برصغیر کے سماجی رویوں خصوصا ریاست، ریاستی ملکیت، عوامی ملکیت، نجی ملکیت اور پھر ریاست کے عوام کے ساتھ رویے بارے کم ہی تحقیق و تفتیش کی گئی ہے، اگر کی بھی گئی ہے تو یا تو سطحی سی یا مغربی سماجی رویوں کے ساتھ تقابل کے طور پر اور یہ کام عوام اور سماج کے تاریخی تدریجی عمل اور تاریخی تجربہ کو نظر انداز کرکے کیا گیا ہے۔
میرے خیال میں برصغیر کے سماجی رویوں کو سمجھنے کیلئے نادر شاہ کے دہلی پر حملہ، رنجیت سنگھ کی حکومت اور پھر1857 کی بغاوت اور ان سب واقعات میں عوام کے ساتھ کیا بیتی اور انکے دل میں ریاست، حکمران اور حملہ آوروں بارے کیا جذبات پیدا ہوئے کو جاننا بہت ضروری ہے۔ اور ان سب میں بھی جو کچھ 1857 میں ہوا اور پھر کیسے انگریزی راج کے خلاف نفرت و بغاوت کو ہر ریاستی ملکیت و عوامی ملکیت کو تباہ کرنے کی ذہنیت کی طرف موڑ دیا گیا اور لگادیا گیا کی تحقیق بہت ضروری ہے۔
انگریزوں کے خلاف 1857 کی بغاوت اور پھر اسکے بعد ہوئی عمومی مزاحمت میں مسلمان دینی طبقہ ایک رہنما کردار لئے ہوئے تھا۔ یہ بغاوت و مزاحمت ایک گہری سوچی سمجھی حکمت عملی کی بجائے شدید غصے، جذبات اور ردعمل کا شکار تھی۔ ہمارے علماء کرام نے انگریز کے خلاف جدوجہد کو ریاستی ملکیت و عوامی ملکیت کی لوٹ مار و تباہی کا نام دیدیا، انہوں نے اس بات میں فرق نہ کیا کہ ریاستی ملکیت و عوامی ملکیت جن میں ہر قسم کی ملکیت و اثاثے شامل ہیں وہ اصل میں عوام کے ہی ہیں اور عوام کو انکی تباہی و لوٹ مار پر اکسانا اور اسکی حوصلہ افزائی کرنا خود اپنی اور اپنی نسلوں کی ملکیت کی تباہی ہے۔ مزید یہ کہ اس سے عوام کے دل میں ریاست کے تصور اور وجود ہی کے خلاف ایک ایک ذہنیت پیدا ہوجاتی ہے اور ریاست کی اہمیت، عزت اور ناگزیریت عوام کے دلوں سے رخصت ہو جاتی ہے۔ وہ اس ذہنیت و رویوں کے پیدا ہونے کے مضمرات کا قطعی اندازہ نہ لگا سکے کہ کل کلاں کو جب انگریز کو برصغیر سے رخصت کر دیں گے تو ریاست و عوامی ملکیت کی لوٹ مار و تباہی کی ذہنیت کیا رنگ لائے گی۔
انگریزوں کے اقتدار سے لیکر 1947 میں انکے برصغیر سے رخصت ہونے تک عوام اور بالخصوص مسلمان عوام میں یہ ذہنیت راسخ ہوچکی تھی کہ ریاست کے وسائل، اثاثوں و ملکیت کو لوٹنا جائز ہی نہیں بلکہ کار ثواب ہے اور جہاں اور جب بھی موقع ملے یہ کام کرنا چاہئے کہ اس سے انگریز سرکار کا نقصان ہوتا ہے۔ اس ذہنیت اور کام کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ عوام کے ذہنوں سے یہ بات بالکل نکل گئی کہ عوامی ملکیت اور نجی ملکیت کو انگریز اقتدار کی ملکیت سے علیحدہ رکھنا ہے اور انہیں اپنی جدوجہد میں بالکل بھی نقصان نہیں پہنچانا، جب بھی کبھی انگریز سرکار کے خلاف مظاہرے ہوئے اور گھیراؤ جلاؤ ہوا اس میں نجی ملکیت اور عوامی ملکیت کو بھی اسی طرح لوٹا اور تباہ کیا گیا جیسے ریاستی اقتدار کی علامتوں و اثاثوں کو لوٹا یا تباہ کیا گیا۔
پاکستان بننے تک یہ ذہنیت اتنی پختہ و قوی ہوچکی تھی کہ باوجود اس بات کے کہ اب انگریز استعماری اقتدار ختم ہو چکا ہے اور اب ریاست اور اسکے اثاثے آپکے اپنے ہیں، اس ذہنیت کی بدولت ریاست کے وسائل و اثاثوں کے لوٹ مار کا اتوار بازار لگ گیا۔
پاکستان بننے کے بعد سیاسی، مذہبی و علمی قیادتوں نے اس طرف دھیان ہی نہ دیا کہ اس خطرناک ذہنیت اور اسکے زہر کو کیسے عوام کے دلوں و ذہنوں سے نکالا جائے اور انہیں یہ باور کروایا جائے کہ اب ریاستی و عوامی ملکیت کی لوٹ مار و تباہی سخت گناہ، برائی اور گھٹیا بات ہے۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہماری سیاسی، مذہبی اور علمی دانشورانہ قیادت اس لوٹ مار و تباہی کی ذہنیت کی مذمت تو کیا کرتی وہ اپنے اپنے ذاتی و طبقاتی مفادات کے تحت نہ صرف خود اس لوٹ مار و تباہی میں شامل ہوگئے بلکہ اسکی حوصلہ افزائی بھی کرنے لگ گئے۔
یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی جلسہ جلوس ہو دھرنا ہو، اکٹھ ہو ہمارے احتجاج کبھی بھی پرامن نہیں رہتے اور وہ ہمیشہ ریاستی، عوامی اور نجی ملکیت کی لوٹ مار و تباہی پر منتج ہوتے ہیں۔ کبھی یہ نہیں ہوا کہ کسی بھی عوامی جلسہ جلوس احتجاج و دھرنے کے نتیجے میں ہوئی ریاستی عوامی اور نجی ملکیت کی لوٹ مار اور تباہی پر کرتا دھرتاؤں نے شرم، افسوس اور معذرت کا اظہار کیا ہو، اپنے لوگوں کو سختی سے منع کیا ہو اور لوٹ مار و تباہی پھیلانے والوں کو خود ریاستی اداروں کے حوالے کیا ہو اور انہیں سزائیں دلوائی ہوں تاکہ سب کو عبرت حاصل ہو۔
جب تک سیاسی مذہبی علمی دانشور قیادت، عوام میں اس بات کی بیداری شعور اور ذہنیت پیدا نہیں کرتیں کہ ریاستی عوامی و نجی ملکیت مقدس اور اسکو نقصان پہنچانا سخت برا و گناہ کا کام ہے ہم 1857 میں ہی اٹکے رہیں گے اور اپنی ہی بربادی کا سامان پیدا کرتے رہیں گے۔