پاکستانی بہت سارے معاملات میں دو انتہاؤں میں جینے والے لوگ ہیں, ہمارا نظام تعلیم بھی اسکی خاص مثال ہے۔ ایک طبقہ انگریزی زبان کے خلاف کوئی بھی بات سنتے ہوئے برداشت کھو دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ انگریزی زبان کی تعلیمی اداروں میں موجودہ حیثیت کو تبدیل کرنے سے ملک پتھر کے دور میں چلا جائے گا۔ جبکہ دوسری طرف ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ اردو زبان کا کامل نفاذ ہی سارے مسائل کا حل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ انگریزی زبان کو ملک اور تعلیمی اداروں سے نکالنے کے نتیجے میں ملک ترقی کرسکتا ہے اور نہ ہی انگریز زبان دنیا پر حکومت کا نسخہ ہے۔
انگریزی زبان کے حوالے سے دو زاویئے سمجھنے ضروری ہیں –اوّل انگریزی کی پاکستان میں آفیشل نفاذ کے حوالے سے آئین کی دفعات، سپریم کورٹ کا حکمنامہ اور سرکاری اداروں میں اردو کے نفاذ کے حوالے سے ہے۔ اس جہت پر اس مضمون میں بات نہیں کی گئی، اسلئے اسکو ہم ایک طرف رکھتے ہیں۔ جبکہ زاویہ دوم پاکستان کے تعلیمی اداروں میں انگزیزی زبان کا ایک لازمی میڈیم کے طور پر موجودگی کے حوالے سے ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزی زبان دنیا کے بالادست طاقتوں کی زبان ہے اسلئے اسکی اثر پذیری اور قبولیت دیگر زبانوں کے مقابلے یقینی طور پر زیادہ ہوگی۔ اگرچہ پاکستان مین اردو کا حقیقی نفاذ پاکستانی تعلیمی اداروں میں اس خلفشار سے براہ راست متعلق ہے مگر اس مضمون کو پیچیدگی سے بچانے کے لئے اس سوال کے دوسرے حصے کو بحث کا موضوع بنایا گیا ہے۔
پاکستانی نظام تعلیم جن خطوط پر استوار ہے اور جو اسکا انتظامی ڈھانچہ ہے اسکے نتیجے میں ہماری شرح خواندگی اٹھاون فیصد کے آس پاس ہے۔ شہروں میں 72 فیصد اور دیہاتوں میں 49 فیصد ہے۔ پاکستان میں کسی بھی زبان میں سادہ تحریر پڑھنے، لکھنے اور انگلیوں کی پوروں پر سادہ حساب کتاب کرنے والے کو خواندہ کہتے ہیں۔ اس تعریف کے مطابق بھی پاکستان میں شرحِ خوانداگی کا 58 فیصد ہونا بہت سارے سوال پیدا کرتا ہے کیونکہ اگر اسی تعریف کو مزید سخت کیا گیا تو لمحوں میں پاکستان کی 58 فیصد خواندگی کے اعداد و شمار سے ہوا نکل سکتی ہے. جبکہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں حقیق شرح خواندگی ستائیس فیصد کے قریب ہے۔ ہم میں سے اکثریت سے جب یہ سوال کیا جائے کہ ایسی کون سی وجوہات ہیں جو ہماری خواندگی کی خراب شرح کی ذمے دار ہیں۔ تو جوابات کم و بیش اس ترتیب میں ہونگے۔
. وفاقی اور صوبائی تعلیمی بجٹ
– تعلیم کے حوالے سے انتظامی اداروں میں کرپشن
۔ غربت کی وجہ سے والدین کا اپنے بچوں کو اسکول نہ بھیجنا
۔ بچوں کی تعلیم کے حوالے سے ائین میں دئے گئے قوانین پر عمل درامد کا نہ ہونا
لیکن ایک اہم سوال کو ہم ہمیشہ نظر انداز کردیتے ہیں وہ ہے پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں مادری یا اردو زبان میں تعلیم کا عدم وجود۔ پروفیسر ترون جین جو انڈین بزنس اسکول میں معاشیات اورپبلک پالیسی کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں (پاکستانی تعلیمی اداروں کے حوالے سے بہت کم اعداد و شمار دستیاب ہیں) وہ کہتے ہیں کہ آندرا پرادیش کے جن جن اضلاع میں اسکولوں کی تدریسی زبان لوگوں کی عام بول چال کی زبان سے مختلف ہے ان اضلاع میں خواندگی کی شرح تقریبا بیس فیصد کم ہے ان اضلاع کے مقابلے میں جہاں تدریسی زبان اور ان اسکولوں کی مادری یا عام بول چال کی زبان ایک ہی ہے۔
ہندوستانی ریاست بہارکے ایک انگریزی اور "اوریا "میڈیم اسکول (ایک مقامی زبان)کے درجہ چہارم اور ششم کے 40 طلبا کے حوالےسے ایک ریسرچ کی گئی اور انکی ذہنی استعداد چانچی گئی۔ اس میں بڑے واضح انداز میں لکھا ہوا ہے کہ (تعلیمی کارکردگی اور ذہنی استعدادکے حوالے سے ریسرچ پیپر کی تفصیل مضمون کے آخر میں دئے گئے شئیرڈ لنک میں موجود ہے)
“Children who learn through their mother tongue (L1) are at an advantage compared to the children who learn through a second language”
(Role of Medium of Instruction on the Development of Cognitive Processes, Pg61)
یونائنڈ نیشن کے ذیلی ادارے یونیسکو کی ایک رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دنیا سے اگر جہالت کا خاتمہ کرنا ہے تو اپکو یقینی بنانا ہوگا کہ کم از کم پرائمری تک بچوں کو تعلیم انکی مادری زبان میں دیں ( L1, L2, L3, فرست لینگویج، سیکنڈ لینگویج، اور تھرڈ لینگویچ)۔ اگرچہ اسی رپورٹ میں یہ مینشن کیا گیا ہے کہ بہترین نتائج کے لئے آپ کو یہ ترجیہات K-12 تک لے جانا پڑیں گی۔
قبل اسکے کہ اس اہم موضوع پر بات آگے بڑھائیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ لو انکم پروفائلز، دہی علاقوں میں رہایش پذیر اور پاکستانی اکثریت کے لئے انگریزی تھرڈ لینگوج کے درجے پر موجود ہوتی ہے۔ یعنی مادری زبان، اردو اور پھر انگریزی۔ جبکہ پاکستان کی قلیل تعداد میں موجود اشرافیہ یا فیصلہ سازوں کے لئے انگریزی سیکنڈ لینگویج کے طور پر لی جاسکتی ہے۔ اس پورے مضمون کا مقصد انگریزی زبان کو کمتر ثابت کرنا یا اسکا ایک زبان کے طور پر یکسر انکار کرنا نہیں ہے، جس پر ہمارے ہاں ایک طبقہ بر انگیختہ ہوجاتا ہے، بلکہ اس مضمون سے یہ پڑھنے والوں اور تعلیمی پالیسز مرتب کرنے والوں کو قائل کرنا مقصد ہے کہ ہماری موجودہ خواندگی کی شرح کو تیزی سے اوپر لے جانے کا راستہ مادری زبان یا سب سے زیادہ بولی اور سمجھنے والی زبان (یعنی اردو) کا انتخاب ہی ہے۔ پاکستان کے تناظر میں اردو کو مادری زبان جیسی قبولیت اور مقبولیت حاصل ہے۔ اردو ایک ایسی زبان ہے جسے پورے پاکستان میں یکساں سمجھا اور بولاجاتا ہے۔ ہندوستان میں ہندی کو وہ قبولیت اس لئے حاصل نہیں کیونکہ ایک تو ہندوستان میں مادری زبانوں کی تعداد تقریبا 1635 ہیں اور دوسری طرف 22 زبانیں ریاستوں کی آفیشل سرکاری زبانیں ہیں۔ جن کے رسم الخط اور بول چال اتنے مختلف ہیں ایک بولی بولنے والے کے لئے دوسری بولی پر شفٹ ہوجانا قریب ناممکن ہوتا ہے۔ اوسطا ہر 32 کلومیٹر کے سفر کرنے کے بعد ہندوستان کے رہنے والوں کو ایک نئی زبان کا سامنا ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف پاکستانی مادری زبانوں کی کل تعداد تقریبا 65 کے قریب ہے جس میں 84 فیصد لوگوں کی مادری زبان اردو، پنجابی، سندھی، پشتوِ بلوچی، سرائکی، ہندکو اور براہوی ہے۔ اگرچہ کوئی افیشل اعداد وشمار موجود نہیں کہ کتنے فیصد پاکستانی اردو بول اور سمجھ لیتے ہیں مگر اردو یقینی طور پر ایک ایسے تدریسی آپشن اور میڈیم کے طور پر ہمارے پاس موجود ہے جس کو یکساں طور پر پورے پاکستان میں اپنایا جاسکتا ہے۔ اس کے باوجود اگر دیہی علاقوں میں کچھ مسائل ہوں تو مادری زبان ہی تدریسی میڈیم ہونی چاہیئے نہ کہ آپ انگریزی زبان کو اقلیت پر مسلط کردیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی طریقہ تعلیم کو سائنس فنون اور سوشل سائنسز سکھانے کے بجائے زبانیں سکھانے والا طریقہ تعلیم سمجھتا ہوں اور ان سکولوں کو زبانیں سکھانے والے ادارے سمجھتا ہوں نہ کہ تعلیمی ادارے۔
۔ تعلیمی اداروں میں اردو ذریعہ تعلیم
مادری زبان یا L1 یا فرسٹ لینگویج کو میں زبان سے زیادہ جبلت سمجھتا ہوں۔ جیسے ہم مزاح میں اکثر یہ بات کہتے ہیں کہ کوئی چاہے جتنی بھی زبانیں سیکھ لے اسے گالی گنتی اور سرگوشی اپنی مادری زبان میں ہی مزا دیتی ہے۔ ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہیں جہاں بچے پِٹ کر اسکول جاتے ہیں. کیا ہم نے کبھی اس پر غور کیا ہے کہ وہ کیا اسباب ہیں جس کہ وجہ سے بچے اسکول جانے میں خوشی اور راحت محسوس نہیں کرتے؟ پاکستان میں 76 فیصد سے زیادہ بچے کالجز میں اسکو ل مکمل کرنے کے بعد کالج میں داخلہ نہیں کروا پاتے، یہ ایک انتہائی خطرناک اشاریہ ہے۔ اگرچہ تعلیم کو خیر باد کہنے کے رجہان کے پیچھے دیگر بہت ساری وجوہات ہیں مگر ہم بغور دیکھتے ہیں تو مالی مشکلات کے بعد پڑھنا چھوڑ دینے کا دوسرا بنیادی سبب کورس مواد کا بچوں کو سمجھ نہ آنا ہے۔ اس حوالے سے اسکول ڈراپ اؤٹ وجوہات کے عنوان سے کئی کیس سٹڈیز پڑھیں اور ایک بات تمام کیس اسٹیڈیز میں مشترک نظر آئی کہ جب بچوں کو اہم بنیادی تصورات سمجھ نہیں آتے تو اسی وجہ سے انکا نفسیاتی اور ذہنی بحران انھیں مزید اس اذیت کا حصہ بننے پر امادہ نہیں کرپاتا۔ اس حوالے سے چند لنکس کو شئیر فولڈر کے فائل میں رکھا ہے جو پڑھنے والوں کو اس حوالے سے میری رائے سمجھنے میں مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔
مادری یا اردو زبان کو ابتدائی طور پر ذریعہ نہ بنانے کی وجوہات جو میری اپنی تدریسی تجربات اور کچھ کیس سٹڈیز کے بابت سامنے آئی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
- چونکہ بچوں کو اسباق اور اہم تصورات انکی مادری زبان میں سکھائے جاتے ہیں اسلئے اس بات کے انتظار کی ضرورت نہیں رہتی کہ جب تک انکو سیکنڈ لینگویج میں بنیادی مہارت حاصل نہ ہوجائے انکو یہ تصورات تب سکھائی جائیں۔ اس طریقہ کار سے یہ تصورات سکھانے میں بہت زیادہ وقت ضائع ہوتا ہے۔
- جب ہم اپنے تعلیمی اداروں میں ایل-2 سے سکھانا شروع کریں گے تو ایک بہت بڑی خرابی اس طریقہ کار کی یہ ہوتی ہے کہ بچے کسی بھی تصور کی اصل روح سے سالوں بے خبر رہتے ہیں اور انکے اساتذہ انکو سمجھانے کے لئے ایک زبان سے دوسری زبان میں تواتر سے (کوڈ-سوئچ) کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے بچوں کو پڑھانے کی پوری مشق غیر موثر ہوجاتی ہے۔
- ایجوکشن فار آل کے مطابق جب بچوں کو اپنی مادری زبان یعنی ایل-1 میں نمایاں تصوراتی مہارت حاصل ہوجائے تو صرف اسوقت طلباء کو اپ ایل-2 میں پڑھنے اور لکھنے کی طرف لاسکتے ہیں۔
- یہ کتنی عجیب بات ہے کہ بچوں کو ابتدائی طور پر پڑھایا تو جائے L2 (سیکنڈ لینگویج) میں اور انکے تمام تصورات کو L1 (مادری زبان) میں کنورٹ کرنے کا ذمے دار بچوں کو قرار دیا جائے۔ اگر اپ غور کریں تو چند دیگر وجوہات میں سے یہ بڑی اہم وجہ ہے طلبا کی کی بددلی اور ذہنی خلفشار کی۔
- اساتذہ اسوقت تک اپنے طلباء کو نہیں جانچ سکتے جب تک بچہ بولے گا نہیں اور میں ذاتی طور پر اس چیز کا مشاہدہ کر چکا ہوں کہ تن آسان اساتذہ اپنی کلاس میں "اونلی انگلش” ناٖفذ کرکے بہترین ڈسپلن قائم رکھتے ہیں۔ اس طریقے سے کلاس روم میں ڈسپلن تو قائم ہوجاتا ہے مگر سوال کرنے والے کا گلا بھی گھونٹ دیا جاتا ہے کیونکہ کوئی بولنے میں سہولت محسوس کرے گا تو بولنے پر امادہ ہوگا۔
- مزید ایک اہم بات یہ ہے کہ جب ابتدائی سالوں میں انگریزی کے نام پر بچے کا استحصال کیا جائے گا تو نہ صرف اہم اکادمی تصورات سجھنے میں تسلسل سے ناکامی بچے کو ایک ایسے مقام پر لے جاچکی ہوتی ہے جہاں سے ریکیوری بڑی مشکل ہوتی ہے۔ بچے کی پوری زندگی پر یہ چھاپ موجود رہتی ہے۔ (یعنی میری بیس کمزور ہے)
- ایک مشاہدہ ہے کہ اکثر اسکولوں کے اساتذہ تدریس کے دوران مختلف مضامین کے تصورات پڑھانے کے لئے اسکول کی آفیشل زبان کے علاوہ ایسی زبان میں وضاحت ساتھ ساتھ کرتے رہتے ہیں جو طلباء کو کسی حد تک اس مواد کے متعلق اگہی دیتے رہتےہیں مگر جب امتحانا ت یا ٹیسٹ ہوتے ہیں تو وہی مشکل زبان ان طلباء کا انتظار کررہی ہوتی ہے جو ان کے لئے ڈراونا خواب ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں کیمبرج اداروں کے مختلف مضامین کے گزشتہ سالوں کے (Cambridge’s Sample responses of A*, A, B, C, D, E, U) جوابات کے معیار کو دیکھا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں اردو (ایک درجہ مزید آگے بڑھ کرمادری زبان میں تعلیم سے اسکی بہترین اوٹ پٹ سامنے اسکتی ہے) ذریعہ تعلیم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ایک مقتدر طبقہ ہے جس کے نزدیک انگریزی اسٹیٹس سمبل اور حکمرانوں کی زبان ہے۔ وہ اس سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے۔ یہ بات بھی میں نہیں بلکہ ایجوکیشن فار آل کی رپورٹ کہتی ہے کہ
"There have been a few historical precedents for use of the L1 in developing countries, with both positive and negative implications for current practice. For example many ex-British colonies inherited mother tongue schooling as part of separate and unequal development. In the case of India this meant marginalization of Indian languages with regard to power”
(EFA report, Pg4)
دوطرفہ تماشا یہ ہے کہ جس زبان کو فقط ایک اختیاری مضمون ہونا چاہئے تھا آپ نے اسے نہ صرف لازمی مضمون کی حیثیت دے دی بلکہ دوسرے مضامین کی تدریسی زبان بھی بنادی۔ مزید ظلم یہ ہوا کہ یہی انگریزی زبان دوسرے مضامین کے امتحانات کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے۔ کما ل است۔
میں گزشتہ 19 سالوں سے پاکستانی اور مڈل ایسٹرن بہترین تعلیم اداروں میں او اور اے لیول کی درس و تدریس سے وابستہ ہوں۔ کیمبرج طریقہ نصاب اپنانے والے تعلیمی اداروں میں تدریسی زبان انگریزی ہے اور ان اداروں کی ایک بہت بڑی خرابی یہ ہے کہ انکے اکثریتی طلبا کی نہ انگریزی ٹھیک اور نہ اردو نہ عربی (مقامی زبان)۔ وہ تمام لوگ جو ان اداروں کی تدریسی طریقہ کار کے حوالے سے جانتے ہیں وہ میری بات کی تصدیق یا تردید کرسکتے ہیں (استثنائی کیسز ہر جگہ موجود ہیں)۔
یہ بات یاد رہے کہ انگریزی زبان کو ایک لازمی مضمون کے طور پر ابتدائی تعلیم دینے والے اداروں میں نافذ کسی معروضی حالات اور وجوہات کی وجہ سے نہیں کی گئی بلکہ یہ چند دماغوں کی پاکستانی کی اکثریت پر تھوپا گیا ظالمانہ فیصلہ ہے۔ میرے ایسا سوچنے کی بنیادیں دراصل یہ حقیت ہے کہ اس فیصلے کے پیچھے کوئی سوچ اور ہوم ورک کے بجائے صرف پسند نا پسند ہے،
اسکی دلیل یہ ہے کہ صرف مشرق وسطی کے پانچ ممالک ( سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عمان، کویت اور قطر میں انتالیس لاکھ پچپن ہزار ورکرز موجود ہیں (رپورٹ دئے گئے شیئرڈ لنک میں موجود ہے) جبکہ مشرق وسطی کے دیگر ممالک کو ملاکر یہ تعداد قریب پانچ ملین بنتی ہے، اگر کسی مخصوص زبان میں تدریس کے معاملے میں ہمارے فیصلہ ساز واقعی سنجیدہ ہوتے تو وہ پاکستانی اسکولوں میں عربی زبان کا اپشن ضرور رکھتے کیونکہ یہی لوگ بعد میں روزگار کے سلسلے میں ان ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ وہ اس کا نہ خود نام لیں گے اور نہ کسی کو نام لینے دیں گے کیونکہ انگریزی ہمارے مقتدر طبقے کی ایک علامت کے طور پر رائج ہے۔ انگریزی زبان میں تدریس کے حوالے سے جو دلیل ہمارا مقتدر طبقہ دیتا ہے بلکل وہی دلیل وہ عربی زبان کے حوالے سے ماننے کے لئے تیار نہیں۔
مجھے یقین ہے کہ کہ اگر برصغیر نے ہندوستان پر راج نہ کیا ہوتا تو ہم اس عجیب احساس کمتری کا شکار نہ ہوتے۔ میں یہ بات واضح کردوں کہ مجھے انگریزی سیکھنے پر اعتراض نہیں بلکہ تعلیمی اداروں کو سائنس، فنون، اور سوشل سائنسز پڑھانے کے بجائے انگریزی سکھانے کے مراکز کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ کیونکہ اگر پیچیدہ سائنسی اور غیرسائنسی تصورات ہی سکھانا مقصد ہوتا تو نصاب، مضامین کا مواد، اور امتحانی طریقہ کار اور اساتذہ کی بنیادی قابلیت انگریزی زبان کے نیجے لاکر نہ کچلے جاتے۔
آج بھی اگر وفاقی اور صوبائی سطح پر ہونے والے پبلک سروس کمیشنز کے انگریزی میں ہونے والے جانچ کی شرط کو ختم یا نرم کیا گیا تو مدارس کے پڑھے لڑکے بہت آگے جائیں گے۔ یہی حال ہماری سوسائیٹی کے دیگر حصے داروں کا بھی ہے۔
یہ مضمون لکھنے کے لئے جن سورسز اور ریسورسز کو استعمال کیا گیا ہے وہ اس شئیرڈ لنک پر موجود ہیں۔