جنرل پرویز مشرف نے جب 2000ء میں شہری حکومت کا اجراء کیا تو متحدہ قومی موومنٹ نے شہری حکومت کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ اس کیفیت سے جماعت اسلامی کے بھاگ کھل گئے یعنی بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مصداق جماعت اسلامی کو شہر کراچی کی باگ ڈور مل گئی۔ تب نومنتخب ناظم کراچی نعمت اللہ خان صاحب نے ایک نادر روزگار بیان دیا، آپ نے ارشاد فرمایا۔ ”ہم کراچی کو اسلامی فلاحی شہر بنا دیں گے۔“ معلوم نہیں وہ کہنا کیا چاہ رہے تھے اور کیوں یہ کہہ رہے تھے، مگر اس کے بعد جو سال انہیں کراچی کی نظامت کے میسر آئے اس میں وہ سڑکیں اور گلیاں بناتے رہے اور اس کے علاوہ انہوں نے شہر کے تقریباً 80 فیصد درخت کاٹ ڈالے۔ راقم الحروف 2003ء میں جامعہ کراچی میں داخل ہوا اور بس پر جامعہ جایا کرتا تھا۔ راقم کو یاد ہے کہ کیسے UBL اسپورٹس کمپلیکس کے آس پاس درختوں کا صفایا کیا گیا۔ بہرحال نعمت اللہ خان تو نظامت سے آخر کار اتر ہی گئے مگر یہ شہر اسلامی فلاحی نہ بن سکا۔ معلوم نہیں انہیں یہ خیال کیسے تھا کہ ایک شہر کی نظامت ان کو مل گئی تو وہ اسے اسلامی و فلاحی بنا دیں گے؟ اور انہوں نے اپنے منصب نظامت کے لئے اپنے ذہن میں اس قدر مبالغہ کیوں کر رکھا تھا؟
مگر یہ عجیب و غریب سوچ محض یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ 2002ء کے عام انتخابات میں ہمارے ادارے مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل پر بالکل اسی طرح مہربان ہو گئے جیسے اب تحریک انصاف پر ہیں اور رکابی میں رکھ کر اس وقت کا صوبہ سرحد انہیں دے دیا تا کہ امریکا اور اتحادیوں پر خوف چھا جائے کہ اگر مشرف کی حکومت گئی تو ملّا حاکم بن جائیں گے۔ خیر اس ”بابرکت“ عہد میں جو 2002ء سے شروع ہوا اور 2008ء تک جاری رہا، صوبہ سرحد میں اور اس کے باہر بھی ”اسلامی فلاحی صوبہ“ جیسے دعوے سننے میں آئے، تب ایک ”حسبہ بل“ بھی صوبائی اسمبلی سے پاس کرایا گیا۔ اس ”بابرکت“ دور میں راقم الحروف کو ایک مرتبہ صوبہ سرحد جانے کا اتفاق ہوا تو معلوم ہوا کہ اسلامی فلاحی صوبے میں پاکستان کے کسی دوسرے علاقے سے کوئی فرق نہ تھا۔
راقم الحروف اکثر سوچتا ہے کہ یہ اسلامی فلاحی شہر /صوبہ بنانے کے دعوے حقیقی طور پر معنی کیا رکھتے ہیں؟ راقم الحروف کو ایک بار 2008ء میں جامعہ پنجاب جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ تب معلوم ہوا کہ دراصل جب یہ جماعتی، ’اسلامی فلاح‘ لفظ کا استعمال کرتے ہیں تو اِس سے مطلب ہوتا کیا ہے۔ جامعہ پنجاب میں ایک بھیانک خوف کی فضا تھی۔ راقم الحروف اپنی بہن کے ساتھ جامعہ پنجاب گھومنے گیا تھا مگر اُس کو اور اُس کی بہن کو ایک سے زائد مرتبہ لوگوں نے یہ بتایا کہ وہ ایک ساتھ نہ چلیں اس لئے کہ اسلامی جمعیت طلبہ نے اِس چیز کی اجازت نہیں دے رکھی۔
چلئے وہ طلبہ و طالبات کا اخلاق بچا رہے ہیں، ہم کو کیا ضرورت ہے اعتراض کرنے کی؟ مگر ہمارا سوال یہ ہے کہ کراچی اور صوبہ سرحد کے اسلامی فلاحی دور میں تو یہ بھی نہ ہوا؟ پھر اسلام کا اطلاق کسی بڑی صورت میں کیا ہوتا، الٹا نعمت اللہ خان نے تو کراچی کے سارے درخت ہی کاٹ کر کراچی کو گنجا کر دیا، اسلام تو درخت لگانے کو بڑی نیکی قرار دیتا ہے ناں؟
دراصل ہمارے جمہوریت پرست جدید اسلامی بھائی جو بیلٹ باکس پر بھی توحید و رسالت کے برابر ایمان رکھتے ہیں، اس بات سے بے بہرہ ہیں کہ جمہوری سسٹم اپنی نہاد میں سیکولر ہوتا ہے اور وہ خود ہی اسلام کے نفاذ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے کبھی بھی نفاذ اسلام نہیں ہو سکتا۔ پھر سرمایہ داری نظام پر بھی ہمارے جدید اسلام پسند بڑا شدید ایمان رکھتے ہیں، مگر اس نظام میں کہ جس کی بنیاد ہی سود پر ہے نہ جانے اسلام کا نفاذ کیسے ممکن ہے؟ پھر ہمارے کچھ مقبول علما سود کے حیلے تراشنے لگتے ہیں اور نت نئی تاویلات سے سودی اور سیکولر نظام کی اسلام میں گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر لے دے کر اسلام صرف ایک لیبل ہی رہ جاتا ہے۔ اسی لئے ہمارے شہر کے ایک سابق ناظم بڑے زوروں سے کہتے پائے گئے تھے کہ وہ کراچی کو ایک اسلامی فلاحی شہر بنا دیں گے۔ شاید اُن کا مطلب یہ تھا کہ چند چورنگیوں کے نام انہوں نے اسلامی رکھ دیے تھے یا چند مقامات پر بسم اللہ اور آیات لکھوائی تھیں۔ نظر یہ آتا ہے کہ ہمارے ظاہر پرست مولوی اگر کبھی اس وطن میں اقتدار میں بھی آگئے تو کچھ اسی قسم کا اسلام یہاں نافذ ہو سکے گا اس کے علاوہ کچھ نہیں۔