[مطالبات کے حل کی کوششیں]
یہ سارے مطالبات وقت کے ساتھ ساتھ حل ہوتے گئے، اولین طور پر گیس، بجلی اور تیل پر رائلٹی دینے کیلئے یوٹیلٹی بلوں پر سرچارج/ٹیکس کا نفاذ کیا گیا، اس سرچارج پر قوم نے ہی چیخ و پکار کرتے ہوئے سرتاج عزیز کو سرچارج عزیز کا لقب دیا تھا، اگر قوم نے صوبوں کے مطالبات منوانے ہیں تو پھر ٹیکس بھی دینا ہوگا، خالی جیب سے تو کوئی مطالبہ پورا نہیں ہوا کرتا۔
پھر میاں صاحب نے اپنے اس دور حکومت میں کسٹم ڈیوٹی کو بھی قابل تقسیم آمدنی میں شمار کرا دیا جو اس سے قبل کلی طور پر مرکز اپنے پاس رکھتا تھا، اس کے علاوہ ورکرز ویلفئیر فنڈ جو wwf کے نام سے ہر انکم ٹیکس ریٹرن کیساتھ جمع ہوتا ہے وہ بھی کلی طو پر صوبوں کے حوالے کر دیا، اب wwf جس صوبے سے جتنا کلیکٹ ہوتا ہے وہ اسی صوبے کو دے دیا جاتا ہے، wwf بنیادی طور پہ صنعتی کارکنوں کیلئے سرکاری ہسپتال چلانے کیلئے دیا جاتا ہے۔
باقی کی ساری ڈیمانڈ 2010 کی اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے آصف علی زرداری صاحب کی کوششوں اور میاں شہباز شریف کی طرف سے پنجاب کی بے پناہ مالی قربانی کی وجہ سے پوری ہوئیں، تاریخ میں پہلی بار 2010 کا ایوارڈ ایسا تھا جس میں صوبوں کی ہر ڈیمانڈز کو بہرصورت پورا کر دیا گیا ہے، پنجاب کی خواہش تھی کہ وہی آبادی والا کلیہ ہی ٹھیک ہے کیونکہ صوبوں کی ڈیمانڈ سے برابری کی بجائے پنجاب کو کم فندز ملیں گے، پھر بھی زرداری صاحب کی خواہش ہر میاں شہباز شریف نے پنجاب کے حقوق سے دستبرداری کرتے ہوئے یہ فارمولا مان لیا، میاں شہباز شریف کی اس قربانی کے بغیر یہ ہرگز ممکن نہیں تھا۔
[این۔ایف۔سی ایوارڈ کا نیا فارمولا]
ڈویژیبل پول پہلے صرف آبادی پر تقسیم کیا جاتا تھا پھر 2010 سے نئے فارمولے میں تین دیگر فیکٹرز بھی شامل کرلئے گئے جو اس طرح سے ہیں، آبادی کی بنیاد پر 82.98%… شرح غربت پر 10.30%… ٹیکس کلیکش پر 05.00%… اور انورس ڈینسٹی پر 01.72% حصہ ملے گا، مثال کے طور پر اگر فیڈرل ریوینیو کلیکشن سو روپے ہے تو اس میں سے مرکز اپنے خرچے کیلئے 46 روپے رکھے گا باقی 54 روپے کی رقم ڈویژایبل پول میں چلی جائے گی، اس قابل تقسیم رقم سے 82.98%رقم علیحدہ کرکے کل ملکی آبادی پر تقسیم کرکے جو فی کس ریٹ حاصل ہو اس سے تمام صوبوں کو ان کی آبادی کے مطابق دے دی جائے گی، اسی طرح سے باقی بچنے والی رقم بھی ہر صوبے کی شرح غربت، شرح ڈینسٹی اور شرح کلیکش کے مطابق ان کو دے دی جائے گی۔
یہاں اس کی ایک فرضی کیلکولیشن کرکے دیتا ہوں تاکہ آپ کو بات مزید واضع ہو جائے، اس کیلکولیشن کا ریوینیو فیگر 5000 ارب اور اس سے برآمد ہونے والی قابل تقسیم آمدنی 2700 ارب روپے فرضی ہے لیکن اجزائے ضربی یا ملٹیپلائینگ فیکٹرز اصلی ہیں اس لئے یہ ورکنگ مثال کی حد تک درست ہیں، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ آئیندہ بجٹوں میں کل ریوینیو کلیکشن کا فیگر لیکر باقی کیلکولیشن آپ خود بھی کر سکتے ہیں کہ اس سال کس صوبے کو مرکز سے کتنا فنڈ ملے گا۔
فرض کریں سن 2020 کا ریوینیو کلیکشن 5000 ارب روپے سامنے آتا ہے تو اس میں سے 46 فیصد رقم مرکز اپنے پاس رکھے گا جو 2300 ارب بنتی ہے، باقی 2700 ارب وہ صوبوں کے حوالے کر دے گا۔
پھر اس 2700 میں سے 82.98%رقم علیحدہ کرکے آبادی میں تقسیم کی جائے گی جو 2240.46 ارب بنتے ہیں، یہ رقم کل ملکی آبادی یعنی بیس کروڑ افراد پر تقسیم کی جائے تو فی کس حصہ 11202.30 روپے بنتا ہے،۔
اب پنجاب کی آبادی دس کروڑ ہے تو اسے 1120.230 ارب ملیں گے، سندھ کو پانچ کروڑ آبادی پر 560.115 ارب، کے پی کو تین کروڑ آبادی پر 336.069 ارب، بلوچستان کو ایک کروڑ آبادی پر 112.023 ارب، گلگت کو پچاس لاکھ آبادی پر 56.0115 ارب اور فاٹا اگر صوبہ بن گیا تو اسے بھی پچاس لاکھ آبادی پر 56.0115 ارب ملیں گے۔
اب دوسرا فیکٹر غربت کا ہے تو پرنسپل اماؤنٹ 2700 ارب کا 10.30% الگ کریں گے جو 278.10 ارب بنتا ہے، اب کل ملکی غربت کا دس فیصد پنجاب میں ہے تو اسے 27.81 ارب، سندھ میں دس فیصد ہے تو اسے بھی 27.81 ارب، باقی سب میں بیس بیس فیصد ہے تو کے۔پی 55.62، بلوچستان 55.62، گلگت 55.62 اور فاٹا کو بھی 55.62 ارب ملیں گے۔
تیسرا فیکٹر ریوینیو کلیکشن کا ہے تو 2700 ارب کا 5% علیحدہ کریں گے جو 135 ارب بنتے ہیں، پنجاب سے مرکز اپنے کل ریوینیو کا 25% ٹیکس اٹھاتا ہے تو اسے 33.75 ارب، سندھ سے 65% اٹھاتا ہے تو اسے 87.75 ارب، کے۔پی سے 7% اٹھاتا ہے تو اسے 9.45 ارب، اور بلوچستان سے 3% اٹھاتا ہے تو اسے 4.050 ارب روپے ملیں گے۔
چوتھا فیکٹر انورس ڈینسٹی ہے تو 2700 ارب کا 1.72% علیحدہ کریں گے جو 46.44 ارب بنتا ہے، یہ اس شرح کا دس فیصد پنجاب میں ہے تو اسے 4.644 ارب،. سندھ میں دس فیصد پر 4.644 ارب، باقی سب میں بیس بیس فیصد ہے تو کے۔پی کو 9.288 ارب، بلوچستان 9.288 ارب، گلگت 9.288 ارب اور فاٹا کو بھی 9.288 ارب ملیں گے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ اگر اس رقم کو صرف آبادی سے تقسیم کرتے تو پنجاب کو 1350 ارب ملتے جو درج بالا فارمولے سے گھٹ کر 1186.434 ارب رہ گئے، سندھ کو آبادی پر 675 ارب ملنے تھے جو اب 680.319 ارب ملیں گے، کے۔پی کو 405 ارب ملنے تھے جو اب 410.427 ارب ملیں گے، بلوچستان کو 135 ارب ملنے تھے جو اب 180.981 ارب ملیں گے، گلگت کو 67.50 ارب ملنے تھے جو اب 120.919 ارب ملیں گے، فاٹا کو بھی 67.50 ارب ملنے تھے جو اب 120.919 ارب ملیں گے۔
ماضی کے مقابلے میں اس بار بلوچستان کو 175 فیصد بجٹ زیادہ ملا، کے۔پی کو 79 فیصد، سندھ کو 61 فیصد اور پنجاب کو 48 فیصد، اس گروتھ کی پہلی وجہ ٹیکس کلیکشن کا بڑھنا ہے اور دوسری وجہ پنجاب کے فنڈ میں سالانہ اربوں روپے کی کمی ہے جو نئے فارمولے کی وجہ سے کم ہو کر صوبوں کے فنڈز میں شامل ہوئی ہے اسی لئے فنڈز کے بڑھنے کے باوجود پنجاب کی گروتھ سب سے کم ہے۔
اس نئے فارمولے سے مندرجہ بالا تمثیلی ورکنگ میں پنجاب کی رقم میں سے 163.566 ارب روپے سالانہ گھٹ کر صوبوں کے بجٹ میں شامل ہوں گے، اس تمثیل میں ہم نے قابل تقسیم آمدنی 2700 ارب روپے فرض کی تھی لیکن 2010 میں یہ اصل رقم 1050 ارب کے قریب تھی اور 2017 میں یہ اصل رقم 2000 ارب کے قریب ہوگی، اسی تمثیل کے مصداق سن 2010 سے ایوریج کی بنیاد پر پنجاب نے سالانہ 81 ارب روپے کا خسارہ اٹھایا ہے۔
میرے ایک آرٹیکل میں اسی 81 ارب کا تذکرہ سن کر کسی بندے نے تبصرہ کیا تھا کہ کھائے ہوئے واپس کئے ہیں کوئی جیب سے نہیں دیئے بلکہ سالہاسال پنجاب یہ رقم کھاتا رہا ہے، ایسی سوچ رکھنے والوں سے گزارش ہے کہ اس سیریز کا چیپٹر۔نائین، ٹین، الیون اور ٹویلیو ضرور پڑھ لیں جو این۔ایف۔سی کے مقصد، سٹرکچر، ماضی کے ایوارڈز کی تاریخ و طریقہ اور اعتراضات، مطالبات کی حیثیت اور ان کے حل پر مبنی ہے۔
دکھ اس بات کا ہے کہ نئے فارمولے کے باوجود پنجاب سے بغض اور تعصب آج بھی اسی طرح سے چل رہا ہے، کچھ ہی ماہ قبل یہاں ایک ویب سائیٹ نے بلکل اسی رویئے پر مبنی آرٹیکل چھاپا تھا جس میں بلوچستان کو مظلوم اور اس کی وجہ پنجاب کو قرار دینے کی کوشش کی، 2010 سے 2017 تک کھربوں روپے گھاٹا کھانے کے باوجود پنجاب آج بھی اپنی بہتر پلاننگ کے باعث ایسے منصوبے دے رہا ہے جو سب کی آنکھ میں کھٹکتے ہیں، اگر دوسرے صوبے اپنی مرضی کی تقسیم کے باوجود اپنے منصوبے ایسے نہیں بنا رہے جیسے پنجاب بناتا ہے تو اس میں قصور ان صوبوں کا اپنا ہے پنجاب کا کوئی دخل نہیں۔
[استحصالی پروپیگنڈے کی حقیقت]
ضیاء صاحب کے دور میں قائد عوام بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد طبقاتی سوچ کو پھلنے پھولنے کا بہت زیادہ موقع ملا، مرکز اور پنجاب کے خلاف قوم پرستوں کا دباؤ اور پروپیگنڈہ زیادہ تر اسی دور میں بڑھا ہے، اس گمراہ کن پروپیگنڈے کی ایک وجہ وہ جاگیردار سیاستدان بھی ہیں جو زرعی ٹیکس کا نفاذ نہیں چاہتے تو دوسری طرف کرپٹ اور بلیک میلر قسم کے عناصر بھی ہیں جو ان حیلوں سے مرکز اور صوبائی حکومتوں کو اپنے مفاد کیلئے دباؤ میں لیکر اپنے الو سیدھے کرتے ہیں۔
ماضی میں مرکز اگر اپنے پاس زیادہ فنڈ رکھتا اور صوبوں کو کم دیتا تھا تو اس کی وجہ کوئی تعصب یا استحصال نہیں بلکہ اسکی بنیادی وجہ کمزور ترین ٹیکس کلیکشن تھی، اب 98 کے بعد جب سے کلیکشن بوسٹ۔اپ ہوئی ہے تب سے مرکز اپنے 65%شیئر کو 47% پہ لے آیا ہے اور صوبے جو کمزور ترین کلیکشن کا 35% اٹھاتے تھے اب وہ ہیوی ترین کلیکشن کا 53%شیئر اٹھاتے ہیں، اس کی ایک مثال یوں دیکھ لیجئے کہ 98 میں صوبہ سندھ کو مرکز سے صرف 25 ارب روپے ملے تھے اور اپنی کلیکشن ملا کر اس کا بجٹ برائے سال 98 صرف 54 ارب روپے تھا اور آج سندھ کا بجٹ 869 ارب روپے ہے جس میں 361 اس کے اپنے ہیں باقی 505 ارب روپے اسے مرکز سے ملے ہیں، یہی حال دیگر صوبوں کا ہے، اور چھوٹے صوبوں کی بہتری کیلئے پنجاب اپنے حق سے دستبردار ہو کر 57% سے 51% پر آگیا ہے، امید ہے اب وفاق پاکستان اور پنجاب کو غاصب نہیں کہا جائے گا۔
۔۔۔۔۔
اگلے چیپٹر میں ہم فوجی بجٹ کے خلاف پروپیگنڈے کی قلعی بھی کھولیں گے، اور بیچارے فوجی ڈکٹیٹروں کی بیچارگی کے کچھ اہم قصے بھی آشکار کریں گے۔
۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔
مضمون کا بارہواں حصہ یہاں ملاحظہ کریں