اِدھر کچھ روز سے فیس بک کی دیواروں پہ علمی چاند ماری کے ہنگام، یار لوگوں نے تصوف کو بھی نشانے پہ لے رکھا ہے۔ یہ موضوع اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود اسلام، اورشاید اتنا ہی انتہائی نکتہ ہائے نظر کا حامل بھی۔
تصوف پہ –ہر دو حوالوں سے– لکھنے والے علما، صوفیا، فلاسفہ اور اہل دانش نے اتنا وسیع اور وقیع علمی ذخیرہ فراہم کر چھوڑا ہے کہ صرف اسکے عنوانات اور موضوعات سے گزر جانا بھی عام آدمی کے لئے ممکن نہیں۔ سچ ہے کہ تصوف کا فلسفہ اور دبستان اپنے اندر ایسی شدید کشش رکھتا ہے کہ اسکے ماننے والے ہوں یا انکاری، عاملین تصوف ہوں یاناقدین، اسکے سحر سے بچ نہیں پاتے۔
تصوف اور صوفیا کے حوالے سے میری پہلی یادداشت بچپن میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مزار کا دورہ تھا۔ شعورکے تشکیلی دور میں مرحوم سلیم احمد سے متاثر ہوا اور بابا ذہین شاہ تاجی کی شرح فصوص الحکم پر ان کا لکھا ہوا مقدمہ پڑھا تو تصوف سے ایک سنجیدہ علمی اشتغال پیدا ہونا شروع ہوا۔ بعد کو مکتبِ روایت کی شاندار علمی کاوشوں کے ذریعہ اس میں اضافہ ہوتا رہا اور جدید مغربی ذہن کی پیدا کردہ گمراہیوں سے مقابلے کا حوصلہ اور ہتھیار خود مغرب کے نو مسلم صوفیا کے ہاں سے فراہم ہونے لگے۔ روایتی تصوف کے بنیادی تصورات کی مضبوطی کا اندازہ ہوا تو موجودہ زمانے تک اس میں در آنے والے الحاقی و اضافی تصورات کو جاننے اور چھاننے میں کوئی دشواری نہ ہوئی۔
پیرِ رومی کے مزار (قونیہ) پہ حاضری اور وہاں ہمہ وقت موجود "صدائے نے” کے ذریعے پیدا ہونے والی کیفیت سے اس نظری دلچسپی نے واردات قلبی کا رنگ اختیار کرنا شروع کر دیا۔ تصوف کو "متوازی دین” قرار دینے والوں کی دیگر بہت سی آراء سے اتفاق کے باوجود اس رائے سے اتفاق نہ کرنے کی وجہ علمی سے زیادہ خون میں دوڑتی محسوس ہوتی رہی، دل خداشناسی کی اس فطری اور سکینت آمیز راہ کی جانب لپکتا رہا، ہمکتا رہا، پیرانِ کلیسا سے الجھتا رہا۔
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو
یوں دلیل کی سختی کو کیفیت کی نرمی سے معتدل کرتا رہا۔ پاسبانِ عقل کو چھوڑ کے، دل کو گاہے تنہا کرتا اور پھر اس تنہائی کو خدا کی حضوری سے دور کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اس عمل کا حاصل وہ کیفیت اور وہ ہمہمہ ہے جس کا اظہار الفاظ کی پہنائی سے ممکن ہی نہیں، مگر اک یقین، کہ ایمان کا مترادف جانتا ہوں۔
مجھے لگتا ہے کہ آج کے جدید طرز زندگی اور نامسعود و نامحمود طرز فکرکا علاج کچھ اس روایت سے محترز ہوتے ہوئے ممکن نہیں۔ ایسے میں دل سے صدا آتی ہے کہ کاش کوئی اللہ کا بندہ اٹھے اور آج کے اسلوب میں تصوف کو نئی معنویت سے پیش کرتے ہوئے اسے ہمارے عصر سے ہم آہنگ کردے۔ تصوف اور قدامت پرستی کے الفاظ ایک سانس میں استعمال کرنے والوں کو نظری اور عملی اعتبار سے غلط ثابت کردے۔ رہبانیت اور قناعتی جبر کے روایتی ثاثر کو دور کرتے ہوئے الوہی آفاقیت کا وہ پہلو اجاگر کردے کہ سسکتی انسانیت اور کرلاتی روحوں کو سکون مل جائے۔ مجاہدہ اور جہاد کی دوئی سے مبرا "مجاہد صوفیا” کی روایت کو زندہ کرتے ہوئے حقیقی تصوف کی نشاۃ ثانیہ کا دروازہ کھول دے۔ یہ روایت آج کی مسلم دنیا کے منظر نامے کو بدلنے کے لئے کتنی ضروری ہے، اسکا لاشعوری احساس ہر حساس دل کو ہے مگر راہ سجھانے والا شاید کوئی نہیں۔
امت اپنے اساسی اثاثے کو پھر سے پانے کی تڑپ کا اظہار کرے اور دنیائے دُوں کے ساتھ درُوں بینی سے معاملہ کرتے ہوئے دنیا کی فاتح ٹھہرے، نہ کہ عاشق۔ تہذیبی غلبہ کی جنگ میں، ہر انسانی پہلو سے، درکار بنیادی لوازمہ جس تناسب سے ہماری روایت میں موجود ہے اسکے سوئے استعمال سے عدم استعمال تک کی مثال بھی اتنی ہی بے نظیر ہے۔