سول سوسائٹی کی ضرورت
سِول سوسائٹی کی سب سے بڑی غایت یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ شہریوں کو ریاست اور مارکیٹ (سرمائے) کے جبر سے بچانے کا ایک بڑا وسیلہ ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ فرعونیت اور قارونیت کا ہمیشہ سے آپس میں بڑا گہرا رشتہ اور ریاست اور سرمائے کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ چلا آرہا ہے۔ سرمائے کی افزائش کا انحصار صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں پر ہوتا ہے اور ان سرگرمیوں کے لیے انہیں ریاست کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ محنت کش صنعت اور تجارت کی مارکٹ کے کل پرزے ہوتے ہیں۔ صنعت کاروں اور تاجروں کو جتنی فکر اپنی مشینوں overhauling کی ہوتی ہے اتنی فکر محنت کشوں کے خستہ حالی کی نہیں ہوتی۔ ریاست محنت کشوں کو صنعت کاروں اور تاجروں کے استحصال سے بچانے کے بجائے اکثر استحصالی عمل میں ان کی معاون بن جاتی ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ ریاست اور سرمائے کی ملی بھگت سے محنت کش کے استحصال نے ہی سول سوسائٹی کو جنم دیا۔ سول سوسائٹی کے بارے میں عام تصور ہے کہ یہ مغرب کے جمہوری معاشروں کی ہی پیداوار ہے اور جمہوری نظام ہی میں پنپ سکتی ہے۔ سول سوسائٹی کی سرگرمیوں اور مہمات میں انسانیت کی خدمت ایک اہم پہلو ہے۔
قدیم مسلم معاشروں میں سول سوسائٹی کی مختلف مثالیں
نام کچھ بھی رہا ہو لیکن مقصد کے لحاظ سے سول سوسائٹی مسلمان معاشروں میں کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ کسی نہ کسی پیمانے پر اور کسی نہ کسی شکل میںیہ کام مدّت سے ہوتا آرہا ہے۔ متموّل شخصیات عوام کی بھلائی اور غریبوں کی مدد کے کہیں اجتماعی اور کہیں انفرادی سطح پر خیراتی کام کرتی رہیں۔ دِینی مدارس قائم ہوتے تو ان میں طلبہ کی مفت تعلیم اور خوراک و رہائش کا انتظام تھا۔ صوفیاء کے زاویوں، حلقوں اور بزرگانِ دِین کے مزارات پر جاری لنگر غریبوں کے طعام و قیام کی بہت عمدہ مثالیں رہی ہیں۔ یہ سارے کام آج بھی جاری ہیں۔ لنگر اور دستر خوان کی پرانی روایت آج بھی زندہ ہے۔ نیک دل اور مالدار لوگ اوقاف اور ٹرسٹ قائم کر کے اپنے مال کا بڑا حصہ رفاہ و مفادِ عامّہ کے لیے خاص کر دیتے تھے۔ انگریز جب برّصغیر پر قابض ہوئے تو صرف دلّی میں ہی بہت بڑے اوقاف موجود تھے۔ آج بھی ہربڑے شہر میں ایسے مخیّر افراد موجود ہیں جو اللہ کے دیے ہوئے وسائل سے روزانہ سینکڑوں افراد کے کھانے کا انتظام کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ ہیں جو شفاخانوں اور اسپتالوں میں مستحق مریضوں کوعلاج معالجہ کی مفت سہولت فراہم کر کے انسانی خدمت کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ یہ سب نوعیّت کے لحاظ سے اپنے زمانے کی سول سوسائٹیاں تھیں اور ہیں۔ انگریزوں نے جب دِلّی پر قبضہ کیا تو جہاں اور بہت سے روشن نشان مٹے وہاں یہ استعماری یلغار مسلمان رئوساء کے قائم کردہ خدمتِ خلق کے بڑے بڑے اوقاف کو بھی بہا کر لے گئی تھی۔ نام کچھ بھی رہا ہو لیکن مقصد کے لحاظ سے سول سوسائٹی مسلمان معاشروں میں کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ کسی نہ کسی پیمانے پر اور کسی نہ کسی شکل میں یہ کام مدّت سے ہوتا آرہا ہے۔ متموّل شخصیات عوام کی بھلائی اور غریبوں کی مدد کے کہیں اجتماعی اور کہیں انفرادی سطح پر خیراتی کام کرتی رہیں۔ دِینی مدارس قائم ہوتے تو ان میں طلبہ کی مفت تعلیم اور خوراک و رہائش کا انتظام تھا۔ صوفیاء کے زاویوں، حلقوں اور بزرگانِ دِین کے مزارات پر جاری لنگر غریبوں کے طعام و قیام کی بہت عمدہ مثالیں رہی ہیں۔ یہ سارے کام آج بھی جاری ہیں۔ لنگر اور دستر خوان کی پرانی روایت آج بھی زندہ ہے۔ نیک دل اور مالدار لوگ اوقاف اور ٹرسٹ قائم کر کے اپنے مال کا بڑا حصہ رفاہ و مفادِ عامّہ کے لیے خاص کر دیتے تھے۔ انگریز جب برّصغیر پر قابض ہوئے تو صرف دلّی میں ہی بہت بڑے اوقاف موجود تھے۔ آج بھی ہربڑے شہر میں ایسے مخیّر افراد موجود ہیں جو اللہ کے دیے ہوئے وسائل سے روزانہ سینکڑوں افراد کے کھانے کا انتظام کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ ہیں جو شفاخانوں اور اسپتالوں میں مستحق مریضوں کو علاج معالجہ کی مفت سہولت فراہم کر کے انسانی خدمت کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ یہ سب نوعیّت کے لحاظ سے اپنے زمانے کی سول سوسائٹیاں تھیں اور ہیں۔ انگریزوں نے جب دِلّی پر قبضہ کیا تو جہاں اور بہت سے روشن نشان مٹے وہاں یہ استعماری یلغار مسلمان رئوساء کے قائم کردہ خدمتِ خلق کے بڑے بڑے اوقاف کو بھی بہا کر لے گئی تھی۔
نادار طلبہ کی تعلیم بھی سول سوسائٹی کا ایک میدان ہے۔ ہماری تاریخ میں اس میدان میں مؤثر کردار ادا کرنے والے بے شمار لوگ گزرے ہیں۔ اِمام ابو حنیفہ ؒ اس کی ایک زرّیں مثال تھے۔ اِمام صاحب ایک کامیاب تاجر اور صنعت کار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے برکتوں سے نوازا اور ان کے کاروبار کو بڑی وسعت ملی۔ کاروباری مشاغل کے ساتھ انہوں نے عِلم و تفقّہ میں بڑا نام پیدا کیا۔ وہ فقہ کے جلیل القدر اِمام اور ایک بڑے فقہی مکتبِ فکر کے بانی تھے۔ اُن کے علم و فضل اور فکّر و تدبّر کے جوہرِ خاص کا یہ فیض تھا کہ ان کے شاگردوں میں بھی بڑے نامور ائمّہ نکلے۔ اِمام ابو حنیفہ کو یہ ہر گز گوارا نہیں ہوتا تھا کہ اُن کے کسی شاگرد کی ذہانت و قابلیّت اور تحصیلِ عِلم کا شوق روزی روٹی کی فکر کی نذر ہوجائے۔ وہ اپنے نادار طلبہ کے پورے کنبے کی کفالت اپنے ذمہ لے لیتے تھے تاکہ اُن کے شاگرد یکسوئی سے علم حاصل کر سکیں۔ اللہ کے اور بھی بہت سے نیک بندے ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اپنے وسائل اور توانائیوں کو خدمتِ خلق اوراپنے ماحول میں آسانیاں بانٹنے کے لیے وقف کیا۔
یہ اواخرِ ستمبر1884 تھا جب علی گڑھ کی تعلیمی تحریک سے متاثر ہو کر لاہور میں ’انجمن حمایتِ اسلام‘ قائم ہوئی۔ اس کے زیرِ اہتمام اسلامیہ کالجوں اور سکولوں کا ایک وسیع نیٹ ورک قائم ہوا۔ اس انجمن نے یتیم بچوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت کے لیے بھی ادارے قائم کیے۔ یہ سارے کام ’سول سوسائٹی‘ کی اصطلاح وجود میں آنے سے بہت پہلے بڑے پیمانے پر ہوتے رہے۔ یہ اپنے دِین و مذہب، اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنی معاشرتی روایات سے جُڑی ہوئی بہبودِ عامّہ کی سرگرمیاں تھیں جن کو کسی غیر سے مدد لینا نہ گوارا تھا اور نہ ضرورت تھی۔ انجمن حمایتِ اسلام کو عوامی سطح پر اتنی مقبولیّت اور پذیرائی حاصل تھی کہ ’مُٹھی آٹا سکیم‘ کے تحت مُسلم خواتین گھر کی روٹی پکانے کے لیے آٹا گوندھنے لگتیں تو ایک تھیلے میں ایک مُٹھی آٹا انجمن کے لیے الگ ڈال دیتی تھیں۔ انجمن کے رضاکار ایک خاص مدت کے بعد گھر گھر جا کر یہ تھیلے جمع کر لیتے تھے۔ راولپنڈی کی انجمن فیضُ الاسلام اور ایسی ہی بہت سی انجمنیں (societies) ہر بڑے شہر میں سماجی اور تعلیمی و تہذیبی خدمات انجام دینے کے لیے بنیں۔ ہمارے عہد میں مرحوم عبدالسّتار ایدھی کا خدمتِ خلق کا ادارے ’ایدھی فائونڈیشن‘ ایک زندہ مثال ہے جس کے ایدھی ہائوس مجبور اور بے کس لوگوں کی پناہ گاہیں بنے اور ان کی ایمبولنس اس وقت سروس پورے جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی سروس ہے۔ اب ایک اور سروس چھیپا بھی اس میدان میں گرانقدر خدمات انجام دے رہی ہے۔
سول سوسائٹی کی تعریف
یہ اصطلاح گزشتہ صدی کے آٹھویں عشرے میں عام ہوئی اور اس کا دائرہ پھیلا۔ اب اس کی جو تعریف یہ کی جاتی ہے اس کے مطابق ’خاندان،مارکٹ اور ریاست کے انتظامی دائرے سے باہر رضاکارانہ طور پر سماجی خدمت کے سارے اعمال بجا لانے والوں پر سول سوسائٹی کا اطلاق ہوتا ہے۔ ذاتی دلچسپی، خواہش اور نیکی کے جذبے کے تحت بیماریوں کے تدارک، افلاس کے خاتمے، قدرتی آفات کے مقابلے، محروم طبقات کی محرومیوں کے ازالے، مظلوموں کو ظلم سے نجات دلانے کے لیے یہ اعمال خواہ کچھ افراد کریں یاکوئی گروہ یا تنظیم کرے اس کا شمار سول سوسائٹی میں ہوتا ہے۔ کسی ستم رسیدہ شخص، خاندان، سماجی حلقے یا کمیونٹی کو بالادست طبقوں یا ریاست کی چیرہ دستیوں سے بچانے اور ان کے بنیادی حقوق کی حفاظت کے لیے اخلاقی، مالی اور قانونی مدد بھی سول سوسائٹی نے اپنے فرائض میں شامل کی ہے۔ مزدوروں، وکلاء، ڈاکٹروں، اساتذہ اور دیگر پیشوں کی نمائندہ ایسوسی ایشنیں، سوسائٹیاں اور یونینیں بھی سول سوسائٹی کی تعریف میں آتی ہیں۔ مذہبی جماعتوں کا شمار بھی اسی ذیل میں کیا جاتا ہے۔
پاکستان کی سول سوسائٹی
پاکستان میں سول سوسائٹی کے پس منظر کے طور پر جو تفصیل بیان ہوئی ہے اس کی ایک خاص غرض ہے۔ سطور بالا میں یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ رفاہِ عامّہ کے نیک مقاصد کے لیے کام کرنے والی انجمنیں اور ادارے نہ صرف اپنے مذہبی معتقدات، اخلاقی اقدار، تہذیبی و ثقافتی روایات اور معاشرتی مزاج سے ہم آہنگ رہتے تھے، بلکہ ان کے فروغ کے لیے بھی کام کرتے تھے۔ ان کے وسائل کا بڑا ذریعہ ملک اور معاشرے کے اندر مخیّر لوگوں کے عطیات تھے یا ان کی عمارتوں کے ساتھ دکانوں اور مارکیٹوں سے آنے والے کرائے کی رقوم ہوتی تھیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہمارے ہاں سول سوسائٹی کی جو شکلیں نمودار ہوئیں ان میں مزدور تنظیمیں خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ان پر بائیں بازو کے عناصر قابض ہو گئے تھے اور ان کا بڑا مقصد کمیونسٹ نظریات کو پھیلانا تھا۔ ملک کے نظریے اور مذہب اور تہذیب سے وفاداری رکھنے والی مزدور تنظیمیں کافی عرصہ بعد منظّم ہوئیں لیکن ان کا اثر محدود رہا۔ اب بھی ہیومین رائٹس کے نام سے جو نمایاں عناصر سرگرم ہیں ان کی وفا کے مرکز ملک سے باہر ہیں اور ریاست کا اساسی نظریہ ان کو کانٹے کی طرح چبھتا ہے۔
اب ایک اور فصل NGOs (غیرریاستی تنظیموں) کی اُگ آئی ہے۔ ان میں کئی ’الخدمت‘ جیسی خالص مقامی بنیادوں پر استوار تنظیمیں ہیں جن کی شاندار سماجی اور رفاہی خدمت ایک مسلّمہ حقیقت ہے اور وہ اسلامی فکر اور مزاج کا دفاع بھی کرتی ہیں۔ لیکن متعدد ایسی بدیسی تنظیمیں ہیں جن کے کرتا دھرتا خواتین و حضرات اگر پاکستانی ہیں تو ان کی فکر سیکولراور ان کاذہن لبرلزم کا اسیر ہے۔ کوئی امریکی ہے اور کسی کا مرکزی دفتر کسی مغربی ملک میں ہے۔ ان کے مقاصد بھی وہیں پر متعیّن ہوتے ہیں جہاں سے انہیں بھاری گرانٹین ملتی ہیں۔ ان کی سرگرمیاں اور دائرۂِ کار گرانٹ دینے والوں کی مرضی پر طے ہوتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ مغرب اور امریکہ میں بنیادیں رکھنے والی ساری این جی اوز بُری ہیں۔ ان میں سے بعض قابلِ قدر خدمات انجام دیتی ہیں، تاہم یہ حقیقت ہے کہ ان میں سے اکثر کے ایجنڈے میں مغربی تہذیب و ثقافت کو promote کرنا اور مغربی کلچر کو مقبول بنانا شامل ہے۔ ان کی خدمات کے کچھ پہلو مفید اور قابلِ تحسین بھی ہو سکتے ہیں لیکن ان کی آڑ میں وہ ہماری اخلاقی بنیادوں کو کھوکھلا اورمعاشرتی اقدار کو کمزور کرتی ہیں۔ ہماری مسلم خواتین اور طلبہ و طالبات ان کا اصل نشانہ ہیں جن کے اندر وہ اپنے خاص انداز میں تہذیبی روایات سے بغاوت پیدا کرتی ہیں۔ ’عورت فائوڈیشن‘ (Aurat Foundation) اور AFS International Exchange جیسی تنظیمیں گلوبل کلچر کی دلکشی دلوں میں بٹھاتی اور اپنی اساس سے بیزار کرتی ہیں۔ اس تحریر کا مقصد ان کی اسی خطرناکی کی طرف توجہ دلانا ہے۔