ڈاکٹر محمد ابن جوادی، جو سٹراس بورگ یونیورسٹی فرانس میں اسلامیات اور سامی زبانوں کے پروفیسر رہے ہیں۔ نومبر سنہء 1995 میں پیرس میں تھے، انہوں نے یورپ میں مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں خطرہ ظاہر کیا تھا کہ فرانس میں جہاں برطانیہ سمیت یورپ کے دوسرے تمام ملکوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ایک بڑا آتش فشاں پھٹنے والا ہے۔ اس کی وجہ ان کے نزدیک یہ تھی کہ ایک طرف مسلم تارکین وطن کی نئی نسل اپنے مذہب اور رنگ و نسل کی بناء پر سنگین اقتصادی، سیاسی اور سماجی تعصب اور نسل پرستی کا شکار ہے اور دوسری طرف فرانس، سیکولر بنیاد پر ایک مختلف فرانسسی اسلام تشکیل دینا چاہتا ہے جو ناممکن ہے۔ یہی بحران بہت جلد ایک آتش فشاں کی صورت میں پھٹے گا۔
اس وقت فرانس کی چھ کروڑ کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد 57.2 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ لیکن یہ محض اندازہ ہے کیونکہ فرانس میں مذہب کی بنیاد پر مردم شماری نہیں ہوتی ہے، مگر یہ درست ہے کہ فرانس یورپ میں مسلمانوں کا سب سے بڑا آبادی والا ملک ہے۔ یہی نہیں بلکہ آئینی طور پر سیکولر ریاست فرانس میں اسلام مسیحیت کے بعد دوسرا سب سے بڑا مذہب بھی ہے۔ فرانس میں اسلام اور مسلم آبادی سے متعلق پیش کیے جانے والے اعداد و شمار کے ذرائع مختلف ہیں اور اسی لیے ان میں کچھ فرق بھی پایا جاتا ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں کی اکثریت کا تعلق شمالی افریقہ کی سابقہ فرانسیسی نوآبادیوں سے آنے والے تارکین وطن ہے، جن میں سے الجزائر، مراکش اور تیونس سب سے اہم ہیں۔ لیکن گزشتہ چند دہائیوں سے سلسلہ روزگار کے لئے ایشیائی ممالک کے افراد نے بھی فرانس کا کثرت سے رخ کیا ہے اور عرب ممالک میں سے خصوصا لیبیا اور شامی باشندے فرانس کے تارکین وطن بنے ہیں۔
فرانس میں گذشتہ برسوں کے دوران مسلمانوں اور مسلم طرز زندگی سے متعلق جو معاملات عوامی سطح پر شدید بحث کی وجہ بنے، ان میں صرف حجاب اور برقعہ ہی واحد متنازعہ موضوع نہیں رہا۔ پچھلے چند ماہ کے دوران فرانسیسی عوامی اور تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کے لیے حلال خوراک اور کھانے پینے سے متعلق مذہبی احکامات پر عمل درآمد بھی ایک بڑا زیر بحث موضوع رہا ہے۔ جہاں تک خاندانی امور اور اقدار کا تعلق ہے تو فرانس میں مسلمانوں اور قدامت پسند مسیحیوں کی سوچ میں کئی معاملات میں قدر مشترک بھی پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر سنہء 2013 میں جب ملک میں ہم جنس پرست افراد کو آپس میں قانونی طور پر شادی کرنے کی اجازت دینے کی متنازعہ تجویز پیش کی گئی تھی، تو اس کے خلاف مسلمانوں اور قدامت پسند مسیحیوں نے مل کر مختلف شہروں میں سڑکوں پر احتجاجی تحریک چلائی جاتی رہی ہیں۔
حالیہ فرانس میں ایک مسلسل عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کا تواتر سے اٹھایا جانا ہے، جن گستاخانہ خاکوں کے شیطانی عمل کا آغاز ڈینش اخبار ’’جے لینڈ پوسٹان‘‘ نے سنہء 2005 میں کیا تھا اور چند ماہ بعد فرانس کے ایک ہفتہ وار اخبار ’’چارلی ایبڈو‘‘ نے انھیں شائع کر کے مزید نفرت اور اشتعال کو ہوا دی تھی، دنیا بھر میں مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے اور دنیا بھر میں شدید مظاہرے بھی ہوئے حتیٰ کہ یورپین ممالک میں سے بھی انسانیت کا درد رکھنے والے یورپین شہریوں نے بھی اس عمل کی مذمت کی تھی، مگر انتہا پسند اسلام مخالف افراد نے ’’اظہار رائے کی آزادی‘‘ کا نام دے کر ان اخبارات کی تعریف اور حمایت کرکے ان کے حوصلے بڑھائے تھے۔
سنہء 2015 میں چارلی ایبڈو اخبار کے آفس پر حملہ ہوا اور اس حملہ میں اخبار کے عملےاور وہاں موجود کچھ مہمانوں سمیت 12 افرادکو فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جس کی ذمہ داری شریف اور سعید کواچی نامی دو مسلمان بھائیوں نے قبول کی، اس واقعے کے سہولت کاروں کی طویل لسٹ کا بھی میڈیا میں ذکر آتا رہا اور اس پُر تشدد واقعے کے خلاف دنیا بھر میں تقریبا 2 ملین افراد نے مظاہرے کئے اور 40 ممالک کے سربراہان نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر مذمت کی اور ریلیاں نکالیں تھیں۔ پچھلے ماہ اسی واقعے کے عدالت میں ٹرائل والے دن چارلی ایبڈو کے سابقہ دفتر کے باہر ایک پاکستانی نوجوان نے عام راہگیروں پر حملہ کیا، اور کچھ دن بعد ایک اسکول کے استاد کا قتل ایک چیچن نوجوان کے ہاتھوں ہوا، جس کی مذمت مسلمان دنیا سے کی گئی، لیکن یہ واقعات مذہبی اور نسلی تعصب تک بڑھنے لگے، ایفل ٹاور کے پاس دو مسلم خواتین پر مقامی خواتین نے چھریوں سے حملہ کیا، ان واقعات کے تواتر کے بعد فرانس نے ایک نئی مہم کا آغاز میگزین چارلی ایبدو میں پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت، پیرس کے قریب ایک مسجد کو عارضی طور پر بند کرنے، مسجدوں پر چھاپے اور ’اسلام مخالف مہم‘ جیسے اقدامات کے بعد ردعمل کے طور پر کیا گیا ہے۔
فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی دوبارہ اشاعت سے یورپ ہی نہیں دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے، افسوس صد افسوس کہ سیکیولر ازم کا دعوی کرنے والے فرانسیسی صدر ایمانویل میکروں ‘‘امن اور انسانی اقدار کے تحفظ” کے لیے دوسرے ممالک کے دوروں میں مصروف ہیں، ابھی لبنان کے دورے کے اختتام پر پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا کہ وہ عراق جا رہے ہیں اور وہاں سے اقوام متحدہ کے تعاون سے عراق کی خودمختاری بچانے اور عراق کی حمایت کی تحریک کا آغاز کریں گے، ان کے مطابق عراق کو دہشت گردوں کا سامنا ہے اور فرانس دہشت گردوں کے مقابلے میں عراق کا ساتھ دے گا۔ صدر میکروں سے ان خاکوں کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں ان دوبارہ شائع ہونے والے خاکوں پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا، صدر ایمانویل میکرون نے ان خاکوں کی مزمت کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس کا فیصلہ نہیں کر سکتے بلکہ یہ میگزین کا اپنا فیصلہ ہے۔ ان کے انکار نے فرانس کے مسلمانوں کو تکلیف دی ہے۔
حیرت یہ ہے کہ نیوزی لینڈ میں ہونے والے کرائسٹ چرچ جیسے اندوہناک اور المناک واقعے کو وہاں کی وزیراعظم جسینڈا آرڈن نے جس انسانیت اور خوش اسلوبی سے نمٹایا وہ مثال شائد تاریخ کے کسی صحیفے میں موجود نہیں ہے، لیکن فرانس میں پت در پے واقعات کے تسلسل کے بعد بھں فرانس کے صدر کا رد عمل انتہائی غیر سنجیدہ اور متعصبانہ حد تک ناقابل قبول ہے کہ ایسا واقعہ دوبارہ نہ ہو اس کے لئے کوئی قانون کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا گیا، اب دوبارہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کو شائع کئے جانے کے خلاف مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ’بائیکاٹ فرینچ پراڈکٹس‘ اور ’بائیکاٹ فرانس‘ نامی ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہے ہیں جبکہ کویت سے شیئر کی جانے والی بعض تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہاں کی سپر مارکٹس کے وہ شیلف خالی پڑے ہیں جن میں فرانسیسی مصنوعات رکھی تھیں۔
اسلامی ممالک اگر اس معاملات کو عالمی فورم پر جب تک نہیں اٹھائیں گے کہ یورپین ممالک اس نازک موضوعات پر سنجیدگی سے کوئی قدم اٹھائیں، اگر ایسا کچھ نہ ہوا، اور بار بار گستاخانہ خاکوں کی اشاعت دنیا بھر کے مسلمانوں کو غم اور دکھ کی کیفیت میں مبتلا کررہی ہے، پھر ڈر اس بات کا ہی رہے گا کہ اسلام کے نام پر جو چند انتہا پسند افراد ہیں ان کی وجہ سے نفرت کی آگ یورپ بیگناہ شہریوں کو بھی اپنی لپیٹ میں نہ لے لے، اور یورپ کے تمام ممالک بالخصوص فرانس میں کثیر تعداد میں مسلمان آباد ہیں، جنکی نسلیں یہیں جواں ہوئیں ہیں، جو یہیں پیدا ہوئے، ان کے دلوں میں احساس کمتری کے ساتھ نفرتیں بھی جنم لے رہی ہیں اور خوف ہے کہ دنیا میں اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے عناصر ان معصوم بچوں کو اپنا آلہ کار بنا کر اپنے ناپاک مقاصد کے لئے انھیں استعمال نہ کریں، فرانس ہی نہیں بلکہ پورے یورپ میں ان خاکوں نے ایک بار پھر بے چینی کی فضا قائم کر دی ہے یہ معاملہ بیک وقت مسلمان اور یورپین ریاستوں کے سمجھنے کے لئے بہت ضروری ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ ان گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کہیں یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کے لئے کوئی بڑی آزمائش کوئی بڑا امتحان بن کر سامنے نہ آئے۔ اس سے پہلے مسلمان ریاستیں یورپ پر دباو بڑھائیں۔