انسان کا اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ جارحانہ اور غیر انسانی سلوک اس کی حیوانی و پر تشدد جبلت کا عکاس ہے۔ تشدد کی متنوع معاشی، سماجی، ماحولیاتی ونفسیاتی وجوہات ہیں۔ انسان کے ایسے رویوں میں نفرت، جنس، مذہب اور تعصب جیسے متعدد اسباب کارفرما ہیں۔ تشدد کی انتہائی مکروہ شکل مخالف انسان پر جارحانہ حملہ اور انتہائی بھیانک طریقے سے اس کی جان کا خاتمہ کر دینا ہے۔ انسانی تاریخ، تشدد اور بربریت کے عجیب و غریب واقعات سے بھری پڑی ہے۔ جن میں انسان نے تشدد کے ایسے ایسے وحشیانہ طریقے ایجاد کئے، کہ جنہیں پڑھ کر ہی دل دہل جاتے ہیں۔ اپنی انا اور خونی جبلت کی تسکین کی خاطر وقتاً فوقتاً انسان قتل وغارت گری کے بازار گرم کرتا رہا۔ بعض واقعات میں قتل محض سنسنی پھیلانے یا اپنی شہرت کو دوام بخشنے کے لئے بھی کئے گئے۔
انسان دھات کے دور میں داخل ہوا۔ کھیتی باڑی شروع ہوئی زمین و جائیداد نے حق ملکیت کا تصور پیدا کیا۔ ہتھیار اور تمدن کی ترقی ہوئی۔ خاندانی، ثقافتی و مذہبی تصورات جنم لینے لگے تو انسانوں کے درمیان مقابلہ بازی، تعصب، خاندانوں، قبیلوں پر فخر جیسے احساسات نے بھی جنم لیا۔ یہاں سے انسان جس دور میں داخل ہوا وہ ظلم، بربریت اور تصادم کا دور تھا۔ بعد ازاں ہم رومیوں، یونانیوں کے ادوار میں تشدد اور بربریت کی ایک طویل تاریخ پڑھتے ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب سلطنتوں اور حکومتوں نے جنم لیا۔ غلامی کا تصور ابھرا۔ انسان کی بربریت کو ثابت کرنے کے لئے گلیڈیٹرز کا تصور ہی کافی ہے۔ جب رومی سلطنت میں غلاموں کو گلیڈیٹر کا نام دیا جاتا اور انہیں بادشاہ اور عوام کی تفریح کے لئے جنگلی درندوں کی چیر پھاڑ کا شکار بنایا جاتا۔ قرون وسطیٰ کے دور میں ریپ، اجتماعی ذیادتی، اور تشدد کی نئی تاریخ رقم ہوئی۔ سمندری قزاقی، غلامی، نارمنز، ہنگریوں کے ذریعے ہونے والی لوٹ مار، امیر غریب کا تفاوت، عدم استحکام، کیتھولک چرچ کی طاقت کا اندھا استعمال۔ یہ سب انسانی تمدن میں انسان کی اندھی طاقت، ظلم اور جبر کی روایت بن کر ابھرے۔
تاریخ تاتاریوں اور منگولوں کے کردار کو کیسے نظر انداز کر سکتی ہے۔ محض منگولوں کے بغدا د پر حملے کا قصہ ہی دہرا لیں۔ موءرخ لکھتا ہے کہ” منگول بھوکے گدھوں کی طرح چار سو پھیل گئے۔ ایسے جیسے غضبناک بھیڑیے بھیڑوں پر حملہ آور ہوئے ہوں۔ حرم کی عورتوں کو بھی گلیوں میں گھسیٹا گیا۔ بغداد کی گلیاں لاشوں سے اٹی پڑی تھیں۔ چند دن کے اندر اندر ان سے اٹھنے والے تعفن کی وجہ سے خود ہلاکو خان کو بھی شہر کے باہر خیمہ لگانا پرا۔ ادغام دجلہ میں بھی اساطیری دریا کا مٹیالہ پانی پہلے چند دن خون سے سرخ بہتا رہا اور پھر سیاہ پڑ گیا۔ “ خلیفہ مستعصم باللہ کو نمدوں میں لپیٹ کر ان کے اوپر گھوڑے دوڑائے گئے۔ اس سے پہلے چنگیز خان، ثمر قند و بخارا تک انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرنے کی تاریخ رقم کر چکا تھا۔
صلیبی جنگوں میں مغربی تشدد کا نظریہ اپنے عروج پر رہا۔ کولمبس نے امریکہ دریافت کیا تو وہاں ہزاروں سالہ تہذیب کے حامل ریڈ انڈینز کا بہیمانہ قتل کیا گیا۔ آسٹریلیا کے ایب اوریجنز کا سفید فاموں کے ہاتھوں قتل۔ یہ نفرت اور تعصب کا انتہائی غیر انسانی اظہار تھا جسے تاریخ بھلا نہیں سکتی۔ بیسویں صدی جو عقل و شعور اور تہذیب کی صدی مانی جاتی ہے اس میں دو عالمی جنگوں میں کروڑوں انسانوں کو نیست و نابود کیا گیا۔ آج کی ظالمانہ اور بہیمانہ قتل و غارت گری جو عراق میں کی گئی، فلسطین یا شام میں، اسے ہر کوئی جانتا ہے۔ یہ تو انسان کی جان لیوا جبلت کا اجتماعی اظہار ہے۔ اگر انسان کی اس جبلت کا انفرادی اظہار زیر مطالعہ لایا جائے تو بھی بہت سے تکلیف دہ حقائق سامنے آئیں گے۔
ایسے بہت سے لوگوں کا نام سامنے آئے گا جنہوں نے قتل و غارت گری کا راستہ کسی سلطنت یا حکومت کے حصول کی خاطر نہیں بلکہ محض اپنی حیوانی جبلت کی تسکین کے لئے اپنایا۔ پندرھویں صدی کے رومانیہ کا حکمران ولاد سوم 1448))لوگوں کو بھیانک سزائیں دینے کے لئے مشہور تھا۔ جیسے سر کاٹنا، زندہ انسان کو ابالنا، سر کاٹنا یا کھال ادھیڑنا وغیرہ۔ اس نے ترکوں کے خلاف جارحیت میں دو ہزار لوگوں کو مصلوب کیا۔ ادھیڑے گئے انسانو ں کے بیچ بیٹھ کر کھانے میں اسے راحت کا احساس ہوتا یہاں تک کہ وہ ان کے خون میں اپنی روٹی ڈبوکر کھانا بھی پسند کرتا تھا۔ ہنری ہاورڈ ہومز 1861))نے اپنے محل کے سو کمروں کو عقوبت خانہ بنا رکھا تھا جہاں گیس چیمبر، انسانی سائز کے چولھے تھے۔ اسکے محل کو شکاگو کی قتل کی حویلی کہا جاتا ہے۔ وہ انسانوں کو مار کر ان کے جسموں پر تجربے کرتا۔ خصوصاً عورتوں کو اپنی وحشت کا نشانہ بناتا۔ ۔ 1560، الزبتھ باتھری جسے تاریخ خونی خاتون کے نام سے جانتی ہے۔ لوگوں کو ملازمت پر رکھ کر انہیں سوئیوں کے تشدد سے مارتی۔ کنواری لڑکیوں کو مار کر ان کے خون سے نہانا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ اس کا سبب وہ یہ بتاتی تھی کہ اس طرح وہ ہمیشہ جوان رہ سکے گی۔ جیک رپر لندن کی سڑکوں کے تاریک گوشوں میں طوائفوں کے گلے کاٹا کرتا۔ یہ اور ایسے بہت سے سیریل کلرز کے نام یورپ کی تاریخ میں بآسانی مل جائیں گے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تاریخ میں بھی انسانی تشدد کا شکار زیادہ تر ”عورت“ ہی رہی۔ مرد اپنی جنونی و وحشی جبلت کا اظہار عورت کے وجود کو اذیت دے کر کرتا۔ اسے ہر قسم کے جسمانی و روحانی تشدد کا سامنا رہا۔ اسے سنگسار کرنا، زندہ جلانا، قتل کرنا، آدھا زمین میں گاڑ کر بھوک پیاس کی اذیت سے مارنا، معذور بنانا یہ بہت ہی عام طریقے تھے۔ جس عورت پر زنا کا الزام ہوتا اسے اعضائے مخصوصہ سے چیر کر دو حصوں میں باٹا جاتا۔ اس کے لئے مخصوص مشینیں ایجاد کی گئی تھیں۔ حتیٰ کہ اگر شوہر کو اپنی بیوی کے باتونی ہونے کا احتمال بھی ہوتا تو وہ عدالت سے رجوع کرتا جو اس کے گلے میں ایک مخصوص آلہ پہنا دیتی۔ پھر وہ جب بھی بولنے کی کوشش کرتی وہ آلہ اس کی زبان کو زخمی کر دیتا۔ قرون وسطیٰ کے دور میں ہزاروں عورتوں کو ڈائن قرار دے کر مار دیا جاتا۔ انہیں شر انگیز ی اور جنسی بھوک کے الزام میں زندہ جلایا جاتا۔ مردوں کی طرف سے ان کے ساتھ بدسلوکی، ان پر نفسیاتی و جسمانی تشدد، استحصال اور گھریلو تشدد عام بات تھی۔ یہاں تک کہ انہیں جان سے مار دینے کے بعد بھی وہ بآسانی قانون سے بچ نکلتے۔
عورت کو محض اس کی صنف سے نفرت اور حقارت کی وجہ سے زندگی سے محروم کیا جاتا یا اس کی ذات کی بے انتہا تذلیل کی جاتی۔
دنیا میں اسلام کی آمد سے عورت کے مقام و مرتبے پر بہت فرق پڑا۔ اسے ماں، بیٹی، بہن الغرض ہر روپ میں قابل تعظیم ٹھہرایا گیا۔ اسلامی قوانین میں ایسا کوئی قانون نہ تھا جو غیر انسانی ہو۔
تشدد انفرادی طور پر کیا جائے یا اجتماعی طور پر، یہ ایک قبیح عمل ہے جسے انسان زیادہ تر دوسروں پر اپنے غلبے اور طاقت کی دھاک بٹھانے کو انجام دیتا ہے۔ بعض اوقات اس کے ماحولیاتی اسباب اور اس کی سرشت کی خود سری اسے غصے میں اس قدر پاگل کر دیتی ہے کہ وہ اپنے ایسے افعال کے ممکنہ نتائج کو بھی بھلا بیٹھتا ہے۔ ماہر نفسیات انتھونی سٹیونز کے مطابق ”جنگیں پارلیمنٹ یا فوجی ہیڈ کوارٹر میں نہیں بلکہ انسانی ذہنوں میں شروع ہوتی ہیں“ یعنی تشدد اور بربریت کا محرک انسان کے اندر بہت گہرائی میں نقش ہے۔ یہی محرک اسے اپنے ارد گرد موجود لوگوں، خصوصاً عورتوں کو تشدد کا نشانہ بنانے پر مائل کرتا ہے۔ کیونکہ غلبہ پانے اور طاقت کے اظہار کی جبلت اسے ازل سے ہی عورت کو کمزور اور کمتر سمجھنے پر مجبور رکھے ہوئے ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مردانگی، جارحیت، دولت کی حرص، طاقت و اقتدار کا طمع، یا اپنی محرومیوں کا بدلہ دوسرے انسانوں سے لینے جیسی سوچ کو بدل کر متبادل نظریات اور اقدار کو پنپنے کے مواقع دئے جائیں۔
جدید دور کی بات کی جائے تو وقت کے ساتھ ساتھ دنیا میں بہت سی سماجی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ جس سے لوگوں کے رویے بھی بدلے۔ نیشن سٹیٹ بننے سے مغرب نے اداروں اور قانون کا نظام مستحکم کیا۔ ماڈرن ٹیکنالوجی کی ترقی نے لوگوں کو ایک دوسرے پر انحصار کرنا سکھایا۔ جس سے سوشل سسٹم نے جنم لیا اور تشدد میں کمی واقع ہوئی۔ اگر تیرہ ہزار سال پہلے تشدد سے اموات کا ریٹ ساٹھ فیصد تھا تو آج ترقی یافتہ ممالک مثلاً جاپان، چائنہ، سنگاپوروغیرہ میں یہ ریٹ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ البتہٰ کچھ ترقی پزیر ملکوں میں یہ شرح دس فیصد ہے اور افریقہ جیسے ملکوں میں تیس فیصد تک پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ شرح 2020میں 3.9رہی۔
جدید جمہوری معاشروں نے اپنے رویوں کو بدلا اور ایک نئی تہذیب کو جنم دیا۔ ایسی تہذیب جو مفاہمت اور رواداری کی تہذیب ہے۔ علم کی ترقی نے ان کے اقداری نطام کو پروان چڑھایا۔ لیکن تمدن و تہذیب کی ترقی کے اس دور میں بھی تشدد ختم نہیں ہوا۔ جرم آج بھی ہوتا ہے۔ انسان آج بھی کشت و خون کا عادی ہے۔ آج بھی انسانیت کے بخیے ادھڑتے ہیں۔ ایک ریسرچ کے مطابق 83 فیصد پر تشدد اموات دنیا کے تصادم والے زونز سے باہر ہو رہی ہیں۔ 2007سے 2014کے درمیان عراق اور افغانستان کی اموات سے ذیادہ لوگ میکسیکو کے پر تشدد واقعات میں مرے۔ 2015میں شام سے ذیادہ افراد برازیل کی پر تشدد اموات کا شکار ہوئے۔ دنیا بھر میں اوسطاً 137خواتین ہر سال اپنے شریک حیات یا خاندان والوں کے ہاتھوں قتل ہو جاتی ہیں۔ 2017میں قتل کی جانے والی ستاسی ہزار خواتین میں سے نصف سے زائد اپنے عزیزوں کے ہاتھوں قتل ہوئیں۔ جرمنی، امریکہ، فرانس میں بھی خواتین کا قتل بوائے فرینڈز یا شوہروں کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ فرانس میں بھی ہر سال سو سے زائد خواتین اپنے سابقہ بوئے فرینڈز، دوستوں یا شوہروں کے ہاتھوں قتل ہوجاتی ہیں۔ پاکستان میں پچھلے سال قتل کے مقدمات میں142.1فیصد اضافہ ہوا۔ جب کہ خواتین پر تشدد میں 360فیصد تک اضافہ ہوا۔
پاکستان جیسی کمزور ریاستوں میں پرتشدد رویوں میں اضافے کے بہت سے اسباب ہیں۔ یہاں سیاستدان مجرموں کو منظم کرتے ہیں۔ رشوت ستانی اور ڈرگ مافیاز سے پیسہ بنانے کے لئے انکی پشت پناہی کرتے ہیں۔ انتخابات میں جرائم پیشہ افراد کو استعمال کیا جاتا ہے اور انہیں سزاؤں سے بھی صاف بچا لیا جاتا ہے۔ یہاں پچانوے فیصد کیس انصاف سے حل نہیں کئے جاتے۔ سزا سے بچنا آسان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام عوام قانون کی طاقت سے بے خوف ہیں۔ طبقہءامراءہر طرح کی قانونی و غیر قانونی مراعات سے لطف اندوز ہوتا ہے اور عام عوام جہالت، غربت اور عدم تخفظ کا شکار رہتی ہے۔ اسی وجہ سے یہاں جرائم اور بربریت عام ہے۔ لوگ اپنے برتری و کمتری کے احساس تلے جس قسم کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں ان کا اظہار قانون شکنی کرکے یا دوسروں کو اذیت دے کر کرتے ہیں۔ اسی سے انہیں ذہن کی آسودگی، اور ان کی خونی جبلت کو تشفی ملتی ہے۔ اشرافیہ جس قدر مضبوط اور توانا ہوتی ہے عام سطح پر محرومی اسی قدر بڑھتی ہے۔ یہ خاص کلاس اپنی دلیری اور طاقت میں اضافہ عوام پر ظلم و ستم کا بوجھ بڑھا کر کرتی ہے۔ یہاں تشدد کے کئی روپ ہیں جو اپنی نوعیت میں منفرد اور بھیانک ہیں۔
ہمارے جیسی ریاستوں کو لاقانونیت اور تشدد و بربریت سے بچنے کے لئے مجرم کو سزا دینے سے کہیں زیادہ اپنے اقداری نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ قرون وسطیٰ میں جب تک علم پر اہل مذہب و اقتدار کا قبضہ رہا سماجی و اخلاقی ترقی رکی رہی۔ اور جب علم و دانش ان کے چنگل سے آزاد ہوئے معاشرے میں ان کی قدر اور افادیت بڑھی۔ ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو عقیدہ پرستی، تنگ نظری، تعصب اور بنیاد پرستی سے آزاد کرنا ہوگا۔ ایک ایسی مشترکہ تہذیب کا علم بردار بنانا ہوگا جو باہمی منافرتوں، وحشتوں اور نسلی فرقہ بندیوں سے مبرا ہو۔ علم کے زریعے ایک ایسی انسانیت کا سبق پڑھایا جائے جس میں مقام و مرتبے کو جانچنے کے لئے مادی ترقی یا طبقاتی برتری کو معیار نہ بنایا جائے۔ بلکہ انسان کی قدر، اس کی اقدار اور تہذیب سے کی جائے۔ جنگ وجدل کا سبق پڑھا کر نئی نسل کی ذہانتوں اور صلاحیتوں کو اجڈ وحشتوں کی ہنگامہ آرائیوں کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔ ہر ذی روح کی قدر کرنا اور اس سے محبت کرنا سکھایا جائے تاکہ زندگی کی قدرو منزلت پیدا ہو۔ عورت کو صنف نازک ٹھہرا کر اس کی تحقیر و بے قدری کا سبق نہ دیا جائے۔ خاندانی ومعاشرتی سطح پر ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کر کے ان میں خود اعتمادی پیدا کی جائے۔ فرد کے اندر حسد، غصہ اور انتقام جیسے رویے پنپنے نہ دئے جائیں۔ رواداری اور برداشت پر مبنی معاشرے ہی تشدد، ظلم اور جبر سے دور رہتے ہیں۔