گزشتہ دنوں شو بزنس میں ایک معروف جوڑے کی طلاق اور طلاق کے بعد دوسری شادی کا چرچا رہا۔ طلاق سے زیادہ سخت عوامی ردعمل ایک معروف ماڈل سے دوسری شادی پر آیا جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سال کے سال اپنا بواےُ فرینڈ تبدیل کرلیتی ہے۔ یہ ماڈل کا ایک انٹرویو میں دیا گیا بیان ہے اپنے بارے میں۔ خیر نہ ہی تو یہ شوبزنس کی پہلی طلاق تھی اور نہ ہی پہلی بار کسی اداکار نے دوسری شادی کی لیکن ایسا شدید عوامی ردعمل ہر طبقہ کی طرف سے پہلی بار سامنے آیا۔ اس پر کچھ حلقوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ دوسروں کے معاملات میں تاک جھانک، دلچسپی یہ سب ہماری فارغ عوام کے مشغلہ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جب کوئی اپنا گھر کی کھڑکی ہی نہیں اپنے گھر اور بیڈروم کا دروازہ عوام۔ الناس کے لیے سالہا سال کھلا رکھے گا دعوت نظارہ انکی ذاتی زندگی کا عوامی ہوگا تو عوام کیوں پہلوتہی برتے گی۔ یہ کلیہ صرف ان اداکاروں تک محدود نہیں بلکہ ہر وہ شخص جو اپنی ذاتی زندگی کا پل پل سوشل میڈیا اسٹوری پر شیئر کرنے کا عادی ہے وہ دراصل اپنی ذاتی زندگی کو عوامی بنا رہا ہوتا ہے پھر اسکی زندگی اور زندگی کے ذاتی فیصلوں پر اسی طرح غیر متعلقہ لوگ اثر انداز ہوتے ہیں۔
اس طلاق اور شادی پر عوامی ردعمل اتنا شدید رہا کہ اداکار کو آخرکار ایک وضاحتی ویڈیو جاری کرنی پڑی اور اللہ رسول کی قسمیں کھانی پڑیں۔ سوچنے کی بات ہے ایسا کیوں ہوا۔ ان وبا کے دنوں میں عوام اتنی بھی فارغ نہیں کہ کئ دن گزر جانے کے باوجود اس قصے کو لیے بیٹھی رہے۔ وجہ وہ پرفیکٹ شادی کی ریسیپی ہے جس کی جھلک اس اداکار جوڑے نے اپنی ذاتی زندگی کی صورت عوام کو دکھائی۔ ہر لڑکی کا خواب شہروز سبزواری جیسا شوہر ہونے لگا جو خوبصورت ہے، امیر ہے بیوی پر جان چھڑکتا ہےساتھ ہی ساتھ سسرال کے غم سے آزاد ایک کیئر فری گلیمر سے بھرپور زندگی۔ اور ہر لڑکے کا خواب سایرہ جیسی حسین، طرحدار، پروفیشنلی کامیاب بیوی۔ ایک پرفیکٹ ٹرافی وایف۔ ایک بچی کی موجودگی نے بھی نہ حسن کو ماند پڑنے دیا نہ دونوں کی زندگی کے دلچسپ ہنگامے کم ہوئے۔ اس خواب کی جھلکیاں عوام روز انسٹاگرام اور فیس بک پر دیکھنے کی عادی تھی کہ ایک دن دونوں کی علیحدگی اور پھر طلاق کی خبر اور فوراً ہی اداکار کی ماڈل کے ساتھ دوسری شادی کی خبر نے اس خوبصورت زندگی کا الوژن ختم کردیا۔ پرفیکٹ شادی کی ریسیپی فیل ہوگئ۔ عوام نے بڑی تاویلات گھڑی تھیں جب آمنہ ملک اور عثمان ملک کا اسکینڈل سامنے آیا تھا۔ بیویوں کی کم توجہی سے لیکر انکی مصروفیات اور جانے جانے کیا لیکن اس شادی کے خاتمے نے ان تاویلات کا خاتمہ کردیا۔ سو اب تلاش ہے پرفیکٹ شادی کی نئ ریسیپی کی۔
پاکستان میں جہاں طلاق کی شرح بڑھی ہے وہیں عوامی تاثر یہ ہے کہ پڑھے لکھے پروفیشنل یا کیریر اورینٹڈ جوڑوں میں یہ شرح زیادہ ہے۔ اور اس کا ذمہ دار زیادہ تر خواتین کوہی ٹھرایا جاتا ہے۔
وجوہات جو بھی رہی ہوں لیکن ایسے دور میں جب ورکنگ وومن بلکہ کیریر اورینٹڈ خواتین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، معاشی مسایل میں اضافہ میاں بیوی دونوں کو کام کرنے پر مجبور کررہا ہےتو ایسے میں کامیابی کے ساتھ رشتہ کیسے نبھایا جاےُ۔
مشہور ایکٹر سیف علی خان اپنے ایک انٹرویو جو وہ اپنی بیوی کرینہ کپور خان کے پروگرام what women want میں دے رہے تھے کہ There are two heroes in our home. یہ اس سوال کا جواب تھا جس میں کرینہ کپور پوچھتی ہیں کہ ہمارے ہاں شادیوں میں gender define role ہوتے ہیں تو کیا ہماری شادی میں بھی gender define role ہے۔ سیف علی خان کا کہنا تھا کہ نہیں ہماری شادی میں ایسا کچھ نہیں۔ gender equality ہے۔ جب میں تمہیں ڈیٹ کررہا تھا اور میں پہلی بار ایک کامیاب ورکنگ ایکٹرس کو ڈیٹ کررہا تھا تو رانی مکر جی جو انکی ہی کولیگ ہے نے مجھے مشورہ دیا کہ don’t think that you date a woman, think like you date a man. یعنی جیسا کہ ہمارا معاشرتی رویہ ہے خواتین کے بارے میں کہ یہ گھر پر رہتی ہیں اور اگر نہ بھی رہیں تو اتنی کیریر اورینٹڈ نہیں ہوتی کبھی نہ کبھی اپنے پروفیشن کو چھوڑ دیتی ہیں سو انکے کام اور وقت کی اہمیت نہیں۔ اپنے وقت کو اور کام کو اپنے مرد پارٹنر کے حساب سے ایڈجسٹ کرنا عورت کی ذمہ داری ہے۔ تمام تر گھریلو ذمہ داریاں اور اولاد کی تربیت سے لیکر اس کی پرورش تک تمام مراحل عورت کی ذمہ داری ہیں چاہے اس کو ادا کرنے میں اسے اپنی صحت، عزت نفس اور کیریر کی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے سو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یا تو عورت ٹوٹ جاتی ہے یا پھر گھر۔
اوپر دی گئ تمام مثالوں اور سیف اور کرینہ کی شادی میں مماثلت ہے اور یہی مماثلت ان جوڑوں میں بھی جو شوبزنس کا حصہ نہیں لیکن دونوں پارٹنرز ورکنگ اور کیریر اورینٙڈ ہیں۔
سو ایک ایسا سماج جہاں ہرتیسری ساس اپنے لیے پروفیشنل ڈگری ہولڈر بہو ڈھونڈتی ہے اور ہر باپ اپنی بیٹی کو پڑھالکھا اور معاشی طور پر مضبوط دیکھنے کا خواب دیکھتا ہے وہاں پروفیشنل کیریر اورینٹڈ بیویوں کی تعداد بڑھے گی اور ایسے میں اگر خاندان کو اور اس نظام کو بچانا ہے تو معاشرے کو اپنے آپ کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ عایلی زندگی کے ڈھانچہ میں تبدیلی ناگزیر ہو گی جو کہ gender equality کی بنیاد پر ہوگی جہاں ایک گھر میں دو ہیروز تمام تر عزت اور احترام سے رہ سکیں گے۔ تمام ذمہ داریاں شییرڈ ہوں گی۔ عایلی زندگی کا ڈھانچہ shared responsibility کی بنیاد پر قایم ہوگا۔
سو پرفیکٹ شادی کی ریسیپی اب تبدیل کرنے کا وقت ہے۔ اس لیے وہ تمام جوڑے جو سائرہ اور شہروز جیسی پرفیکٹ زندگی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ وہ gender role definition کو اپنی عایلی زندگی میں ضرور evaluate کرلیں ورنہ آپ کے خوابوں کو ٹوٹنے میں آٹھ سال نہیں آٹھ مہینے ہی لگیں گے۔