عیسائی فیمنزم (Christian Feminism):
کرسچئین فیمنزم، تانیثی الہیات کا ایک ایسا مکتبہ فکر ہے جو عیسائیت کے اندر مرد و زن کی مساوات کو آگے بڑھاتے ہوئے معاشرتی اور روحانی تبدیلیاں لانا چاہتا ہے۔ انکا موقف ہے کہ عیسائیت کی مکمل تفہیم کیلئے ضروری ہے کہ خواتین کے کام اورصلاحیتوں کی قدر اوراہمیت کو مردوں کے برابر تسلیم کیا جائے کیونکہ خدا جنسی و نسلی تعصب اور حیاتیاتی خصوصیات کی بنا پر امتیازی سلوک نہیں کرتا۔ خدا نے تمام انسانوں کو ان امتیازات سے قطع نظر مساوات اور ہم آہنگی کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ انکا ماننا ہے کہ جنسی شناخت (gender identity)، شخصی خصائل (personal traits) کےکسی مخصوص مجموعے کو لازمی قرار نہیں دیتی۔ جن دیگر امور پر یہ زور دیتے ہیں ان میں خواتین کی مساوی روحانی اور اخلاقی صلاحیتوں کا اعتراف، اسقاط حمل کے حقوق، بائیبل کے مطالعے اور مذہبی رسومات کی ادائیگی میں صنفی غیر جانبداری، صنف سے ماوراء الوہیاتی طاقت کی تلاش، خدا کیلئے ہر نیوٹرل ضمیر یا ہر صنفی ضمیر کے استعمال کی اجازت وغیرہ شامل ہیں۔ [1]
فیمنزم کی پہلی ویو کے دوران عیسائی مذہب میں خواتین کے کردار اور مقام پر گفتگوکا آغاز ہوا۔ جن خواتین نے چرچ اور دیگر مذہبی شعبہ جات میں عورتوں کی تعداد کے حوالے سے سوال اٹھایا ان میں الزبتھ کیڈی اسٹینٹن (Elizabeth Cady Stanton) سب سے نمایاں تھیں۔ ساٹھ اور ستر کے عشرے میں بہت سی مذہبی خواتین بھی سول رائٹس موومنٹ سے متاثر ہوئیں اور انہوں نے مذہبی حلقوں کے اندر اپنے تولیدی حقوق، شادی اورعدم مساوات کے موضوعات پر لکھنا اور بولنا شروع کیا۔ مذہبی اداروں سے منسلک خواتین کی تمام آرگنائزیشنز میں ایک معاشرتی تحریک شروع ہوئی جس کا نعرہ تھا کہ خدا نے تمام انسانوں کو برابری کی بنیاد پر پیدا کیا ہے۔ پروٹسٹنٹ چرچ نے خواتین کو قائدانہ منصب پر فائز ہونے کی اجازت دے دی اورخواتین کا بطور پادری بھی تقرر کیا جانے لگا لیکن رومن کیتھولک، ایسٹرن آرتھوڈوکس اور سدرن بپٹسٹ کنونشن (امریکہ) اور کئی دیگر فرقوں میں خواتین کو علماء اور پادری کے عہدے پر تعینات ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ [2]
اس دوران عیسائی فیمنسٹ ماہرین نے مسیحی تعلیمات کی نئی تعبیر و تشریح شروع کرتے ہوئے کئی بنیادی عقائد پر سوالات اٹھا دئے جن میں آدم و حوا کی تخلیق، عورت کا پسلی سے پیدا ہونا، ممنوعہ پھل کا استعمال، دنیا میں گناہ کے ساتھ داخل ہونے اور کفارہ وغیرہ شامل تھے۔ اسی طرح کچھ عیسائی فیمنسٹ ماہرین نے تانیثی مساوات کی جنگ میں الہامی کتب کے استعمال کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا اور کچھ نے بائیبل کی آیات کو اپنے مقاصد اور نظریات کے حق میں استعمال کرنے کیلئے مختلف تعبیر و تشریح شروع کر دی۔ ماہر عمرانیات فلان کیمبل (Flann Campbell) نے استدلال کیا کہ قدامت پسند مذہبی گروہ برتھ کنٹرول کے ذرائع کو ممنوع اور اسقاط حمل کو گناہ قرار دے کر مرد اور عورت کے جنسی تعلقات کو محدود کرتے ہیں۔ ٹریسا فورکیڈس(Teresa Forades) نےکہا کہ حمل پر قابو پانے یا اسقاط حمل کا حق عورت کی اپنی فلاح و بہبود سے متعلق ہے اور جب ان حقوق پر قدغن لگائی جاتی ہے تو عورت کی رسائی محدود ہوجاتی ہے۔ چنانچہ آزاد تولیدی انتخاب کیلئے یہودی اور عیسائی تنظیموں نے اتحاد بھی تشکیل دئے اور کہا کہ طاقتور مذہبی عہدوں پر براجمان مرد، اکثر مذہبی تعلیمات کوعورتوں پر جنسی غلبہ رکھنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ [3]
کچھ عیسائی فیمنسٹ ماہرین کا خیال ہے کہ چرچ کے اندر صنفی مساوات اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک خدا کے لئے استعمال ہونے والی ضمیر پر مردانہ اجاری داری کو ختم نہ کیا جائے۔ چنانچہ کچھ نسائی پسند مذکر ضمائر کی جگہ مونث ضمائر استعمال کرنے کچھ دونوں ضمائر استعمال کرنے اور کچھ بائیبل کو صنفی غیر جانبداری سے پڑھنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کچھ لوگ کنواری مریم، حوا، ایستھر (Esther ایرانی بادشاہ کی خوبصورت بیوی جس نے اپنی حکمت عملی سے یہودیوں کو بچایا تھا)اورصوفیہ (Sophia, Holly Spirit, Bride of Christ) کی علامات کو نسائی مذہبی تجربات کی عکاسی کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ پوپ جان پال دوئم اور پوپ فرانسس کی طرح متعدد پوپ ایسے ہیں جنکے خطبات سے فیمنزم کے حق میں حوالہ جات اخذ کئے گئے۔ لیکن بہت سے ناقدین کیتھولک چرچ کے اقدامات کو خواتین کے حق میں مثبت اشارہ قرار نہیں دیتے۔ [4]
شیطانی تانیثی الہیات (Satanic Feminist Theology):
تانیثی الہیات کی تحریک نے پہلے مرحلے میں تمام روایتی مذاہب کو پدرسری نظام کا تسلسل قرار دیتے ہوئے عورت پر ہونے والے ظلم، جبر اور استحصال سے تعبیر کیا اور ان پرشدید تنقید کی۔ جب مذہبی تعلیمات کو مسترد کرنے میں مکمل طور پر کامیابی حاصل نہ ہوئی تودوسرے مرحلے میں ان مذاہب کی روایات اور متون میں ایسے حوالے تلاش کئے گئے جن کی تانیثی تعبیر و تشریح کو فیمنزم کے حق میں استعمال کیا جاسکے۔ لیکن جب اس عمل سے بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے توتانیثی نقطہ نظر کو مذہبی انداز میں پیش کرنے کیلئے ‘ شیطانی تانیثی الہیات’ کے نام سے ایک نیا مذہب تخلیق کیا گیا۔
شیطانی الہیات روایتی معنوں میں مذہب نہیں بلکہ یہ نظریاتی، فلسفیانہ اور عقائد کا ایسا مجموعہ ہے جس کی جڑیں شیطانی ثقافتی تصورات میں پوشیدہ ہیں۔ اس میں شیطان کی خدا کی طرح عبادت نہیں کی جاتی بلکہ شیطان کو ایک ایسا ہیرو تصور کیا جاتا ہے جو خدا کی مخالفت کرتا اور خدا سے جڑی ہوئی الہیات سے بغاوت کرنے میں معاونت کرتا ہے۔ شیطانی الہیات اصل میں کوئی مذہب نہیں لیکن یہ اپنے آپ کومذہب کی شکل میں اس لئے پیش کرتی ہے کہ مذاہب کو ملنے والی مراعات مثلاً چندہ وغیرہ جمع کرنے، رسوم و رواج اور سماجی سرگرمیوں کے ذریعے ماننے والوں کو آپس میں ملنے کے مواقع مہیا کرنے، یادگاریں اور چرچ وغیرہ کے قیام کی منظوری مل سکے۔
فیمنسٹ الہیات میں شیطان کو ایک ایسا فرشتہ قرار دیا جاتا ہے جس نے خدا کے ظلم(معاذاللہ) کے خلاف بغاوت کی، اسکے خوف کو کم کیا، باطنی خارجی اخلاقیات کو متحرک کیا، مسیحی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حقوق نسواں کی تحریک کوبغاوت کیلئے بنیاد فراہم کی۔ ماڈرن شیطانی فیمنزم کیلئے لوسیفر، نسوانی آزادی، سرکشی اور خودمختاری کیلئے سیاسی اور ثقافتی قوت کی علامت کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے۔ [5]
بائیبل میں جس شیطان کو شر کی قوت کہا جاتا ہے فیمنسٹ الہیات اسی شیطان کو بہادر، پرہیزگار اور مثبت قوت کے طورپر پیش کرتی ہے۔ فیمنسٹ ماہرین کے خیال میں شیطان نے حوا کو پھل پیش کرنے کے دوران ایک مطلق حکمران سے آزادی، آزادانہ ارادے اور عقلی عقیدے کا تحفہ دیا اورخواتین کی جنسی خودمختاری پر اسکے مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ بائیبل کی کتاب پیدائش میں آدم وحوا کے واقعہ میں جو سانپ(شیطان) بغاوت اور بدی کی علامت ہے فیمنسٹ الہیات اسے عورت کی جنسیت کے اظہار کے سلسلے میں ایک قابل تعریف اور ترقی پسندانہ علامت قرار دیتی ہے اور مذہبی علماء پر الزام لگاتی ہے کہ انہوں نے شیطان کا استقبال کرنے کے بجائے، عورتوں کو جنسی آزادی دلانے والی اس مثبت قوت کو نظر انداز کیا۔
حقوق نسواں کے حوالے سے بائیبل پر سب سے پہلی تنقیدی کتاب امریکی فیمنسٹ اسکالر الزبتھ کیڈی اسٹینٹن (Elizabeth Cady Stanton) نے لکھی جسکا نام ویمنز بائیبل (Women’s Bible) تھا۔ اسٹینٹن اور اسکے ساتھیوں نے سوچا کہ بائیبل کی تعلیمات سے پدرسری کو ملنی والی قوت کا مقابلہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ بائیبل کی تعلیمات کوہی الٹ دیا جائے۔ چنانچہ آدم اور حوا کےقصے میں حوا کوباغی اور سرکش ہیروئین کے طورپر اور شیطان کو اسکے دوست، خیر خواہ اور مردانہ حاکمیت سے نجات دہندہ کے طورپر پیش کیا گیا۔ اسٹینٹن کے مطابق مردوں سے بغاوت کرنے والی خواتین میں ایک خاص چیز پائی جاتی ہے کہ وہ شیطان کے مشورے پر سب سے پہلے عمل کرتی ہیں اور یہی چیز انہیں مردوں پر برتری دلاتی ہے۔ اسٹینٹن کی کتاب پر شدید تنقید ہوئی کہ اس نے مذہبی تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے شیطان کی پجاری ڈائنوں اور جادوگرنیوں کو حقوق نسواں کا چیمئن اور پدرسری کے خلاف جدوجہد میں شیطان کے چیلوں کو حلیف کے طور پر پیش کیا لیکن اس تنقید کے باجود فیمنسٹ اسکالرز کا کام جاری رہا۔ [6]
فیمنسٹ جادوگرنیوں کے بارے میں جولس مائیکلٹ (Jules Michelet) کے خیالات نے اس نئے مذہب کے پیروکاروں کو بہت متاثر کیا اور جدید شیطانی الہیات میں اس کی تحریروں کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ ڈائن (witch) کو اس نے خواتین اور شیطان کے مابین اتحاد کی ایک نمایاں مثال کے طورپر پیش کیا۔ اسی طرح فیمنسٹ اسکالر ماٹیلڈا جوسلین (Matilda Joslyn Gage) نے ڈائن کے شیطانی کردار کو پدرسری کے ظلم اور ناانصافی کے خلاف بغاوت کا نام دیا۔ چارلس گاڈفری لیلینڈ (Charles Godfrey Leland) نے اپنی کتاب چڑیلوں کی انجیل (Gospel of the Witches) میں معاشرتی جبر کے خلاف جادوگرنیوں اور چڑیلوں کو پروٹو فیمنسٹ باغیوں کے طور پر پیش کیا۔
لٹریچر اور آرٹ میں بھی خواتین کے تحفظ اور آزادی کے اظہار کیلئے مضبوط شیطانی کرداروں کو پیش کیا جاتا ہے اور رومانٹک قصے کہانیوں میں شیطانی خصوصیات کی مثبت عکاسی کی جاتی ہے۔ فلیسئین روپس (Felicien Rops) اور جوریس کارل ہائسمنس (Joris-Karl Huysmans) کے تجزیے کے مطابق اگرچہ اس طرح کے آرٹ اور لٹریچر میں عورت کا آزادانہ، مضبوط اورباغیانہ کردار فیمنزم میں رول ماڈل کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ شاعرہ رینی ویون (Renee Vivien) نے شیطان کو ہم جنس پرستوں اورنسوانی محبت کی دیوی کے طورپر پیش کیا ہے۔ بہت سی مشہور گلوکار اور اداکار خواتین عوامی شہرت کے حصول کیلئے شیطانی جمالیات کو اپناتی ہیں جیسے اداکارہ سارہ برنارڈٹ (Sarah Bernhardt)، تھیڈا بارہ (Theda bara) اور لوئیسہ کاسٹی (Luisa Casati) روایتی عیسائی اخلاقیات کو مسترد کرنے کیلئے شیطانی محرکات کو استعمال کرتی تھیں۔ [7]
مذہبی قوانین اور حکمرانی کے خلاف پہلی شیطانی تنظیم 1920 کی دہائی کے آخر میں تشکیل دی گئی۔ یہ تنظیم میخائیل باکونن (Mikhail Bakunin) ،ولیم گوڈوین (William Godwin)، موسیٰ ہرمین (Moses Harman)، پیوٹر الیکسویچ کروپوٹن (Pyotr Alexeyevich Kropotkin) اور پئیر جوزف پراڈھون (Pierre-Joseph Proudhon) جیسے دانشوروں کی تحریروں سے متاثر تھی اور شیطان کے سحر انگیز کردار کو ثقافتی زندگی میں پریکٹس کرنا چاہتی تھی۔ اس تنظیم میں زیادہ تعداد مردوں کی تھی لیکن شیطانی متھالوجی کے رومانٹک تصورات میں اسکا اصل حلیف عورت کو ہی سمجھا جاتا اور اسکی جنسی آزادی کا جشن منایا جاتا۔
جدید شیطانی الہیات میں الیسٹر کرولی (Aleister Crowley) اہم اسکالر ہیں۔ کرولی کا فلسفہ شیطان کے پجاریوں کو بنیادی فکری مواد فراہم کرتا ہے۔ اس نے خواتین کو اخلاقی طور پر کمتر قرار دیتے ہوئے انکی تولیدی سرگرمیوں کی مخالفت کی اورانکے جنسی اعضاء کی پرستش کو رواج دیا۔ اس حوالے سے انتون لاوی (Anton Lavey) بھی اہم اسکالر ہیں جنہوں نے شیطانی بائیبل (Satanic Bible) کے نام سے کتاب لکھی اور خوبصورتی، جذباتیت، جنسیت، چالاکی اوردھوکہ دہی کو خواتین کی طاقت قرار دیا۔ انہوں نے عریاں اور نیم عریاں خواتین کی قربانی کی رسم ایجاد کی اور جنس پرستی کے نظام کو آگے بڑھایا۔
انتون لاوی نے ریاستہائے متحدہ امریکہ، کیلیفورنیا میں 1966 میں شیطانی چرچ کی بنیاد رکھی۔ اسکے خیالات فریڈرک نٹشے، ڈارون اور آئین رینڈ(Ayn Rand) سے متاثر تھے۔ 1970 میں بہت سے افراد نے آزاد شیطانی تنظیمیں تشکیل دینے کیلئے اس چرچ سے علیحدگی اختیار کر لی تاہم اس چرچ کے قوائد و ضوابط زیادہ تر لیوی کی کتاب ‘شیطانی بائیبل’ سے اخذ شدہ ہیں اور انہی پر عمل درآمد ہوتا ہے۔
یہ مذہب مادیت پر مبنی ہے اور مافوق الفطرت مخلوق، روح اور جسم کی دوئی اور موت کے بعد کی زندگی کو مسترد کرتا ہے۔ اس مذہب کے ماننے والے نہ شیطان پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ ہی مذہبی معنوں میں اسکی عبادت یا پرستش کرتے ہیں بلکہ شیطان کے کردار کو محض فخر، روشن خیالی، انفرادیت، چالاکی، عقلیت، ابراہیمی مذاہب کی روایت سےبغاوت اور فطری جبلت اور غیر معقولیت کو دبانے کے خلاف سرکشی کی علامت سمجھتے ہیں۔ یہ شیطانی مذہب انسان کو صرف حیوانی اورجبلی وجود سمجھتے ہوئے انفرادیت، اناپرستی اور فطری نظریہ کو فروغ دیتا ہے۔ انسان کی جذباتی اور نفسیاتی توانائی کے کیتھارسس کیلئے جادو اور مختلف شیطانی رسومات کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ ان رسومات میں فری لو، نفرت، جنسی تعلقات، ہوس، گلیمر، جسمانی خودمختاری، جنسی کھیل، جنسی اعضاء کی پرستش، جنسی سرگرمیاں اور ہیراپھیری شامل ہے۔ [8]
فیمنزم میں شیطانی الہیات اورجادو وغیرہ کا سیاسی اور ثقافتی استعمال نسبتاً نیا رجحان ہے لیکن اسے سیاسی مشغولیت اور ثقافتی رفاقت و یکجہتی کے لئے ایک طاقتور ہتھیار کے طورپر استعمال کیا جا رہا ہے۔ شیطانی آئیڈیالوجی اور رسوم وغیرہ کوریاستی اور مذہبی اتھارٹی و حاکمیت پر سوال اٹھانے اور سیاسی و معاشرتی تبدیلی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ماٹلڈا جوسلین گیج (Matilda Joslyn Gage) کے مطابق چرچ اور ریاست کی حاکمیت کے خلاف عورت سے زیادہ کوئی سرکش طبقہ سامنے نہیں آیا اور نہ ہی کسی اور کی جدوجہد سے اس طرح کے دورس اثرات مرتب ہوئے۔ عورت کی جدوجہد کی یہ پیش رفت مستقبل میں مذہبی اور ریاستی اداروں کی موجودہ ہر شکل کو ختم کر دے گی اور انکا انجام ایک نئی دنیا کا آغاز ہوگا۔ [9]
2014 میں بلی گراہم ایونجلسٹک ایسوسی ایشن کے صدر فرینکلن گراہم (Franklin Graham) نے دعویٰ کیا کہ ایل جی بی ٹی کیو حقوق کے پیچھے شیطانی قوت کارفرما ہے۔ کیتھولک مصنف پیٹر کوسوانیکی نے کہا کہ ‘اسقاط حمل، شیطان کی طرف سے پیش کردہ ایک ایسی غیر مقدس اور اشتعال انگیز خدمت ہے جسکا مقصد عیسائی چرچ اور ریاست کو قوت کو للکارنا، کنٹرول کرنا اورچیلنج کرنا ہے۔ فیمنسٹ ماہرین کے مطابق خیر و شر کا تصور معاشرتی اداروں کووہ طاقت اور قوت فراہم کرتا ہے جس کے تحت وہ وہ مذہبی قوانین اور ریاستی حکمرانی کے تقدس کی نافرمانی کرنے والوں کو بدبخت قرار دیتے ہوئےقربانی کا بکرا بناتے ہیں لیکن شیطان اس مطلق العنانی کے خلاف بغاوت اور سرکشی کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ 2016 میں ریپلکن نیشنل کنونشن میں صدارتی امیدوار بین کارسن(Ben Carson) نے کہا تھا کہ ہلیری کلنٹن لوسیفر لیگ میں شامل ہے اور صدراتی مباحثے کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کلنٹن کو’شیطان’ کہتے ہوئے اسکا تعلق بھی اسی تنظیم سے بتایا۔
کیا سٹینا (Chia Satana) لانگ آئی لینڈ، نیویارک سے تعلق رکھنے والی ایک شیطان پرست فیمنسٹ ہیں۔ وہ جادو، ٹونے، شیطانی رسومات وغیرہ سے لطف اندوز ہوتی اورچڑیلوں، ایل جی بی ٹی کیو آئی اے کمیونٹی سے خصوصی محبت کرتی ہیں۔ وہ اپنے ایک بلاگ میں لکھتی ہیں کہ ‘ذاتی طورپر مجھے لگتا ہے کہ شیطانیت اور نسوانیت کا ملاپ ایک عمدہ کاک ٹیل کی طرح ہے۔ کچھ لوگ تنقید کرتے ہیں کہ شیطان کی پرستش کرنے والی خواتین برہنہ رہتی ہیں لیکن میں اسے خواتین کی جنسی آزادی کے جشن کے طور پر دیکھتی ہوں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ شیطان چاہتا ہے کہ ہم صحت مند طریقوں سے اپنی جنسیت کا کھل کر اظہار کریں اور مذہبی لوگ خواہ مخواہ اپنے پیروکاروں کو جنسیت سے شرمندہ کرتے ہیں۔ شیطان عورتوں اور ٹرانس جینڈرز کو مردوں کی طرح جنسی مخلوق سمجھ کر عزت دیتا ہے اور انکے خلاف ہونے والےامتیازی سلوک اور ظلم وستم میں ان لوگوں کے حلیف کے طورپر کام کرتا ہے۔ شیطان ظلم کے خلاف فرد کی بغاوت اور آزادی کی علامت ہے۔ اور اس وقت دنیا میں غیر صحت مند شرم سے چھٹکارا پانے کیلئے ہمیں کسی مذہب کی نہیں بلکہ شیطان کی ضرورت ہے’۔ [10]
سوڈر ٹورن (Sodertoren) یونیورسٹی، اسٹاک ہوم، سویڈن کے پروفیسر پر فکسنیلڈ(Per Faxneld)اپنی کتاب ‘شیطانی فیمنزم : انیسویں صدی کی ثقافت میں عورت کی آزادی میں لوسیفر کا کردار’ میں فیمنسٹ ماہرین کےاس لٹریچر کا تجزیہ کرتے ہیں جس میں عیسائی مذہبی نظریات کو رد کرنے کیلئے شیطان کا استعمال کیا گیا۔ پرفکسنیلڈ اپنے تجزیے میں بتاتے ہیں کہ فیمنسٹ خواتین کس طرح فیمنسٹ نظریات اور شیطانی الہیات میں مطابقت پیدا کرنے کیلئے معذرت خواہانہ رویہ اپناتی ہیں اور کس طرح شیطانی الہیات کے ساتھ اپنی وابستگی کو وومن ایمپاورمنٹ کی علامت کے طورپر استعمال کرتی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ روایتی اور مذہبی عقائد جنہیں مین اسٹریم فیمنزم، دقیانوسی قرار دے کر اس لئے مسترد کرتا ہے کہ وہ عورت کی محکومی، ظلم، جبر اور استحصال کیلئے استعمال کئے جاتے رہے ہیں انہیں ضرورت پڑنے پر شیطانی الہیات کے لیبل کے ساتھ مثبت اوربااختیار علامات میں تبدیل کردیا گیا۔ روایتی مذاہب، شیطان کی جن منفی خصوصیات پر تنقید کرتے اور ان سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں فیمنسٹ الہیات شیطان کی انہی قبیح خصوصیات کو مذاہب کے خلاف تنقید کرنے کے لئے بطور ہتھیار اور اختلافی حکمت عملی (discursive strategy) کے استعمال کرتی ہے۔ [11]
فیمنسٹ آئیڈیالوجی کی مثال آکٹوپس کی ہے جو ضرورت اور ماحول کو دیکھ کر رنگ بدلتا ہے۔ شکار کو دھوکہ دینے اور دبوچنے کیلئے ہر سمت میں اپنی ٹانگیں اور بانہیں پھیلا کر رکھتا ہے۔ فیمنسٹ آئیڈیالوجی ایک طرف اپنے غیر علمی نظریات اور عقائد کو سوشل سائنس ثابت کرنے کیلئے پورا زور لگاتی ہے۔ اسکا فیمنسٹ نقطہ نظر (feminist perspective) اتنا سخت گیر ہے کہ وہ مذہبی عقائد و نظریات کے بنیاد پر قائم ہونے والے نظام وجود، جنسی درجہ بندی اور ثقافت کو خاطر میں ہی نہیں لاتا اورکھلے عام اس سے متصادم ہے۔ دوسری طرف نسائی نقطہ نظر (women’s perspective) کا ڈھیلا ڈھالا اور مبہم تصور دنیا بھر کی خواتین کے مابین پائے جانے والے نظریاتی و ثقافتی اختلافات و تنازعات کو دھندلا کرانہیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتے ہوئے نام نہادمردانہ حاکمیت کے خلاف جدوجہد پر اکساتا ہے۔ تیسری طرف یہ فیمنزم مذہبی اداروں اور حلقوں کے اندر نسائی کردار اجاگر کرنے، عبادتگاہوں اور نمازوں کی قیادت خواتین کو سونپنے اور مذہبی تعلیمات کو مسخ کرنےکیلئے متون کی عجیب و غریب تشریحات کرتا ہے۔ مذہبی متون میں خدا کیلئے استعمال ہونے والے مذکر صیغے کو مونث صیغے میں تبدیل کرنے کی ضد کرتا ہے۔ جب اس سے بھی ضرورت پوری نہیں ہوتی تو ایک خود ساختہ مذہب کی شکل اختیار کرتے ہوئے شیطان کو ہیرو بنا کر خدائی الہیات کے سامنے لاکھڑا کرتا ہے۔
اس مضمون کا پہلا حصہ اس لنک پہ دیکھئے
References:
[1] Hassey, Jannette (1989) “A Brief History of Christian Feminism”. Retrieved from https://journals.sagepub.com/doi/10.1177/026537888900600201
[2] Francis, Shefin (2019) “Role of Feminine in Church” Retrieved from GYANADHARA_DOMINICAN_INSTITUTE_OF_PHILOS.pdf
[3] Chaves, Mark (1999) “Ordaining Women: Culture and Conflict inn Religious Organizations” Retrieved from https://books.google.com.pk/books?id=yUWz24sVu54C&pg=PP13&redir_esc=y#v=onepage&q&f=false
[4] McEwan, Dorothea (1999). "The Future of Christian Feminist Theologies—As I Sense it: Musings on the Effects of Historiography and Space”. Retrieved from https://journals.sagepub.com/doi/abs/10.1177/096673509900002206
[5] Colby, Christine (2018) “Meet the Satanic Feminists who are fighting for social justice”. Retrieved from https://bust.com/feminism/194764-satanism-feminism-religion.html
[6] Zimmermann, Dr. Augusto (2017) “Women Under the Spell”. Retrieved from https://quadrant.org.au/magazine/2019/10/women-under-the-spell/
[7] Tully, Caroline (2021) ”Review of Satanic Feminism”. Retrieved from https://readingreligion.org/books/satanic-feminism
[8] Ohlheiser, Abby (2014) “The Church of Satan wants you to stop calling these devil worshiping alleged murderers Satanists”. Retrieved from https://www.washingtonpost.com/news/national/wp/2014/11/07/the-church-of-satan-wants-you-to-stop-calling-these-devil-worshipping-alleged-murderers-satanists/
[9] Blackmore, Jex (2019) “Raising Hell: Satanic Feminism’s Eternal Legacy”. Retrieved from https://www.bitchmedia.org/article/satanic-feminism-eternal-legacy
[10] Satana, Chia (2018) “Why I am a Satanic Feminist”. Retrieved from https://www.mookychick.co.uk/health/witchcraft-spirituality/why-i-am-a-satanic-feminist.php
[11] Faxneld, Per (2017) “Satanic Feminism”. Retrieved from https://books.google.com.pk/books?hl=en&lr=&id=-FsvDwAAQBAJ&oi=fnd&pg=PP1&dq=Satanic+Feminism:+Articles&ots=7WMUoz0uvd&sig=2UF8vW1OWhcEhdFn1zXHtudy2_I#v=onepage&q=Satanic%20Feminism%3A%20Articles&f=false