گرمی کا زور شروع ہوا ہی تھا کہ شام ڈھلتے ہی بادلوں نے آسمان پر ڈیرے ڈال دیے – تیز ہوا اب آندھی کی شکل بن چکی تھی اور کہیں کہیں بجلی کی چمک بھی نظر آ رہی تھی۔
یہ سب دیکھتے ہوۓ رفیق نے اپنے آگے کھڑے احمد کو بولا "یار لگتا ہے تیز بارش ہونے والی ہے”۔ احمد نے ہاں میں سر ہلایا –
رفیق بولا ” یہ کلرک کو اتنے سال ہو گئے ہیں، ہر ہفتے ہی اس نے ہمیں تنخواہ دینا ہوتی ہے مگر مجال ہے کبھی اسنے ٹائم کا دھیان رکھا ہو –”
"چپ کر کے کھڑا رہ یار "احمد نے جواب دیا۔ "جتنا بھی ٹائم لگاۓ، ہم تو تنخواہ لے کر ہی جائیں گے نہ –
"بات تو تیری ٹھیک ہے مگر یار آج گڈی کی سالگرہ ہے۔ میں نے سوچا تھا کہ اسکے لئے جلیبیاں اور چوڑیاں خریدتا ہوا جاؤں گا – اب اگر بارش ہو گئی تو بڑا مسئلہ ہو جائے گا۔ "رفیق نے بےچینی سے آسمان کے بدلتے رنگوں کی طرف دیکھا۔
جلیبیاں ں ں – ہا ہا ہا – احمد نے بڑا سا قہقہہ لگایا۔ "او جھلے سالگرہ پر کیک لے کر جاتے ہیں –”
” مجھے بھی پتا ہے یار” رفیق بولا۔ ” اور گڈی ضد بھی کیک کی ہی کر رہی تھی مگر میں نے اسکو سمجھا لیا تھا۔ تمھیں پتا تو ہے کہ آج کل مہنگائی کتنی ہے اوپر سے عید بھی آنے والی ہے اور پھر اب ولید کے ساتھ ساتھ گڈی کو بھی اسکول داخل کروانا ہے –”
” گڈی کو بھی اسی انگریزی اسکول میں داخل کرواؤ گے ؟” احمد نے حیرانی سے پوچھا –
” ہاں یار۔ بیٹی اور بیٹے میں کیسا فرق "رفیق نے جواباؑ کہا –
” ہمت ہے تمھاری، خود کو مشکل میں ڈال کر بچوں کو اچھی تعلیم دلوا رہے ہو۔ ویسے رفیق اس ہفتے کتنا اوور ٹائم کیا ہے ؟”
"کوئی بھی نہیں – اگر اس ہفتے کوئی آٹھ گھنٹے لگ جاتے تو آج گڈی کا کیک بھی آ جاتا۔ ” رفیق نے مایوسی سے جواب دیا۔
"اچھا چل کوئی بات نہیں، تو سب کچھ بچوں کیلئے ہی تو کر رہا ہے نا”، احمد نے رفیق کی ڈھارس بندھائی۔
رفیق اور احمد دونوں جوتے بنانے والی فیکٹری میں ملازم تھے یہ فیکٹری سیٹھ اشفاق اور انکے بھائیوں کی ملکیت تھی جو کہ انکے والد نے قائم کی تھی – سیٹھ اشفاق کے والد بہت نیک اور محنتی انسان تھے اور انہی کی محنت کی بدولت انکا کاروبار خوب ترقی کر چکا تھا انکے برانڈ کا نام نا صرف ملک میں مقبول تھا بلکہ افریقہ کے کچھ ملکوں میں ایکسپورٹ بھی کیا جاتا تھا – والد کے انتقال کے بعد فیکٹری کا تمام انتظام سیٹھ اشفاق ہی سنبھالتے تھے – جبکہ دوسرے دونوں بھائی زیادہ تر دوسرے ملکوں میں کاروبار کے سلسلہ میں مصروف رہتے تھے۔
احمد اور رفیق دونوں ہی اپنے اچھے کام کی وجہ سے اپنے ساتھیوں میں کافی مقبول تھے مگر اس کے باوجود کہ ان کے سپروائزر کو ان سے کوئی شکایت نہیں تھی ان کی ترقی نہیں ہو پائی تھی- ایک ہی فیکٹری میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ دونوں ایک ہی محلے میں رہایش پذیر بھی تھے۔ حالانکہ دونوں کی عمروں میں چند سالوں کا ہی فرق تھا مگر دونوں اچھے دوست تھے۔ رفیق شادی شدہ تھا اور دو بچوں کا باپ بھی مگر احمد نے ابھی تک شادی نہیں کی تھی اور وہ اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ رہتا تھا -اسکی ماں اور رفیق دونوں تقریبآ روزانہ ہی اسکو شادی کے لئے رضا مند کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے مگر وہ مانتا ہی نہیں تھا اور اسکی بڑی وجہ یہ تھی کہ اسکی منگنی اسکے چچا کی بیٹی سے بچپن میں ہی طے ہو گئی تھی، مگر چچا نے انکی غربت کے باعث اسکی شادی کہیں اور کر دی تھی اور اب احمد کا اعتبار شادی کے رشتے سے اٹھ چکا تھا – فیکٹری سے واپس جا کر اکثر وہ بھی رفیق کے گھر چلا جاتا تھا اور اسکے دونوں بچوں کے ساتھ کھیلتا رہتا تھا۔
رفیق کا بیٹا ولید اب سات سال کا تھا اور محلے میں ہی کھلنے والے ایک انگریزی میڈیم اسکول میں جاتا تھا جبکہ بیٹی مریم جس کو پیار سے سب گڈی کہتے تھے اسکی عمر پانچ سال تھی اور آج اسکی پانچویں سالگرہ تھی- ہفتے کا روز تھا اور فیکٹری کے ملازمین کو ہر ہفتے والے دن تنخواہ ملا کرتی تھی مگر حساب کرنے والا کلرک عمر رسیدہ ہونے کے باعث تنخواہ تقسیم کرنے میں بہت دیر لگاتا تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے موسلا دھار بارش شروع ہو گئی اور رفیق کی پریشانی میں اضافہ ہو گیا کیونکہ جلیبیاں تو محلے سے بھی مل جاتی تھیں مگر گڈی کی پسند کی چوڑیاں خریدنے کے لیے اس نے ایک بڑے اسٹور پر جانے کا سوچا ہوا تھا۔ اسکو خوف تھا کہ ہو سکتا ہے بارش کی وجہ سے وہ وہاں جانے سے محروم رہ جائے- احمد نے اسکی پریشانی کو بھانپتے ہوۓ اسکو دلاسا دیا کہ بارش جلد ہی تھم جائے گی مگر مسئلہ تو یہ تھا کے ابھی بھی ان کے آگے قطار میں دس سے بارہ لوگ اور کھڑے تھے۔ خیر خدا خدا کر کے کوئی آدھ گھنٹے بعد رفیق اور احمد کو تنخواہ مل پائی اور وہ دونوں بلآخر فیکٹری کے گیٹ سے باہر آئے۔
پون گھنٹے کی بارش نے اپنا احساس فیکٹری کے اندر تو نا دلایا تھا مگر باہر سڑک پر بہت پانی جمع تھا –
احمد نے رفیق کو کچھ دیر انتظار کرنے کو کہا مگر رفیق اس پر ہرگز راضی نہ ہوا اور پھر بادل نخواستہ احمد بھی اپنی بائیسکل پر اسکے ہمراہ ہو لیا ۔ مین بازار کی جانب پانی کی مقدار کچھ زیادہ ہی تھی – احمد نے رفیق کو پھر مشورہ دیا کہ گڈی کو چوڑیاں کل دلوا دی جائیں مگر رفیق نے احمد کے ہاتھ میں ایک سو کا نوٹ تھماتے ہوۓ بولا کے وہ گھر جاتے ہوۓ جلیبیاں لیتا جائے – احمد کو معلوم تھا کہ گڈی کی سالگرہ کے دن وہ محلے کے دوسرے بچوں میں بھی جلیبیاں بانٹتا ہے – احمد نے رفیق کو اپنا خیال رکھنے کو بولتے ہوۓ گھر کی جانب بائیسکل چلانا شروع کی اور رفیق مین بازار کی طرف چل دیا – سڑک پر پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے رفیق کو کافی مشکل ہو رہی تھی۔
ابّا میں نے آپ کی بات مان کر کیک کی ضد چھوڑ دی ہے نا – مگر آپ وعدہ کریں کہ آپ چوڑیاں اسی بڑی دوکان سے لائیں جو میں نے آپ کو ایک دن دکھائیں تھیں” رفیق کو گڈی کی بات یاد آ گئی اور اسی یاد کے ساتھ وہ نئی ہمت باندھ کر بائیسکل چلانے لگا
تنخواہ کی تقسیم کا عمل مکمل ہوا تو مینیجر سیٹھ اشفاق کو اسکی اطلاع دینے انکے دفتر کی جانب گیا – سیٹھ اشفاق کی عادت تھی کے ہفتہ وار تنخواہ کی تقسیم والے دن وہ تقسیم کا عمل مکمل ہونے تک دفتر میں موجود رہتے تھے یہ عادت انکو اپنے والد سے ورثے میں ملی تھی جونہی مینیجر کمرے میں داخل ہوا سیٹھ اشفاق جو فون پر کسی سے بات کر رہے تھے کہنے لگے "دیکھو یہ ندیم (مینیجر) آ گیا ہے میں بس ابھی نکل رہا ہوں-”
یہ کہتے ہوۓ انہوں نے فون بند کر دیا اور مینیجر سے مخاطب ہوۓ،
"ندیم تمہیں معلوم بھی تھا کہ آج مجھے وقت پر گھر پہنچنا ہے مگر پھر بھی تم نے اتنا وقت لگا دیا۔ تمہیں پتا ہے کہ آج جواد کی سالگرہ ہے – تم نے ہی تو تمام انتظامات کروائے ہیں۔ ”
"آئی ایم سوری سر وہ دراصل اکاؤنٹ کلرک بہت سست ہے – "ندیم نے جواب دیا۔
"اچھا اب اور کوئی مسئلہ نہیں ہے تو میرا بیگ گاڑی میں رکھواؤ اور گھر پر سب انتظامات ٹھیک ہونا چاہئیں۔ ”
"یس سر”، ندیم مسکراتے ہوۓ جواب دے کر باہر جانے ہی لگا تھا کہ سیٹھ اشفاق کے فون کی گھنٹی دوبارہ بج اٹھی اور وہ رک گیا۔
سیٹھ اشفاق نے فون اٹھاتے ہوۓ بولا "کیا ۔ ۔ ۔ ؟ اوہ۔ ۔ اچھا میں دیکھتا ہوں۔ ”
فون بند ہوتے ہی سیٹھ اشفاق غصّے میں ندیم کی طرف متوجہ ہوۓ، ” یہ کیا انتظام کیا ہے تم نے ؟”
"کیا ہوا سر ؟ سب کچھ آپ کی ہدایات کے مطابق ہی تو کیا تھا ”
"ہدایات کے بچے۔ ۔ باہر لان میں انتظام تھا تو واٹر پروف کنوپی لگوانی تھی۔ بارش کی وجہ سے سب خراب ہو چکا اور اب مہمانوں کے آنے میں کچھ ہی وقت بچا ہے۔ ”
"میں دیکھتا ہوں سر۔ ” ندیم نے جواب دیا۔
"نہیں تم اب اپنی ناقص عقل مت استعمال کرو۔ فورأ کسی بڑے ہوٹل میں سو کے قریب لوگوں کے کھانے کا انتظام کرو۔ اور ہاں وہ گلوکاروں اور کیک والے دونوں کو بتانا نہ بھولنا کے وہ بھی اسی ہوٹل میں پہنچیں۔ اور مجھے فون پر اطلاع کرنا جب انتظام ہو جائے۔ ”
"جی سر "کہہ کر ندیم باہر نکل گیا اور سیٹھ اشفاق گھر کو روانہ ہوۓ۔
ادھر رفیق مشکل سے پانی میں اپنی بائیسکل چلاتا مین مارکیٹ پہنچا اور گڈی کی پسند کی چوڑیاں خریدیں ساتھ ہی اپنی بیوی کے لئے بھی چوڑیاں خرید لیں کے کافی عرصہ سے اس کو کوئی تحفہ نہیں دے پایا تھا – شام اب رات میں تبدیل ہو چکی تھی اور وہ جلد از جلد گھر پہنچنا چاہتا تھا- واپسی پر مختلف گلیوں سے گزرتے ہوۓ رفیق کا ذہن مسلسل گھر کی طرف تھا اور اندھیرے کی وجہ سے اسکو آگے بڑھنے میں بھی مشکل ہو رہی تھی دو ایک جگہوں پر اسکی بائیسکل کو ٹھوکر بھی لگی۔
احمد راستے میں جلیبیاں خرید کر پہلے رفیق کے گھر گیا۔ کچھ جلیبیاں محلے کے بچوں میں بانٹیں اور باقی رفیق کے بیٹے ولید کو دے کر اسکو بتایا کہ رفیق بس ابھی کچھ دیر میں آ جائے گا ساتھ ہی بولا کے وہ بھی گھر سے نہا کر اور کپڑے بدل کر واپس آتا ہے –
ولید نے اندر جا کر جلیبیاں اپنی ماں کے ہاتھ میں دیں اور بتایا کے احمد چچا دے کر گئے ہیں اور کہ کرگئے ہیں کہ ابّا کچھ دیر میں آ جائیں گے۔
ایک گھنٹے سے اوپر ہو چکا تھا اور رفیق ابھی تک گھر نہیں پہنچا تھا۔
رفیق کی بیوی نے ولید کو بولا” جاؤ احمد چچا کو بلا کر لاؤ تاکہ وہ رفیق کو جا کر دیکھیں”۔
ولید ابھی گھر کے دروازے پر ہی تھا کہ سامنے سے احمد آ گیا اور آتے ہی رفیق کا پوچھا۔ ولید کے انکار پر احمد کو بھی تشویش ہوئی، مگر وہ ولید کو دلاسہ دے کر اپنی بائیسکل پر رفیق کو ڈھونڈنے نکل پڑا۔
دل ہی دل میں احمد بھی پریشان تھا کہ رفیق کو اب تک واپس آ جانا چاہئے تھا۔
جونہی وہ رفیق کے گھر سے باہر نکلا ایک پولیس کی گاڑی سائرن بجاتی گلی میں داخل ہوئی
"یا اللہ خیر – "احمد کے منہ سے بےاختیار نکلا۔
گاڑی جب قریب آئی تو اس میں سے ایک پولیس والا باہر نکلا اور احمد سے رفیق کے بارے میں پوچھا۔
کیا ہوا رفیق کو ؟” احمد نے روہانسی آواز میں پوچھا۔ ” ”
اس پولیس والے نے احمد کو بتایا کہ بارش کے پانی کی وجہ سے ایک جگہ رفیق کو کھلے گٹر کا پتا نہ چلا اور وہ الٹ گیا اور ساتھ سے گزرنے والی ایک تیز رفتاز موٹر باِیئک سےٹکرا جانے کی وجہ سے۔ ۔ ۔
پولیس والے نے ایک لمحے کا توقف کیا تو احمد کو ہوں لگا، جیسے اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ہو۔
"رفیق زخمی ہو گیا ہے۔ ” پولیس والے نے جملہ مکمل کیا۔
"کہاں ہے رفیق ؟” احمد نے بےچینی سے پوچھا۔
پولیس والے نے کیچڑ سے بھرا ایک لفافہ احمد کو تھماتے ہوئے گاڑی کی طرف اشارہ کیا۔
احمد بھاگ کر گاڑی کی جانب بڑھا۔
رفیق کو دیکھتے ہی غصے میں ڈانٹنا شروع کر دیا۔ "منع کیا تھا نہ تجھے۔ ۔ ۔ دیکھ اب کیا ہو گیا۔ ۔ ۔ ”
سر، بازووں اور پیر پر پٹیاں بندھے رفیق نے اشارے سے احمد کو قریب بلایا اور اس کا سہارا لے کر گاڑی سے باہر آیا۔
رفیق کے درد کا اندازہ کرتے ہوئے، احمد نے اس کے پیار سے کہا "شکر ہے جان بچ گئی تیری۔ ”
اپنے درد کو چھپاتے ہوئے، رفیق نے احمد کے ہاتھ میں لفافے کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے، مسکرا کہ کہا، "یہ گڈی کی چوڑیا ں ہیں۔ ”
احمد غیر یقینی نظروں سے رفیق کواور پھر چوڑیوں کے لفافے کو دیکھنے لگا۔