پھولے ہوئے پیٹ اور سوجے ہوئے چہرے کا مالک کانجی اپنی پتلی پتلی ٹانگوں پر پورے جسم کا زور لگا کر کھڑا ہوا۔ چارپائی کے پائے پکڑ کر اس نے گردن اپنی ماں کی طرف موڑ کر دیکھا۔ حاجرہ نے اپنے دنداسہ کیے ہوئے دانتوں پر دوپٹے کا کونا پھیرا اور سر پر پلو سیدھا کرتی ہوئی باہر نکل گئی۔ کانجی کے باریک ہونٹ کھلے اور بغیر آواز کیے ایک لمبی سی سسکی اس کے حلق سے نکل گئی۔ حاجرہ اس بار مستقل طور پر کانجی کو اپنے جیٹھ کے صحن میں بے آسرا چھوڑ کر جا چکی تھی۔ اس کا باپ نشے میں دھت کسی فٹ پاتھ پر پڑا اپنے بازو کی نسوں میں سرنج لگا کر بے سدھ پڑا تھا اور ماں کڑوی کسیلی دوائی جیسے بچے کو پالنے سے قاصر تھی۔ آنسوؤں کی لکیریں کانجی کے گالوں پر اپنے نشان چھوڑ گئی تھیں اور وہ زمین پر بیٹھا دروازے سے باہر دیکھنے لگا تھا۔ اس کے تینوں بچے غذائی قلت کا شکار تھے اسی لیے ان کی نشوونما عام بچوں جیسی نہیں تھی۔ ان کے قد کاٹھ اپنی عمر سے کہیں درجہ کم تھے، پیٹ باہر کو نکلے ہوئے اور جسم ماس بوٹی سے عاری تھے۔ گھر میں اگی ہوئی غربت اور مفلسی نے بھی انہیں پنپنے نہیں دیا تھا۔ کانجی آٹھ سال کی عمر میں بھی دو سال کا ہمکتا ہوا بچہ لگتا تھا جس کی ناک سُڑک سُڑک بہتی تھی اور وہ اپنے بازو سے اسے رگڑتا ہوا پونچھتا رہتا تھا۔
حاجرہ جب فیاض کے گھر شادی کر کے آئی تھی تو حالات ایسے دگرگوں نہ تھے۔ فیضو مزدوری کرکے لاتا اور حاجرہ ایک کمرے کے مکان کو صاف ستھرا کرکے اس کا انتظار کرتی۔ پھر اوپر تلے چار بچوں کی پیدائش نے کمرہ بھر دیا اب سانس لینے کے لیے ہوا کی ضرورت تھی۔ چھوٹا لڑکا پیدائشی بیمار تھا، اس کا پیٹ دھونکنی کی طرح چلتا رہتا تھا سب کی نظریں اس کے پیٹ اور ہونٹوں پر ثبت ہو گئی تھیں۔ پھر ایک دن اس کا سانس اس زور سے چلا کہ اس نے سانس لینا ہی چھوڑ دیا۔ چلتی ہوئی سڑک کے آگے اچانک راستہ ختم ہو چکا تھا، حاجرہ کو معلوم تھا کہ باقی بچے بھی ایسے ہی کسی دن سڑک کا آخری کونہ ثابت ہوں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا اور کمرہ بچوں سے خالی ہونے لگا۔ بیماری نے کرایے کے گھر کا یہ کمرہ متعفن کر دیا تھا۔ ’’حاجو! نی حاجو!۔۔۔۔ جاگدی ایں۔‘‘ فیضو کی نشے میں ڈوبی آواز سن کر حاجرہ کروٹ بدلتی اور چارپائی چوں کی آوازیں نکالتے ہوئے کرلانے لگتی۔ کانجی کی آنکھیں دودھیا اندھیرے میں چمک اٹھتیں جیسے کسی سنسنان پگڈنڈی پر رات کے وقت بھیڑیوں کی آنکھیں حرکت کرتی ہیں، وہ بھی ماں کے پیٹ سے ٹیک ہٹا کر گردن کھڑی کر کے باپ کو دیکھنے کی کوشش کرتا۔ فیضو نشے کی حالت میں سیمنٹ کے فرش پر اوندھے منہ گر کر سوجاتا اور سویرا ہوتے ہی اس کے ماں باپ رنڈی اور تماش بین کی طرح لڑتے ہوئے گتھم گتھا ہو کر بڑے بڑے سانس لینے لگتے۔ کانجی گیلی آنکھیں پونچھتے ہوئے گھٹنوں کے بل اپنے جسم کو رگڑتا ہوا دروازے سے باہر جا کر بیٹھ جاتا۔ بنا آواز کے روتا ہوا کانجی کا منہ، دیکھنے والوں کو بہت عجیب سا معلوم ہوتا تھا جیسے اچانک گاڑی کا ہارن بجتے بجتے بند ہو جائے۔
حاجرہ نے تنگ آکر پرائیویٹ ہسپتال میں آیا کی نوکری کر لی تھی، فیضو کئی کئی دن گھر سے غائب رہنے لگا تھا، حاجرہ کام پر چلی جاتی اورکانجی سارا دن گھر سے باہر گندے نالے کے کنارے بیٹھا رہتا۔ کسی کے گھر سے روٹی کا ٹکڑا مل جاتا تو کبھی کوئی راہ گیر ہاتھ میں بسکٹ پکڑا دیتا۔ حاجرہ کو ہسپتال میں کام پر جاتے ہوئے سات مہینے ہو گئے تھے اسے خود کو سنوارنا بنانا آگیا تھا۔ مانگے تانگے کے کپڑے بھی اس پر جچنے لگے تھے، سرمہ لگی آنکھیں اور دنداسہ کیے دانت اس کے سانولے رنگ کو سنہرا کردیتے تھے۔ فیضو کے لیے وہ کچے اخروٹ کے دنداسے کی طرح کڑوی اور کسیلی تھی۔ باہر والوں کے لیے وہ کیکر کے داندسے جیسی ہونے لگی تھی جسے پانی میں رکھو تو وہ رنگ چھوڑنے لگتا ہے۔ بالوں کی مانگ نکال کر سر کی پٹیاں بناتے ہوئے وہ شیشہ دیکھتی تو کانجی اپنی دونوں ہتھیلیوں کو ملنے لگتا۔ وہ اس کی گود میں چڑھنے کے داؤ پیچ سوچتا رہ جاتا اور حاجرہ آندھی طوفان کی طرح باہر کو دوڑ لگا دیتی۔ کانجی کو جب کبھی اپنی ماں پر پیار آتا وہ اپنے پلپلے ہونٹ اس کے گالوں پر چپکا دیتا اور منہ سے اُوووو کی آوازیں نکالتے ہوئے اسے اپنے بازوؤں میں بھینچ لیتا لیکن یہ پیار مہینوں گزر جانے کے بعد ایک بار نصیب ہوتا تھا۔
حاجرہ زچہ بچہ وارڈ میں پکی پیڈھی دائیوں کی طرح نئی نویلی ماؤں کو طبی مشورے دیتی۔ خون اور پیشاب سے سنی ہوئی ٹوکریوں کی بدبو اب اس کے لیے معنی نہیں رکھتی تھی۔ مریضوں کے بستر وںکی سفید چادریں بدلتے ہوئے وہ نظر رکھتی کہ کہیں کوئی چیزیا روپیہ پڑا ہوا مل جائے تو وہ فوراً اپنے گریبان میں اڑس لے۔ وہ کہنہ مشق آیا بننے کے چکرمیں اپنے مرے ہوئے بچوں کے ساتھ کانجی کو بھی بھولنے لگی تھی جو سارا دن کچرے کے ڈبے کی طرح گلیوں میں ٹھوکریں کھاتا رہتا تھا۔ اس دن بھی خاصی گرمی تھی جب کانجی ننگ دھڑنگ دوسری گلی کے نکڑ والے مکان کے ریمپ پر سیدھا لیٹا تھا۔ اس کے منہ سے رالیں نکل رہی تھیں اور آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں۔ سانس دھونکنی کی مانند چل رہا تھا وہ کبھی ایک کروٹ بدلتا اور کبھی دوسری کروٹ بدل کر سونے کی کوشش کرتا۔ شکرِ دوپہرکا وقت تھا اور مکھیاں اس کے پسینے سے تر جسم سے چمٹی ہوئی تھیں۔ سر کے بال بھی کئی دن سے دھوئے نہ گئے تھے اس لیے گٹے پر لپٹے شیرے کی طرح چپکے پڑے تھے۔ ساتھ والے مکان کی سیڑھیوں کا دروازہ کھلا اور پندرہ سولہ سال کے دو لڑکے نیچے اتر کر آئے، راستے میں پڑے کانجی کو دیکھ کر وہ دونوں ٹھٹک گئے۔ وہ نیم بے ہوشی کے عالم میں اپنے بازو سے ناک رگڑ رہا تھا اور مکھیاں اس کے چہرے پر جمے لعاب پر بیٹھی تھیں۔ دونوں لڑکوں نے کانجی کے جسم کو جوتوں کی نوک سے ٹٹولا، سانس دھونکنی کی مانند چل رہی تھی۔ شرارتی لڑکے اس کے جسم سے کھیل رہے تھے اور وہ بنا آواز کیے رونے پر مجبور تھا۔ اگر اس وقت گلی کا آوارہ ٹامی نہ آتا تو کانجی گھڑے میں پڑے رنگین پانی کی طرح کھٹاس چھوڑ چکا ہوتا۔
’’ چائے گرم۔۔۔۔۔گرما گرم‘‘۔ وارڈ بوائے نے کمرے کے باہر کھڑے ہو کر ہولے سے ہانک لگائی، وہ کن انکھیوں سے حاجرہ کو دیکھ رہا تھا۔ اس نے انگلی ہونٹوں پر جماتے ہوئے ش۔۔۔۔ی ی ی ی ی کہا۔ اب وہ کمرے سے باہر تھی۔ وارڈ بوائے خورشید کی بیوی مرچکی تھی اور اس کے بچے سیانے ہو گئے تھے لیکن اس کے کمرے کی سیلن پلنگ کی پائنتی سے سرہانے کو چڑھنے لگی تھی۔ حاجرہ کو خورشید سے زیادہ اس کے گھر میں دلچسپی تھی جس میں کمرے ہی کمرے تھے اور درمیان میں ایک بڑا سا صحن تھا۔ وہ جب بھی ٹیرس پر کھڑا اسے اپنے گھر کے نقشے سمجھاتا وہ اپنی لٹیں گھماتے گھماتے خواب دیکھنے لگتی۔ مگر اس سب میں کانجی کہیں نہیں تھا۔
ماں کا سینہ چاہت سے خالی ہو رہا تھا جیسے گھڑے میں پڑے پانی کی مقدار کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ ’’کتا ! مریندا وی نیئں‘‘۔ وہ اپنا غصہ کانجی پر اتارتی تو وہ خشک حلق لیے اس کی ٹانگوں سے چمٹ جاتا۔ ان دنوں فیضو کا کچھ پتہ نہیں تھا کہ وہ زندہ بھی ہے یا مر گیا۔ بس کانجی گہرے گہرے سانس لیتا تھا جس پر حاجرہ اسے تمباکو کی چٹکی چٹانا شروع ہو گئی تھی۔ شروع شروع میں تو وہ منہ بسورتا اور رال ٹپکاتے ہوئے سارا مسالہ تھوک دیتا۔ حاجرہ مکیوں سے اس کی کمر چھلنی کر دیتی تو وہ پھر منہ کھول دیتا۔ اس دن بھی وہ کانجی کو ذدوکوب کرتے ہوئے ہسپتال کے لیے نکل چکی تھی، وہ ماں کے پیچھے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا گلی سے باہر نکلا اور پھر سڑک کے کنارے بیٹھ گیا۔ آتے جاتے لوگ اس پر ترس کھا رہے تھے، کسی نے اسے پچکارتے ہوئے گود اٹھایا تو اس نے انگلی سے سڑک کے پار جانے کا اشارہ دے دیا۔
کانجی کو گھر سے غائب ہوئے دس دن ہو چکے تھے، حاجرہ روزانہ اپنے جیٹھ کا دروازہ پیٹنے جاتی اور خوب واویلا مچا کر واپس ہو لیتی۔ اس کی چیخ و پکار ایسے ہی تھی جیسے وینٹی لیٹر پر لیٹا مریض، مصنوعی سانسیں لیتا بے جان جسم جو کسی بھی وقت کفن پہن سکتا ہے۔ وہ خالی کمرہ چھوڑ کر اپنی ماں کے گھر چلی گئی تھی، اس کے دنداسہ لگے دانت اور پٹیوں میں بٹے ہوئے بال مزید چمکنے لگے تھے۔ راوی کے کنارے آباد جھگیوں میں سے ایک جھگی چیتھڑوں سے ڈھکی ہوئی تھی، اس کے دروازے کے باہر بچھی چارپائی کی پائنتی پر کانجی بیٹھا تھا۔ اس کے نچلے دھڑ پر ویل کے کپڑے کا جانگیا تھا جو اس کی ستر پوشی کرنے کے لیے کافی تھا۔اس کا پھولا ہوا ننگا پیٹ اور دھونکنی کی طرح چلتا ہوا سانس پانی سے باہر پڑی ہوئی وہیل مچھلی کی طرح لگ رہاتھا۔ جھگی سے نکل کر باہر آتی کالی کلوٹی عورت نے اسے اپنی کمر میں اڑسا اور چادر کی بکل مار کر سڑک پر آگئی۔ سڑک کے دونوں اطراف میں ٹریفک کا اژدھام تھا اور وہ اس کلوٹی کی گود میں ہاتھ میں کٹورا پکڑے خالی منہ کھولے بنا آواز کیے رو رہا تھا۔ آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں اور ناک سُڑک سُڑک بہہ رہی تھی۔’’او! دے دے سخیا!۔۔۔ تیرے بچے جیون۔۔۔ تیری جوڑی سلامت روے۔‘‘ کلوٹی نے ہانک لگائی۔ اچانک کانجی کی نظریں ٹریفک میں پھنسی موٹرسائیکل پر جم گئیں۔ اس کے منہ سے اُووووو کی آوازنکلی جو رش میں دب گئی تھی۔ موٹرسائیکل رش میں آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی، جس کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی عورت کے دنداسہ ہوئے دانت خوب چمک رہے تھے اورتیل کے بعد کنگھی کیے ہوئے بالوں پر سجی مانگ سڑک کی طرح سیدھی جمی تھی۔ کانجی بازوؤں کازور لگا کر اٹھنے کی کوشش کرنے لگا جیسے ابھی ہوا میں اڑ جائے گا۔ اس کے منہ سے جھاگ اڑنے لگی تھی وہ دربار کے احاطے میں بجنے والے ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ملنگ کی طرح فقیرنی کی بانہوں میں جھولنے لگا تھا۔ ’’او کسے نوچی دیا بچیا۔۔۔ تو مریندا وی نئیں۔‘‘ کلوٹی نے بنا آواز کے روتے کانجی کے چوہتڑ پر چٹکی کاٹ کر اسے اپنی چوکڑی میں جکڑ لیا۔ موٹر سائیکل آگے بڑھ گئی تھی، کانجی کے منہ سے آخری بار لمبی سی اُوووو کی آواز نکلی۔ مٹی کے گھڑے میں پڑا رنگین پانی کھٹاس مار گیا تھا۔