نریندر مودی حکومت نے پانچ اگست دو ہزار انیس کو مقبوضہ جموں و کشمیر سے متعلق اپنے آئین کا آرٹیکل 370 ختم کر دیا۔ برہان الدین وانی کے قتل کے بعد سے جاری ظلم کی سیاہ رات مزید طویل ہو گئی۔ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کو سو روز سے زائد گزر گئے، ابھی اس کے خاتمے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ لیکن کشمیر عوام کے جوش و خروش میں کوئی کمی نہیں آئی۔ نتیجتاً بھارتی حکومت کو کرفیو اٹھانے کی ہمت نہیں ہو رہی۔ اس صورتحال میں پاکستان کے مایہ ناز صحافی، معروف ٹی وی اینکر ناصر بیگ چغتائی ( جنہیں ان کے دوست اور فیض اٹھانے والے این بی سی کے نام سے پکارتے ہیں) کا جد و جہد آزادی کشمیر کے موضوع پر مبنی ناول ’’سلگتے چنار‘‘ بہت بروقت شائع ہوا ہے۔ ناول سے قارئین کو مسئلہ کشمیر اور کشمیری عوام کی تکالیف اور بھارت کے ظلم و جبر کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ جس کی اس وقت سے زیادہ کبھی ضرورت نہ تھی۔
ناصر بیگ چغتائی سینئر صحافی ہیں۔ اُن کی صحافت سے وابستگی کو تیس سال سے زائد ہو گئے ہیں۔ وہ انیس سو اسی کے آغاز میں صحافت سے وابستہ ہوئے اور مختلف اخبارات میں اہم پوزیشنز پر فائز رہے۔ اردو نیوز جدہ کے بانی ممبر اور ایڈیٹر بھی رہے۔ مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے دو ہزار دو میں پرنٹ سے الیکٹرونک میڈیا سے ناطہ جوڑا، اور جیو نیوز دبئی کی لانچنگ میں اہم کردار ادا کیا۔ اے آر وائی ون ورلڈ کے ہیڈ بھی رہے۔ اب تک نیوز کا شاندار آغاز بھی ڈائریکٹر نیوز کی حیثیت سے کیا۔ این بی سی سری نگر اور جموں و کشمیر کا دورہ کرنے والے چند غیر ملکی صحافیوں میں شامل ہیں۔ یہی نہیں انہوں نے سری نگر کے مشہور لال چوک اور سری نگر یونیورسٹی میں پروگرام بھی ریکارڈ کر کے نشر کیے۔ وہ دو سو سے زائد ٹی وی شوز کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ اب تک پر ’’این بی سی آن لائن‘‘ ان کا مقبول ٹی وی شو تھا۔ جس میں فلسطین، کشمیر، عراق، افغانستان اور دنیا بھر کے اہم موضوعات پر بصیرت افروز اظہار خیال کیا۔ اب بھی مختلف ٹی وی چینلز پر بطور مبصر انہیں اظہارِ خیال کے لیے طلب کیا جاتا ہے۔
لیکن صحافی این بی سی کی مصروفیات نے ادیب ناصر بیگ چغتائی کو پس منظر میں ڈال دیا۔ انہوں نے انگلش اور فرانسیسی ادب کے کلاسک رائٹرز کے تراجم کیے۔ عمدہ کہانیاں لکھیں۔ جو ’’اخبارِ جہاں‘‘ میں شائع ہوئیں۔ ناول ’’سلگتے چنار‘‘ کا پہلا حصہ بھی ہفت روزہ ’’اخبار جہاں ‘‘ میں قسط وار شائع ہوتا رہا اور اس نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ قدرے فرصت نے ایک مرتبہ پھر ناصر بیگ چغتائی کو علم و ادب کی جانب رجوع کرنے پر مائل کیا اور انہوں نے تحریر سے دوبارہ ناطہ جوڑنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ خبر سے طویل وابستگی اور کشمیر سے لگاؤ کے پس منظر میں ناصر بیگ چغتائی نے دو ہزار میں شائع ہونے والے ناول ’’سلگتے چنار‘‘ کا دوسرا حصہ لکھنے کا فیصلہ کیا۔ جس میں کہانی حالیہ واقعات کے پس منظر میں آگے بڑھتی ہے۔ ناول کے دونوں حصے ایک ساتھ فضلی بکس نے انتہائی خوبصورتی شائع کیے ہیں۔ عمدہ سفید کاغذ پر دیدہ زیب پرنٹنگ کے ساتھ پانچ سو بانوے صفحات کے ناول کی قیمت بارہ سو روپے بھی انتہائی مناسب ہے۔
مشہور افسانہ نگار اخلاق احمد اپنی تعارفی تحریر میں لکھتے ہیں۔
’’ناصر بیگ چغتائی کے نام سے ایک عالم واقف ہے۔ خبروں کے نبض شناس، کتنے ہی اخبارات کے نیوز ایڈیٹر، صحافیوں کے حقوق کی جنگ لڑنے والے، مقبول ٹی وی اینکر، سیاسی تجزیہ کار، کئی بڑے چینلز کے لیے نیوز ڈیپارٹمنٹس تخلیق کرنے والے اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔ ناصر بیگ چغتائی نے ربع صدی پہلے ہی بہت جلد اور بے پناہ مشقت سے اپنے شعبے میں نام وری اور شہرت کی وہ سب منزلیں سر کر ڈالیں جو فی زمانہ کامیاب ہونے والوں کی پہچان ہیں۔ خبروں کی دنیا میں کم لوگ ہیں جنہیں نام سے بھی پہچانا جاتا ہو، اور کام سے بھی، اور چہرے سے بھی۔ مگر لوگ نہیں جانتے تھے کہ ناصر بیگ چغتائی کی ایک جہت اور بھی ہے جسے وہ ایک راز کی طرح چھپائے رکھتے ہیں۔ باصلاحیت آدمی کی پہچان یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ اپنے ہنر سے بھی سوا ہوتا ہے۔ یہ بھی، کہ وہ خود کو دنیا پر ذرا مشکل سے کھولتا ہے۔ وہ ایک کہانی کار ہیں، اور بلا کے کہانی کار۔ میرا لہجہ شاید تلخ بھی ہوا، جب میں نے انہیں کہانی سے، فکشن سے، تخلیق کاری سے بے وفائی کا طعنہ دیا۔ میں نے انہیں سنبھلنے کی، کوئی بہانہ تراشنے کی مہلت ہی نہیں دی۔ اب سوچتا ہوں تو لگتا ہے، شاید وہ خود بھی چاہتے تھے کہ کوئی آئے اور انہیں بے دست و پا کر دے، انہیں کہانی کی طرف، زندگی کے ہنگام میں کھو جانے والی محبوبہ کی طرف لے جائے۔ ’’سلگتے چنار‘‘ شاید ان کاسب سے توان اناول ہے۔ یہ ناول لکھتے وقت ناصر بیگ چغتائی کی دیوانگی کے گواہ کم لوگ ہیں۔ جنت نظیر کشمیر کی وادیوں میں جاری آگ کے کھیل اور آزادی کی والہانہ جد و جہد کے لیے ان کی وحشت، ان کی شب بیداریاں، ان کی تڑپ، اور ایک جنون آمیز بے قراری ہی شاید اس ناول کی بے پناہ مقبولیت کا سبب بنی، اس کی خوشبو کو سرحدوں کے پار لے گئی۔ مقبوضہ کشمیر میں اس کہانی کا ذکر سینہ در سینہ چلتا گیا، اس کی فوٹو اسٹیٹ نقول، جد و جہد کرنے والوں میں اور آزادی کی آرزو رکھنے والوں میں چھُپ چھُپ کر تقسیم ہوتی رہیں۔ دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن جانے والے کشمیر کے بارے میں ایسا پرتاثیر ناول شاید کبھی نہیں لکھا گیا۔ ‘‘
اخلاق احمد نے این بی سی کی فکشن نگاری کا بھرپور تجزیہ کیا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی تمام جمہوری اور آمرانہ حکومتیں متفقہ طور پر ہم خیال رہی ہیں۔ اور پاکستان نے ہر سطح پر کشمیری عوام کا ساتھ دیا ہے۔ ہمارے اہل قلم بھی پیچھے نہیں رہے، انہوں نے اپنے کالمز، کہانیوں، ناولز، ڈراموں اور شاعری میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ’’سلگتے چنار‘‘ بھی اس موضوع پر اہم ناول ہے۔ ناصر بیگ چغتائی طویل مدت سے صحافت سے وابستگی اور ذاتی دلچسپی کے باعث مسئلہ کشمیر کے پس منظر اور اس خطے کی تاریخ سے بخوبی آگاہ ہیں۔ حقیقی واقعات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناول کی دلچسپی میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ حقیقت کی چاشنی نے اس میں پیش کی گئی کہانی کا لطف دوبالا کر دیا ہے۔ کہانی میں نہ تو کہیں جھول ہے اور نہ ہی یہ کہیں رکتی ہے بلکہ زندگی کی سی روانی اور تیزی سے آگے بڑھتی چلی جاتی ہے اور قاری ایک بار ناول شروع کرنے کے بعد اسے ختم کئے بغیر چھوڑ نہیں پاتا۔ جذبہ حریت اور جد و جہد آزادی کے موضوع پر ہونے کے باوجود سلگتے چنار خشک نہیں ہے۔ اس میں انسانی جذبوں اور رشتوں کی نرمی اور لطافت موجود ہے۔ محبت کی لطیف دھیمی دھیمی آنچ بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ ناول کے حصہ اول نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی تھی۔ اب اس میں تازہ واقعات کے اضافے کے ساتھ حصہ دوم بھی قارئین کی توجہ ضرور حاصل کرے گا۔
عرض ناشر کے عنوان سے این بی سی پیش لفظ میں کہتے ہیں۔
’’سلگتے چنار کا دوسرا حصہ لکھنے کی کوشش میں برسوں لگ گئے۔ دو ہزار دو سے الیکٹرانک میڈیا نے بس خبروں کے کوہلو کا بیل بنا دیا تھا لیکن میرا پہلا عشق دراصل خبر ہی تھا اور الیکٹرانک میڈیا میرے لیے بالکل نئی چیز جس کو سیکھنے میں بھی بڑا لطف آیا۔ لیکن دل میں خلش رہی، کوئی افسانہ نا کہانی، حتیٰ کہ کشمیر پر بھی کوئی مضمون نہیں۔ سلگتے چنار دو ہزار میں شائع ہوئی تھی اور بنیادی طور پر 1987ء کے بعد کے واقعات، جد و جہد، تنظیم اور گروپوں کی قربانیوں پر مشتمل تھی۔ اس ناول کو لکھنے سے پہلے میں درجنوں بار آزاد کشمیر گیا۔ ایل او سی تو دوسرے گھر کی مانند ہو گئی تھی۔ چکوٹھی میرے لیے حسین غزل کی طرح رہی۔ قصہ مختصر، دوسرا حصہ مجھ پر قرض تھا۔ ایسا قرض جو اگر میں پہلے ادا کر دیتا تو شاید بہت کچھ ذمے رہتا۔ تین سال قبل برہان مظفر وانی کی شہادت نے مجھے جھنجھوڑ دیا۔ حزب المجاہدین کے اشفاق مجید وانی سے میری کئی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ اس وقت شاید وانی چند سال کا ہو گا لیکن اشفاق مجید نے مجھ سے کہا تھا۔ بھائی یاد رکھنا شاید میں کام آ جاؤں لیکن ایک اور وانی پھر آئے گا۔ برہان مظفر وانی نے اشفاق مجید کا وعدہ پورا کر دیا۔ اس دعوے کے ساتھ کہ اس زندہ داستان کا ایک ایک لفظ سچ ہے، تاریخیں اور واقعات بھی سچ ہیں اور سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ ابھی تک یہ کہانی جاری ہے۔ اس کا خاتمہ نہیں ہوا۔ جس روز مقبوضہ وادی کشمیر کے لوگوں نے آزادی حاصل کر لی اس روز پھر میں ایک کہانی شروع کروں گا۔ آپ سے وعدہ ہے کہ کہانی 2016ء کے بعد سے شروع ہو گی۔ سلگتے چنار کے دوسرے حصے کے لیے بھی میں نے درجنوں ویب سائٹس پاکستانی، بھارتی، اور یورپی اخبارات، مقبوضہ کشمیر میں کام کرنے والے صحافی دوستوں اور دانش وروں سے مدد لی اس کی ضرورت یوں پڑی کہ اگرچہ میرے پاس حقائق موجود تھے لیکن بعض واقعات کی ایک بار پھر تصدیق ضروری تھی۔ ‘‘
ناول کے بیشتر کردار حقیقی ہیں۔ سکندر، ٹیپو اور زوبی کے نام تبدیل کر دیے گئے باقی کردار اصل ہیں۔ بلند و بالا چنار کے درختوں کے دیس کی کہانی کا نام ’’سلگتے چنار‘‘ بھی کشمیر کی نشاندہی کرتا ہے کشمیری لیڈر شیخ عبد اللہ کی آپ بیتی کا نام ’’آتش چنار‘‘ بھی اسی پس منظر میں رکھا گیا۔ شیخ عبد اللہ کی اولاد اب بھارت کا ساتھ دینے کو غلطی تسلیم کرنے لگا ہے۔ فاروق عبد اللہ اور محبوبہ مفتی دونوں نے اپنے بزرگوں کے فیصلے کو غلط قرار دیا ہے۔
سلگتے چنار پہلے لفظ سے ہی قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لیتا ہے۔ ملا حظہ کریں۔
’’فائر‘‘ سینٹرل ریزور پولیس کی بس دیکھتے ہی گلی کے کونے پر کھڑا ہوا نوجوان بہت زور سے چلایا۔ اسی کے ساتھ چھتوں اور گلی سے فائرنگ شروع ہو گئی۔ چلتی بس سرینگر کے اس علاقے میں اس طرح رکی جیسے درجنوں ہاتھیوں نے اسے ٹکر ماری ہو۔ نقاب پوش نوجوان رکے بغیر فائرنگ کرنے لگے۔ بس کے شیشے ٹوٹے تو چھناکوں کی آواز بھی دھماکوں میں دب کر رہ گئی۔ صبح سات بجے کے دھندلکے میں چھوٹے چھوٹے شعلے سے لپکنے لگے۔ پھر بس سے بھی فائرنگ شروع ہو گئی۔ ’تاک کر مارنا‘ آگے والے نوجوان نے دھاڑ کر کہا۔ تب ہی بس کے اندر سے چیخیں گونجنے لگیں۔ بس کے وردی پوش سوار چلانے لگے۔ رونے لگے۔ دہائیاں دینے لگے۔ مگرفائرنگ جاری رہی اسی لمحے اس نوجوان نے جو حملے کی قیادت کر رہا تھا گلی کے دوسرے نکڑ پر مزید چار وردی پوشوں کو دیکھا بس غالباً انہی کو لینے کے لیے آئی تھی۔ اس نے اپنی خود کار رائفل کا رُخ اسی سمت میں کر دیا۔ وہ چاروں اوپر تلے گرے، تڑپے اور ساکت ہو گئے۔ ’واپس چلو‘ نوجوان نے گرجدار لہجے میں حکم دیا۔ چھت سے فائرنگ کرنے والے کود پڑے۔ گلی میں موجود حریت پسندوں نے تیزی سے واپسی کے لیے قدم اٹھائے۔ وہ الٹ پیروں دوڑنے لگے کیونکہ انہیں ان چاروں نوجوانوں کو بھی کور دینا تھا جو چھتوں سے کودے تھے۔ فائرنگ میں وقفہ آتے ہی پولیس کی بس تیزی سے دوڑ گئی۔ نوجوانوں کی رفتار اس سے بھی زیادہ تیز تھی۔ وہ ایک دوسرے سے جدا ہوئے اور الگ الگ گلیوں سے نکل کر مرکزی شاہرہ پر موجود اس ہجوم میں غائب ہو گئے جو دفتروں کی طرف جا رہے تھے۔ کشمیری حریت پسندوں کے اس حملے میں چھ پولیس اہلکار مارے گئے۔ دس زخمی ہوئے۔ آزادی کی تحریک اپنا راستہ خود منتخب کرنے کے قابل ہو گئی تھی۔ ‘‘
کشمیری لیڈر کس جذبے کے ساتھ اپنی قوم کی رہنمائی کرتے رہے ہیں، انہوں نے نئی نسل کے جذبہ حریت کو کبھی ماند نہیں پڑنے دیا مردوں کے دوش بدوش آسیہ اندرابی کی قیادت میں خواتین بھی سرگرم عمل رہی ہیں۔ انہوں نے ہمت و شجاعت کی نئی داستان رقم کی۔
’’سکندر نے زوبی سے بہت عجیب بات کہہ ڈالی۔ ’زوبی اگر میں کہوں کہ میں تم سے زیادہ بھی کسی کو چاہتا ہوں تو پھر؟ تب میں اس کا نام ضرور پوچھوں گی جس سے تمہیں سب سے زیادہ محبت ہے۔ میں اس کا نام ضرور بتاؤں گا زوبی جان۔ سنو اس کا نام کشمیر ہے زوبی۔ کشمیر۔ میں اس سے بہت پیارکرتا ہوں تم سے بھی زیادہ۔ میں دو سالوں سے اس کے عشق میں جھلس رہا ہوں اور اب لگتا ہے کہ بھاری بوٹوں والے درندے کشمیر کو مجھ سے جدا کرنے کے لیے باردو کی آگ برسانے آنے والے ہیں تا کہ ہم سب جھلس کر مر جائیں اور کشمیر سے محبت کرنے والا کوئی نہ بچے۔ تمہیں پتہ ہے کہ کشمیر کو حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ کی طرح ہڑپ کرنے کے لیے کیا سازشیں ہو رہی ہیں۔ سب سے بھیانک سازش یہ ہے کہ وادی میں مسلمانوں کو اقلیت بنا دیا جائے۔ ‘‘
کشمیر کے عوام ان تمام سازشوں کو سمجھ چکے ہیں اور اسے ناکام بنانے کے لیے تن من دھن سے کوششیں کر رہے ہیں۔ عبد الرشید زرگر ایک گریجویٹ تھا اس نے ڈگری کالج پلوامہ ہی سے بی اے کیا تھا۔ زمانہ طالب علمی میں اسلامک اسٹوڈنٹس لیگ میں شامل رہتے ہوئے اس نے بہت کچھ سیکھا تھا۔ اسے یہ شعور بھی حاصل ہوا تھا کہ دہلی کے حکمراں کشمیر کو کس طرح غلام بنا کر رکھنا چاہتے ہیں اسی لیے اس نے جد و جہد آزادی میں شمولیت اختیار کی تھی اسی جرم میں وہ پہلی مرتبہ گرفتار ہوا تھا۔ یہ گرفتاری مقبول بٹ کی برسی منانے کے الزام میں ہوئی تھی اور یہ ہر کشمیر نوجوان کی کہانی ہے۔ پاکستان سے ان کی محبت اس اقتباس سے واضح ہے۔
’’پاکستان زندہ باد۔ ہزاروں افراد نے زوبی کے زبردست نعرے کا اتنے ہی جوش سے جواب دیا۔ انہیں ابھی اطلاع ملی تھی کہ اشفاق مجید وانی ایک اہم سرکاری عمارت پر پاکستانی پرچم لہرانے کے بعد اسے ساتھیوں سمیت سلامی دے رہا ہے۔ یہ لوگ اشفاق کے زبردست مداح تھے انہیں اس سے ملنے کی آرزو تھی لیکن یہ ابھی تک پوری نہیں ہو سکی تھی۔ زوبی اور سکندر جس جلوس میں تھے وہ گاندھی پارک سے نیو سیکریٹریٹ کی طرف جا رہا تھا جہاں اشفاق مجید وانی کے گروپ نے سیکریٹریٹ کی عمارت سے ترنگا اتار کر سبز ہلالی پرچم لہرا دیا تھا۔‘‘
خود کو محفوظ رکھتے ہوئے دشمن کو تباہ کرنا جد و جہد کا بنیادی اصول ہے۔ اسی بنیادی اصول کو رہنما بنا کر حریت پسند برسر پیکار تھے۔ فلسطینی حریت پسندوں کی حکمت عملی، جاپان کے خلاف چینی عوام کی جنگ اور ویت نام میں امریکا کے خلاف عوامی لڑائی کا بنیادی فلسفہ انہیں یاد کرائے گئے تھے۔ کشمیری اب دوست اور دشمن کو بخوبی جان چکے ہیں۔ ’’ہم نے بڑے دھوکے کھائے ہیں، غیروں سے نہیں اپنوں سے۔۔ شیخ عبد اللہ کی برسی پر سوپور میں ہونے والے اجتماع سے خطاب کرنے والے مقرر نے کہا۔ ہمیں دھوکہ دینے والا بھی کشمیری تھا۔ شیخ عبد اللہ اور ہمیں دکھ درد کی صلیب پر چڑھانے والے بھی کشمیری تھا۔ نہرو۔ کانگریسی لیڈر یہ سنتے ہی بے قابو ہو گیا مگر مجمع بھی بے قابو ہونے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے درجنوں افراد اسٹیج پر چڑھ آئے۔ انہوں نے وہاں بیٹھے مہمانوں، مہمان خصوصی اور صدر جلسہ کی دھنائی شروع کر دی۔ ایک بینر پر شیر کشمیر شیخ عبد اللہ کو سلام لکھا ہوا تھا۔ دو تین منٹ بعد لمبے لمبے بانس آ گئے۔ سوپور میں اس دن صرف ایک ہی نعرہ گونج رہا تھا ’شیخ کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے۔‘‘
یہ کشمیریوں کی بیداری ہے۔ ان کا جذبہ شہادت بے مثال ہے۔ ’’مجاہد عباد اللہ نے پستول بلند کر کے نشانہ لینے کی کوشش کی لیکن اسی وقت مشین گن کا ایک پورا برسٹ اس کے جسم میں پیوست ہو گیا۔ پورے بدن سے خون کے کئی فوارے ایک ساتھ بلند ہوئے۔ جوان خون اچھل اچھل کر سڑک پر بہنے لگا۔ اس کی بوچھاڑ دور تک گئی اور جگہ جگہ سرخ چھینٹیں اس طرح چمکنے لگیں جیسے گھپ اندھیروں میں راستہ دکھا رہی ہوں۔ ’میں حاضر ہوں میرے اللہ۔ عباد اللہ نے کلمہ پڑھنے سے قبل کہا۔ اس کی آنکھیں اس وقت بھی چمک رہی تھیں جب اسکی گردن ڈھلکی تھی۔ مرنے کے بعد اس کاچہرہ مسکرا رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو۔
موت کے پردے سے ہوتی نہیں تابندگی
اِس طرف بھی زندگی اُس طرف بھی زندگی
ایسے ہی واقعات اور کردار ناول میں بے شمار ہیں۔ جو قاری کی دلچسپی اور انہماک کو کسی مرحلے پر کم نہیں ہونے دیتے۔ عمر رسیدہ شاہ صاحب نے حزب المجاہدین کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے اعلان کیا کہ حزب المجاہدین ان تنظیموں سے بھی تعاون کرے گی جو اس عسکری اتحاد سے باہر رہیں گی۔ ہمارا نصب العین اسلام اور الحاق پاکستان ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ کشمیر پاکستان بنے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے ہمیں یقین ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔
بھارتی حکومت کے لیے کشمیر میں الیکشن کرانا دشوار ہو گیا۔ سرینگر میں ہر طرف ایک ہی نعرہ تھا۔ ’انتخابات نامنظور‘ اس نعرے پر مشتمل بینر جگہ جگہ لگے ہوئے تھے۔ زوبی کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ اسے ایک سو دو بخار تھا لیکن اس کے باوجود اس نے دور دور جا کر دیہاتی عورتوں کو پیغام دیا تھا کہ وہ پولنگ کے دن گھروں سے نہ نکلیں۔ کسی بھی نشان پر مہر لگانے کے لیے نہ جائیں کیونکہ انتخابی نشانوں میں کوئی نشان بھی اپنا نہیں۔ یہ جوش و خروش بھارت کئی ڈویژن فوج کشمیر بھیج کر بھی ختم نہیں کرا سکا۔ اور بھارت دنیا کو یہی باور کرانے میں لگا ہوا ہے کہ یہ سب پاکستان کا کیا دھرا ہے۔ لیکن اب دنیا ان سے ثبوت بھی مانگ رہی ہے۔ پاکستان دہشت گردوں کو تربیت دے رہا تو بھارت نے کسی کو گرفتار بھی کیا۔ کشمیر ایشو کے ہر پہلو کو ’سلگتے چنار‘ میں بہت خوبی سے اجاگر کیا گیا ہے۔ یہی ناصر بیگ چغتائی کے قلم کا جادو اور موضوع سے بھرپور انصاف ہے۔ کشمیر اور وہاں کے عوام کی جد و جہد کو جاننے کے لیے اس ناول کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ این بی سی نے تحریر کی جانب رُخ کر لیا ہے تو ان کے قلم سے ایسی مزید تحریروں کا قارئین کو انتظار رہے گا۔