(ناول The Forty Rules of Love جو کہ اپنی رائٹر Elif Safak ہی کی طرح مقبول عام ہے، یہ تبریزی اصول اسی ناول کے اردو قالب سے لیے گئے ہیں اور اردو پیراہن کا سہرا ہما انور کے سر ہے)
ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا:
علاج آتش رومیؔ کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں
گویا حکیم الامت کے نزدیک مسلمانوں کے مرض مزمن کا چارہ شیخ رومی کی تعلیمات میں ہے لیکن خود شیخ رومی اس فن چارہ گری سے کیسے واقف ہوئے اس کے متعلق مولانا خود فرماتے ہیں:
مولوی ہرگز نہ شُد مولائے روم
تا غلامِ شمس تبریزی نہ شُد
یعنی جب تک میں حضرت شمس تبریزی کی صحبت سے فیضیاب نہ ہوا تھا، اس بارگاہ میں زانوئے تلمذ نہ تہہ کیے تھے تب تک میں مولوی نہ بنا، آتشِ عشق سے آشنا نہ ہوا تھا. یعنی شیخ رومی کے حق میں کہا جا سکتا ہے مکتب کی کرامت کے بجائے یہ فیضانِ نظر ہی تھا جس نے شیخ کو آدابِ چارہ گری سکھائے۔
شمس تبریزی کے ہی سکھائے ہوئے اصولِ بندگی و زندگی میں سے چند اصولوں کا آج ہم مطالعہ کریں گے.
چراغ أول
”سچائی کا راستہ دماغ کی نہیں، دل کی متواتر مشقت ہے۔ دماغ کو نہیں بلکہ اپنے دل کو اپنا رہنما، اپنا مرشد بنالو! اپنے نفس سے ملو، اسے للکارو اور بالآخر دل کے ذریعے اس پر غالب آ جاؤ۔ یہ جانتے ہوئے کہ تمہاری ذات کی معرفت خدا کی معرفت طرف تمہاری رہنمائی کرے گی۔“
اس اصول میں شمس تبریزی نے دل و دماغ سے رہنمائی حاصل کرنے کے متعلق وہی درس دیا ہے جو اقبال اپنے مشہور شعر میں دیتے ہیں:
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے!
دراصل دماغ علم تک پہنچاتا ہے اور علم کا حاصل اضطراب جبکہ دل عشق تک پہنچاتا اور عشق کا نتیجہ معرفت ہے جس کے وسیلے سے بالآخر دل خود بھی کعبۂ جاناں ٹھہرتا ہے، اقبال دل کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتے ہیں:
کس بلندی پہ ہے مقام مرا
عرش رب جليل کا ہوں ميں!
شمس تبریزی اس اصول میں جو دوسرا سبق دے رہے ہیں اسی کا پیام تمام صوفیائے عظام نے دیا ہے یعنی کہ من عرف نفسہ فقد عرف ربہ جس نے خود کو پہچان لیا اسے رب کی معرفت حاصل ہوگئی۔
ائمہ کرام نے اس کی مختلف تشریحات کی ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان جتنا اپنی ذات میں غور و خوض کرتا ہے اتنا ہی اپنی ذات کے عیوب و نقائص اور اپنی محتاجی پر مطلع ہوتا جاتا ہے اور یہ اطلاع اسے ایک غنی و پاک ذات پاک کی معرفت و ایمان تک پہنچاتی ہے.
حسن رضا بریلوی کہتے ہیں:
خودی سے جدا ہو! کہ وصل خدا ہو
نہ ہو کر جو ہوگا، وہ ہو کر نہ ہوگا
چراغ دوم
”قرآن پاک کا ہر قاری اپنی فہم کی گہرائی کے مطابق اسے مختلف سطح پر سمجھتا ہے۔ بصیرت کی چار سطحیں ہیں: پہلی سطح ہے ظاہری معانی اور لوگوں کی اکثریت اسی پر مطمئن ہے۔ اس کے بعد بطن۔۔۔ داخلی سطح۔ تیسری ہے باطنی سطح۔ اور چوتھی سطح اس قدر گہری ہے کہ لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی اور اسی وجہ سے وہ ناقابلِ بیان ہی رہتی ہے۔ ۔۔ علما جو شریعت پر توجہ مرکوز کرتے ہیں ظاہری معانی جانتے ہیں۔ داخلی معانی صوف جانتے ہیں اولیا باطنی معانی سے واقف ہیں۔ اور جہاں تک چوتھی سطح کی بات ہے، اس سے صرف پیغمبر اور خدا کے مقربین آگاہ ہیں۔“
اس کی تائید سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
قرآن کریم سات عربی لہجوں یا قراءتوں کے مطابق نازل ہوا ہے، قرآن کریم کے ہر لفظ کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے اور قرآن کی ہر حد پر کوئی نہ کوئی فہم رکھنے والا ہے. (مفہوماً)
اس حدیث پاک کو امام سیوطی نے الجامع الصغیر میں نقل کیا ہے۔
جہاں تک قاری کی ذہنی سطح کی بات ہے اسے یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ مختلف روایات کی بنا پر خلیفۂ ثانی عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے سورۃ بقرہ کی تعلیم آٹھ سے زائد سال میں حاصل کی تھی۔
چراغ سوم
”محبت اور عقل مختلف مادے سے بنے ہیں۔۔۔ عقل لوگوں کو گرہوں میں باندھ دیتی ہے اور کچھ بھی داؤ پر نہیں لگاتی لیکن محبت تمام گرہوں کو تحلیل کردیتی ہے اور سب کچھ داؤ پر لگا دیتی ہے۔عقل ہمیشہ محتاط ہوتی ہے اور نصیحت کرتی ہے(کہ): بے پناہ بے خودی سے محتاط رہو۔ جب کہ محبت کہتی ہے: پرواہ نہیں!چھلانگ لگادو! عقل آسانی سے ہار نہیں مانتی جب کہ محبت بلا تردد خود کو ریزہ ریزہ ملبہ کر لیتی ہے۔ لیکن کھنڈرات میں خزانے پنہاں ہیں۔ ٹوٹے ہوئے شکستہ دل میں خزانے پنہاں ہیں۔“
عقل و محبت کے اسی فرق کو ڈاکٹر اقبال نے یوں بیان کیا تھا:
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
چراغ چہارم
”دنیا کے بیشتر مسائل کی جڑ زبان کی لغزش اور سادہ غلط فہمیاں ہیں۔ لفظوں کو ان کے ظاہر پر کبھی مت لیں۔ جب آپ محبت کے علاقے میں قدم دھرتے ہیں تو جو زبان ہم جانتے ہیں، وہ فرسودہ ہو جاتی ہے۔ جسے لفظوں میں ادا نہ کیا جا سکے اسے صرف خاموشی کے ذریعے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔“
کہتے ہیں نہ کہ:خاموشی کا ادب کرو یہ آوازوں کی مرشد ہے، ویسے بھی خاموشی کو جو ہزار معانی کے پیراہن پہنائے جا سکتے ہیں وہ الفاظ کے نصیب میں کہاں، خلیل الرحمن اعظمی نے کہا تھا:
نکالے گئے اس کے معنی ہزار
عجب چیز تھی اک مری خامشی
اور پھر حدودِ معانی و مفاہیم بھی الفاظ کا حصہ ہیں، خاموشی اس سے برتر ہے، ماہر القادری نے کہا تھا:
اگر خموش رہوں میں تو تو ہی سب کچھ ہے
جو کچھ کہا تو ترا حسن ہو گیا محدود
چراغ پنجم
”تنہائی اور خلوت دو مختلف چیزیں ہیں۔ جب آپ تنہا ہوتے ہیں تو آسانی سے اس جھانسے میں آ جاتے ہیں کہ آپ درست راستے پر ہیں۔ خلوت ہمارے لیے بہتر ہے کیوں کہ اس کے معانی ہیں: کسی کی کمی محسوس نہ ہوتے ہوئے تنہا ہونا۔ لیکن آخر کار بہترین یہی ہے کہ کوئی شخص ڈھونڈ لیا جائے، کوئی جو آپ کا آئینہ ہو۔ یاد رکھیں کہ کسی دوسرے شخص کے آئینہ قلب میں ہی آپ اپنا عکس اور اپنے اندر خدا کے ظہور یا جلوے کو دیکھ سکتے ہیں۔“
بے شک معرفتِ الہی اور تقرب الی اللہ کے خواہش مند کے لئے خلوت بہت عمدہ شے ہے، امام غزالی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
”جب آدمی خلوت پرمداومت اختیار کر لیتا ہے تو حضرت سیِّدُنا جنیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان کے مطابق اس کے معاملہ کی انتہاء اس مقام پرہوتی ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:” میں تیس سال سے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ہم کلام ہوں اورلوگ سمجھتے ہیں کہ میں ان سے گفتگوکررہا ہوں۔“
اور ایسوں کے متعلق ہی اقبال صاحب نے کہا تھا:
ترستی ہے نگاہ نا رسا جس کے نظارے کو
وہ رونق انجمن کی ہے انھی خلوت گزینوں میں
البتہ یہ بھی واضح بات ہے کہ ہر فعل ہر شخص کے لئے یکساں نہیں ہوتا اسی لیے امام غزالی نے بھی علم و عمل اور نفع و ضرر کے اعتبار سے مختلف اشخاص کے لئے خلوت کے مختلف احکام بیان کئے ہیں۔اور سلوکِ معرفت طے کرنے میں کسی رفیق/رہبر کا ساتھ اپنی جگہ اہم ہے جیسا کہ حضرات موسیٰ و خضر علیھما السلام کے واقعے سے عیاں ہے۔ اور جسے ایسے رفیق/رہبر کی صحبت سے فیض مل جائے تو اس کے لیے خلوت و جلوت یکساں ہوتی ہے اور وہ ہتھ کم ول تے دل یار ول کا عملی نمونہ ہوتے ہیں، حسن رضا بریلوی نے کہا تھا:
دل میں ہو یاد تیری گوشۂ تنہائی ہو
پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو