اسلام آباد لٹریچر فیسٹول ۲۰۲۰ کے ورچوئل سیشن کے آن لائن ہونے میں بس دوچار منٹ باقی ہوں گے کہ مانیٹر پر ڈاکٹر نجیبہ عارف کا چہرہ نمودار ہوا۔ حارث خلیق اور میرے ساتھ وہ اس سیشن میں شریک تھیں۔ ان کے عقب میں ایک سلیقے سے رکھی کتابیں شلیفوں سے جھانک رہی تھیں اور روشنی کچھ یوں ان پر پڑ رہی تھی کہ چہرہ سنہرا اور بال چاندی کی طرح چمکنے لگے تھے۔ مجھے وہ ادھ ادھوری سطر یاد آگئی جو میں کسی افسانے کا عنوان بنانا چاہتا تھا۔ کچھ دن پہلے، جب ہم نجیبہ کے ہاں عشائیے پر مدعو تھے، پہلی بار تب انہیں دیکھتے ہی تب بھی یہ جملہ دھیان میں آیا تھا۔ نہیں شاید تب نہیں بلکہ اُس تقریب کی ایک تصویر دیکھ کر جس میں ڈاکٹر نجیبہ عارف کے بال چاندی کی طرح چمک رہے تھے اور مجھے لگا تھا ان کا چہرہ سونے جیسا ہوگیا تھا۔۔۔ اور سونا بھی عام نہیں؛ خاص اور خالص کہہ لیجئے؛ سونا بارابانی یا سونا نیارا گری۔ آئی ایل ایف کے سیشن سے پہلے ڈسپلے پر وہ نمودار ہوئیں تو اس بار یہ جملہ ہونٹوں نے بھی ان کی جانب لڑھکا دیا کہ اگر مجھے کچھ آپ پر لکھنا ہوا تو اس کا عنوان ہو گا: ’سونے کی گڑیا چاندی کے بال‘‘۔
یہ عنوان مجھے اس لیے نہیں سوجھا تھا کہ میں نے نجیبہ کے سر کی چاندی دیکھ لی تھی اور بس۔ پھر ایسا کیوں سوجھا؟ اس کی طرف ذرا بعد میں آتا ہوں پہلے بتاتا چلوں کہ محمد عارف جمیل اور ڈاکٹر نجیبہ عارف ہنسوں کا جوڑا ہیں۔ محبت کرنے والے اور محبتیں بٹورنے والے۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف شاعرہ ہیں، افسانے لکھتی ہیں، تنقید اور تحقیق بھی ان کا حوالہ ہے، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہیں۔ لکھنا پڑھنا محض ان کا پیشہ یا مشغلہ نہیں سانس لینے جیسا مسئلہ رہا ہے۔ ہمارے ملنے ملانے کو تین دہائیاں ہو چلی ہیں۔ وہ ایک تہذیبی دائرے میں رہتی ہیں۔ یہ دائرہ حصار نہیں ایک ہالہ جو اُن کے طرز عمل سے روشن رہتا ہے، انہیں کہیں رُک جانے اور اکتا کر بیٹھ رہنے پر مجبور نہیں کرتا۔ شائستگی، وقار اور بردباری ان کی شخصیت کا حصہ ہیں۔ ادبی مجالس میں ہم مدت سے ایک ساتھ شریک ہوتے رہے ہیں۔ نجیبہ کے ہم سفر محمد عارف جمیل، بیگم کے ساتھ آتے اور چپ چاپ ایک طرف بیٹھ کر بس سنتے رہتے۔ کچھ پوچھا جاتا تو ہنس دیتے مگر ایک روز اچانک انہوں نے ہم سب کو حیرت میں ڈالا کہ نجیبہ کے دیکھا دیکھی انہوں نے بھی قلم تھام لیا تھا اور اب صاحب کتاب بھی ہو گئے تھے۔ جس عشائیے کا میں نے ذکر کیا اسی میں عارف نے اپنی کتاب ’’حاضری‘‘ عطا کی تھی جس کا سرورق ان کی بیٹی مومنہ نے بنایا تھا۔ بیٹی مومنہ ہو یا بیٹا محمد دونوں تہذیبی اور ثقافتی سطح پر کچھ الگ سا کر نے کی امنگ رکھتے ہیں۔ یہ میں نے محسوس کیا ہے۔ آنے والا وقت ان کی جھولی میں کیا ڈالنے والا ہے یہ خدا ہی جانتا ہے۔
بات نجیبہ کی ہو رہی تھی، ان کے میاں اور بچوں کی طرف مڑ گئی تو یہیں کہتا چلوں کہ نجیبہ کو میں نے اپنی ماں کے قدموں میں جس طرح بیٹھتے دیکھا اوران پر اپنی محبتیں نچھاور کرتے دیکھا ہے اس کا انہیں صلہ ملنا ہی تھا اور ملا بھی۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لکھنے پڑھنے اور ملازمت سے وابستہ خواتین کا گھر اور رشتے ترجیحات میں کہیں نیچے چلے جاتے ہیں، نجیبہ کے ہاں ایسا نہیں ہوا۔ جب جب ان کے ہاں گئے ہیں ان کا سلیقہ، گھرداری اور اپنوں کی محبت سب بولتے ہوئے نظر آئے ہیں۔
نجیبہ سے جب پوچھا جاتا ہے کہ آپ کی پہلی ترجیح کیا ہے؟ تو اُن کا ترنت جواب ہوتا ہے: ’’شاعری‘‘۔ میں اُن کی ایک گفتگو کہیں پڑھ رہا تھا جس میں انہوں نے اپنے بارے میں کچھ باتیں کر رکھی ہیں۔ اسی گفتگو میں ایک مقام پر وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے پہلا افسانہ تب لکھا تھا جب وہ آٹھویں جماعت کی طالبہ تھیں اور یہ کہ اس پر اُنہیں 200 روپے انعام بھی ملا تھا۔ یوں دیکھیں تو پہلی محبت افسانہ ہوئی۔ خیر شاعری ہو یا افسانہ، وہ دونوں سے نباہ کر رہی ہیں۔ لگتا ہے تعلیم کے شعبے سے رزق وابستہ ہوا تو تنقید، تحقیق، ادارت اور تراجم کی تشویق ہوئی یوں ان کی شخصیت مختلف جہتوں سے روشن تر ہوتی چلی گئی۔
ان کی شاعری کا مجموعہ ’’معانی سے زیادہ’’ کے نام سے ۲۰۱۶ میں آیا تھا۔ اور ہاں،وہ لفظ اور زندگی کے ان معانی تک رُک نہیں جاتیں جو سامنے کے ہوتے ہیں؛ نظر میں آنے والے، فوراً جی لبھانے والے یا لغت سے چیختے چنگھاڑتے برآمد ہونے والے۔ وہ جو ممتاز مفتی کے لفظوں میں ’’حلوائی کی دکان پر دھرے تھالوں میں پڑی مٹھائی‘‘ جیسے ہوتے ہیں۔ باہر سے لشکتا چمکتا، مٹھاس اور لذت انڈیلتا وجود نجیبہ کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ وہ اس وجود کی سخت کھال کو کھرچ کر اس کے باطن میں اترتی ہیں۔ اندر کے پانیوں میں غوطہ زن ہوتی ہیں۔ صوفیا نے وجود کے اس حصے کو دِل کہا ہے۔ وہ دِل نہیں جو شور تو بہت کرتا ہے مگر کاٹنے پر اس میں سے ایک قطرہ خون ٹپکتا ہے بلکہ وہ دل جو پورے وجود کو زندگی اور اس کا لطف ترسیل کرتا ہے اور سمندر سے بھی گہرا ہوتاہے۔ اسی دل کے بارے میں حضرت سلطان باہو نے کہا تھا: ’’دل دریا سمندروں ڈونگھے کون دلاں دیاں جانے ہُو‘‘
ممتاز مفتی کا ذکر آیا ہے تو مجھے یاد آتا ہے کہ کوئی تین دہائیاں پہلے جب ہم پہلے پہل ملے تھے تو میں نے انہیں ان خواتین حضرات میں سے ایک کے طور پر شناخت کیا تھا جو ممتاز مفتی، اشفاق احمد، قدرت اللہ شہاب کے تصوف کا دم بھرتے تھے۔ شاید ایسا قیاس کرنے کا ایک سبب یہ بھی ہو کہ ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان ’’ممتاز مفتی کا فکری ارتقا ‘‘ تھا۔ ممتاز مفتی کی زندگی ہی میں ہماری ملاقاتوں کا آغاز ہوا تھا اور تب مجھے یوں لگتا تھا کہ مفتی جی کا ذکر نجیبہ کی گفتگووں سے اُبل اُبل پڑتا تھا تاہم بعد میں اندازہ ہوا کہ اسلام، پاکستان اور تصوف ان کے وجود کا مسئلہ بھی ہیں۔ بالکل ذاتی مسئلہ۔ تصوف کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ اس پر بہانے بہانے سے لکھتی رہتی ہیں اور کہیں کہیں تو وہ ایسے ذاتی تجربات بھی بیان کرتی ہیں جو ان کے من میں اس جانب اور آگے تک جانے کی تاہنگ بھرتے رہتے ہیں۔ اس باب کی مثالیں مبین مرزا کے رسالے ’’مکالمہ‘‘ کراچی میں کئی قسطوں میں چھپنے والے مضامین میں مل سکتی ہیں جن پر ’’راگنی کی کھوج میں‘‘ کا مستقل عنوان جمایا گیا تھا۔ اپنی ایک بہت اہم کتاب کا مقدمہ لکھتے ہوئے نجیبہ عارف نے خلیل جبران کے اس کہے سے آغاز کیا ہے کہ ’’میں کبھی لاجواب نہیں ہوا مگر اس شخص کے سامنے جس نے مجھ سے پوچھا، تو کون ہے؟‘‘ اور نجیبہ کا کہنا ہے کہ ان کا مسئلہ بھی یہی ہے۔ ’’میں کون ہوں: ایک عورت؟، ایک پاکستانی؟، ایک مسلمان؟، ایک انسان؟‘‘
یہ ترتیب ان کے ہاں اپنی ترجیحات میں اُلٹ جاتی ہے۔ انسانی وجود اور انسان کا مستقبل دونوں ان کابنیادی مسئلہ ہیں تاہم لطف یہ ہے کہ مسلمان ہونا بھی ان کے ہاں شعوری سطح پر ایک سرگرمی بن جاتی ہے جو اُن انسانی قدروں کو مستحکم کرتی ہے جو آدمی کو انسان بناتے ہیں۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو مذہب کو انسان کی ذہنی ترقی اور آزادی کے راستے میں آڑ یا رکاوٹ سمجھتے ہیں اور نہ اس کی قائل نظرآتی ہیں کہ محض اور صرف مغرب کی فکری اور ذہنی پیروی ہی سے انسانی مستقبل کی تابناکی وابستہ ہے۔ پاکستان، ممتاز مفتی کے لفظوں میں ان کے ہاں بھی’ خدا کی خاص عطا‘ ہے۔ عورت کے باب میں سوچتے ہوئے وہ فیمنسٹوں سے الگ کھڑی نظر آتی ہیں۔ اوہ، یہاں میں نجیبہ عارف کی اس کتاب کا حوالہ دینا تو بھول ہی گیا جس کی طرف مسلسل اشارے کیے جا رہا ہوں۔ یہ بہت اہم کتاب ہے اور اسے ’’ادارہ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی یونیورسٹی، اسلام آباد نے ۲۰۱۵ میں شائع کیا تھا۔ کتاب کا نام ہے: ’’اسلام، پاکستان اور مغرب: علمی اور ادبی تناظر‘‘۔
نجیبہ کی ایک اور کتاب ہے: ’’رفتہ و آیندہ‘‘ جس میں اردو ادب کا منظر نامہ بیان ہوتا ہے اور ہم اس مقام سے بھی آگاہ ہوتے ہیں جہاں سے ہمیں وہ یہ منظرنامہ دکھا رہی ہیں۔ اس کتاب کے پہلے حصے کے مضامین دیکھئے ’’دور جدید کی تہذیبی ساخت اور اسلام: فکر اقبال کی روشنی میں‘‘، ’’اردو نثر کے متصوفانہ رجحانات کا ارتقا‘‘ اور ’’اردو ادب میں تانیثیت کی تحریک‘‘۔ جب کہ دوسرے دو حصوں میں وہ شاعری اور نثر پر انفرادی سطح پر اثرات مرتب کرنے والوں کے فن کا تجزیہ کرتی ہیں۔ گویا فکر اور فن دونوں ان کے علاقے ہیں۔ نجیبہ کی تنقید اور علمی و فکری مضامین کا ذکر ہو رہا ہے تو یہیں کہتا چلوں کہ ان کے ہاں بات کرنے کا انداز اور زبان دونوں روایتی مضامین لکھنے والوں سے ہٹ کرہیں۔ وہ زندہ نثر لکھتی ہیں، رواں دواں اور پڑھنے والے سے مکالمہ کرنے والی۔ یہی انداز ان کی تقریر کا ہے۔ ہمیں کئی سیمیناروں اور کانفرنسوں میں ایک ساتھ جانے کا موقع ملا۔ چوں کہ عمر میں ان سے کچھ سال بڑا ہوں اس لیے اکثر وہ پہلے گفتگو کرتی ہیں اور یوں کرتی ہیں کہ سماں بندھ جاتا ہے۔ اپنی باری آنے پر،اپنی کم مائیگی کا وہ احساس جو ہمیشہ میرے ساتھ رہا ہے، ایسے میں ہر بار بڑھ جاتا رہا ہے۔
لیجئے صاحب! اب تو آپ جان گئے ہو گے کہ نجیبہ عارف ان خواتین میں سے ہیں جو اپنے علم و فضل، اپنے کردار اور اپنے شاندار کام کی وجہ سے کسی بھی سماج کا سب سے قیمتی اثاثہ ہو جاتی ہیں؛ کہہ لیجئے سونے جیسا۔ سونے جیسا نہیں بلکہ خالص سونا۔ میں سونے سے لدی عورتوں سے کبھی مرعوب نہیں ہوا کہ بھاڑ میں پڑے وہ سونا جس سے ٹوٹیں کان کہ مجھ سے ہمیشہ اپنی صلاحیتوں سے سونے کی گڑیا جیسی قیمتی ہو جاتی عورتوں نے احترام پایا ہے۔ نجیہ عارف بھی سونے کی گڑیا ہیں۔ جب ہم ان کے ہاں عشائیے پر گئے تو کرونا وائرس کی وبا کے سبب ہماری ملاقاتوں میں کئی مہینوں کے وقفے پڑھ چکے تھے۔ انہی مہینوں میں کسی ایک روشن صبح انہیں خیال آیا ہوگا کہ سونا وہی اچھا جو خالص ہو اور پھر یہ خیال اُن کی جان کا روگ ہوگیا ہوگا۔ یہیں ان کی ایک غزل کا شعر ذہن میں گونجنے لگا ہے۔ میں نہیں جانتا اس کا یہ محل ہے یا نہیں مگر یاد آگیا ہے تو مقتبس کیے بغیر اپنی بات مکمل نہ کرپائوں گا:
بھڑک کے جلنا نہیں گوارا تو میرے پروردگار مولا
نہ ایسی آتش نفس میں بھرتے کہ جس سے جاں پر بنی ہوئی ہے
وجود سے جڑا وہ سوال جس کے سبب ان کی جان پر بنی ہوئی تھی، شاید اس کا جواب انہیں مل گیا تھا۔ ہاں تو جب میں نے انہیں اپنے سفید بالوں کے ساتھ دیکھا تھاجو ان کی پروقار شخصیت کوئی کئی گنا بڑھا رہے تھے تو پوچھا تھا ’’یہ کب ہوا؟‘‘ کہنے لگیں جب مجھے احساس ہوا کہ ’’حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے‘‘۔
اسی عشائیے میں عکسی مفتی بھی تھے جن کی معروف انگریزی کتاب "اللہ: میئرنگ آف انٹیج ایبل‘‘ کو نجیبہ عارف نے ’’اللہ: ماورا کا تعین‘‘ کے نام سے اردو روپ دیا تھا اور اکادمی ادبیات پاکستان کے چئیرمین ڈاکٹر یوسف خشک اور ان کی بیگم بھی۔ لہٰذا ہمارے بیچ کئی کتابوں کا تبادلہ ہوا۔ شمس الرحمن فاروقی کے ناول ’’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ کی تازہ اشاعت کا نسخہ میں نجیبہ کو دے رہا تھا تو میری بیگم نے تصویر بنالی جو بعد ازاں میں نے فاروقی صاحب کو بھیج دی۔ اُن کا فوراً فون آگیا، پوچھا ’’یہ سفید بالوں والی خاتون کون ہیں؟‘‘۔ میں نے نجیبہ کا نام لیا۔ تو کہنے لگے ’’ارے انہیں میں جانتا ہوں مگر انہوں نے بال اتنا جلدی سفید کیسے کر لیے‘‘ پھر ان کے فن کی تعریف کرتے رہے۔ اور جب وہ ایسا کر رہے تھے تو مجھے نجیبہ کے نصیبے پر رشک آرہا تھا۔ خدا کا شکر کہ ان کے بال دھوپ میں سفید نہیں ہوئے تھے۔ نجیبہ کا ہی ایک شعر ہے:
ایک اور حقیقت ہے پس و پیش حقیقت
ایک اور کہانی ہے کہانی سے زیادہ
نجیبہ عارف کی کچھ تحاریر: آخری ای میل ۔۔۔۔۔۔۔۔ نجیبہ عارف کے قلم سے عمر میمن مرحوم کا تذکرہ (۱) پاکستانی سماج اورعورت: کیا پسند کی شادی گناہ ہے؟ نجیبہ عارف سرحدِ امکان سے آگے —— نجیبہ عارف کا منفرد افسانہ پاکستان میں تہذیبی کش مکش کے ستر سال —– نجیبہ عارف ہماری ’دانش’ کا ایک برس —– ڈاکٹر نجیبہ عارف مثالی اردو نصاب کی بنیادیں —— نجیبہ عارف