’’بادبان‘‘ نووارد ادیب چوہدری محمدخان قلندر کے قلم کا شاہکار ہے۔ جس کا ذیلی عنوان ’’ٹمٹماتے چراغوں کی داستان‘‘ ہے۔ مختصر ناولٹ کی کہانی میں جگ بیتی اور خاکہ نگاری کا دلچسپ امتزاج ہے۔ مصنف کی کردارنگاری بھی بے مثال ہے۔ باوا وقار شاہ، ان کا بڑا بیٹا اور گدی نشین اکبر شاہ، دوسرا فوجی بیٹا جعفر شاہ، چھوٹا بیٹا اصغر شاہ، گاؤں کا نائی، تحصیلدار، ڈی سی اور دیہی زندگی کے جزو کئی اور دلچسپ کردار ہیں۔ لیکن مرکزی کردار باوا وقار شاہ اور اصغر شاہ ہی ہیں، جن کی گرد پوری کہانی گھومتی ہے۔ محمد خان قلندر نے ریٹائرمنٹ کے بعد قلم سے رشتہ جوڑاہے۔ ان سے پہلے محمد اقبال دیوان سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ سے قبل قلمکار بنے اور تین یادگار کتب لکھ کر معتبر لکھاریوں کی صف اول میں شامل ہوگئے۔ اسی طرح حمیدہ اختر حسین رائے پوری نے شوہر کی وفات کے بعد ستر سال سے زائد عمر میں ڈاکٹر جمیل جالبی کے اصرار پر بے مثال آپ بیتی ’’ہم سفر‘‘ تحریر کی اور دو شخصی خاکوں پر مبنی کتب اور ایک اصل کرداروں پر مشتمل ناول اورنانی دادی کی بچوں کی کہانیوں پر مشتمل کتابیں شائع ہوئیں۔ محمدخان قلندر کی پہلی کتاب ان کی آئندہ کئی کتب کا پیش خیمہ ثابت ہوتی نظر آرہی ہے اور قارئین کو بجا طور پر ان کا انتظار رہے گا۔
اردو ادب میں دومحمدخان پہلے ہی مشہور ہیں۔ ایک ’’بجنگ آمد‘‘ کے مصنف کرنل محمدخان تو اپنی مثال آپ تھے ہی۔ اردو کے نامور ناول نگار عبداللہ حسین کا اصل نام بھی محمدخان تھا۔ انہوں نے ادب میں کرنل محمدخان کی مقبولیت کے پیش ِ نظر عبداللہ حسین کا قلمی نام اختیار کیا۔ کرنل محمدخان کو ’’بجنگ آمد‘‘ کی اشاعت سے قبل اپنے نام کی کنفیوژن کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بارے میں کرنل محمدخان لکھتے ہیں۔
’’میرا نام محمدخان ہے۔ ناشروں نے میرے عہدے کوبھی میرے نام کاحصہ بنادیا ہے، جیسے بعض سکھوں کا نام کرنیل سنگھ ہوتاہے۔ بے شک میری کرنیلی سردارجی کی کرنیلی سے زیادہ جینوئن ہے اور مجھے اس پر علیحدہ خوشی اور فخرہے، تاہم حصہ نام کے طور پراس سے علیحدگی چاہتا ہوں۔ آخر دوسرے کتنے کرنل محمدخان کتابیں لکھ چکے ہیں کہ ان کے ساتھ کنفیوژن کا خطرہ ہو، بلکہ پاکستان میں تادم ِ تحریر جہاں مصنف محمد خان ایک ہی ہے۔ وہاں کرنل محمدخان کم و بیش ایک درجن ہیں۔ یہ تعداد گھٹنے کی نہیں کہ پیچھے سینکڑوں لفٹین اور کپتان محمدخانوں کی کمک کو آرہے ہیں۔ اگر کسی کو کنفیوژن ہوا تو اس کی کرنیلی وجہ سے ہواہے نہ کہ محض محمدخان کی وجہ سے۔ علوی صاحب نے مجھے ایک خط میں لکھا کہ ’میں مری کے پنڈی پوائنٹ کی سیر کر رہا تھا کہ اچانک ایک بنگلے کے گیٹ پرلگی تختی پرجلی قلم سے کرنل محمد خان لکھا دیکھا۔ سوچا کیوں نہ دو گھڑی گپ لگائیں اور مل کرچائے پئیں۔ بیل بجائی ملازم سے پوچھا کرنل صاحب موجود ہیں۔ پھرکرنل صاحب آئے، بڑے پیارے آدمی تھے مگر آپ نہ تھے۔ مغالطے پر برہم نہ ہوئے۔ آتے ہوئے کہا۔ اس گرما میں آپ مصنف کرنل محمد خان کے چوتھے مہمان ہیں جو میری چائے پی کر جارہے ہیں، اس شخص کو جاکر مشورہ دیں کہ یا تو اپنا نام بدل لے ورنہ چائے کابل اداکرے۔‘ یہی نہیں بجنگ آمد کو انٹرمیڈیٹ کے نصاب میں شامل کردیا گیا۔ امتحان میں بجنگ آمد کے مصنف کے بارے میں سوال آیا تو طالب علم نے لکھا۔ ’محمدخان کے بچپن کے حالا ت پر پردہ پڑا ہے۔ جب بڑا ہوا تو دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی اور یہ اسکول سے بھاگ کرفوج میں بھرتی ہوگیا۔ مصر میں کشتوں کے پشتے لگا دیے۔ جنگ ختم ہوئی تو گھر بھیج دیا گیا غصے میں آکر ڈاکے ڈالنے لگا۔ مگر ڈاکو شریف نکلا یعنی امیروں کو لوٹتا اور غریبوں میں بانٹ دیتا۔‘ یہاں مصنف محمدخان کے حالاتِ زندگی ڈاکو محمد خان سے خلط ملط ہوگئے ہیں۔‘‘
اب یک نہ شددوشد سے بڑھ کر ایک اور محمد خان ادب کی دنیامیں داخل ہوگئے ہیں۔ ’’باعث تحریر۔ ایک گزارش‘‘ میں لکھتے ہیں۔
’’عشروں پہلے راقم پنڈی کینٹ میں مقیم تھا، کرنل محمدخان صاحب مرحوم بزرگ تھے اورانکل کے گھر ان سے دعوت میں قدم بوسی کاشرف ملا، گفتگو چکوا ل کے محمد خانوں تک پہنچی توحسبِ عادت شیخی بھگاری ’کہ موقع ملا تو میں ڈھرنال بننا پسند کروں گا۔‘‘ کرنل صاحب سے عرض کیاکہ حضور میں کرنل بن کے آپ کے بھلیکھے میں نہیں آؤں گا، اگر موقع ملا تو ’لکھاری‘ بننے کی کوشش کروں گا۔ فرمانے لگے۔ ’ینگ مین اس کاخطرہ تمہاری گفتگو سے محسوس کرلیا ہے، پر راجپوت کی اکڑ میں نہ لکھنا، لطیف طنزومزاح لکھنا۔ یہ نہ ہوکہ لطیفہ لکھو تو ڈانٹ لگے۔‘ پلک جھپکتے وقت گزرگیا، کرنل صاحب فوت ہوگئے، ہم پروفیشن سے ریٹائر ہوئے، لکھاری بننے کی ڈینگ یاد آئی تو بروزن کرنل محمدخان ہم قلندر محمد خان کے نام سے لکھنے لگے۔ یہ تسلیم ہے کہ ہمیں جو بھی شہرت مل رہی ہے یہ ہم نام ہونے کی برکت ہے ورنہ کہاں اکاؤنٹ میں منشی گیری اورکہاں علم و ادب، مرحوم کرنیل صاحب کی روح کے ایصال ثواب کی پل پل دعائیں کرتے ہیں۔ ’’بادبان‘‘ کی اشاعت صاحبِ کتاب ہونے کی کاوش ہے، نام سے پذیرائی کایقین ہے۔‘‘
مصنف اور دانشور پروفیسر فتح محمد ملک کا کہنا ہے۔
’’چکوال کی زرخیززمین سے تعلق رکھنے والے چوہدری محمدخان کی یہ کہانی دھرتی سے جڑے زندہ کرداروں کی داستان ہے۔ اپنے فطری، سادہ اور دلکش اسلوب میں یہ کہانی لکھ کرمصنف نے بہت سے روایتی کرداروں، روایا ت اور منظروں کو تصویر کرکے محفوظ بنادیا۔ یہ کام کسی تاریخ نگارسے کم نہیں۔‘‘
ممتاز افسانہ نگار محمد حمید شاہد نے بادبان کے فلیپ میں لکھا ہے۔
’’آپ کی ملاقات ایسے لوگوں سے رہی ہوگی جو لکھاری بننے کی خواہش زندگی کی دیگر ترجیحات کے سبب ریٹائرمنٹ تک دبائے رکھتے ہیں اور پھر یوں قلم دوڑاتے ہیں جیسے اڑیل گھوڑے کو ایڑ لگ چکی ہو۔ چکوال کے دو محمد خان مشہور ہیں۔ ان میں ایک اور کا اضافہ ہوجانے کی تاہنگ میں قلندر محمدخان نے اس تصنیفی حیلے کا اہتمام کیاہے اور اس زندگی کو لکھا ہے جو اس کے سامنے کی ہے۔ وقار شاہ کا چھوٹا بیٹا اصغر شاہ باوا، ملیارخان سے متعلق وہ منشی جس میں شاہ جی کی جان تھی، گاؤں کانائی جو باوا جی کی حجامت بناتاتھا، ناظر، تحصیلدار، ڈی سی اور ان جیسے کئی کردار جو دیہی زندگی کا جزو ہوتے ہیں یادخیل، قلندر محمدخان نے انہیں اپنے سادہ لفظوں میں ایک کہانی کی صورت لکھ دیاہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ زندگی کواس نہج سے دیکھنا اور اس ماحول کا حصہ ہوجانا پڑھنے والے بھی پسند کریں گے جوہمارے اس نئے محمد خان کو محبوب ہوگیاہے۔‘‘
حرف ناشرکے تحت شاہد اعوان مصنف اور کتاب کا کچھ یوں تعارف کراتے ہیں۔
’’یہ کوئی چار برس پرانی بات ہے، فیس بک پہ ایک روایتی بزرگ نظر آئے۔ چکوال سے تعلق کو اپنی شناخت کا مرکزی حوالہ بنائے ہوئے، ہر ہر ادا سے ایک بارعب خاندانی شخصیت۔ اپنی دھرتی، سماج اور کلچر سے مضبوط نامیاتی تعلق کے ساتھ اردو، انگریزی اور مادری زبان پریکساں عبور۔ اسلوب تحریر فطری، رواں اور بے ساختہ۔ کہانی کے فن سے آشنا اور سماج کی نبض پرہاتھ۔ سیاست کا گہرا تجزیہ اور بین الاقوامی معاملات وحالات کی مثالی سوجھ بوجھ۔ تس پہ کاروبار و معاشیات تو گویا گھر کی بات تھی۔ یاخدا ایسی کثیرالجہتی کیسے ممکن ہے؟ جلد ہی، ملاقاتوں سے اس سوال کا جواب ملتا گیا اور مرعوبیت، احترام سے ہوتی ہوئی دوستی کی اقلیم میں داخل ہوتی گئی۔ ایک روز اچانک ایک تحریر ارسال کردی۔ ہم ’دانش پی کے‘ پہ کالم لکھیں گے۔ ہائیں! کیوں نہیں! میں نے کہا۔ یوں ’دانش نامہ‘ کا آغاز ہوا۔ جلدہی ’داستانِ زیست ‘کے عنوان سے آپ بیتی بھی لکھنا شروع کردی، وہی سادہ اور رواں اسلوب۔ فراغت کے بھرپور استعمال کی تیسری صورت فکشن کی ہیئت میں ان حقیقی واقعات کا بیان تھا جس نے قاری کو گرفت میں لے لیا۔ مقامی کرداروں اور زندگی و سماج سے جڑے کیسے کیسے پہلو ان کہانیوں میں بیان نہیں ہوئے۔ مقامی منظر نامے کے ساتھ انسانی نفسیات کا گہرا بیان اور پورے یقین کے ساتھ صدیوں پرانی دانش کا خلاقانہ اظہار، ان کہانیوں کی انفرادیت ہے۔ یہ ادب کی وہ قسم ہے جو کسی مدرسانہ تعریف سے بے نیاز، براہ راست زندگی اور قاری سے مخاطب ہے۔ یہی ادب ہے۔ زیرِنظر کتاب ان بہت سی داستانوں میں سے ایک ہے جو اس عرصہ میں قلندرانہ خامہ فرسائی کا نتیجہ رہی۔ ابتدا میں مصنف اپنی پہلوٹھی کی کتاب کے لیے کچھ پریشان نظر آئے، تدوین سے طباعت اور پھر اگلے مراحل کے لیے اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار۔ پھر ایسے ہوا کہ ’ایمل مطبوعات‘ کی ٹیم اورخدمات نے ہر مرحلہ کی ان تمام ذمہ داریوں سے مصنف کو یوں بے فکر کردیا کہ اب مزید کئی کتب زیرطبع ہیں جن سے قارئین جلد مستفید ہوسکیں گے۔‘‘
اس تحریرمیں شاہداعوان صاحب نے محمدخان قلندرکی آپ بیتی ’داستانِ زیست‘ سمیت کئی آنے والی کتب کامژدہ بھی سنایا ہے۔ ’بادبان‘ کے لیے مصنف نے لفظ ت سے شروع ہونے والے سترہ مختصر ابواب قائم کیے ہیں۔ جن میں ’’تمدن‘‘، ’’توکل‘‘، ’’تہذیب‘‘، ’’تمازت‘‘، ’’تمیز ‘‘، ’’تمن داری‘‘، ’’تادیب‘‘، ’’تعلق‘‘، ’’تیزی‘‘، ’’تعلق داریاں‘‘، ’’ تیاری‘‘، ’’ تاہُل‘‘، ’’تفصیلات‘‘، ’’تادیب‘‘، ’’تقسیم‘‘، ’’تماشے‘‘ اور ’’تمت‘‘ شامل ہیں۔ اس منفرد اندازسے جہاں قارئین کو محمدخان قلندر کی اردو زبان پر دسترس کا اندازہ ہوتاہے۔ وہیں یہ عنوانات کہانی کو سمجھنے میں بھی مددگارثابت ہوتے ہیں۔
اردو کے بے مثال ادبی مجلہ ’’لوح‘‘ کے مدیرممتازشیخ کا مصنف کے بارے میں کہنا ہے۔
’’چوہدری محمدخان قلندراوران کے اسلوب کے بارے میں لکھنا اتنا آسان نہیں ہے۔ فیس بک پرجب ان کے شذرے پڑھنے کا موقع ملا تو ان کے مزاج میں پنہاں برجستگی اور جرات اظہار کابے ساختہ پن اپنائیت کا روپ دھار لیتا تھا۔ وہ مجھے اس شذرات کی بناپربہت اپنے لگنے لگے۔ ادب اور اس کی جستجو کی اپنی زبان اور رموز ہوا کرتے ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے اپنی ذات کے اس اختصاص کو، بادبان، کی اشاعت کی صورت اپنے علم وفضل کی پہلی فصل کا راز آشکار کردیا ہے۔ قلندر نے بعض تیزرو مگر ثقہ لکھنے والوں کاہم عصربننے کے لیے دیہاتی پس منظر پر مضبوط بند باندھا اور ایسا جاندار اندازِ تحریر سامنے لائے، جسے نہ صرف نوجوان نسل بلکہ ہماری نسل کو سنجیدگی سے پڑھنے کی ضرورت ہے جو اپنے روایتی کلچر اور ثقافت سے نابلد ہے۔ بادبان۔ روایتی مگرنیم جاگیردارانہ پس منظر میں اپرمڈل کلاس اور اس کے اردگرد پھیلے ہوئے ماحول اور کرداروں کے لائف اسٹائل میں خفی دلبری و دلداری کی ایک شائستہ زبان پر مشتمل کہانی ہے جو قلندری کا طریق رہاہے اور چوہدری محمدخان نے اپنی قلندری کا اظہار اس دلچسپ اورکھرے پیرائے میں کیاکہ ان کی ذات کا بھی ہر ابہام ختم ہوگیا۔‘‘
دلچسپ کرداروں کی ایک کہکشاں ہے، جو ’بادبان‘ ہر صفحے پرجلوہ گرہے۔ پہلے باب ’تمدن‘ میں مرکزی کرداروں کا ابتدائی تعارف کچھ یوں کیا ہے۔
’’اصغر شاہ، باوا وقارشاہ کا چھوٹا بیٹا تھا۔ باوا وقارشاہ ریٹائرفوجی اور گّدی نشین تھے۔ ان کے بزرگوں کا دربار ایک بڑے گاؤں میں تھا۔ اس سے ملحق آبادی محلہ سادات کہلاتی تھی۔ محلہ سادات میں سب ان کے خاندان کی ہی لوگ آباد تھے، جو متمول تھے۔ اکثریت فوج میں تھی۔ گاؤں کی ریلوے لائن اورسڑک کے جنوب مغرب میں وسیع اراضی اسی خاندان کی ملکیت تھی۔ وہاں کھیتی باڑی کرنے والے مزارعین کی ڈھوک آباد تھی۔ باوا وقار شاہ نَسب میں بزرگ ترین تھے۔ وہاں ان کا ڈیرہ تھا۔ گھوڑے اوران اصطبل تو علاقے میں مشہور تھا۔ تین بیٹے تھے۔ بڑا بیٹا اکبر شاہ گدی کاجانشین تھا اور گاؤں کی ساری زمین، علاقے کے مرید اور مزار سے متعلق امورسب اس کے ہاتھ میں تھے اس سے چھوٹا بیٹا جعفر شاہ فوج میں افسر تھا۔ ان دونوں کی شادیاں خاندان میں ہوئی تھیں۔ اس وقت باواجی کی بیگم حیات تھیں۔ ان سے چھوٹی دو بہنیں بھی چچا اور ماموں کے گھربیاہی تھیں۔ ان شادیوںکے وہ فوت ہوگئیں۔ اس لیے اصغر، جوسب سے چھوٹا اور لاڈلا تھا، اس کے مزاج میں بچپن سے خاندانی رسوم و رواج، بندھن، روایات اور پیری مریدی سے بغاوت عیاں تھی۔ باوا وقار شاہ کو ملتان میں ایک مربعہ زمین بھی الاٹ ہوئی تھی۔ باواجی جب بھی ملتان جاتے، اصغرشاہ کو ساتھ لے جاتے۔ وہاں ان کا قیام مہینا بھر رہتا۔ آم کے باغ لگائے ہوئے تھے۔ سیزن میں وہاں زیادہ رہتے۔ اصغر کو ملتان رہنا پسند تھا۔ اسے سرائیکی بولی، شاعری اور ذاکری کابہت شوق تھا۔ اس نے جیسے تیسے میٹرک کرکے ملتان کے ایک کالج میں داخلہ لے لیا۔ ساتھ ایک شیعہ مدرسہ میں بھی پڑھنے لگا۔ اس کی شادی خاندان ہی میں طے تھی۔ خاندان میں رشتے کرنے کی مجبوری کی وجہ سے روایت یہ بھی تھی کہ لڑکے اورلڑکی عمروں میں تفاوت نظرانداز کر دیا جاتا تھا۔ جس بچی سے اصغر کی نسبت غیراعلانیہ طے تھی وہ باوا وقار شاہ کی ایک رشتے کی بیوہ بھانجی کی اکلوتی او رصاحبِ جائیداد بیٹی تھی۔ بھانجی بیوہ ہونے کے بعد شہر شفٹ ہوئی اور گرلز اسکول میں استانی لگ گئی۔ باواجی زمانہ شناس تھے۔ اصغرکی افتادطبع سے آگاہ تھے۔ ان کاخیال تھا کہ یہ رشتہ ہونے سے اصغر مالی طور پر بھی آسودہ رہے گا اور ویسے بھی ان کی بھانجی زمانے کی اونچ نیچ دیکھ چکی تھی، وہ بیٹی کا گھر بسانے میں معاون ہوگی لیکن اس موضوع پر اب تک اصغر سے کھل کربات نہیں ہوسکی تھی۔ اصغر نے ایف اے کاامتحان ملتان سے دیا۔ باواجی نے اسے فوج میں کمیشن کے لیے اپلائی کرایا۔ ابتدائی ٹیسٹ اور میڈیکل کلیئر ہوگئے۔ آئی ایس بی کے لیے بڑے بھائی نے تیاری کروائی لیکن فائنل انٹرویو میں اصغرشاہ نے وائس پریذیڈنٹ سے جواسے پاس کرنے پرمائل تھا، سینگ پھنسا لیے۔ وی پی اصغر کے بھائی کو، جو اب میجرتھا، اچھی طرح جانتا تھا۔ اصغر کا رویہ رکاوٹ بنا اور اسے ریجیکٹ کردیا گیا۔‘‘
اس تعارف میں باوا وقارشاہ، ان کے اہلِ خانہ، خاندانی حالات اورمقام کا علم قاری کو ہوجاتا ہے۔ تحریر میں جزئیات نگاری کی جو اہمیت ہے اسی طرح مختصر نویسی بھی مصنف کی خوبیوں میں شمار ہوتی ہے۔ محمد خان قلندر نے چند سطروں میں مرکزی کردار اور اس کے اردگرد کے ماحول، افراد اور ان کی افتاد طبع کا بھرپور تعارف کرادیا ہے۔
اصغرکی ناکامی کا باواجی کو شدید صدمہ پہنچا۔ وہ بیمار پڑگئے۔ اصغرشاہ ان کی دیکھ بھال کر تا رہا۔ اس دوران اس نے اپنے رشتہ دار مرحوم انکل کے وارثان سے سودا طے کرلیا۔ زمین ان کی زمین سے ملحق تھی اور ان کی وفات کے بعد سے دیکھ بھال یہی لوگ کرتے تھے۔ باواجی کی طبیعت سنبھلی تو اس نے گاؤں کی زمین کی تقسیم کا شوشا چھوڑ دیا۔ اس طرح دیہی زندگی، اس کے معمولات سادہ اور دلنشین انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔ جو اس طرزِ زندگی سے ناواقف قاری بھی بخوبی سمجھ لیتا ہے۔
اس بار باواجی اصغرشاہ کے ساتھ ملتان گئے تو ان پر چھوٹے بیٹے کے جوہرکھلے اور انہیں اس کی کئی خوبیوں کا علم ہوا۔ ان کے دوست کرنل صاحب نے بھی مشورہ دیتے ہوئے کہا۔ ’’بھائیاجی آپ اب اصغر کو بچہ سمجھنا چھوڑ دیں اسے اس سے ڈبل اعتماد دیں جتنا بڑے بیٹے کو گاؤ ں کے اختیارات سونپتے ہوئے دیاتھا۔ یہ حساس لیکن بہت ذمہ دارہے۔ اس پر بھروسا کریں۔ اسے فیصلے کرنے دیں۔ یہ مالی امور کے حساب کتاب میں بھی قدرتی طور پرماہر ہے۔ ہم اور آپ تو چراغِ سحری ہیں آپ توکل کریں۔ ملتان اس کو سونپ کر دیکھ لیا آپ نے یہ ہرذمہ داری کار اہل ہے۔‘‘
منشی کا کردار اس دلچسپ اقتباس میں اجاگر کیا گیا ہے۔
’’پنجاب کے کلچر میں ہر بڑے پیر، زمین دار، جاگیردار اور نواب کی جان توتے کی طرح کے ایک ملازم میں ہوتی ہے۔ باوا وقارشاہ کا وہ توتا منشی تھا۔ اس کا ملیار خاندان سادات فیملی کاجدی پشتی مزارع تھا۔ وہ ان کے گھر میں پلابڑھا تھا۔ باواجی فوج سے ملازمت چھوڑ کر آئے تویہ ان کا ذاتی ملازم ٹھہرا۔ ملتان مربعہ الاٹ ہوا تو یہ وہاں آبادکاری سمیت سارے کام سنبھالنے کا انچارج تھا۔ ساتویں آٹھویں تک سکول بھی جاتا رہا۔ لکھت پڑھت اورحساب کتاب بھی جانتاتھا، سو منشی بھی بن گیا۔ خاندانی ملیار تھا۔ کاشت کاری خون میں تھی۔ آم کا باغ لگوایا۔ سبزی، چارہ اور فصلیں اگانا، مزارعے رکھنا غرض یہاں کے سارے معاملات اس کے ہاتھ میں تھے۔ چک میں احاطہ اور آڑھت کی دکان بھی الاٹ ہوئی تھی۔ سب سے پہلے باواجی نے احاطے میں اس کا گھر بنوایا۔ گاؤں سے شادی کراکے میاں بیوی کو آباد کیا۔ اب اس گھر میں منشی کی بیٹی اور داماد رہتے تھے۔ منشی کے بیٹے آڑھت پرایک شیخ جی کے ساتھ کام کر تے تھے۔ باواجی کا معتمدِ خاص ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ان کے گھرکے امور سے واقف اور رازداں بھی تھا۔‘‘
’’بادبان‘‘ میں یہ حقیقت بھی بین السطوربیان کی گئی ہے کہ بااثرخاندان کو کیا ہر شعبہ زندگی میں کیا وقعت حاصل ہوتی ہے۔ زمینوں اورشاملا ت کی الاٹمنٹ اور منتقلی، کس طرح کی جاتی ہے۔ سرکاری ادارے اور بینک بھی ان کے ساتھ کتنا تعاون کرتے ہیں۔ پھرخاندان میں اقتدار اور اختیارکی رسہ کشی، زنان خانے کی سیاست، بھائیوں کے درمیان نظرنہ آنے والی کشیدگی جسے بیویاں ہوا دیتی ہیں۔ رشتہ داروں سے دشمنیاں اور ضرورت پڑنے پر خوشامدی انداز۔ یہ سب انتہائی دلچسپ ہے۔
باوا وقارشاہ ایک ہمہ صفت، ہمہ جہت، زیرک، مجذوب اور آبائی روحانی شرف کی وارث شخصیت تھے۔ دس کی عمر تک اپنی دادی اور والد سے گھر میں دینی تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کرتے بیس کے ہوگئے۔ اگلے دس سال فوج میں ملازمت کی، جو دراصل مجاہدہ اور چلہ کشی تھی۔ گدی نشین بنے تو شادی جلد ہوگئی۔ والد باوا فضل شاہ کی وفات پرگدی نشین ہوئے تو علاقے کی محترم ترین ہستی گردانے جاتے تھے۔ دربار، خاندان کی دیکھ بھال کے ساتھ بڑی زمین داری، مربعہ، گھوڑے پالنے جیسے دنیاداری کے امورمیں قدآور مقام تھا۔ تین بیٹے متضاد مزاج اور وراثت کے حامل تھے۔ اکبر شاہ مجذوب مزاج اور گدی کے جانشین، جعفرشاہ ایتھلیٹ، پڑھائی میں لائق اور اب فوج میں افسر تھے۔ اصغر شاہ میں دونوں مزاج مخفی رہے، جن کی جھلکیاں اب نمودار ہورہی تھیں۔ اصغر شاہ کے جوان اور متحرک ہونے کے بعد خاندان بھر کی بیٹیوں کے والدین پروانہ وار اس کے گرد گھومنے لگے۔ لیکن ان سب کے برخلاف کتاب کا آخری باب ’’تمت‘‘ اور آخری سطر یکسر مختلف انجام پرختم ہوتے ہیں۔ جس کے اشارے تو ’’بادبان‘‘ میں مل رہے تھے۔ لیکن ایسے غیرمتوقع اختتام کی توقع نہ تھی۔ اس انتہائی دلچسپ کہانی کے بعد چوہدری محمد خان قلندر کے قلم سے مزید کتب خصوصاً ان کی آپ بیتی ’’داستانِ زیست‘‘ کا انتظار رہے گا۔