میری یادداشت کے مطابق پاکستان میں کبھی بھی جمہور اور جمہوریت پر اچھا وقت نہیں آیا اور اگر آیا بھی تو آج کسی کو یاد نہیں۔ اگرچہ جمہور کسی حد تک ایوب خان کے زمانے کو یاد کرتی ہے اور بھٹو صاحب کے دور حکومت کو بھی نعروں وغیرہ سے قبولیت کی سند مل ہی جاتی ہے لیکن اس کے بعد جمہور کی یاداشت میں کوئی اچھا دور موجود نہیں۔ دوسری طرف بات اگر جمہوریت کی ہو تو پاکستان کے ستر سالوں میں جمہوریت ہمیشہ خطرے میں ہی رہی ہے۔ جمہوریت پسندوں کے بقول جب بھی جمہوریت کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا، کسی حاسد کی نظر اور کسی اپنے کا شب خون اس کے چہرے کا حسن گہنا دیتا۔ پچھلے کچھ سالوں میں تو جمہوریت ہوتے ہوئے بھی ملک میں جمہوریت خطرے میں رہی۔ کبھی کسی امپائر کی انگلی اٹھنے کا ڈر تو کبھی کسی خلائی مخلوق سے جمہوریت کو سہم جانے پر مجبور کر دیا گیا۔ ہمارے جمہوری راہنما جانے کس مصلحت یا مجبوری کے تحت یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ امپائر اور خلائی مخلوق دراصل ہے کیا اور کون لوگ یہ کردار ادا کر رہے ہیں لیکن آمروں اور آمریت کا ذکر ان کی تقاریر میں بکثرت ملتا ہے۔ بھٹو صاحب کے علاوہ پاکستان میں آمرفوجی ہی رہے ہیں اس لیے جمہوریت پسند کثرت سے یہ کہتے اور پوچھتے پائے جاتے ہیں کہ فوج کا کام ملک کی حفاظت کرنا ہے، اسے اپنی بیرکوں میں رہنا چاہیے اور شہروں کا رخ نہیں کرنا چاہیے۔ فوج آخر اپنے کام سے کام کیوں نہیں رکھتی۔ ۔ ۔ ؟؟
اگرچہ میں اپنی سوچ میں بہت زیادہ جمہوریت پسند نہیں ہوں اور جیسا کہ اکثر پاکستانی بھی اپنے گھروں کے فیصلوں سے لے کر کاروباری معاملات تک بہت سی جگہوں پر آمرانہ کردار ادا کرتے نظر ہیں، لیکن چلیں آج ہم آپ سے اتفاق کرتے ہیں کہ ملک چلانا فوج کا کام نہیں ہے، جمہوریت اور اس کے کاموں میں مداخلت کرنا بھی فوج کا کام نہیں ہے۔ سیاسی معاملات اور شہروں سے فوج کو دور رہنا چاہیے بلکہ ہر صورت اپنی بیرکوں تک محدود رہنا چاہیے باالفاظ دیگر اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے اور سیاسی، جمہوری اور عوامی اداروں کو ان کا کام کرنے دینا چاہئے۔ اس خوبصورت بیانئے پر اتفاق کرنے کے بعدہم چند دن پیچھے چلتے ہیں جب ملک میں مون سون کی بارشیں شروع ہوئیں اور پہلے ہی جھٹکے میں سارا کراچی ڈوب گیا۔ کیوں ڈوب گیا یہ الگ بحث ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جب کراچی ڈوب گیا تو کہیں کوئی سیاسی، جمہوری یا عوامی ادارہ عوام کی داد رسی کے لیے موجود تھا۔ ۔ ۔ ؟؟ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ کچرہ اٹھانا اور نالیوں کی صفائی ان کا نہیں بلکہ بلدیاتی اداروں کاکام ہے۔ دوسری طرف کے ایم سی کے کرتا دھرتا میئر کراچی نے ایک روتی دھوتی پریس کانفرنس کر کے اپنی ذمہ داری سے ہاتھ اٹھا دئیے اور شہر کے لوگوں کو ان کے خالق اور مالک کے آسرے پر چھوڑ دیا۔ بات تو بس اتنی سی ہے کہ نہ خالق کا ابھی کوئی عذاب آیا ہے اور نہ مخلوق پر کوئی آفت یا تباہی نازل ہوئی ہے، یہ تو بس چند گھنٹے کی بارش تھی جس نے سمندر کے سامنے بسے ہوئے شہر کو بھی سمندر میں بدل دیا تھا۔ سارا سال لوگوں نے لاپرواہی برتی، اپنا گند اور کچرہ سڑکوں نالیوں اور نالوں میں سجاتے رہے۔ کچرہ کنڈیوں کی صفائی کا انتظام کرنے کے بجائے ناک پر رومال رکھ کر پاس سے گزر جاتے رہے یا اوہ ہو کہتے ہوئے اپنے صفائی پسندہونے کی دوسروں کو اطلاع دیتے رہے۔ بارشوں کا موسم شروع ہونے کا پتہ ہونے کے باوجود نہ تو صفائی اور نکاسی کے انتظامات کا جائزہ لیا گیا اور نہ ہی کوئی پیشگی احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں۔ نتیجے میں چند گھنٹوں کی بارش نے برسوں کی سیاسی، عوامی اور جمہوری اداروں اور حکومتوںکی کارکردگی کا پول کھول دیا۔ اس کے بعد کی کہانی بڑی روایتی سی ہے۔ کمر اور سینے تک موجود گندے پانیوں میں خلائی مخلوق اترنے لگتی۔ امپائر کا اشارہ ہوتے ہی اس کی ساری ٹیم اپنے سازوسامان کے ساتھ آن موجودہوتی ہے۔ آمر لوگوں کے چہروں کو دیکھتا ہے تو پھر اس کے جوان اپنی وردی کی عزت اور وقار کا خیال کرنے کے بجائے لوگوں کی زندگیوں کا خیال کرنے لگ جاتے ہیں۔ ایسے میں کسی سیاست دان، کسی جمہوریت پسند، کسی فیس بکی دانشور اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کی طرف سے یہ آواز نہیں آئی کہ فوج اداروں کو ان کا کام کرنے دے اور اس میں مداخلت نہ کرئے۔ کوئی بھی شخص اس وقت فوج کو شہر سے نکالنے اور بیرکوں میں بھیجنے کی بات نہیں کر رہا۔ کسی فوجی جوان کے مدد کے لیے موجود ہاتھ کو کوئی نہیں ٹھکرا رہا کہ میں تو جمہوریت پسند ہوں اورمجھے صرف جمہوری اور سول اداروں سے ہی مدد چاہیے۔ آج کراچی میں اتری ہوئی خلائی مخلوق کے خلاف کوئی نہیں لکھ رہا۔ آج مدد اور امداد کے لیے ٹیمیں بھیجتے امپائروں کی انگلی پر کسی کو اعتراض نہیں اور آج کوئی جمہوری اور سول اداروں کی شان اور عظمت کے لیے رطب اللسان نہیں ہے۔ اس روایتی کہانی کا انجام بھی بڑا روایتی سا ہی رہے گا۔ پانی اترنے، شہر صاف ہوجانے اور حالات کے معمول پر آجانے کے بعد پھر سے جمہوریت پسندوں کو جمہوریت کا بخار چڑھنے لگے گا اور خلائی مخلوق جمہوریت کی دشمن قرار دی جانے لگی گی۔ امپائروں کے خلاف ہم اپنے اندر کا گند سامنے لانے لگیں گے اور یہ سب اگلی مون سون تک ایسے ہی چلے گا۔ اگلے مون سون میں ہم ایک بار پھر گندے پانیوں میں سینے تک ڈوبے خلائی مخلوق کے اترنے کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ پھر کسی امپائر کی انگلی کے منتظر ہوں گے اور یہ لوگ اپنی وردی کی عزت اور وقار سے پرے لوگوں کی مدد کے لیے موجود ہوں گے۔ یہاں کچھ ارسطو یہ بھی کہتے پائے جاتے ہیں کہ فوج کو تنخواہ دی جاتی ہے تو ان کا فرض ہے کہ وہ ہماری مدد کریں۔ ایسے سقراطوں سے عرض ہے کہ جب کوئی گندے پانیوں میں اتر کر سماجی مدد کرئے گا تو وہی گندے جمہوری نظام میں سیاسی مدد بھی کرنے پہنچ جائے گا۔
مون سون کی یہ بارشیں ہمارے بہت سے رویوں اور سوالوں کا جواب ہیں۔ یہ بتاتی ہیں کہ ہم سیاسی اور سماجی طور پر کتنے گندے لوگ ہیں۔ اپنے گھروں کا گند دروازے پر سجا کر بھی ہمیں شرم محسوس نہیں ہوتی۔ ہمارے سیاسی، سماجی اور معاشرتی گند کی وجہ سے ملک کے عوامی اور جمہوری ادارے اپنا کام احسن طریقے سے نہیں کر پاتے اور پھر معمول سے ہٹ کر لگنے والا ایک ہی جھٹکا سارے پول کھول دیتا ہے۔ تب سینے تک گندے پانیوں میں کھڑے ہم جمہوریت پر لعنت بھیج دیتے ہیں اور ہر ایک کو مدد کے لیے بلانے لگ جاتے ہیں۔ ہمیں ماننا چاہیے کہ ہم نے کبھی اپنے سیاسی، سماجی اور معاشرتی گند کو درست طریقے سے ٹھکانے نہیں لگایا، نہ ہم اس قابل ہیں اور نہ اس کوشش میں ہیں کہ کبھی ایسا کریں بھی۔ لیکن جب بھی ہم اپنے کام کرنے لگ گئے تو پھر نظام سیدھا ہو جائے گا اور خلائی مخلوق، امپائر اور آمربھی اپنے کام کے کام کرنے لگ جائیں گے۔