پوری دنیا اس وقت کرونا وائرس نامی وبائی بیماری کی زد میں آ گئی ہے۔ دنیا میں اس بیماری سے ۶۲ لاکھ سے زائد افراد مبتلا ہوئے جن میں ۴ لاکھ کے قریب ہلاک جبکہ ۸۲ لاکھ سے زائد صحتیاب بھی ہوئے ہیں۔ بھارت میں بھی ۲ لاکھ کے قریب افراد اس بیماری میں مبتلا ہوئے اور ان میں سے ۵ ہزار سے زائد ہلاک ہوئے ہیں۔ بھارت میں ہر دن ۸ ہزارسے زائد افراد اس بیماری میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ بھارت کے ہی زیر انتظام علاقہ جموں کشمیر میں۵۲ سو کرونا کے مثبت کیسز درج ہوئے جن میں سے ۰۰۹۱ سے زائد کیسز کشمیر جبکہ ۰۰۶ سے زائد کیسز جموں صوبے سے درج کئے گئے۔ ان میں سے ۰۰۹ افراد صحتیاب بھی ہوئے جبکہ تادم تحریر۰۳ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ لیکن اعدادوشمار پر نظرڈالی جائے تو صوبہ کشمیر کے رہنے والے لوگوں کو کرونا سے بھی بڑے مسائل اسوقت درپیش ہیں جن سے وہ بیک وقت نبردآزما ہیں، اور جو کرونا وائرس ختم ہونے کے بعد بھی موجود رہے گے۔
ان مسائل میں سے دیکھا تو کشمیر میں رواں سال جنوری سے اب تک کرونا سے صرف ۵۲افراد ہلاک ہوئے لیکن اسی دوران جنوری سے مئی تک مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ہر روز جاری جھڑپوں کے دوران ۰۸عسکریت پسند جاں بحق ہوئے ہیں۔ جبکہ اس دوران ۵۲ فورسز اہلکار اور ۰۱ عام شہری بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کشمیر میں لگ بھگ پچھلے دس سالوں سے اوسطاََ ہر سال ۰۰۲ سے زائد عسکریت پسند جاں بحق ہوتے ہیں۔ اور اس سال بھی پہلے پانچ ماہ میں ۰۸ عسکریت پسند جاںبحق ہو گئے ہیں، لیکن رواں سال کچھ ماہ سے فورسز کی جانب سے ان آپریشز کے دوران دیگر طریقے بھی شروع کئے گئے ہیں جن میں عسکریت پسندوں کی لاشوں کو لواحقین کے سپرد نہ کرناہے، جس سے اب لواحقین سے آخری رسومات ادا کرنے کا حق بھی چھینا گیا۔ وہیں دوسری طرف سے اب املاک کو بھی جان بوجھ کر تباہ وبرباد کرنے کا منصوبہ شروع کیا جا چکا ہے۔ ۹۱ مئی کوسرینگر کے نواکدل علاقے میں فورسز کے ساتھ جھڑپ میں تحریک حریت چیئر مین محمد اشرف صحرائی کے فرزند جنید صحرائی ساتھی سمیت جاں بحق ہوئے۔ جھڑپوں میں اگر چہ جس گھر میں عسکریت پسند چھپے ہوتے ہیں اسے بارود سے زمین بوس کیا جا تا ہے، لیکن میڈیا رپورٹس کے مطابق اس جھڑپ میں ۵۱ مکانات زمین بوس کئے گئے اور ان میں موجود زیورات اور پیسے بھی لوٹ لئے گئے۔
۵ اگست کے بعد کشمیر کا مقامی میڈیابھی اب صرف موجودہ انتظامیہ کے بیانات چھاپنے تک محدود رہ گیا ہے۔ اسی خبر کو جب ’کشمیر والا‘ نامی مقامی ویب پورٹل نے ویڈیو سمیت شائع کیا تو اسی وقت سائبر پولیس سرینگر کی جانب سے پورٹل کے مدیر کو بلایا گیا اورشائع کی گئی خبر کے متعلق پوچھ گچھ کی گئی۔ بھارتی ویب پورٹل ’سکراوئل ‘ کے مطابق پلوامہ ضلع میں ۸۱۰۲ میں ہی جھڑپوں کے دوران ۵۰۱ مکانات زمین بوس کئے گئے۔ ٹی آر ٹی پورٹل پر شائع ایک رپورٹ کے مطابق مقامی انتظامیہ کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ ۹۸۹۱ سے ۱۰۰۲ کے درمیان ۸۶۳۵ عمارتیں، دکانیں اور دیگر املاک جھڑپوں کے دوران زمین بوس یا تباہ کی گئیں۔ اگر چہ پچھلے ۹۱ سالوں کا کوئی ڈیٹا موجود نہیںہے لیکن ایک اندازے کے مطابق ہر سال کشمیر میں ۰۰۱ سے زائد عمارتیں اور مکانات جھڑپوں میںزمین بوس کئے جاتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ ان مکانات کو زمین بوس کئے جانے کے بعد مقامی انتظامیہ کی جانب سے پچاس پیسے کا معاوضہ بھی نہیں دیا جا تا بلکہ پھر مقامی سطح پر ہی لوگوں کی مدد سے متاثرین کے لئے پیسے جمع کئے جاتے ہیں۔
اسی طرح سبھی جانتے ہیں کہ گزشتہ سال ۵ اگست کو جموں کشمیر کو بھارتی آئین کے تحت دی جانے والی خصوصی پوزیشن کو منسوخ کیا گیا تھا۔ اور اس پوزیشن کوختم کرنے کا جواز پیش کرتے بھاجپا نے کہا تھا کشمیر میں اس سے ملی ٹنسی کا خاتمہ اور ریاست کو نئے ترقی کے راستے پر لے جائے گی۔ خصوصی پوزیشن کے خاتمے سے تو پتہ چلا کہ کس طرح کی ترقی ہوئی۔ لیکن جو اس کے خاتمے کے متعلق کشمیریوں کو تحفظا ت تھے بالکل سو فیصدی سچ ثابت ہو رہے ہیں۔ حریت پسند لیڈر سید علی شاہ گیلانی نے بھی کہا تھا کہ کشمیر میں یہ سب مسلم آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا منصوبہ ہے، اور ہوا بھی یہی۔ موجودہ بھاجپا سرکار نے اب کشمیر میں اسرائیلی طرز پر غیر ریاستی ہندووں کو بسانے کا کام شروع کر دیا ہے اور اسکی بنیاد خصوصی پوزیشن کی منسوخی سے کی گئی۔ ۸۱ مئی کو جموں کشمیر انتظامیہ کی جانب سے ڈومیسائل سرٹیفکٹ حاصل کرنے کےلئے نوٹیفکیشن جا ری کیا گیا۔ اس سے قبل ہی مئی کے پہلے ہفتے میں جموں کشمیر تنظیم نو قانون ( ۹۱۰۲ )میں موجود شقوں کے مطابق ان لوگوں کےلئے قواعد و ضوابط واضح کئے گئے جو یہاں کی شہریت اور نوکریاں بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ قانون کے مطابق جس شخص نے جموں کشمیر میں ۵۱ سال گزارے یا جس نے یہاں ۷ سال پڑھائی کی اور دسویں یا بارھویں کا امتحان یہاں کسی سرکاری ادارے میں دیا یاکسی عہدیدار نے دس سال سرکاری محکمے میں کام کیا ہو وہ یہاں کا شہری بن سکتا ہے۔ یعنی اب ریاست سے باہر کا کوئی بھی شخص جموں کشمیر میں کسی بھی جگہ زمین باآسانی خرید سکتا ہے ا ور وہاں رہ بھی سکتا ہے۔ مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے اس ڈومیسائل قانون کی سخت الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ اور یہ صرف حسب دستور مذمت تک ہی محدود رہی۔ پوری دنیا میںاو آئی سی ایک ایسی نام نہاد مسلم تنظیم جو لگتا ہے صرف خیر مقدم، مذمت اور مخالفت یا تعریف کرنے کے لئے بنائی گئی ہو۔ خیر اب مسئلے پر ہی بات کرتے ہیں، بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر بھارت کا سب سے بڑا مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ کشمیر کی کل آبادی ۵۷ لاکھ کے قریب ہے اور اسی طرح سے جموں صوبے کی آبادی ۵۵ لاکھ تک ہو گی۔ جموں ہندو اکثریتی علاقہ جو کہ شروع میں خصوصی پوزیشن کی منسوخی پر پر جوش دیکھائی دے رہا تھا لیکن اب اس کے نتائج سامنے آتے ہی یہاں کے ہندو سیاسی لیڈران بھی بھاجپا کے اس فیصلے سے بیزار ہیں اور وہاں کئی احتجاجی مظاہرے بھی سیاسی جماعتوں اور طلبہ تنظیموں کی جانب سے کئے گئے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کشمیر میں پر تشدد حالات ہونے کی وجہ سے غیر ریاستی لوگوں کا رخ جموں کی جانب ہی رہے گا۔ اور سب سے زیادہ نقصان اس فیصلے سے نوکریوں اور جائیداد کے معاملے میں جموں والوں کا ہی ہو گا۔ اس قانون کو بنانے کے ساتھ ہی مقامی انتظامیہ نے دس ہزار نوکریوں کا اعلان کیا۔ جس کا واحد مقصد یہ ہےکہ یہاں کے مقامی لوگ نئے قانون کو قبول کریں کیوںکہ انہیں بھی کسی بھی نوکری کےلئے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ پیش کرنا لازمی ہے۔
گزشتہ سال ۵ اگست سے جموں کشمیر تنظیم نو قانون کے تحت یہاں ان منصوبوں کے علاوہ اسمبلی نشستوں کی نئی حد بندی متعین کرنے کا کام بھی شروع کیا جا چکا ہے۔ جس کےلئے حد بندی کمیشن بھی بنا لیا گیا ہے۔ اس کے تحت جموںمیں اسمبلی نشستوں کا اضافہ کرنا ہے تاکہ وہاں کی اسمبلی نشستوں کو کشمیر کی نشستوں کے برابر کر کے ایک ہندو کو وزیر اعلی بنایا جائے اور اسمبلی میں پھر ہندو نظریات کو جموں کشمیر میں عملی جامہ پہنانے میں آسانی ملے گی۔
اسمبلی کی بات کی جائے تو اس وقت ۷۳ نشستیں جموں اور ۶۴ نشستیں کشمیر صوبے میں ہیں جبکہ ۴۲ سیٹیںآزاد کشمیر کے لئے مختص رکھی گئی ہیں۔ تنظیم نو قانون کے تحت اب مزید ۷ نشستوں کا اضافہ کیا جائے گا جس میں سے رپورٹس کے مطابق نئی حد بندی میں ۳ نشستیں مغربی پاکستان کے ہندو مہاجرین کے علاقوں میں بنائی جائیں گی۔ اسی طرح کچھ سیٹیں گجر بکروال طبقے کےلئے مخصوص رکھی جائیں گی اور اسمبلی میں مجبوری کے وقت انکا ساتھ حاصل کیا جائے گا۔ اسی طرح سے کشمیر میں اگر کوئی اسمبلی سیٹ نئی بنا ئی گئی تو وہ بھی ایسے علاقے میں بنائی جائے گی جہاں غیر ریاستی ہندووں کو بسایا جائے گا۔ جموں میں موجود سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہمیشہ سے یہ شکایت رہی ہے کہ اسمبلی میں قبضہ کشمیر کا ہی رہا ہے اور وزیر اعلی انہی کا ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت میں وہ دلی کےلئے ایک ایجنٹ کی طرح ہی کام کر تا ہے۔ شیخ عبدللہ سے لے کر محبوبہ مفتی تک تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔
اب جبکہ ان تمام منصوبوں پر کام جاری ہے اور دلی کوبھی ان منصوبوں پر کام کرنے کےلئے کروناوائرس کا پردہ ملاہے۔ دوسری جانب سے وادی میں ان منصوبوں کی کوئی مذمت بھی نہیں کی جا رہی۔ کیوں کہ ایک طرف حریت پسند لیڈرا ن جیلوں میں قید ہیں اور دیگر نام نہاد مین سٹریم لیڈران جو ۵ اگست سے جیلوں میں بھرے گئے تھے کو اسی شرط پر رہا کیا گیا ہے کہ وہ مرکزکی جانب سے لئے گئے فیصلوں کے خلاف کوئی بھی احتجاج نہیں کریں گے۔ دوسری جانب سے مسلم دنیا میںپاکستا ن اور ترکی کو چھوڑ کر کشمیر کےلئے کسی نے ابھی تک آواز نہیں اٹھائی اور وجہ یہی ہے کہ بھارت ان ممالک کےلئے ایک بڑا مارکیٹ ہے۔ مختصر یہ کہ آج تک پاکستان کے علاوہ کشمیر کےلئے ان ممالک نے کیا بھی کچھ نہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کشمیریوں نے آج تک تحریک حریت کی جدو جہد خود ہی چلائی ہے اور آگے بھی خود ہی جاری رکھنی ہو گی۔