آج کل ملک طرح طرح کے بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔ معاشی بحران غریب اور مڈل کلاس کو بری طرح متاثر کر رہا ہے دوسری طرف سیاسی محاذ آرائی عروج پر ہے ان حالات میں لوگ پریشان ہیں انہیں کہیں سے کوئی اچھی خبر نہیں مل رہی حکومت کے پاس ایسا لگتا ہے کہ مسائل کا کوئی حل نہیں غالباً انہوں نے کوئی تیاری نہیں تھی پھر ٹیم کچھ ناتجربہ کار ہے اور کچھ لوگ تو نظام کابیڑہ غرق کرنے پر تُلے ہوئے ہیں ایک سال تک تو حکومت کے پاس ایک ہی دلیل تھی کہ سب کچھ ماضی کی حکومتوں کا کیا دھرا ہے۔ اب ڈیڑھ سال بعد لوگ یہ سننے کے لئے تیار نہیں لہذا حکومت مشکل میں ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے پہلے چھ آٹھ مہینے ’’چور اور ڈاکو‘‘ کی گردان جاری رکھی پھر لہجہ نرم کرلیا اور یہ کہنا شروع کردیا کہ کوئی ڈیل نہیں ہوگی میں این آر او کسی صورت نہیں دونگا۔ اب جب آرمی چیف کے عہدے کی توسیع کا بل پارلیمنٹ سے پاس ہوا ہے اب وہ مکمل خاموش ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ڈیل یا ڈھیل ہوگئی ہے اور شاید ان سے بالا بالا ہوگئی ہے۔ اب ایسے میں ان کا سارا بیانیہ زیرو ہوگیا ہے ساتھ ہی مسلم لیگ ن کا بیانیہ بھی زمین بوس ہوگیا ہے جس پر ان کے حامی بھی سخت پریشان ہیں۔ ظاہر ہے سیاستدان ہی ایک ایسی مخلوق ہے جسے ہر قسم کی گالی دی جاسکتی ہے۔ وہی ایک پنچنگ بیگ ہے۔ ہم نے سیاست کو ایک گالی بنادیا ہے حالانکہ سیاست لوگوں کی خدمت کا نام ہے۔ ہم اس بات کا رونا روتے ہیں کہ سیاست میں کرپٹ اور نالائق لوگ آگئے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ ہم اگر سیاست کو گندہ کریں گے اور انہیں طرح طرح سے ذلیل کریںگے تو ان حالات میں پڑھے لکھے، قابل اور شریف لوگ کیسے سیاست کا رخ کریں گے۔
عمران خان مڈل کلاس کی نمائندگی کرتے ہیں خیال تھا کہ وہ ایک صاف ستھری اور اہل ٹیم لیکر آئیںگے اور یہ ان کا دعوی بھی تھا لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ ایک وزیر نے دو صحافیوں کو تھپڑوں سے زدو کوب کیا۔ اب انہوں نے پنجاب گورنمنٹ کے خلاف چارج شیٹ جاری کر دی ہے۔ دوسرے نے ٹی وی شو میں بوٹ رکھ کراپوزیشن کے ساتھ ساتھ اداروں کو بھی دلیل کرنے کی کوشش کی۔ وفاقی وزیروں سے ایسی حرکتوں کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن وزیراعظم نے نہ انہیں کابینہ سے نکالا ہے اور نہ ہی انہیں معذرت کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ادھر رانا ثناء اللہ نے اپنے کیس کے بارے میں قومی اسمبلی میں قرآن پر حلف اٹھایا ہے کہ یہ کیس جھوٹا ہے اس سے سرکاری پارٹی کے بھی کچھ با ضمیر لوگ لرز کررہ گئے ہیں۔
ان حالات میں لوگ صرف مہنگائی اور بدانتظامی سے پریشان نہیں بلکہ ملک کے مستقبل سے مایوس ہوتے جارہے ہیں ظاہر ہے یہ بہت ہی افسوسناک صورتحال ہے ایسے میں ایک خیال سوچنے سمجھنے والے لوگوں کے ذہن میں آتا ہے کہ ریاست کے سٹیک ہولڈر اپنی انا اور ادارہ جاتی مفادات کو نظر انداز کرکے ملک کے مستقبل کے لئے مل بیٹھیں اور کوئی راستہ نکالیں۔ اس خیال کا اظہار مختلف لوگوں نے مختلف پلیٹ فارمز پر کیا ہے۔ 2006ء میں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے میثاق جمہوریت میں اس مقصد کے لئے ٹروتھ اینڈری کینسلی ایشن کمیشن بنانے کا وعدہ کیا تھا جو وفا نہ ہوا پھر کچھ سال پہلے سینیٹ کے چیئرمین جناب رضا ربانی نے سینیٹ میں یہی خیال پیش کیا اور یوں بات آگے بڑھ رہی ہے۔ سابق آئی جی پولیس ذوالفقار چیمہ صاحب نے بدھ کے روز اسلام آباد کلب میں علامہ اقبال کونسل کے پلیٹ فارم سے اسی خیال پر دانشوروں اور صاحب الرائے اشخاص کے درمیان مکالمے کا اہتمام کیا۔ تقریب کی صدارت جسٹس علی نواز چوہان صاحب نے کی اوراس میں کافی تعداد میں سابق سول اور فوجی بیوروکریٹس نے شرکت کی۔ سیاسی لوگوں کی نمائندگی پاکستان پیپلزپارٹی کے قمر زمان کائرہ نے کی اور صحافت کے شعبے کی نمائندگی حامد میر اور حافظ طاہر خلیل نے کی۔ ریاض کھوکھر اور امورخارجہ سے تعلق رکھنے والے سینئر ریٹائرڈ افسران ریاض کھوکھر، اعزاز چوہدری اور جاوید حفیظ نے بھی خیالات کا اظہار کیا۔ اس بات پر تو تقریباً اتفاق رائے تھا کہ اداروں کو مل بیٹھنا جائے اور مسائل پر غور کرنا چاہیے۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی ضروری ہے تاکہ آئندہ کے لئے کوئی سبق سیکھا جائے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیسا ایسا مکالمہ ممکن بھی ہے یا نہیں؟ اور اس کا اہتمام کون کرے گا اور اداروں کی نمائندگی کیسے اور کس لیول پر ہوگی۔ پھر یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک متفقہ آئین کے ہوتے ہوئے ہمیں مزید کسی اتفاق رائے کی ضرورت ہے؟کیا آئین میں بنیادی تبدیلیوں کا خیال زیر غور ہے ہمارے بہت سارے سیاستدانوں اور سیاسی دانشوروں کا خیال یہ ہے کہ ہمارے مسائل کاحل تو آئین پر عمل درآمد میں ہے البتہ اگر آئین میں کسی تبدیلی کی ضرور ہے تو یہ مسئلہ تو پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے حل ہوگا اور اس کا طریقہ کار آئین میں درج ہے۔
زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ مکالمہ اگر ہوتا ہے تو یہ عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کے درمیان ہوناچاہیے، فوج انتظامیہ کے ماتحت ایک ادارہ ہے لہذا اس سے براہ راست مکالمہ تو نہیں ہوسکتا۔ نظام عدل کی خرابیوں اور بیرون ملک سیاسی پارٹیوں کے ونگز کا قیام بھی زیر بحث موضوعات میں شامل تھا لیکن عدلیہ پر بات نہ ہوسکی محسوس کیا گیا کہ یہ موضوع اپنی جگہ بہت اہم ہے اس پرتفصیلی بحث کے لئے ایک الگ سیشن کی ضرورت ہوگی۔ بیرون ملک سیاسی جماعتوں کے قیام پر تفصیل سے بات ہوئی اور یہی محسوس کیا گیا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے لیکن ریاض کھوکھر جیسے سینئر لوگوں کا خیال تھا کہ اب اس پر پابندی لگانا مشکل ہے۔ قمرزمان کائرہ نے اس صورت حال کی ذمہ داری ملک کے اندر سیاسی گھٹن پر ڈال دی۔ سیاسی گھٹن اور اظہار رائے پر پابندیوں کے موضوع پر کئی لوگوںنے بات کی اوراس بات کا خدشہ ظاہر کیاکہ اس طرح اس بات کا امکان ہے کہ سول سوسائٹی اس پر زیادہ دیر خاموش نہیں رہے گی اورشاید معاشرتی لیول پر ایک تحریک چل نکلے جنرل پرویز مشرف کی رخصتی کاسبب بھی سول سوسائٹی کی تحریک ہی بنی تھی۔