وہ ہاتھ آہستہ آہستہ اُسکی گردن کو شکنجے میں لئے اسکی روح کے پار ہوتے ۔۔۔ اسکی درد میں سسکتی روح پر ضربیں لگا رہے تھے، چوٹ نظر نہیں آ رہی تھی مگر درد کی بلبلاہٹ سے وہ شدید جان کنی کی کیفیت میں تھی، اور حالت ایسی تھی جیسے کسی نے اسکا منہ باندھا ہو اور چیخ تک نہ سکتی ہو، ایسا درد کہ جس سے موت بہتر ہو، مگر مر جانے کا خوف ہی ہر اذیت پر حاوی ہو، بے حد دباؤ کی کیفیت میں جب خود کو چھڑاتے اس نے مکمل زور لگایا تو وہ ایک گھٹی ہوئی سی چیخ مارتی نیند سے جاگتی اٹھ بیٹھی تھی۔۔۔دھونکنی کی مانند تیز چلتے سانس اور مکمل پسینے میں شرابور حالت میں اسے خود سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ کہاں ہے، گھپ اندھیرے میں اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا، خوف اور بے بسی کے عالم میں اپنے ارد گرد ہاتھ مارتے اسکا ہاتھ پاس رکھی سائیڈ ٹیبل کے لیمپ بٹن تک گیا، اس نے اسی تیزی میں بیڈ پر پڑے لیمپ کو آن کیا تو کہیں جا کر اسے ماحول کو سمجھنے اور حقیقت اور بھیانک خواب میں فرق کرنے کا موقع ملا۔ اپنے آپ کو مانوس جگہ پر دیکھتے اس نے سکون کا سانس لیا، کپکپاتے ہاتھوں سے جگ اٹھایا ، پانی گلاس میں انڈیلا، اور گلاس لبوں سے لگاتے ایک ہی گھونٹ میں سارا پانی پی لیا۔ پانی پیتے جیسے اسکا نظام تنفس کچھ سکون میں آیا ہو، کسی دشواری کو آسانی ملی ہو۔۔ اس نے محسوس کیا صرف پسینے سے اسکا جسم ہی نہیں، اسکے آنسوؤں سے اسکا چہرہ گردن سب بھیگ چکے تھے۔ تیز دھڑکتی دھڑکن بتدریج واپس نارمل ہونا شروع ہوئی تھی، کچھ سنبھلتے اور اپنی حالت سے ہانپتے ہوئے تھکتے اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر دبایا، اور کچھ لمحوں بعد انہی ہاتھوں کے حوالے اپنا سر کرتے وہ گردن جھکا کر بیٹھ گئی تھی، اسے لگا وہ خواب میں اتنا رو چکی ہے کہ اب رو نہیں پائے گی، خواب کے خوف و ہراس اور حقیقت کے سکون کی ملی جلی سی کیفیت گویا انگاروں پر پانی کے چھینٹے تو مار رہی تھی مگر اسکا اندر گویا ابھی تک کسی بھانبھڑ کی طرح جل رہا تھا، بے حس و حرکت بیٹھے بیٹھے جب اسکی کمر اکڑ گئی تو وہ انہی خالی آنکھوں اور ساکت چہرے کے ساتھ بیڈ کی سائیڈ پر پیٹ میں ٹانگیں دیے سمٹ کر لیٹ گئی، یہ خواب اسے پہلی بار نہیں آیا تھا، یہ کیفیت اسکی پہلی بار نہیں ہوئی تھی۔ کچھ دیر پہلے کی جسمانی کیفیت گویا جون کی چلچلاتی گرمی کا موسم تھا اور اب یک لخت دسمبر کے مہینے کی ٹھنڈک اس پر پوری شدت سے طاری ہوئی تھی، اس نے خود کو کمبل میں چھپا لیا تھا، مگر وہ کپکپاہٹ ابھی بھی اسکی روح کو لرزائے ہوئے تھی۔ وہ احساس کی گہرائیوں میں بہت خوفزدہ اور تنہا محسوس کر رہی تھی۔
عجب خامشی ہے روح میں بس جیسے لفظ بے زبان ہو جائیں جیسے دم اندر کہیں پر گُھٹتا ہوآہ سی فضا میں یکجان ہو جائے
جیسے کوئی یقین کر کے بھرپایا ہواور بس اپنی ذات رازدان ہو جائےجیسے آنسو تھک کے زمیں سے ملےدھیان بھی بے دھیان ہو جائے
جیسے اعتبار کا آئینہ گِر کر ٹوٹے
اور حیات پل میں ویران ہو جائےجیسے کچھ نہ کہنے کی قسم کھائی ہودل اپنی صدا سن کر حیران ہو جائے
جیسے خوشی مُشت میں محسوس ہوتی ہو
اور ریت سی خاک کا سامان ہو جائے جیسے یک لخت لگے بری سی نظرجیسے کِھلتا چمن بیابان ہو جائے
جیسے امید کا ٹمٹماتا دیا آندھی سے تیرگی کا مان ہو جائےفرار چاہنے سے بھی نہ میسر ہو اذیت کچھ یوں براجمان ہو جائے
جیسے قوس قزح کا ہو انتظار فقط
اور باران آخری ارمان ہو جائےجیسے گہری نیند سے آنکھ کُھل جائے جیسے خواب و بالِ جان ہو جائے
جیسے سماء لمحۓ میں ہو نامہرباں زمیں پلک جھپکتے انجان ہو جائےجیسے کوئی بہت بہت ہی اپنا ہواور دل پل میں بد گمان ہو جائے۔۔!
——————————
حنظلہ کو دیر ہو رہی تھی مگر ہمیشہ کی طرح اسکی کزن ماہماپنے کمرے سے نکلنے کا نام نہیں لے رہی تھی، حِبہ حسبِ معمول اپنے مقررہ وقت پر خاموشی سے آ کر سلام کرتی پیچھے سیٹ پر بیٹھ گئی تھی، سرسری سا جواب دینے کے بعد وہ جھنجھلاتے ہوئے وقتا فوقتا ہارن دے رہا تھا، مگر اندر ماہم کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی تھی اپنے طور پر جلدی جلدی کرتے بھی روزانہ کی دیر اسکا معمول تھا، آخر کار حنظلہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اب اس نے ہارن پر ہاتھ رکھ کر اٹھایا ہی نہیں، اتنی دیر میں مین ڈور سے بھاگتی ہوئی ماہم آئی، اور اس سے قبل کے دروازہ کھولتی، کچھ یاد آنے پر الٹے پاؤں واپس بھاگی، دوسری طرف حنظلہ جو اب کار اسٹارٹ کرنے لگا تھا، اسے واپس بھاگتا دیکھ غصے سے اسٹیرنگ پر زور سے ہاتھ مار کر رہ گیا، خلافِ معمول وہ جلدی واپس آ گئی، جو بھول آئی تھی وہ اسکا چارجر تھا، جس کو اس نے اب کار میں لگا دیا تھا، اور فون کو چارجنگ میں لگاتے ہی سکون میں آ گئی تھی، اور پھر بیک ویو مرر کو اپنی جانب کرتے مزے سے ہاتھ میں پکڑے مسکارہ سے پلکیں مزید ہائی لائٹ کرنے لگی، حنظلہ بس غصے میں پیچ و تاب کھا کر رہ گیا تھا، غصے میں اس نے بیک ویو مرر واپس ایڈجسٹ کیا اور کار اسٹارٹ کرتا تیزی سے باہر نکال گیا، ماہم کو جیسے کچھ زیادہ فرق ہی نہ پڑا ہو، اب کہ اس نے بیگ سے اپنی چھوٹی سی بلش آن کِٹ نکالی اور اسکے آئینے سے مستفید ہونے لگی، مسکارے کے بعد اب لپ اسٹک کی باری تھی، اور تھوڑی ہی دیر میں اسکے سیل فون کیمرہ کا سیلفی موڈ آن ہو گیا۔حنظلہ کو اس کی بے حسی، خود غرضی اور خودپسندی سے عجب بیزاری محسوس ہوئی۔ حنظلہ اور حبہ کو اس کے روز کے ان رویوں کی خاصی عادت ہو چکی تھی سو حبہ تو خاموش ہی رہی مگر حنظلہ نے آج اسے اکسانے، غصہ کرنے یا چھیڑنے کی بجائے کار ڈرائیو کرنے پر توجہ مرکوز رکھی۔ شاید اسکا موڈ زیادہ ہی آف تھا، یونیورسٹی گیٹ کے سگنل سے قبل کار کھڑی کرتے ہی اس نے ماہم کو مخاطب کیا۔۔ "اگر تم نے روز دیر ہی کروانی ہے تو اپنے لیےبندوبست کر لو۔ میں تمہاری وجہ سے مزید خواری نہیں اٹھا سکتا۔” ماہم کو ہمیشہ کی طرح کوئی خاص فرق نہیں پڑا، وہ چیونگم چباتے اپنے فون سوشل میڈیا میں گم رہی، ان دونوں کو یونیورسٹی گیٹ پر اتارتا اس نے کار تقریبا اڑائی تھی۔ حبہ کو تھوڑی فکر ہوئی، واپسی پر پوائنٹ پر تو ماہم جو دیر کرواتی تھی اس سے فرق نہیں پڑتا تھا، مگر صبح تو ماہم کے ساتھ پوائنٹ پر آنے سے روز ہی کلاس مس ہو جایا کرے گی، وہ اپنی ہی سوچوں میں گیٹ کی طرف بڑھ گئی۔، جلدی کرتے کرتے بھی میٹنگ کے لیے لیٹ ہو گیا تھا، اس کا موڈ صبح سے آف تھا، میٹنگ روم میں داخل ہوتے ہی اسے جن پہلی نظروں کا سامنا ہوا وہ اسکے باس کی خشمگیں نگاہیں تھیں، رہ رہ کر اس کو ماہم پر غصہ آ رہا تھا، جس کی وجہ سے آج اس کو اس ماہ ملنے والی ممکنہ پروموشن خطرے میں لگ رہی تھی، اللہ اللہ کر کے میٹنگ ختم ہوئی۔ مگر شکر رہا کہ اسکی اوور آل پرفارمینس اور کامیاب پراجیکٹ کی وجہ سے باس صبح میں اسکے لیٹ آنے کو درگزر کر چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مغرب کے بعد امی اس کے لیے چائے لے کر کمرے میں آئیں، وہ بیڈ پر آڑا ترچھا لیٹا اسپورٹس چینل دیکھ رہا تھا، ” امی کو دیکھتے ہی فوراۤ سیدھا ہو بیٹھا، اور آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ سے چائے کی ٹرے لے لی، پھر اپنی امی کو شرارتی انداز میں چھیڑتا کہنے لگا "امی ایک آپ کو اور ایک راجر فیڈرر کو دیکھ کر میری ساری تھکن اڑ جاتی ہے”خلاف معمول وہ نہیں مسکرائی تھیں، اپنے لیے چائے بھی نہیں لائی تھیں، سو اس نے استفسار کیا، ” کیا ہوا؟ آپ اپنے لیے چائے نہیں لائیں؟” اسکی امی کے چہرے پر عجب سا کچھ تھا، جسے وہ کوئی نام نہیں دے سکا۔ وہ پاس رکھے بیڈ کم صوفہ پر بیٹھ گئیں، پھر کچھ توقف کے بعد بوجھل سے لہجے میں کہا
” نہیں میرے سر میں درد تھا میں نے تمہارے آنے سے آدھا گھنٹہ پہلے ہی پیناڈول اور چائے لی تھی۔، ” یہ کہہ کر وہ پھر خاموش ہو گئی تھیں، اسے کچھ تشویش ہوئی ” کیوں کیا ہوا؟ طبیعت ٹھیک ہے آپکی؟ "
حنظلہ کو معلوم تھا اسکی ماں کسی بڑی پریشانی کا شکار ہیں۔ اس نے کپ سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور ماں کے پاس ہو کر بیٹھا۔ "شکر ہے اللہ کا بیٹا میں ٹھیک ہوں، تم چائے پیو، ٹھنڈی ہو رہی ہے” وہ جانتا تھا انہیں تسلی میں لانے کے لیے انکی بات ماننا ضروری ہے، سو اس نے منع کئے بنا فورا کپ پکڑ لیا، اور سِپ لیتا بولا۔ ” اب آپکی بات مانی ہے ناں اب مجھے بتائیں کیوں پریشان ہیں؟”
"بیٹا مجھے بتاؤ اگر تمہیں کوئی پسند ہے تو یہ سارا قصہ خود بخود ہی نمٹ جائیگا۔ کوئی آفس میں یا کوئی فرینڈ؟” حنظلہ بے اختیار ہنس دیا۔ ایسے جیسے اسکی معصوم سی ماں اسے کسی جن یا بھوت سے بچانے کے لیے کسی پناہ گاہ میں دے دینا چاہتی ہوں۔
حنظلہ نے اپنی ماں کا ہاتھ نرمی سے دباتے ہوئے کہا، ” امی آپ پریشان نہ ہوں، میں کسی کو پسند تو نہیں کرتا، ہاں مگر میں ماہم کو بھی ایک شریک حیات کے طور پر نہیں چاہتا۔ آپ بے فکر رہیں میں اس مسئلے سے خود نمٹ لوں گا۔” حنظلہ نے انہیں یقین دلاتے کہا۔
اگلے دن ماہم کا رویہ کچھ بدلا سا محسوس ہوا،۔ آج وہ ضرورت سے زیادہ تیار تھی، دیر تو بہرحال کروائی، مگر خلاف توقع کچھ منٹس پہلے نکل آئی، حنظلہ نے اپنا وہی رویہ رکھا جو روز کا ہوتا تھا۔ حبہ حسب معمول بیک سیٹ پر بیٹھی تھی۔ماہم آئی اور ایک معنی خیز سی مسکراہٹ حنظلہ کی جانب اچھالتے استحقاق سے فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔ حنظلہ جان بوجھ کر انجان بن رہا تھا۔ اسے اب معاملے کی نزاکت اور سنجیدگی کا اندازہ ہو رہا تھا۔ وہ اس لڑکی اور اسکی ماں کی پراپرٹی ہرگز نہیں تھا۔ اور نہ ہی انکے ہاتھوں استعمال یا کیش ہونا چاہتا تھا۔ بہرحال اس نے اپنے تاثرات کو کنٹرول میں رکھا، بے ساختگی اور انجانے میں اس سے عجب حرکت ہوئی، بیک ویو مرر سے حِبہ کو دیکھا، وہ حسب معمول اپنی کسی دنیا میں گم تھی، اس نے پوچھا ۔۔ "حِبہ ممانی کی طبیعت کیسی ہے؟ ” حبہ یکدم چونک گئی، اسکی کم گوئی اور ریزرو طبیعت کے پیش نظر حنظلہ نے اسے کبھی اس طرح کار میں مخاطب نہیں کیا تھا، جب کہ امی کی طبیعت بھی بالکل ٹھیک تھی۔ اس سے قبل کے وہ جواب دیتی، ماہم عجب رعونت اور نخوت بھرے انداز میں بولی، ” کیوں انہیں کیا ہونا ہے؟” حنظلہ اور حبہ دونوں کو ماہم کا یہ انداز نہیں اچھا نہیں لگا۔ حبہ نے جیسے حنظلہ کو ان احساسات سے نکالتے، ماحول کو مزید کسی تلخی سے بچاتے کہا۔ "اللہ کا شکر ہے بھائی، وہ ٹھیک ہیں” حنظلہ نے کار اسٹارٹ کر دی۔ خود کو موضوعِ بحث بننے سے بچتا، منظر سے ہٹتا دیکھ کر حبہ نےدل ہی دل میں شکر کیا۔مگر قدرت کے اپنے منصوبے تھے، یہ طلب والے کو بھی آزماتی ہے اور بنا طلب والے کو بھی آزمانے کے اسکے اپنے انداز ہیں۔ اللہ مہربان ہے اور انسان نادان، آزمائش کو سزا ماننے والا حکمت میں محبت نہیں دیکھ پاتا، سو خود ہی آسانی کوپریشانی بنا لیتا ہے۔ اور جن کو دانائی عطا ہو وہ ظاہر کے پردے میں باطن کی حقیقت کو سراہتے ہیں کم فہمی میں مبتلا نہیں ہوتے۔ اور شارٹ کٹ میں مکر و جبر کی بجائے صبر محبت اور تحمل اپناتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان دونوں کو یونیورسٹی اتارتا۔۔ حنظلہ کے ذہن میں حبہکا بھائی کہنا گونجا تھا، پھر بیک ویو مرر میں اسکا عجب چونکتا سا انداز ۔۔ ہلکی سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر رینگ گئی تھی، اسے خود پر حیرت ہوئی، اس نے کبھی حبہ کو دیکھا ہی نہیں، شاید ماہم خودنمائی اور چھا جانے والی کوششیں اتنی زیادہ کرتی تھی، کہ حبہ ہمیشہ نظر انداز ہی رہی۔ اور انکا آمنا سامنا محض صبح ڈراپ کرنے پر ہی ہوتا، کہ واپسی پر وہ دونوں پوائنٹ سے آتی تھیں۔ اور اپنے اپنے پورشنز میں رہنے کے سبب حبہ تو اسے صبح کے علاوہ بہت کم ہی نظر آتی تھی۔ اسے خود کو بھی حیرت ہوئی کہ وہ حبہ کے بارے میں پہلی بار اتنا کیوں سوچ رہا ہے، اس سے پہلے کے خود کو پرکھتا، اسکی فون بیپ نے اسکی توجہ اپنی جانب مرکوز کر لی تھی۔
مصنفہ اپنا تعارف یوں کرواتی ہیں: اور کروں ذکر کیا اپنی ذات کا حیا اپنے رب کی ادائے کُن فیکون ہوں میں..! میں کچھ نہیں الحمدللہ میرا اللہ میرا رب سب ہے نام عاصمہ سعید، قلمی نام حیا ایشم. تعلیم ایم ایس کلینکل سائیکالوجی ہے. کلینکل سائیکالوجسٹ ہوں. اور ایک کتاب پبلش کروا چکی ہوں جس کا نام اللہ محبت ہے. مصروفیات گھر، جاب، نیچر، چھوٹی دو بھتیجیاں اور رائٹنگ ہے. متعدد بار ریڈیو انٹرویوز اور میگزین وغیرہ میں انٹرویو دے چکی ہوں. اس کے علاوہ فیس بک رائٹرز ینکنگ میں بھی اچھی رینکنگ میں رہی. ا