کیا مولانا مودودی شاہ ولی اللہ کے بعد ہندوستان میں پیدا ہونے والی سب سے بڑی شخصیت تھی جس نے قوم و ملت کی رہنمائی کی؟ مولانا مودوی کی اصل وجہ شہرت کیا ہے؟ وہ بڑے ادیب تھے یا بڑے مصلح اور سیاسی رہنما تھے؟ شاہ ولی اللہ کے عہد کے مطالبات اور مولانا مودودی کے عہد کے مطالبات میں کیا فرق تھا اور مولانا ان مطالبات سے کیسے عہدہ برآ ہوئے؟ مولانا مودودی پر تنقید کرنے والے حضرات کیا انکے علمی پائے کے لوگ تھے؟ کیا اہل علم کے فروعی معاملات سے مغائرت کرنا کوئی بڑی بات ہے؟ کیا اہل علم کو نقد اور نظر کرنے والوں کا برا منانا چاہیے؟ علم کی کیا تعریف ہے؟ کیا علم سے مراد علم الاحکام ہے؟ ایک اچھا ادیب کیا ہوتا ہے اور اسکا کن چیزوں پر عبور ہونا چاہیے؟ تنقید کی صحیح تعریف کیا ہے؟ نظر اور نقد میں کیا فرق ہے؟ کیا نقد سے مراد صرف اعتراضات ہیں یا اس میں تحسین بھی شامل ہوتی ہے؟ کیا آج کے دور کے محققین اور کریٹیکل تھنکر ہماری علمی روائت کے طریقہ نقد سے واقف ہیں؟
اسی اور نوے کی دہائی میں جب مختلف طرح کے نظریات میں تنوع اور تصادم کا ماحول تھا، فکر میں افتراق اور انتشار کی فضا تھی، تو ا س زمانے میں کالج اور یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ اس ماحول سے ہر پڑھے لکھے فرد کا متاثر ہونا ضروری تھا۔ جس عہد میں آپ رہ رہے ہوتے ہیں اس عہد کی ایک فضا ہوتی ہے جس سے آپ قدرتی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ ماحول کی یہ آوازیں میرے لئے دلچسپ تھیں لیکن میرے پاس انکا کوئی واضح تصور نہیں تھا۔ اس ماحول میں ہمیں اپنے تہذیبی تصور کے مطابق ایک حکمت عملی درکار تھی، اور اس حکمت عملی کو کیا ہونا چاہیے کی ضرورت جب شدت سے محسوس کی جار ہی تھی تو مودودی صاحب کی شکل میں وہ شخصیت سامنے آئی جس نے اس سلسلے میں بھرپور رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا۔
کتاب سے میرا تعلق شروع سے ہی تھا لیکن میں چونکہ ادبیات کا آدمی ہوں اور ادب سے میرا ایک تعلق ہے اوراس حوالے سے جس شخصیت نے میری رہنمائی کی وہ مولانا مودودی ہیں۔ اس عہد میں مودی صاحب کی ادبیت بہت مضبوط تھی، انکی تفسیر، سیرت پر کتابیں اور دیگ سب کتابیں بہت شاندار ہیں۔ میں نے چند مہینوں کے اندر انہیں مفصل طور پر پڑھ لیا تھا۔
ادیب بڑے کمال کی چیز ہوتا ہے۔ ادیب وہ شخص ہوتا ہے جو یہ جانتا ہے کہ کس لفظ میں کس معنی کو پہنچانے کی کتنی صلاحیت موجود ہے۔ ہمارے نئے عہد کے لکھنے والے زیادہ تر لغت پر انحصار کرتے ہیں اور الفاظ کے مصدر اور مشتق کو نہیں جانتے اس لئے وہ الفاظ کو غیر روائتی معنوں میں استعمال کرتے ہیں اور اس لفظ کی اصل فضا میں اسکا استعمال نہیں جاتے۔ ایب ایک ایسا شخص ہوتا ہے جس کے ذہن میں جو عملی خاکہ ہوتا ہے اسے وہ بہت اہتمام کے ساتھ الفاظ میں ڈھالتا ہے اور یہ اوسط درجے کی صلاحیت رکھنے والے لوگوں کا کام نہیں ہوتا۔ مولانا مودودی نے متعدد شعبوں اور گوشوں میں وہ ہمت دکھائی اور تحقیقی پیش کہ جس نے ہمارے اوہام کی تشفی کر دی۔ ایک استاد اور ادیب کا یہی کام ہوتا ہے۔ مخفی باتوں پر بھی اسکی دسترس ہوتی ہے۔ مولانا مودودی، شاہ ولی اللہ کے بعد ہندوستان میں پیدا ہونے والی بڑی شخصیت تھی اور انہوں نے ملت کی اس وقت رہنمائی کی جب الحادی فکر کو لوگ فیشن کے طور پر اپنا رہے تھے۔
ہر عہد کے مطالبات مختلف ہوتے ہیں، مولانا مودودی کے دور کے مطالبات، شاہ ولی اللہ کے دور کے عہد کے مطالبات شے زیادہ مختلف اور وسیع تھے، مولانا نے متعدد شعبہ جات میں وہ ہمت دکھائی اور وہ تحقیق پیش کی کہ سب کے اوہام کی تشفی کر دی اور ایک ادیب کا یہی کام ہوتا ہے۔
علم کیا ہے؟ علم، علم الاحکام ہے۔ علم کی یہ سادہ سی تعریف طبیعات، کیمیا، حیاتیات غرض ہر جگہ پوری اترتی ہے اور موثر ہے، ہر علم ایک حکم ہے اوراسکے کچھ قواعد ہیں، عالم وہ ہے جو کسی موضوع میں کثیر معلومات اور آراء کا جامع ہوتا ہے، اور پھر وہ ان کثیر معلومات کا تجزیہ کرکے ایک نتیجہ اخذ کرتا ہے اور مولانا مودودی میں یہ سب صلاحیتیں پائی جاتی تھیں۔ اشتراکی فکر اور انکار حدیث کے فتنے کے خلاف مولانا مودودی نے بہت معرکے کا کام کیا، ایک اہم پوزیشن لی۔ مولانا اپنے مخاطب کو دلائل کے ساتھ عاجز کر دیتے تھے اور اس میں و ہ جارحیت کی بجائے تفقہ پر زور دیتے تھے، اس شان کے لوگ اب ہم میں نہیں پائے جاتے۔
مولانا مودودی کی حوضوی شناخت (دینی مدرستہ کی شناخت) نہیں تھی لیکن انکے علم اورعمل میں ایک ایسا امتزاج پایا جاتا تھا کہ وہ اسی زمرے میں شمار ہوتے ہیں، مولانا کا علم راسخ بھی تھا اور انکی اپنی ذات پر نافذ بھی تھا۔ مولانا خود بھی ایک منفرد شخصیت ہیں اور مولانا کے منابع بھی منفرد ہیں۔ ایک علم راسخ بھی تھا اورنافذ بھی تھا اور انکی وجود انہی کے اندر تھا۔ ہو سکتا ہے ہمارے ادبی ذوق میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہو لیکن مولانا کے احترام کو آج بھی ہم قیمتی متاع سمجھتے ہیں۔
معاصر اہل علم ہمیشہ معاصر پر گفتگو کرتے ہیں اور صرف انکی تحسین ہی نہیں کرتے بلکہ انکا انتقاد بھی کرتے ہیں، امام بخاری جیسی شخصیت تک پر بھی بے شمار اعتراضات ہوئے ہیں حالانکہ وہ اپنے معترضین کیلئے بھی سند تھے اور اس میں تو کوئی شک نہیں کہ انکے بیشتر پہلو انتہائی شاندار تھے۔ مگر ہر انسان سے کبھی تسامع اور ڈھیل ہو جاتی ہے اور اس پر اعتراض ہو سکتا ہےاس لئے اعتراضات اور انتقادات پر برا نہیں منانا چاہیے۔ نقد کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ محاسن بھی بتائے جائے اور کمزور پہلوئوں پر احتیاط کے ساتھ تنقید بھی کی جائے۔
ہماری اسلامی علمیت کے ایک دو جملوں سے اگلے شخص کی ثقاہت، استحکام اور علمی قابلیت کا احاطہ ہو جاتا تھا لیکن ہمارے عہد کے لوگ علمی میراث سے کٹے ہوئے ہیں۔ اگر آج کے دور کی آزادانہ تحقیق، تخصص اور کریٹیکل تھنکنک کو اسی حال پر چھوڑ دیا جائے تو یہ ہمیں ان کھائیوں میں گھسیٹتے رہیں گے۔
معاصر پر ہمیشہ رائے دی جاتی ہے اسے نظر کہتے ہیں، شخصیت کا نقد نہیں کیا جاتا، متن کا نقد کیا جاتا ہے۔ جو لوگ معاصر شخصیت کے بارے میں دلائل کا مطالبہ کرتے ہیں وہ ہماری علمی روائت سے واقف نہیں ہیں۔
مولانا مودودی گرامی ترین شخصیات میں شمار ہوتے ہیں، انکا استدلال اور شائستگی بہت بڑے درجے پر ہے، علم کے ساتھ جو خصوصیات جڑی ہوئی ہیں یہ ان میں پائی جاتی تھیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں ذہنی قوتوں کے ساتھ ساتھ بے پناہ اخلاقی اور عملی قوتوں سے بھی نوازا تھا۔ جو کام درد مندی اور خلوص سے کیا جائے اسکے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور مولانا میں یہ صفات بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں۔
آج کے دور میں خدا گریزی کے فیشن میں جو کمی آئی اسکا واحد سبب مولانا مودودی کوتو نہیں کہا جا سکتا لیکن جو طبقہ مولانا مودودی کا مخاطب تھا اس میں اس حوالے سے واضح تبدیلی دیکھنے کو ضروری ملتی ہے کیونکہ مولانا نے انکے ذہنی انتشار اور بگاڑ کو ضرور رفع کرنے میں انکی رہنمائی کی۔
مولانا مودودی نے ہمیں بے شمار اچھے درجے اور نمونے کے افراد دئے اور وہ اپنی دور کی وہ واحد شخصیت تھے جو یہ کام کر سکتے تھے۔ ان نمونے کے افراد سے مراد کوئی گروہ نہیں ہے۔ استاد کوئی لاوارث شخص نہیں ہوتا، اسکے پیچھے اہل علم کا ایک گروہ ہوتا ہے، استاد خام کو خالص اور کامل بناتا ہے، استاد کے علاوہ ہمارے ماحول اور اجتماع کے بھی ہمارے اوپر بڑے احسانات ہوتے ہیں اگر کسی ذہین ترین فرد کو بھی اس کے ماحول سے کاٹ دیں تو وہ کچھ نہیں رہتا۔ مولانا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انکا ذاتی کردار اتنا شاندار اور مستحکم تھا کہ اس شان کے لوگ وجود میں آ گئے تھے۔
مولانا مودودی کے مخالف علماء کو ان سے بہت توقعات تھیں اور یہ بہت مشکل کام ہے کوئی شخص کسی دوسرے کی توقعات کا امین بنے۔ مولانا مودودی کے مخالف گروہ میں انکے درجے کا کوئی آدمی نہیں تھا۔ اعتراض کرنا کوئی بڑی صلاحیت نہیں ہے، اعتراف کرنا بڑی صلاحیت ہے، اہل علم سے فروعی معاملات میں مغائرت کرنا چھوٹی بات ہے۔ علماء بھی غلطیاں کرتے ہیں جیسے ایک عالم کسی کو ثقہ کہہ رہا ہوتا ہے اور دوسرا ضعیف اور تیسرا یہاں تک کہہ دیتا ہے کہ اس میں کوئی اچھی چیز پائی ہی نہیں جاتی لیکن ذہن میں یہ بات رکھنی چاہیے کہ کسی پر نقد ہونا یا اعتراض ہونا اسکا مسترد ہوجانا نہیں ہوتا۔ مولانا پر بھی بہت اعتراضات ہوئے لیکن اسکے باوجود مولانا کی خوبیوں کا پلڑا بھاری ہے۔
مجھے مولانا کے جمہوری اور سیاسی فلسفے سے کبھی بھی اتفاق نہیں ہوا لیکن یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مولانا کی شخصیت اتنی بڑی تھی کہ ہمارے جیسوں کا اختلاف یا اعتراض کوئی معنی نہیں رکھتا۔ لیکن اب یہ چیز ہمارے ہاں رائج ہے اور اسے سند حاصل ہے اس لئے اب یہ جائز بھی ہو گیا ہے۔ میرا یہ خیال ہے یہ کوئی محکم بات نہیں ہے کہ مولانا کے جو قریبی لوگ تھے، جو انکے ادارے کے ایک طرح سے کفیل تھے یہ جمہوری سیاست انکا خیال تھا۔ بعض اوقات تعداد سے بھی دھوکا ہو جاتا ہے۔ تعداد میں کمیت ہوتی ہے کیفیت نہیں ہوتی۔ ایک بڑی تعداد کو دیکھ کر یہ کہنا کہ اب کایا ہی پلٹ جائے گی درست اندازہ اورتجزیہ نہیں ہوتا اوران اندازوں کا انجام بتاتا ہے کہ یہ اندازے غلط لگائے گئے تھے۔ مولانا اگر سیاسی نظم کی بجائے تبلیغی نظم قائم کر جاتے تو مولانا کا کام اتنا مبارک تھا کہ اسکی اساس پر مضبوط سیاسی نظم تو بعد میں خود ہی وجود میں آجاتا۔ ترکی اور مصر میں اسی طرح سے کام ہوا۔
یہ تحریر مصنف کی زبانی سنئے: