پاکستان میں کوئی بھی بات ہو رہی ہو دو سے تین منٹ میں گھوم پھر کر عوام کی مجبوریوں اور محکومیوں تک پہنچ ہی جاتی ہے۔ صحت کی بات ہو تو دوسرے چھوڑ پہلے منٹ میں پوچھنے لگ جائیں گے کہ حکومت نے کیا کیا؟ کون سے ہسپتال بنا دئیے، کہاں مفت صحت کی سہولت دی؟ ادویات کیوں سستی نہیں کرتے؟ عوام کو تو بیماریوں سے مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے، کوئی ڈاکٹروں سے پوچھنے والا نہیں؟ ہسپتالوں میں عوام دربدر ہے اور یہ مسیحا لاشوں کی تجارت کرنے میں مصروف ہیں۔ مجال ہے کہ آپ کو کچھ بولنے دیں یا پوچھنے دیں کہ صحت کی اتنی ہی فکر ہے تو بتائیے کہ روز کتنی ورزش کرتے ہیں، گھر کے افراد کہاں چہل قدمی کرنے جاتے ہیں اور مرغن غذائیں کیوں نہیں چھوڑتے؟ آپ ذرا پوچھ کر تودیکھیں، ڈاکٹروں اور میڈیکل سٹور والوں کے ساتھ آپ کی بھی ایسی کی تیسی ہو جائے گی۔
عدالتوں کی بات شروع ہی رونے دھونے سے ہوتی ہے کہ غریب تو عدالتوں میں مر گیا ہے۔ یہاں دادا کے دائر کردہ مقدمے کا پوتے کو بھی فیصلہ سننا نصیب نہیں ہو رہا۔ وکیل سارے حرام کھاتے اور مخالف پارٹیوں سے ملے ہوتے ہیں اور جج صرف انصاف کا خون کرنے عدالتوں میں آتے ہیں۔ خدا کسی دشمن کو بھی تھانے اور عدالتوں کا منہ نہ دیکھائے، یہ جملہ تو ضرور بولا جاتا ہے لیکن پوچھنے نہیں دیا جاتا کہ مقدمہ واپس لینے میں عار کیا ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ مخالف سے صلح کرنے سے برادری میں ناک کٹ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہزاروں مقدمات میں مجرموں نے وکیل اور پیسہ لگایا ہوتا ہے کہ انہیں کسی نہ کسی طرح بچایا جائے تو ایسی صورت میں فیصلے جلد کیسے ہوں۔
تعلیم، روزگار، کاروبار، گیس، بجلی، پانی غرض کوئی بھی بات ہو یا کوئی بھی کام ہو، صرف عوام عوام کی رٹ لگائی جاتی ہے کہ حکومت کو عوام کے لیے یہ کرنا چاہیے، وہ کرنا چاہیے، عوام کو یہ سہولت دینی چاہئے اور دروازے پر دینی چاہیے، مفت دینی چاہیے بلکہ اپنے پلے سے خرچ کر کے دینی چاہئے لیکن کیا کبھی کسی نے سوچا کہ یہ عوام درصل کون ہیں ؟ یہ کیا کرتے ہیں اور سب کچھ انہی کے لیے کیوں کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ آئیے اپنے ملک میں عوا م کو کھوجتے ہیں۔
قیام پاکستان سے عوام کے بارے معلومات لینی شروع کریں تو ابتدائی حالات منٹو، قدرت اللہ شہاب اور دیگر لکھاریوں کی کہانیوں میں سے باآسانی مل جائیں گے۔ دہی اور بیسن کی خریداری سے آغاز کرتی اور ایک دوسرے سے تعاون کرتی یہ عوام کی ہی باتیں تھیں جنہوں نے ہجرت کو بھی گندا کر کے رہ دیا۔ اسلام کے نام پر ہجرت کرنے والوں نے اسلام کے نام پر بننے والے ملک کی بنیادوں میں اپنے جھوٹ سے پہلی اینٹ رکھی اور بہت سوں نے اپنی ذات پات ہی بدل ڈالی۔ جعلی کلیم اور قبضے بھی ارواح کے حصے میںنہیں ڈالے جا سکتے کہ یہ کام اسی ملک کی عوام کے تھے۔ قائد اعظم کی موت سے صرف نظر کرتے ہوئے ذرا سا آگے بڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ بانی پاکستان کی بہن کو کتیا کہنے والے اور بڑے بڑے جلسوں میں ان کے خلاف نعرے لگانے والی بھی یہی عوام ہی تھی۔ محترمہ کی تصاویر کی جس قدر بے حرمتی کی گئی وہ شائد ہی تاریخ میں کہیں ملے لیکن باعث شرم بات یہ کہ کرنے والے وہ سب لوگ تھے جن کی گردنوں پر نئے ملک کا احسان براہ راست موجود تھا۔ اگر دوسری تیسری یا دسویں بارہویں نسل ہوتی تو اور بات تھی کہ وہ ہجرت اور تقسیم کو نہیں جانتے اور قربانیوں سے واقف نہیں، لیکن یہاں تو نعرے لگانے والے وہ لوگ تھے جو اس نئے ملک کی پہلی نسل تھی اور اپنے بانی کی بہن کے خلاف گندی زبان استعمال کرنا فخر سمجھتی تھی۔ آپ یقینا یہاں ایوب خان کے سر پگڑی باندھنے کی کوشش کریں گے لیکن کیا ایمان اور اخلاقیات اتنی ہی کمزور ہوتی ہیں کہ چند روپوں کے لیے ان کا سودا کر لیا جائے۔ تاریخ کی ستم ظریفی یہ کہ وہ سب لوگ جو محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف نعرے لگاتے تھے، کچھ عرصے بعد ان کی اولاد ایوب خان کے خلاف نعرے لگانے نکل کھڑی ہوئی۔ پاکستان کی تاریخ میں ایوب دور جیسی ترقی پھر کبھی سوچنے کو بھی نہیں ملی لیکن جو عوام اپنے بانی کے نہ ہوئے ان کے لیے ایوب کون اور اس کی ترجیحات کیا معانی رکھتی ہیں۔ عوام کے بھرپور جلسوں میں ایوب کتا کے نعرے آخر کار ایوب دور کے خاتمے کا سبب بنے۔
بھٹو صاحب کو مقبول ہونے کا شوق تھا اور ان کے سامنے عوام نے ننگ بھوک اور بے روزگاری کے وہ رونے روئے کہ انہوں نے ساری صنعتیں قومیا بلکہ ہتھیا کر ملک کی معاشی کمر ایسی توڑ دی کہ آج تک پھر اس ملک میں کسی کو اس طرح سے صنعتیں لگانے کا خیال نہیں آیا کہ سبھی اس عوام ڈرتے ہیں کہ کب ان کے رونے دھونے کے ڈراموں میں آ کر حکومت دوبارہ سب کچھ نہ قومیا لے۔ صنعت کار سٹرکوں پر آ گئے لیکن بھوکی اور ننگی عوام کی پریشانیاں اور دہائیاں ویسی کی ویسی رہیں بلکہ کسی بھی امیر اور ترقی کرتے شخص سے اس عوام کی نفرت دن بدن بڑھتی ہی رہی ہے،
ہمیں آج یقینا اس جھوٹ سے بھی باہر نکل آنا چاہیے کہ پینسٹھ کی جنگ میں ہماری بہادر عوام ڈاگ فائٹ دیکھنے چھتوں پر چڑھ جاتی تھی اور اپنے فوجیوں کی مدد کے لیے اگلے مورچوں پر پہنچ جاتی تھی۔ صرف چھے سال بعد ہونے والی دوسری جنگ میں یہی ساری عوام کہاں اور کیوں مر گئی تھی۔ ظلم اور ذیادتی کی کہانیاں تو بنگالی سنا رہے تھے، فوج کشی مشرقی پاکستان میں ہوئی تھی تو مغربی پاکستان کی بہادر عوام اس پورے منظر نامے سے کیوں غائب ہو گئی؟ کیا صرف چھے سال میں ہی ساری بہادری کے غبارے سے ہوا نکل گئی؟
وقت گزرتا گیا لیکن عوام نے اپنی روش نہ بدلی اور باپ دادا کی پیروی میں کبھی بریانی کے ڈبوں، کبھی عقیدتوں اور کبھی جوش میں اندھے ہو کر حکومتوں کی باریاں دیتے رہے اور اس سب کے بیچ ملک اور اپنے بچوں کے مستقبل کی انہیں کبھی کوئی فکر نہ رہی۔ یہ وہی عوام ہے جو آمر سے نفرت کا اظہار بھی کرتی ہے اور آمروں کے جلسے میں لاکھوں کی تعداد میں پہنچ بھی جاتی تھی۔ اس عوام کے کسی بھی ایک طبقہ کو اٹھا کر دیکھ لیں تو دنیا کے مکروہ ترین خیالات اور غلیظ دھندوں میں ملوث لوگ اس طبقے میں مل جائیں گے جن سے دوسرے نفرت کا اظہار بھی نہیں کرتے۔ ذات پات، زبان، علاقے، مذہب اور فرقے کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نفرت کرنا، ایک دوسرے سے بغض رکھنا اور کینہ پالنا اس عوام کا سب سے محبوب عمل ہے اسی وجہ سے یہ ہر وقت دوسری ذات، قوم، قبیلے، علاقے، زبان اور فرقے والوں کو کمتر ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ صرف اپنے گھر کی ایک نالی کے لیے یہ پوری گلی اور سڑک کو توڑ دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اور اپنے پاو گوشت کے لیے دوسرے کا بیل کٹوانے والی مثال اگر بنی ہے تو اسی عوام کو دیکھ کر ہی بنی ہے۔
پوچھنا یہ تھا کہ آپ اس عوام کے لیے بات کر رہے ہیں جو آج تک کسی حکمران کی سگی نہیں ہوئی بلکہ تخت پر بیٹھانے کے ساتھ ہی اس کے خلاف سازشیں کرنے لگ جاتی ہے؟آپ اس عوام کی خیر خواہی کے لیے بات کر رہے ہیں جو اپنی نسلوں کی خود خیر خواہ نہیں ہوئی کبھی؟ آپ اس عوام کے لیے قربانی دینے کی بات کرتے ہیں جس نے دوسروں کی قربانیوں کو بھی مردار کرنے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی؟ کوئی ایک وجہ بتا دیں کہ اس عوام کی فلاح اور بھلائی کے لیے کوئی کام کیا جائے؟بائیس کروڑ عوام کو پوچھ لیں، ان کی اور ان کے اجداد کی زندگیاں چھان لیں کہ وہ کوئی سے تین کام جو انہوں نے اس ملک اور قوم کے لیے کئے ہوں وہ بتا دیں؟ لفاظی کے علاوہ کسی کے پاس کچھ بھی نہیں ہو گا۔ بائیس کروڑ میں سے بائیس لاکھ چھوڑ بائیس ہزارلوگ بھی نہیں ملیں گے جنہوں نے اس ملک کو کچھ لوٹایا ہو ہاں البتہ لوٹنے والے کروڑوں میں مل جائیں گے، ہر طبقے میں ہر کونے میں اور ہر نئے سے نئے انداز میں اور آپ اس عوام کے لیے کچھ کرنے کی بات کررہے ہیں؟ کیا کمال بات کرتے ہیں۔