کچھ باتیں صاف صاف بیان کی جاسکتی ہیں۔ ان کے لیے ڈرامائی انداز اختیار کرنے اور لفاظی کی ضرور ت نہیں۔ واضح کردوں کہ یہ کوئی خوبصورت یا ادبی باتیں نہیں ہیں۔ یہ بد صورت مگر ضروری باتیں ہیں۔ تلخ حقیقت بیانی کے لئے باذوق طبائع سے معذرت۔
’’عورتیں غمِ روزگار کے ہاتھوں جبر اور استحصال کا شکار ہیں۔‘‘
یہ ایک تلخ سچ ہے۔ ہمیں حالات کی خرابی کا کچھ ادراک تو ہے لیکن اس کی سنگینی کا صحیح احساس نہیں۔ شاید ہم اس سطح پر سوچنے کے متحمل نہیں ہو سکتے یا خود کو دھوکے میں رکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ہاں چند عشرے پیشتر خواتین کے نوکری اختیار کرنے کو غیر ضروری بلکہ معیوب سمجھا جاتا تھا۔ گھریلو عورت ہونا اور گھرگر ہستی کے امور تک محدود رہنا معمول تھا اور باعث ِ شرم ہر گز نہ تھا۔ وقت اور حالات نے بتدریج کروٹ بدلی، معیار ِ زندگی اور حقوقِ نسواں کے تصّورات کو فروغ ملا جس کے نتیجے میں عورت نے عملی زندگی، معاش اور معاشرتی مقام کو اپنے روایتی کردار پر واضح فوقیت دینا چاہی۔ مردوں کے نظریات بھی تبدیل ہوتے گئے۔
کارپوریٹ کلچر نے بعض روایتی فکری انداز چھوڑنے کا مشورہ دے دیا اور تو اور خاندان کی بڑی بوڑھی عورتوں نے بہو بیٹی کی ڈگری اور تنخواہ کو خا ندان میں عزت کے معیار کے طور پر رائج کر دیا۔
حقوق نسواں کی تحریک اٹھی اور اب ’’آزادی‘‘ نے عورت کو ماتھے کے بالوں سے پکڑ رکھا ہے۔ ڈگری اور نوکری اس نئے سلیبس کے دو اہم فرائض ہیں۔ یہ اس کے رشتے میں بند ھنے کی ضروری شرائط ہیں ۔ہمارا تجربہ ہے کہ ملازمت اور ترقی کے امکانات حقیقی معنوں میں ہمیشہ محدود ہی ہوتے ہیں۔ ہمارا نظام تمام ڈگری یا فتگان کو محفوظ مستقبل یا مستقل روز گار کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ لاکھوں اعلیٰ تعلیم یافتہ بے روز گار لڑکیاں اچھے رشتوں کی بنیادی شرائط پوری کرنے کے لیے گھر کی دہلیز سے قدم باہر نکالتے ہی ’’منڈی‘‘ میں داخل ہو جاتی ہیں۔ ایک انار سو بیمار۔ ایک خالی آسامی کے لیے اوسطََ سو کے لگ بھگ امیدوار قطار بنائے ہاتھ باندھے حاضر ہو جاتے ہیں۔
’’صاحب‘‘ ہو یا ’’سیٹھ‘‘ یہ اپنے انتخاب میں کلی با اختیار ہوتے ہیں۔ یہ کامیاب لوگ کمزوروں کی پو زیشن سے فائدہ اُٹھانے کے فن میں یکتا ہو چکے ہوتے ہیں۔ نوکری دینے کی صورت میں چھوٹی موٹی ’’قربانی‘‘ مانگنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ شادی کے بعد یہ سلسلہ کسی نہ کسی صورت شادی شدہ لڑکیوں کے ساتھ بھی جاری رہتا ہے۔ کنٹریکٹ یا عارضی ملازمت ایک مستقل مشغلہ ہے۔
سماجی اور معاشی دباؤ کے تحت سسرال بہو کی نوکری کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ کچھ عرصہ تک اچھے نتائج کا مہذب انداز میں انتظار بھی کرتا ہے۔ پھر دھیرے دھیرے اصرار بڑھتا جاتا ہے۔ بہو غیر محفوظ محسوس کرنا شروع کر دیتی ہے۔ میکے والے بھی صورتِ حال کو بھانپ کر روٹی روزی کرنے کی تلقین شروع کر دیتے ہیں۔ یہ سارے بوجھ اعصاب پر اٹھائے آزاد اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی پہلے روائتی اور موزوں روزگار کے امکانات تلاش کرتی رہتی ہے اور پھر کسی کمزور لمحے میں کسی مشکل فیصلے پر پہنچ کر اپنے لیے کام ’ڈھونڈ‘ ہی لیتی ہے۔
حاصل گفتگو یہ ہے کہ عورتوں کو کام کی اجازت دیں۔ ان کی مناسب حوصلہ افزائی بھی کریں لیکن کبھی بھی ان کو مجبور نہ کریں۔ سیٹھ اور صاحب لوگ خدا کا خوف کریں۔
مصنف کی کتاب ’سوچ سرائے‘ سے۔۔۔
یہ بھی پرھیئے: ملازمت پیشہ عورت اور ہراسمنٹ کا آزار —— فارینہ الماس اور یہ بھی عورت کی نجات ۔۔۔ ملازمت یا گھر داری