پندرہ اگست حکومت پاکستان کی طرف سے یوم سیاہ کے طور پر منانے کے اعلان پر اہل پاکستان نے جو عمل درآمد کیا وہ قابل بیان نہیں تھا کہ سرکاری سطح پر تقریبات اور عوامی سطح پر پوں پاں کرتے ہوئے یوم سیاہ مناتے ہوئے بھارت کو ایک ’اسٹرانگ میسج ‘ دیا گیا کہ وہ کشمیر کی پرانی حیثیت بحال کرئے۔ موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر ون ویلنگ کرتے اورگاڑیوں میں نوجوان مرد و زن کی طرف سے باجے بجاتے ہوئے جو اسٹرانگ عوامی میسج مودی کو دیا گیا اس کے نتائج تو آنے والے کل میں ہی سامنے آئیں گے کہ مودی ہمارے اس عوامی ایکشن پر کس قدر خوفزدہ ہوا ہے کہ نہیں لیکن خوشی اس بار یہ بھی رہی کہ فیس بکی مجاہدین کی طرف سے روایتی جنگ کا آغاز نہیں کیا گیا۔ ’اس میسج کو اتنا شیئر کرو کہ مودی خود شرمندہ ہو کر کشمیر چھوڑ دے‘ جیسے میسج دیکھنے کو نہیں ملے تو اس کی وجہ وہ پہلا شخص ضرور ہے جو ایسا میسج لکھتا تھا اور مجاہدین فیس بک پھر ہر وال اور آئی ڈی سے اسے پھیلاتے ہوئے مودی کو شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔۔۔ اور سچ تو یہی ہے کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ بس اسی قدر تھے، ہیں اور شائد عوامی سطح پر اسی طرح ہی رہیں گے۔ ایسی سچائی پر ایک عام آدمی ضرور بھڑک کر اپنی جذباتیت دکھاتے ہوئے اپنے محب الوطن ہونے کا ثبوت دینے کی کوشش کرتا ہے اور چند جذباتی باتوں اور نعروں سے دوسروں کو مرغوب کرتے ہوئے سوال کرنے والے کو شرمندہ کرنے، بے ضمیر اور وطن دشمن بھی ثابت کرنے کی کوشش کر سکتا ہے لیکن کیا اس سے کشمیر اور کشمیریوں کی زندگی پر کوئی اثر پڑئے گا۔ ہم باتوں کی حد تک کشمیر کے مامے بن جاتے ہیں لیکن عالمی گاوں کی یہ زندگی ہم سے بہت سے سوالوں کے جواب چاہتی ہے اور ہم اپنی جذباتیت کے پردے میں چھپ کر سمجھتے ہیں کہ دنیا کو ہمارا وہی چہرہ دیکھنا چاہیے جو ہماری خواہش ہے ناں کہ ہمارا اصل چہرہ دنیا ہمیں دکھا کر شرمندہ کردے۔
جذبات کو ایک طرف رکھتے ہوئے بھارتی حالیہ اقدامات پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور کچھ سوالوں کے جواب سوچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یاد رہے کہ آج ہم حکومتی اقدامات اور بیانات سے پرے صرف اور صرف عام آدمی سے سوال کرنے اور جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے یہ بھی دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ عام پاکستانی کہاں کھڑا ہے۔
مودی سرکاری کی طرف سے آئین کے ایک آرٹیکل کو ختم کر دیا گیا اور ایسا کرنے کا وعدہ مودی نے اپنی الیکشن مہم میں کیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان کے مخالفین یعنی سوا نو کروڑ رجسٹرڈ اور تقریبا اتنے ہی نان رجسٹرڈ ووٹر پاکستانیوں کواپنے وزیر اعظم پر انگلی اٹھانے اور الزام لگانے کوجب کچھ نہیں ملتا تو وہ یہی کہتے ہیں کہ عمران خان نے اپنے انتخابی وعدے پورے نہیں کئے۔ ایسے ملک کے لوگوں کو خوش ہونا چاہیے کہ ان کے پڑوس میں مودی جی نے اپنے عوام سے ایک وعدہ کیا اور الیکشن جیتنے کے صرف ستر دن کے اندر وہ وعدہ پورا بھی کر دیا، اس پر بھی آپ کو نہ صرف اعتراض ہے بلکہ آپ مودی کو گالیاں بھی دے رہے ہیں۔
دوسری اہم بات کہ مودی نے پاکستان کے آئین میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے بلکہ اپنے ملک کے آئین کا ایک آرٹیکل ختم کیا ہے۔اب کیا عالمی گاوں میں ایسا ہو گا کہ ہم دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کریں گے کہ فلاں ملک اپنے آئین اور قانون کو ہماری خواہشات اور امنگوں کے مطابق ایسا تشکیل دے اور فلاں ملک ویسا تشکیل دے۔ کیوں بھئی۔۔۔ ہر ملک آزاد ہے تو اپنے آئین اور قانون کو اپنے لوگوں کے لیے بہتر انداز میں تشکیل دینے کا حق رکھتا ہے تو پھر آپ کس طرح سے اور کیوں اس کے مخالف ہیں۔ امریکہ دو سو سال میں اپنے آئین میں بمشکل پانچ ترامیم کر پاتا ہے لیکن ہم نے پچاس سال سے بھی کم عرصے میں پچیس کے قریب ترامیم کرتے ہوئے اپنے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا ہے تو کیا دنیا کے کسی ملک کی طرف سے ہمیں وارننگ ملی کہ نہیں جناب آپ اپنے آئین میں ایسی نہیں ویسی تبدیلی کریں کہ ہماری یہ خواہش ہے۔۔۔؟؟ ایسے میں ایک عام آدمی کے پاس کوئی بات نہیں رہ جاتی تو وہ جذباتی ہو کر نعرہ لگائے گا کہ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔۔۔ تو جناب حضرت قائد نے تو اور بھی بہت کچھ فرمایا تھا لیکن اس سب کا کیا ہوا۔ قائد کی آنکھیں بند ہونے کی دیر تھی کہ پچیس سال سے بھی کم عرصے میں ملک کے دو ٹکڑے کر دئیے اور اب پورے ملک میں کہیں زبان کہیں علاقہ اور کہیں کسی اور وجہ سے نفرت بھی بڑھ رہی ہے اور دیواریں بھی کھڑی ہو رہی ہیں، ان سب کا کیا۔۔۔؟؟ چلیں چھوڑیں کہ یہ ہمارے ملک کے اندر کی باتیں ہیں، بات ہو رہی ہے کشمیر ہماری شہ رگ ہے۔آپ آن لائن دنیا میں جتنے بھی عرصے سے ہیں، جناب اپنی دو نہیں صرف ایک سوشل میڈیا پوسٹ دیکھا دیں جو آپ نے بہترین انگریزی، جرمن، فرنچ، اطالوی، بنگالی، عربی یا کسی اور غیر ملکی زبان میں لکھی ہو جس میں دنیا کے سامنے کشمیر کا مسئلہ اور معاملہ پیش کرتے ہوئے اُن لوگوں کی ذہن سازی کی کوشش کی گئی تھی۔ یقینا ایک بھی نہیں ہے۔۔۔ کشمیر ڈے پر اردو میں لکھی پوسٹوں کا خود اچار ڈالیے کہ ان کی نہ مجھے ضرورت ہے اور دنیا کے پاس اتنا وقت کہ وہ آپ کی فضول فاروڈ پوسٹوں پر توجہ کرے۔ لاکھوں پاکستانی باہر کام کرتے ہیں، رہتے ہیں اور اب تو کئی ممالک میں پاکستانی وہاں کی شہریت لینے کے بعد الیکشن بھی لڑ رہے ہیں اور اقتدار کا حصہ بھی بن رہے ہیں۔ ایسے تمام پاکستانیوں کا کشمیر ڈے کے علاوہ کسی اور دن کا کوئی ایک احتجاج ہی ہمیں دکھا دیں جب مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے اور وہاں کی لوکل کمیونٹی کو قائل کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔۔۔ یقینا ایک بھی نہیں ہے۔
سوال بہت سادہ ہے کہ ایک عام پاکستانی اپنی ذاتی حیثیت میں کشمیریوں کے لیے کیا کر رہا ہے؟ کشمیر ڈے کے علاوہ کشمیر اور کشمیری اسی دن یاد آتے ہیں جب بھارتی وہاں قیامت برپا کر دیتے ہیں اور یہ یاد بھی چند پوسٹوں اور چائے خانوں پر بیٹھ کر بھارتیوں کو چند گالیوں تک محدود رہتی ہے۔ دنیا میں کون سا ملک سوشل میڈیائی پوسٹوں سے آزاد ہوا ہے۔۔۔؟؟ کہاںاخلاقی حمایت سے ظلم و ستم کم ہوئے ہیں اور زخموں پر مرحم کا کام ہوا ہے۔ جذباتی نعروں اور جوشیلی تقریروں سے آپ کشمیریوں کے مامے تو بنتے ہیں لیکن مجھے تو لگتا ہے کہ آپ کشمیریوں کو ماموں بنا رہے ہیں، آخر زبانی کلامی ساتھ کب تک چلے گا؟ خدارا کچھ عملی اقدامات کیجئے، سب کچھ حکومتوں پر نہیں چھوڑا جاتا۔ بائیس کروڑ پاکستانی دنیا کی ایک ارب سے زائد آبادی کے ساتھ رابطے میں ہیں تو اس کا کشمیر کو کوئی فائدہ دیجئے، خود کو ان مظلوموں کی جگہ رکھ کر سوچیں اور اخلاقی حمایت کا اچار ڈالنا اب بند کریں۔ذمہ داری اٹھائے اور جواب دیجئے، آخر آپ محب الوطن ہیں اور اپنی جذباتی تقریروں اور جوشیلے نعروں سے پوری دنیا کے مسلمانوں سمیت کشمیریوں کے مامے بھی تو آپ ہی بنتے ہیں۔
ادارہ کا مصنف کی رائے سے اتفاق ضروری نہیں۔