے یا کم از کم اس کا مضبوط دفاعی نظام تباہ کیا جائے، افواج پاکستان نے پچھلے دس سال میں جو قربانیاں دی ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، یہ قربانیاں اسی بات کی غماز ہیں کہ ملک و قوم کے خلاف کچھ ایسا ضرور چل رہا ہے جس کے آگے مضبوط دیوار صرف افواج پاکستان ہی ہیں۔
ان حالات میں جہاں پاک فوج کا بجٹ کل ملکی تاریخ میں آپ 30% سے زیادہ ثابت نہیں کرسکتے وہاں اسے 80% گرداننا اور عوام کی کسمپرسی کا باعث قرار دینا ایک شرمناک جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں، پاک آرمی قوت کے اعتبار سے دنیا کی پانچویں بڑی طاقت ہے لیکن اخراجات کے معاملے میں پچیسویں نمبر پر ہے، اور دنیا کے مقابلے میں بہت ہی کم معاوضے پر کام کرنے والی مؤثر فوجی قوت ہے، کسی ایجنڈے یا طبقاتی بغض کی بنا پر افواج پاکستان کے کیخلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ دشمن کا کام آسان کرنے کے مترادف ہے اور کچھ بھی نہیں۔
آپ مجھے بوٹ پالشیا کہنا چاہیں تو ضرور کہیئے لیکن یہ بھی یاد رکھیئے کہ اسی سیریز میں معاشی اصلاحات کے حوالے سے جہاں میں نے فوج کو سراہا وہاں دوسرے لائق تحسین معاشی کارناموں پر شوکت عزیز، شوکت ترین، گیلانی صاحب، زرداری صاحب اور میاں شہباز شریف کو بھی خوب داد دی ہے، ریوینیو کے معاملات میں جہاں مشرف گورنمنٹ کو سراہا وہاں پی۔پی اور نواز لیگ کو بھی نظرانداز نہیں کیا۔
[ سول حکومتوں کا بھاری بجٹ ]
فیڈرل گورنمنٹ کی تنخواہیں بشمول سویلینز کی پینشن اور دیگر اخراجات بجٹ۔2016 کے شیڈول۔6 کے مطابق 421 ارب ہے، صدر اور وزیراعظم ہاؤسز کا بجٹ لگ بھگ ایک ارب ہے اور صوبائی سول حکومتوں کا بجٹ اس کے علاوہ ہے، مرکز اور صوبوں کی سول گورنمنٹ کے تمام اخراجات ملائیں تو یہ بھی فوجی بجٹ کے برابر بن جاتے ہیں۔
[ ملک کا 80 % ریوینیو کھانے والے ]
ہم نے چیپٹر۔ایٹ میں پڑھا تھا کہ 98 میں ہماری کل مرکزی و صوبائی ریوینیو کلیکشن صرف 550 ارب روپے تھی اور 2017 میں 6170 ارب روپے تھی، اس عرصے میں کوئی قابل ذکر صنعتی انویسٹمنٹ نہیں ہوئی پھر بھی 12 گنا زیادہ کلیکشن ہوئی جس کا صاف ستھرا مطلب ہے کہ ٹیکس کلیکش نیٹ کو وسیع کیا گیا ہے۔
اب کہنے کی بات یہ ہے کہ آج کے مقابلے میں 98 تک عوام صرف 20 فیصد کاروبار پر ٹیکس دیتی تھی اور 80 فیصد ٹیکس چوری کرلیتی تھی، آج بھی صرف آدھا کاروبار ریکارڈ پر آیا ہے باقی آدھا ابھی بھی ٹیکس نیٹ سے باہر ہے، اس لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ 80% وسائل افواج پاکستان نہیں بلکہ 80% ٹیکس عوام خود ہی کھا جاتی تھی، اور 50% ابھی بھی کھا رہی ہے، اسے ٹیکس نیٹ میں لانا چاہئے کیونکہ اس سیریز میں ریوینیو کلیکشن کی اہمیت جس طرح واضع ہو کر سامنے آئی ہے اس کا تقاضا یہی ہے کہ ملکی اکانومی کو جتنا جلدی ممکن ہو سکے سوفیصد رجسٹر کیا جائے تاکہ وہ پچاس فیصد ریوینیو جو اب بھی عوام کھائے جا رہی ہے جس کی مرکزی و صوبائی مالیت بھی تقریباً 6000 ارب روپیہ بنتی ہے وہ بھی قومی خزانے میں جمع ہو جائے۔
[ ملک کا 70% ریوینیو کھانے والے ]
سوئس اکاؤنٹس اور پاناما لیکس کی کہانیاں منظر عام پر آنے کے بعد اس بات میں اب کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ مملکت کی حکمران اشرافیہ نے مختلف بہانوں سے عوام کو آپس میں الجھا کر ریاستی وسائل کو اپنے مقاصد کیلئے بے دریغ استعمال کیا ہے اور حاصل شدہ سرمائے کا صرف 30% تک ہی عوام یا انفراسٹرکچر پر خرچ کیا ہے باقی کا 70% سب مل ملا کے کھا پی گئے ہیں، مرکزی اور صوبائی بجٹوں میں، انفراسٹرکچر، صحت، تعلیم اور ترقیاتی کاموں کیلئے کتنی رقم خرچ ہوتی ہے اور اس سے عام آدمی کی زندگی میں کیا بہتری آتی ہے اس بات کی اصلیت ہر اس بندے کو پتا ہے جو اس معاشرے کا حصہ ہے۔
۔۔۔۔۔
اگلے چیپٹر میں قرضوں کا ایک اجمالی جائزہ اور ٹریکل۔ڈاؤن اکانومی پر گفتگو کریں گے اس کے بعد بینکنگ کی باری آئے گی۔
۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔
مضمون کا تیرہواں حصہ یہاں ملاحظہ کریں