اس نے اپنے گھر میں پانچ قبریں بنا رکھی تھیں۔ بڑی قبر، اس سے چھوٹی قبر، تیسری قبر، چوتھی چھوٹی قبر اورآخری اس سے چھوٹی قبر، اس کے صحن میں قطار در قطار بن چکی تھیں۔ وہ روز ان کی مٹی گیلی کرتا، پھول ڈالتا، اگربتیاں جلا کر قبروں کے پیٹ میں گھونپ دیتا۔ دیے روشن کرتا اور ان کی پائینتی پر ہتھیلی تھوڑی کے نیچے رکھ کر گھنٹوں اکڑوں بیٹھا رہتا۔ ان سب قبروں میں پہلی قبر اس کے باپ کی تھی، دوسری اس کی ماں کی، تیسری اس کے بھائی کی، چوتھی اس کی بے وفا بیوی کی اور پانچویں اس کی محبوبہ کی قبر تھی جو ابھی تازہ تازہ ہی بنی تھی۔ باقی گھر ویرانہ تھا اگرچہ وہاں اس کی دوسری بیوی اور بچے رہتے تھے۔ روزانہ برتنوں کے ٹوٹنے اور چیخ و پکار سے اس کی ریاضت میں خلل پڑتا تھا لیکن اسے پھر بھی یہی محسوس ہوتا جیسے گھر بیابان ہے۔ اسے ہمیشہ قبرستان جانے سے خوف رہا لیکن باپ کے مرنے کے بعد جیسے یہ ڈر اڑن چھو ہو گیا ہو۔ گھر کی بغلی گلی کے ساتھ ہی برابر میں اس کے باپ کا دھوبی گھاٹ بھی تھا۔ تین طرف سے اونچی دیواروں میں گھرا ہوا کھلا سا بڑا صحن جس میں چار عدد حوض اور تین دیواری کھرے موجود تھے۔ جن کے اندر بنیان اور دھوتیاں کسے ہوئے دھوبی چھپا چھپ کپڑے دھویا کرتے تھے۔ کھروں کی دیواروں پر کپڑوں کے پٹخنے اور دھوبیوں کے منہ سے ہف ہف ہف کی آوازیں ایک سا سر نکالتی تھیں۔ دھوتی اور بنیان میں ملبوس ایک دھوبی اس کا باپ بھی تھا جس کے ہونٹوں کے کناروں میں ہمیشہ ادھ جلا سگریٹ دبا رہتا تھا۔ وہ جب تک زندہ رہا دونوں میں ٹھنی رہی، شرٹ پتلون کس کر سائیکل پر سواری کے لیے نکلنا اس کے باپ کو بالکل پسند نہیں تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ مبارک بھی اس کے آبائی پیشے کو اختیار کرے۔ ’’او شہری ببوا۔ چھوڑ دے کتابوں کا پیچھا۔ کل کو بھی یہی کام کرنا ہے تو ابھی کیوں نہیں؟‘‘
مبارک سائیکل کی چین چڑھاتے ہوئے سنی ان سنی کرتا اور گلیوں بازاروں میں بگولے کی طرح اڑنے لگتا۔ بے فکری کے دن پر لگا کر اڑ گئے دس جماعت پاس مبارک کو نوکری نہ ملی تو باپ نے کان سے پکڑ کر اپنے دھوبی گھاٹ میں اتار دیا۔’’ شہری بلما، ہوش میں آؤ۔ یہ تمہارے باپ دادا کا کام ہے، کاہے کی شرم۔‘‘
’’ میں یہ بنیان اور دھوتی نہیں پہن سکتا۔‘‘
’’ تو تمہیں جیکٹ پہنا دیں۔ وہ کیا کہتے ہیں ٹائی لگادیں۔۔۔ یاد رکھو، تمہارے پردادا انگریز سرکار کے دھوبی تھے۔ کیا ٹھاٹ باٹ تھے ان کے۔‘‘
’’ واہ جی واہ ! کیا ٹھاٹ باٹ تھے ان کے۔‘‘ مبارک باپ کی نقل اتارتا۔
’’ تو ہمیشہ رہے گا، دھوبی کا کتا، نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔‘‘ باپ کا سینہ دھلائی کے زور کے بجائے اس سے لڑتے ہوئے لرزنے لگتا۔
مبارک منہ چڑاتا ہوا باہر نکل جاتا لیکن آخر ایک دن اسے اپنے باپ کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑے۔ دل میلا ہی رہا وہاں کوئی دھوبی پٹرا کام نہ آ سکا۔ وہ اپنی موجودہ حالت سے خوش نہیں تھا اس لیے جب خوابوں کا در وا ہوتا تو ایک انجانی حسینہ اس کا ہاتھ تھامے گول گول گھومتی رہتی۔ خواب نگر کا شہزادہ خوش تھا اس کا ٹرنک رنگ برنگی شرٹوں اور پتلونوں سے بھرا ہوا تھا۔ چیک والی پتلونیں اور سادہ شرٹیں پہن کر خود کو آئینے میں دیکھتا تو ہاتھ نچا نچا کر ڈائیلاگ مارنے لگتا۔ اس دھوبی گھاٹ کی وجہ سے اسے اپنے باپ سے نفرت ہو گئی تھی جسے وقت نے جلد ہی کھنڈر بنا دینا تھا۔ حوض خالی تھے اور ان میں لگی ہوئی کائیاں بھی پھیل چکی تھیں۔ باپ سے بغاوت کا مادہ پہلے سے ہی اس کے دل میں تھا پھر آہستہ آہستہ اس میں زہریلا مواد جمع ہونے لگا۔ ’’ شہر میں اب ہر جگہ ڈرائی کلینرز کھل گئے ہیں۔ میری مانو تو یہ چھوڑو اور یہاں بھی کوئی بڑی مشین رکھ لو۔‘‘ مبارک اپنے باپ کو قائل کرنے کی ناکام کوششیں کرتا رہتا۔
بغاوت کے اس دور میں اس کی آوارہ گردی بھی بڑھتی جارہی تھی۔ وہ اپنے باپ کو سبق سکھانے کے لیے کچھ برا کرنا چاہتا تھا۔ پھر اس نے ایسا کر دکھایا اور ایک دن چپکے سے تنگ کپڑوں میں لپٹی لڑکی کو لیے گھر میں داخل ہوگیا۔ حوض کے گیلے کنارے بھی ساکت تھے جب دھوتی کے کنارے موڑتے ہوئے اس کے باپ نے ادھ جلے سگریٹ کو اس کے منہ پر تھوک دیا۔ کپڑے دھونے والا موٹا ڈنڈا اس کی کمر پر تڑا تڑ برس رہا تھا۔ اگر اس دن ماں اور چھوٹا بھائی آگے نہ آتے تو شہری بابو کی دھجیاں اڑ جاتیں۔ اس کا باپ ہانپتے ہوئے چارپائی پر ڈھے گیا اور تنگ لباس والی دوشیزہ اس کے کمرے میں منتقل کر دی گئی۔ مبارک کو باپ سے نفرت کرنے کا جواز مل گیا تھا جو زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ شہری بابو سارا دن سائیکل پر آوارہ گردی کرتے ہوئے گھر آتا جہاں اس کی بیوی پلنگ پر کروٹ بدل کر سوئی ہوئی ملتی۔ اس کی شادی کے بعد باپ کو چپ لگ گئی تھی وہ مبارک کے ساتھ گونگے بہروں کی طرح گفتگو کرنے لگا تھا پھر ایک دن اچانک حوض پر کپڑا مارتے ہوئے اس کے منہ سے نکلنے والی ہف کی آواز چیخ میں بدل گئی۔ ہسپتال جانے سے پہلے ہی وہ مبارک کے بازوؤں میں ٹھنڈا ہو گیا۔ اس نے باپ کی آنکھیں بند کیں تو اس کے ٹھنڈے ٹھار گیلے جسم سے سوڈے کی اٹھتی ہوئی مہک اس کے نتھنوں کو چیرتی چلی گئی۔ اس کے بازوؤں میں محبت ہی محبت بھری تھی جسے وہ نفرت سمجھ کر پال رہا تھا۔ باپ کو دفنا کر گھر آیا تو دھوبی گھاٹ چپ تھا اور مینڈک ٹر ٹر کر رہے تھے۔ اس نے صحن میں باپ کی قبر بنائی اور مجاور بن کر بیٹھ گیا۔
ماں اپنی بیوگی کے دن کاٹ رہی تھی اور بھائی اپنے باپ کے کام کو چلا رہا تھا۔ مبارک کی سائیکل اس کی آوارہ گردیوں کی ساتھی بن گئی اور واپسی پر تنگ کپڑوں میں پھنسی رہنے والی لڑکی اب عورت بن کر اسے کھسوٹنے لگی تھی۔ مبارک کو رہ رہ کر خیال ستانے لگتا کہ اس کا باپ شاید اس کی وجہ سے ہی دنیا سے گیا ہے۔ چھوٹے پر بھی جوانی خوب مہربان ہوئی تھی وہ اسے دھوتی بنیان پہنے ہوئے محسوس ہوتاجیسے باپ اس کے جسم میں کروٹ لے کر اٹھ بیٹھا ہو۔
’’ویرے، تیرے ہنسنے کھیلنے کے دن ہے۔ کملیا چل آبسنتی میلے۔‘‘ مبارک مستی کی دھن بجاتا۔ گیلے کپڑے چھٹکتا ویرا ہنستے ہوئے اس کی بات کو بھی تار پر ڈال دیتا۔ ماں کی انگلیاں اس کے سر پر تیل کی مالش کرتے ہوئے گھومتی رہتیں اور آنکھیں بند کیے اسے لگتا جیسے کسی پہاڑ ی راستے پر سائیکل چلا رہا ہو۔ نیچے کھائی کا خوف اس پر حاوی ہونے لگتا تو وہ منہ موڑ کر ماں کے سینے سے چمٹ جاتا۔ ’’چل نکمیا، بد ذاتا۔‘‘ ماں کے بوسے جھولی میں پڑے اس کے منہ پر پٹاخ پٹاخ پڑتے جیسے بارش کے موٹے موٹے قطرے صحن میں گرتے ہوں۔
مبارک کے لیے یہ خوشی بھی عارضی رہی، ماں کو شہر ہسپتال لے کر جاتے ہوئے ٹرالی کی ٹکر نے دونوں کے پرخچے اڑا دیے۔ موٹرسائیکل کی ٹینکی ہی نہیں پھٹی بلکہ ان کی بھی بوٹی بوٹی سڑک پر پڑی تھی۔ مبارک نے کانپتے ہاتھوں سے ان کے جسموں کے ٹکڑے اٹھائے اور باپ کے ساتھ جا کر دفنا دیے۔ دل کی طرح صحن بھی خاموش تھا۔ قبرستان میں دو قبریں باپ کے دائیں بائیں تھیں جبکہ صحن میں برابر کھود دی گئیں۔ جوان جسم کو چارپائی پر دیکھ کر اس کے ہاتھ پاؤں سن ہو چلے تھے۔ وہ بار بار گورکن کو کہتا: ’’بھائی! قبر چھوٹی نہ پڑ جائے۔ چھے فٹا ویرا ہے میرا۔‘‘
’’خود لیٹ کر ناپ دوں قبر۔ تیری تو تسلی ہو۔‘‘ گورکن نے منہ نیچے کر کے بڑبڑ کی۔ مبارک کو آس پاس باتیں کرتے لوگ زہر لگ رہے تھے۔ اس رات تیز بارش ہوئی، وہ بار بار کھڑکی سے باہر جھانکتا کہیں صحن میں بنی دو تازہ قبریں ڈھے نہ جائیں۔ تین قبریں اس کے سر سے گھنے بال اڑا لے گئیں اس کا ماتھا مزید کشادہ ہو گیا۔ اس کے ہاتھوں کی انگلیاں لرزش کا شکار رہنے لگی تھیں۔ اب اس سے سائیکل بھی نہیں چلتی تھی وہ بار بار گھنٹی دباتا اور کام والا تھیلا چارپائی پر پھینک کر وہیڑے میں قبروں کے پاس بیٹھ جاتا۔ گھر کی واحد عورت مبارک کی رونی شکل دیکھ دیکھ کر ادبدا گئی تھی وہ روز اسے قبرستان سے ہاتھ پکڑ ے کھینچتے ہوئے گھر لاتی۔ چیختی چلاتی، چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینکتی اور وہ گونگے بہرے شخص کی طرح نظریں ایک ہی نقطے پر مرکوز کیے ہوئے سو جاتا۔
’’تم روز انھیں روتے ہو۔ تم بھی ان کے ساتھ مر کیوں نہیں جاتے۔‘‘ تنگ لباس جامے سے باہر ہونے لگتا۔
’’یہ قبریں جل کیوں نہیں جاتیں۔ اس صحن میں آخر ہے کیا؟ کیوں چوکڑی مار کر بیٹھ جاتے ہو۔ آگ لگ جائے تمہیں بھی۔‘‘ وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتی اور مبارک دل ہی دل میں آمین کہتا چلا جاتا۔ دھوبی گھاٹ خود ہی بند ہو گیا تھا اور اس نے قصبے کے بازار میں اک چھوٹی دکان کرایے پر لے لی تھی۔ چوڑے پھٹے پر دری اور چادر بچھائے وہ کوئلوں والی استری، وتر لگے ہوئے کپڑوں پر پھیرتا۔ جیسے جیسے کریزیں بیٹھتیں اس کی ذہنی پریشانیاں بھی سیدھی ہوتی چلی جاتیں۔ گاہکوں کے شور میں اس کے اندر کا حبس کچھ دیر کے لیے ٹوٹ جاتا۔ پھر گرلز ہاسٹل کی تسلیمہ اس کی زندگی میں آگئی۔ اس کی آمد بہار کے جھونکے کی طرح تھی، وہ اس کے ساتھ رنگوں، خوشبوؤں اور کتابوں کی باتیں کرتی۔ مبارک سپاٹ چہرہ لیے قمیضوں کی کریزیں سیدھی کرتا رہتا۔ پھر آہستہ آہستہ دونوں کا دل ملنے لگا، مبارک کو تسلیمہ کا زندگی میں آنا اچھا لگا تھا۔ وہ ہر باراس سے اپنے باپ، ماں اور بھائی کی باتیں کرتا اور وہ سٹول پر بیٹھی پورے انہماک سے سنتی۔ پھر ایک دن بولتے بولتے وہ اس کی سائیکل کے پیچھے سٹینڈ پر بیٹھی اور غائب ہو گئی۔ دونوں دنیا میں موجود تھے لیکن نظروں سے اوجھل ہوئے پھرتے تھے۔
گھرمیں بیٹھی عورت بھیڑ بکری کی طرح ایک ہی تنے سے بندھی ہوئی تھک گئی۔ پھر ایک دن اس نے بھی مبارک کی رونی شکل دیکھ کرتنے سے رسا تڑوا لیا۔ وہ جس طرح تنگ کپڑوں میں لپٹی آئی تھی ویسے ہی تنگ جامے میں واپس لوٹ گئی۔ اس کے صحن میں ایک بار پھر جنازہ پڑا تھا مبارک نے قبر کھودی اور تنگ لباس والی کو اس میں پھینک کر مٹی ڈال دی۔ اس کے لیے عورت کی بے وفائی ان میلے کپڑوں کی طرح تھی جنہیں اس کا باپ کر حوض کے کناروں پر پٹخ کر مارتا تھا۔ وہ سوڈا ڈال کر جھاگ بناتا اور میلے کپڑوں کی ڈبکی لگ جاتی۔ اس کی عورت بھی میل بن کر بہہ چکی تھی۔ مبارک نے سات سال اس کی قربت میں گزارے تھے اس لیے اس کی قبر پر بھی دیا جلانا فرض ہو گیا تھا۔
تسلیمہ اس ماتمی ماحول میں نغمہ جاوداں بن کر آئی۔ چمڑے کا بیگ اور کالے شیشوں والی عینک لگائے وہ اس کی سائیکل کے پیچھے بیٹھتے ہی گپیں ہانکنے لگتی۔ ’’سنو! تم مجھے مت چاہو۔ میں تمہیں چاہتی رہوں گی۔ تم ملو یا نہ ملو۔‘‘ یہ جملہ سنتے ہی مبارک کی کنپٹیاں سفید ہو جاتیں اوروہ اپنے پیلے دانتوں کو چھپانے کی کوشش میں سگریٹ سلگا لیتا۔ پھر اچانک اسے اپنے دونوں لڑکے یاد آجاتے تو وہ تسلیمہ کو بیچ راستے میں ہی چھوڑ کر سرپٹ سائیکل دوڑاتا ہوا نکل جاتا۔ لڑکے اپنی ماں کی بے وفائی کی پھانسی پر چڑھ چکے تھے۔ ان کے باپ نے مکان کو جناز گاہ بنا ڈالا تھا اور وہ اس کے دروازے کے باہر سیڑھیوں پر بیٹھے اس کا انتظار کرتے رہتے۔ اس کے گھر کو عورت کی ضرورت تھی تو اس نے ایک دن ہمت باندھ ہی لی۔
’’ تسلیمہ، مجھ سے شادی کر لو۔‘‘ مبارک نے جلدی سے استری آستین پر چڑھا ئی۔
’’ بھلا کسی لا ش کے ساتھ بھی رہا جا سکتا ہے۔‘‘
’’ تو کیا میں لاش ہوں؟‘‘
’’ نہیں میں نے اپنی بات کی ہے۔۔۔ اچھا دیکھو کل سے ہم نہیں ملیں گے۔ ہاسٹل بھی بند ہونے والا ہے شاید مجھے واپس گھر جانا پڑے۔‘‘
’’ تو کیا تم اتنی جلدی چلی جاؤ گی۔‘‘ گرم گرم استری مبارک کی ہتھیلی کو سرخ کر گئی۔
’’ ہاں کل بھی جانا ہے تو کیوں نہ آج سہی۔۔۔۔ سنو مجھے بھولنا مت۔‘‘ اس کی آنکھیں پانیوں سے بھری ہوئی تھیں۔
مبارک اسے بھول بھی کیسے سکتا تھا، جس کی وجہ سے اس کی سائیکل کا ردھم برقرار تھا وہ یوں اچانک اسے چھوڑ جائے گئی اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔
’’گشتی۔‘‘ گالی دینے کے باوجود وہ اس سے نفرت نہ کر سکا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ تسلیمہ کی روح بھی پرواز کر چکی ہے تو اس نے صحن میں قبر کھود کر اسے اندر لٹا دیا۔ جو اسے زندگی کی طرف لوٹ کر لائی تھی ایک بار پھر پھینک کر چلی گئی۔ کھلے گھیر والے کپڑے پہنے ایک نئی عورت اس کے دروازے سے لگی کھڑی تھی جس نے ٹرن ٹرن کی آواز سنتے ہی دونوں پٹ کھول کر اس کی سائیکل کو راستہ دیا۔ مبارک نے دونوں لڑکوں کے دھلے دھلائے چہرے اور صاف کپڑے دیکھ کر سکون کا سانس لیا۔ نئی عورت چولہا جلا کر توا اوپر رکھ چکی تھی، دونوں لڑکے چارپائی پر بیٹھے ہاتھوں سے کوئی کھیل، کھیل رہے تھے۔ مبارک منہ دھو کر صحن میں چکر لگانے لگا۔ اس نے بغل والی گلی میں گھپ اندھیرے کو محسوس کرتے ہوئے ویران دھوبی گھاٹ پر آخری نظر ڈالی۔ ’’دھوبی کا کتا، گھر کا نہ گھاٹ کا۔‘‘ اسے ویرانے میں باپ کی آواز سنائی دی۔ پانچوں قبریں خاموش تھیں اور وہ سوچ رہا تھا کس کچی قبر کو پکا کروائے۔ اس سال بھی برسات کا مہینہ ڈیڑھ سارا پانی لیے وارد ہوا تھا۔ تقریباً روز ہی بدلیاں ٹکڑوں کی صورت میں آتیں اور خوب برستیں۔ پانی کی سطح اوپر ہونے لگی تھی، قصبے کی مسجدوں میں اعلان ہونے لگے۔ چناب کی طنابیں ٹوٹ چکی تھیں، پچاس کلومیٹر دور سے ہی ’’ہڑ آ گیا، ہڑ آ گیا‘‘ کا شور سنائی دے رہا تھا۔ لوگ اپنے کندھوں پر چارپائیاں اور برتن اٹھائے دوڑ چکے تھے۔ مبارک کے کان اس گونج دار آواز کے ملبے تلے دب گئی۔ ’’میں گھر نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘
’’ قبریں ڈوب جائیں گی۔‘‘
’’ ابھی تو انہیں پکا کرانا تھا۔‘‘
بیوی اور بیٹوں نے اسے دھکیل کر مکان سے باہر نکالا۔ عقب سے پانی کا بڑا ریلا منہ کھولے دوڑا چلا آ رہا تھا، مویشی اور سامان اس ریلے کی بانہوں میں بے بس پھسل رہے تھے۔ مبارک کی آنکھیں طاق پر رکھے دیے بن گئیں، قصبے سے باہر لگا خیمہ اس کی قبر تھا۔ پانی اترنے میں پانچ دن لگے، مبارک دوڑتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا،ہر طرف ویرانی ہی ویرانی تھی۔ کچھ پکے مکان اپنا رنگ ڈھنگ کھو چکے تھے۔ کچے مکان نشان کی طرح قریب سے دکھائی دیتے تھے اور کہیں کیچڑ ہی کیچڑ تھا۔ اس کے پاؤں دلدلی مٹی میں دھنستے جارہے تھے، وہ دیوانوں کی طرح گھر کی طرف بڑھا لیکن وہاں دو کچی دیواروں سے جھولتا ہوا دروازہ کھلا ملا۔ ٹوٹی ہوئی چارپائیاں اور زنگ آلود سائیکل ڈیوڑھی میں پڑی تھیں۔ برساتی ریلے کی مخصوص بو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی۔ مبارک نے ڈرتے ڈرتے قدم آگے بڑھائے، بغلی دیوار کے پار دھوبی گھاٹ غائب تھا۔ آگے بڑھتے ہی صحن کے کچے فرش میں راستہ بن گیا اور پانچوں قبریں اسے دیکھ کر بین ڈالنے لگیں۔ وہ پائنتی پہ کھڑا اس فکر میں مبتلا تھا کہ ان پانچوں میں سے کس قبر کو پکا کروانا ہے۔