اسرئیل کے ساتھ، متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کے سفارتی تعلقات قائم ہو نے کے بعد یہ موضوع پوری دنیا اور خاص طور پر مسلم ممالک میں زیر بحث ہے۔ اس اہم موضوع پر اظہار خیال کیلئے دانش ٹی وی پر دنیا کے معروف اسکالرز کو مدعو کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے کے پہلے پروگرام میں پروفیسر اسد ابوخلیل اور حویدہ عراف سے گفتگو ہوئی۔
پروفیسر اسد ابوخلیل:
اسد ابو خلیل لبنانی نژاد امریکن پروفیسر ہیں جو کیلفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات سے وابستہ ہیں۔ و ہ دو مشہور کتب ‘بن لادن، اسلام اور دہشت گردی کے خلاف امریکن جنگ’ اور ‘سعودی عرب کیلئے جنگ’ کے مصنف بھی ہیں۔ وہ امریکہ کی طرف سےعراق پر مسلط کی جانے والی جنگ اور ایران، سعودی عرب و مشرق وسطیٰ کے حوالے سے امریکی خارجہ پالیسی کے اہم نقاد کے طور پر بھی مشہور ہیں۔ اسرائیلی ریاست کی مخالفت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ‘فلسطینیوں کیلئے انصاف اور آزادی کی جدوجہد، اسرائیلی ریاست کے وجود سے متضاد ہے، ان دو مقاصد کا حصول ایک وقت میں ممکن نہیں’۔ انہوں نے مختلف امریکن ٹی وی مباحث میں اسرائیلی لابی کے اثر و رسوخ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ‘صدر اوباما نے صیہونی لابی کو خارجہ پالیسی اور ملکی پالیسی کے لحاظ سے بے لگام چھوڑ رکھا تھا کہ وہ جو چاہیں کریں۔ امریکن اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے صیہونی لابی دنیا بھر کے میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرتی ہے تاکہ ہم اسرائیل کے مظالم، تشدد اور فلسطینیوں سے نفرت کی مخالفت نہ کریں’۔
دانش ٹی وی پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے ایک سوال کہ کیا پاکستان جیسے اسلامی ملک کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے بارے میں سوچنا چاہیے؟ کے جواب میں کہا کہ:
عرب ممالک فلسطینیوں کے ساتھ پاکستان کی یکجہتی سے بخوبی واقف ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ پاکستان کی کچھ آمرانہ حکومتیں امریکہ اور صیہونی لابی کےدبائو کی وجہ سے اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کی خواہاں رہی ہیں لیکن پاکستانی عوام اسرائیل سے سخت نفرت کرتے ہیں اور اسرائیل کی غیر قانونی و غیر اخلاقی ریاست کو مسترد کرتے ہیں۔ پاکستانی عوام کے اس پریشر کی وجہ سے جنرل مشرف جیسے ڈکٹیٹر بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی ہمت نہ کر سکے۔ میں یہ بات وثوق سے کہتا ہوں کہ اسرائیل کے ساتھ آج یا کسی بھی وقت، پاکستان یا کسی بھی اسلامی ملک کا تعلقات قائم کرنا بالکل غیر اخلاقی اور فلسطینی عوام کیلئے انصاف کے حصول کے مقصد سے متصادم ہوگا۔ اسرائیلی ریاست و حکومت کی پالیسی نفرت، نسل پرستانہ سوچ اور مسلم دشمنی پر مبنی ہے۔ نفرت پر مبنی یہ امتیازی پالیسی اس سے کہیں زیادہ متعصبانہ ہے جو سائوتھ افریقہ میں گوروں کی حکومت کالے شہریوں کیلئے رکھتی تھی۔ نفرت پر مبنی نسل پرستانہ سوچ ہی ان ریاستوں کو ایک دوسرے کے قریب لارہی ہے اور یہ جوہری ہتھیاروں سمیت کئی دیگر امور میں باہمی تعاون کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں عدل و انصاف کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ صیہونیت کے نسل پرستانہ نظام کو ہر قیمت پر مسترد کیا جائے۔
پاکستانی حکومت کو اسرائیل کے بارے میں کسی بھی قسم کا نرم گوشہ رکھنے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ اسے کونسی چیز زیادہ عزیز ہے۔ اپنی قومی سلامتی یا امریکہ کی خوشنودی؟ اسرائیل وہ ملک ہے جو کسی بھی وعدے اور معاہدے کی پابندی نہیں کرتا اور وہ کونسا پڑوسی ملک ہے جسے جارحیت کا نشانہ نہ بنایا ہو۔ اسرائیل نے صرف فلسطینیں کیمپوں پر بمباری کرکےانہیں صفحہ ہستی سے نہیں مٹایا بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں مغربی کنارے، غزہ کی پٹی، لبنان، شام، مصر، سوڈان، تیونس اور عراق پر بھی کئی مواقع پر بمباری کی ہے۔ 1975 میں اسرائیل نے جنوبی لبنان میں ایک فلسطینی کیمپ پر اس طرح کی وحشیانہ بمباری کی کہ اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا اور اس کیمپ کا ایک رہائشی بھی زندہ نہ بچ سکا۔ چنانچہ اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات قائم کرنا، پاکستانی معاشرے میں کھلی صیہونی مداخلت اور قومی سلامتی کو موساد کے ہاتھوں گروی رکھنے کے مترادف ہے۔ اگر یہ دیکھنا ہو کہ موساد اپنے ملک کی حکومت کے وعدوں کا کیا حشر کرتی ہے تو مصر اور اردن کی تاریخ دیکھ لیں۔ مصر نے 1979 اور اردن نے1994 میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کئے اوران دونوں کو بتایا گیا تھا کہ ان تعلقات کی وجہ سے ان ممالک کے عوام کیلئے خوشحالی آئے گی لیکن آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انکے عوام اس وقت زیادہ خوشحال تھے جب یہ ممالک اسرائیل کے ساتھ جنگ کر رہے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ :
یہ بات سب لوگ جانتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والے اسلامی ممالک میں استبدادی حکومتوں کو مزید استحکام ملتا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ مسلم ممالک کی عوام اسرائیل اور امریکہ سے انکی مسلم دشمن پالیسیوں کی وجہ سے شدید نفرت کرتی ہے۔ اسرائیل کےساتھ تعلقات اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتے جب تک اسلامی ممالک میں آہنی آمریت موجود نہ ہو یعنی ایسی حکومت جوامریکہ اور اسرائیلی لابی کی وفادار اور اپنے عوام کے حق میں انتہائی ظالمانہ ہو۔ مصراور اردن کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کےبعد سے ہی متحدہ امارات، بحرین، سعودی عرب اور مراکش وغیرہ نے اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات قائم کر لئے تھے لیکن اب وہ اسکا باقاعدہ اعلان اور کھلے عام اظہار کر رہے ہیں۔
اسکے کئے مقاصد ہیں، سب سے بڑا مقصد تو امریکہ کی خوشنودی حاصل کرتے ہوئے اپنے اقتدار کو قائم و دائم رکھنا ہے اور دوسرا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جدید ہتھیاروں کے حصول کیلئے انہیں یہ کرنا پڑے گا خواہ عوام اسکے کتنے ہی برے نتائج کیوں نہ بھگتیں۔ یعنی عرب حکمرانوں کے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے ان ممالک کے عوام کو ایک اور ایسی کڑوی گولی نگلنا پڑے گی۔ یہ جبر کے تسلسل کا ایسا نسخہ ہے جسے اردن اور مصر بھی یہ کہہ کر آزماتے ہیں کہ ہمیں غیر ملکی امدادکی ضرورت ہے تاکہ ہم غربت ختم کر سکیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ 1960 میں اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے سے قبل مصر اور اردن کےعوام آج کی طرح غربت اور افلاس کا شکار نہیں تھے۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین میں اس قدر ظلم اور استبداد ہے کہ حکومتوں کی خارجہ پالیسی پر تنقید کےایک ٹوئیٹ پر پندرہ سال قید کی سز ا ہو سکتی ہے۔ اور اب اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم ہونے کے بعد ان قوانین کو مزید سخت بنایا جا رہا ہے کیونکہ وہاں کے عوام شدید غصے میں ہیں اور انکے غصے کو مزید جبر مسلط کرکے روکا جائے گا۔ ان ممالک میں نہ سیاسی پارٹیوں کا کوئی وجود ہے اور نہ ہی سماجی، معاشرتی و انسانی حقوق کی تنظیمیں وجود رکھتی ہیں جو عوام کے اجتماعی جذبات کا اظہار کریں اور حکومتوں پر دبائو ڈال سکیں۔ یہاں ہر شخص ایک فرد کی حیثیت سے زندہ ہےجسکی آواز کو دبانا بہت آسان ہے اس لئے ان ممالک میں بڑے بڑے عہدوں پر تعینات افراد میں بھی یہ جرات نہیں پائی جاتی کہ حکومتی پالیسیوں سے اختلا ف کرتے ہوئے ان پر تنقید کریں۔
پرفیسر ابوخلیل سے سوال کیا گیا کہ آخر وہ کونسے محرکات اور ترغیبات ہیں جنکی وجہ سے عرب حکمران اسرائیل سے پے درپے تعلقات قائم کئے جارہے ہیں؟ اسکے جواب میں انہوں نے کہا کہ :
ایک بات تو واضح ہے کہ تمام عرب ممالک کے عوام اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے خواہاں نہیں ہیں بلکہ وہ اسرائیل سے شدید نفرت کرتے ہیں اس لئے عوامی حلقوں میں سے اس قسم کے تعلقات کیلئے نہ کوئی آواز اٹھ رہی ہے اور نہ کوئی ترغیب اور خواہش موجود ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ عرب ممالک میں عوامی خواہشات کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے اور عوامی رائے کی بنیادپر کوئی پالیسی نہیں بنائی جاتی، یہاں ہر کام حکمرانوں کی خواہشات اور مفادات کے تحت انجام پاتا ہے۔ مثلاً سوڈان میں عرب اسپرنگ کے نام پر بغاوت اور انقلابی تحریک چل رہی ہے لیکن اس عوامی خواہش کو دبانے کیلئے ہر مسئلے کا چارج فوج کے پاس ہے۔ یہی فوج ہر ملکی و قومی مفاد کی سودے بازی کر رہی ہے۔ سوڈانی عوام نے واضح کر دیا کہ وہ اسرائیل اور امریکہ کے خلاف ہیں لیکن پھر بھی فوج نے امریکہ کی خوشنودی کی خاطر اسرائیل سے تعلقات قائم کر لئے۔ یعنی اسرائیلی تعلقات نے مشرق وسطیٰ میں ظلم کے ہتھیاروں کا ایک نیا بازار کھول دیا ہے۔ سعودی عرب کے حکمران اپنے اقتدار کیلئے ایران کو خطرہ سمجھتے ہیں اور ایران دشمنی میں وہ کسی حد تک بھی جانے کو تیار ہیں۔ وہ خطے میں ایران کے خلاف پائی جانے والی ہر قسم کی نفرت کو ایک جگہ جمع کرکے اسے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں اس لئے وہ اپنے ماضی کے دشمن اسرائیل کو بھی گلے لگا رہے ہیں۔
پروفیسر ابوخلیل سے جب پاکستان کے حوالے سے سوال کیا گیا کہ پاکستان کے تعلقات عرب حکمرانوں کے ساتھ ہمیشہ اچھے رہے ہیں اور پاکستان انکے ساتھ ہر حوالےسے تعاون بھی کرتا رہا ہے لیکن عمران خان کی حکومت جب ایران، ترکی، ملائیشیا وغیرہ کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرنا چاہتی ہے تو عرب حکمران اس میں مختلف قسم کی رکاوٹیں کیوں ڈالتے ہیں نیز وہ پاکستان پر کیوں دبائو ڈال رہے ہیں کہ پاکستان بھی انکی طرح اسرائیل سے تعلقات قائم کرے؟ اسکے جواب میں پروفیسر ابوخلیل نے کہا کہ:
پاکستانی عوام کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جب وہ تحریک آزادیء فلسطین کی حمایت کرتے ہیں یا جب وہ اسرائیل کی طرف سے نہتے فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تو وہ صرف فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہمدردری نہیں جتا رہے ہوتے بلکہ وہ اپنے ملک پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کیلئے آواز اٹھارہے ہوتے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل نہیں چاہتے کہ پاکستانی عوام کو اپنے حقیقی نمائندے منتخب کرنے کا حق حاصل ہو کیونکہ جب عوام کے حقیقی نمائندے منتخب ہو کر حکومت میں پہنچتے ہیں تو وہ نہ ظلم کا ساتھ دیتے ہیں اور نہ امریکہ و اسرائیل کا پریشر قبول کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کی خواہش ہوتی ہے کہ پاکستان میں ڈکٹیٹرشپ رہے تاکہ استبدادی حکومت کے ذریعے وہ اپنے فیصلے مسلط کر سکیں۔
اس وقت پاکستان میں عمران خان کی حکومت سے اسرائیلی لابی بہت مایوس ہے کیونکہ وہ اس پر دبائو ڈالنے میں ناکام ہے اگر اس وقت کوئی ڈکٹیٹر ہوتا تو اسرائیل کو تسلیم کر چکا ہوتا۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ عمران خان حکومت کو امریکہ، اسرائیل اور عرب حکمرانوں کے سامنے مزاحمت کی پالیسی پر کاربند رہنے کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے کیونکہ اسرائیلی لابی اس حوالے سے بہت مایوسی کا شکار ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی غرض سے تمام عرب حکمرانوں کے اثر رسوخ کو استعمال کر رہی ہے۔ سعودی عرب کے حکمرانوں کی اپنی بھی کوشش ہے کہ اس سلسلے میں پاکستان، انڈونیشیا اور ملائیشیا وغیرہ انکا ساتھ دے کیونکہ سعودی حکمرانوں کو یہ زعم ہے کہ مقدس مقامات کے متولی ہونے کے ناطے وہ تمام اسلامی ممالک کے قائد ہیں اور انہیں خطرہ ہے کہ جب وہ اکیلے طور پر اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے تو مسلم امہ میں انکی بے عزتی اور رسوائی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ اس حوالے سے پاکستان کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے اور سعودی حکمرانوں کی خواہش ہے کہ انکے اس فیصلے میں پاکستان ضرور شرکت کرے لیکن یہ فیصلہ پاکستان کی عوام کی خواہشات، اسکی قومی سلامتی اور ملکی مفادات کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ اسرائیل سے تعلقات کے معاملے میں پاکستان کے حوالے سے مجھے اتنی پریشانی نہیں جتنی عرب ممالک کے حوالے سے ہے کیونکہ اسرائیلی حکومت جانتی ہے کہ اسلام آباد میں سفارت خانہ کھولنا انکے لئے کتنے بڑے خطرے کا موجب بن سکتا ہے اور وہ یہ قدم اٹھانے کیلئے ہزار مرتبہ سوچیں گے۔ انہیں اسلام آباد کا خطرہ، بیروت اور لبنان سے کہیں زیادہ نظر آتا ہے۔ مجھے پاکستان اور پاکستانی بھائیوں پر اعتماد ہے کہ یہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا کبھی سوچیں گے بھی نہیں لیکن پھر بھی میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ ایسا سوچنے سے پہلے مصر، اردن، مراکش اور سوڈان کے تجربات کو سامنے رکھیں۔
امریکہ اور اسرائیل سوڈان کی حکومت کو بلیک میل کر رہے ہیں کہ اگر آپ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں لائیں گے تو آپ کو دہشت گرد ریاست قرار دے دیا جائے گا اور آپ کے عوام فاقوں سے مر جائیں گے۔ طاقت کے زور پر تعلقات استوار کرنا مہذب دنیا کا کونسا اصول ہے؟ اسی طرح اسرائیل نے مصر اور اردن کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کا کبھی پاس نہیں کیا اور ہمیشہ انکے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے انکے لئے مشکلات پیدا کی ہیں۔ مجھے یہ بات معلوم ہے کہ پاکستان کیلئے بھی مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں لیکن اگر پاکستانی قوم اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے اصولی موقف پر جمی رہی تو انشاء اللہ مستقبل پر حالات بہتر ہو جائیں گے اور پاکستان اپنی مشکلات پر قابو پا لے گا۔ معمول کے خلاف اصولی فیصلے پر قائم رہنے اور جدوجہد کرنےکی تاریخی اہمیت ہوتی ہے۔ تاریخ میں یہ بات لکھی جائے گی کہ اسرائیل کے تسلط کو مسترد کرنا گویا پورے مغربی نوآبادیاتی نظام کو مسترد کرنے اور دنیا بھر کے مظلوموں کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔
حویدہ عراف:
حویدہ عراف فلسطینی نژاد امریکن ایکٹوسٹ اور قانون دان ہیں جو فلسطین کی آزادی سے متعلق کئی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ وہ امریکہ کی مشی گن یونیورسٹی سے عربی، پولیٹیکل سائنس کی تعلیم کے بعد امریکن یونیورسٹی واشنگٹن کالج سے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکی ہیں۔ انکی توجہ بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسانی حقوق کے قانون پر مرکوز ہے اور انہیں جنگی جرائم کے مقدمات میں خاص دلچسپی ہے۔ ان سے جب سوال کیا گیا کہ اسلامی ممالک کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کیوں استوار نہیں کرنے چاہییں؟ اور امریکہ کی طرف سے بڑھتے ہوئے دبائو کے سامنے کیسے مزاحمت کرنی چاہیے؟ تو اسکے جواب میں انہوں نے کہا کہ :
اگر اسرائیل بین الاقوامی قانون کی پاسداری کر رہا ہوتا اور انسانی حقوق کا احترام کر رہا ہوتا تو اسرائیل کے ساتھ کسی ملک کے تعلقات قائم کرنے میں کوئی چیز مانع نہ ہوتی۔ لیکن زمینی صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کو ہر حوالے سے بالکل نظر انداز کیا ہوا ہے اور انہیں کسی قسم کے انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ اگر آپ غزہ پر نظر ڈالیں تو وہ دنیا کے نقشے پر ایک ایسا علاقہ نظر آئے گا جو انسانوں کے رہنے کے قابل ہی نہیں۔ وہاں بیس لاکھ فلسطینی اسرائیل کے قیدیوں کی طرح رہ رہے ہیں، انہیں نہ پینے کا پانی میسر ہے اور نہ کھانے کیلئے خوراک اور بجلی جیسی بنیادی ضروت۔ ہسپتالوں میں بھی بجلی میسر نہیں نتیجتاً وہاں کے ہسپتالوں میں نہ انکو بیٹر چل سکتے ہیں اور نہ کسی قسم کے دیگر آلات ۔ اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ وہ ہسپتال کس قسم کی سروس دے رہے ہونگے؟ غزہ کو جانے والے تمام راستے اسرائیلی فوج کے کنٹرول میں ہیں جو خوراک اور ادیات بھی لےجانے کی اجازت نہیں دیتے۔ اسرائیل فلسطینیوں کی کسی بھی ضرورت کی پرواہ نہیں کرتا لیکن چند قدم کے فاصلے پر اسرائیل کے اپنے یہودی شہریوں کو زندگی کی تمام سہولیات اور تعیشات میسر ہیں اور وہ ایک معیاری زندگی گزار رہے ہیں۔
اسرائیل کی دانستہ پالیسی ہے کہ فلسطینیوں کو غیر انسانی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جائے اور بالآخر دنیا کے دیگر ممالک میں رہنے والے فلسطینی اس بات پر مجبور ہو گئے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کے حقوق کیلئے بین الاقوامی تحریک برپا کریں۔ انکی اس آواز سے مغربی ممالک کی حکومتوں کو تو مجبور نہیں کیا جا سکتا لیکن پوری دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیمیں انکی آواز سن رہی ہیں اور اپنے طورپر اسرائیل پر دبائو ڈال رہی ہیں۔ پوری دنیا کی سول سوسائٹی اب اسرائیل کو تنہا کرنے پر کام کر رہی ہے لیکن عرب ممالک کے حکمران الٹی سمت میں چلتے ہوئے اسرائیل سے تعلقات قائم کر رہے ہیں جو انتہائی شرمناک ہے۔
جیسا کہ پروفیسر ابوخلیل نے بتایا کہ یہ عرب اسرائیل تعلقات تو خفیہ طور پر برسوں سے چل رہے تھے لیکن اب یہ منظر عام پر آئے ہیں اور عرب حکمران اپنے آپ کو اعتدال پسند ظاہر کر رہے ہیں۔ لیکن یہ سوال کہ اس عمل کے پیچھے اصل محرکات کیا ہیں اسکے کئی پہلو ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں ان میں سے ہر ملک پر امریکی دبائو ہے مثلاً مراکش کو صحارہ پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کیلئے امریکی خوشنودی درکار ہے، متحدہ عرب امارات کو یمن کے عوام پر مظالم جاری رکھنے کیلئے مزید ہتھیاروں کی ضرورت ہے، الغرض ان میں سے ہر ملک کے کچھ مفادات اور ضروریات ہیں۔ انڈونیشیا سے 1۔ 2 بلین ڈالر امداد کا وعدہ کیا جا رہا ہے، سوڈان بھی مالی امداد کا متلاشی ہے کیونکہ وہ اقتصادی بحران کا شکار ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اس سارے عمل میں امریکہ کے کیا مفادات اور خواہشات ہیں؟ یہ بات سب پر واضح ہے کہ امریکی تاریخ میں ٹرمپ انتظامیہ سب سے زیادہ کرپٹ تھی لیکن اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح ہے کہ وہ اسرائیل کے سب سے زیادہ ہمدرد اور بڑےحامی کے طور پر سامنے آئی۔ انہوں نے اسرائیل کو وہ سب کچھ دینے کی کوشش کی جسکی اسے ضرورت تھی اور عرب اسرائیل تعلقات معمول پر لانے کیلئے بھی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن ان عرب اسرائیل تعلقات سے فلسطینی عوام کو نہ کوئی ریلیف ملے گا نہ انکی کوئی ضرورت پوری ہوگی بلکہ ان پر فلسطین کی سرزمین مزید تنگ کی جائے گی، انکی تنہائی بڑھے گی اوراسرائیلی مظالم میں اضافہ ہوگا۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے فلسطینیوں کےانسانی حقوق کی قیمت پر ہو رہا ہے اور یہ فلسطین کے خلاف اسرائیلی استعمار کے مظالم کو جائز قرار دینے کی کوشش کے۔ ان اقدامات کے خلاف تمام مسلم ممالک اور انسانیت کو آواز بلند کرنے اور متحد ہونے کی ضرورت ہے۔
حویدا عراف نے مزید کہا کہ جب پاکستان کے حوالے سے بات ہوتی ہے تو ہمیں معلوم ہے کہ پاکستان کیلئے امریکہ کو نظر انداز کرنا آسان بات نہیں کیونکہ امریکہ کے ساتھ کئی دہائیوں سے اقتصادی اور اسٹریٹیجک تعلقات ہیں لیکن میں پاکستان سے گزارش کروں گی کہ پاکستان ان لوگوں کا ضرور ساتھ دے جو عالمی یکجہتی اور سماجی انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ عالمی یکجہتی صرف فلسطین کیلئے ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے مظلوم انسانوں کے حقوق کیلئے بھی ہے۔ تاریخ یہ بات واضح کر دے گی کہ وہ ممالک جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر رہے ہیں وہ غلطی پر ہیں کیونکہ ان تعلقات کے ذرریعے وہ نہ صرف اسرائیل کے مظالم کی حمایت کر رہے ہیں بلکہ بالواسطہ طورپر فلسطینیوں کی نسل کشی کی ذمہ داری بھی قبول کر رہے ہیں۔ اگر ان ممالک کا یہ استدلال ہے کہ وہ یہ سب کچھ پیسے، اقتدار اور طاقت کے حصول کیلئے کر رہے ہیں تو اسکے لئے متبادل ذرائع پر بھی غور ہو سکتا تھا لیکن فلسطینیوں کی جانوں کی قیمت پر طاقت کا حصول کسی طور پر درست عمل نہیں۔ میں حکومت پاکستان سے درخواست کروں گی کہ اس مشکل گھڑی میں فلسطینیوں کو تنہا نہ چھوڑیں، ان کی اخلاقی اور اصولی حمایت پہلے کی طرح جاری رکھیں اور اسکے ساتھ ساتھ اپنے اقتصادی و مالی مسائل کے حل کیلئے عرب حکمرانوں کی پیروی کی بجائے متبادل ذرائع پرغور کریں۔
(دانش ٹی وی، ایڈیٹوریل سیکشن)
اس گفتگو کی مکمل وڈیو: