ہم نہ جانے دن میں کتنی مرتبہ لفظ ”نہیں“ استعمال کرتے ہیں مگر نفی اور اثبات کے باہمی تعلق اور لفظ ”نہیں“ کے مسائل سے آگاہ نہیں۔ لفظ ”نہیں“ اگر تنہا ہو تو ایک خلاء، ایک سناٹا، ایک بھیانک خاموشی پیدا کرتا ہے، اس کے بعد اثبات آئے تو یہ سناٹا ختم ہوتا ہے۔ کلمہ طیبہ کے اول حصے پر غور کیجئے، ”لا“۔ یہ ”لا“ ہر قسم کے تصور کو مٹا دیتا ہے مگر اگلے حصے میں ”الا“ یعنی ”سوائے“ آ کر خلاء کو پر کر دیتا ہے، سناٹے کو مٹا دیتا ہے۔ مگر کیا صرف ”لا“، صرف ”نہیں“ وجود رکھ سکتا ہے؟ انسانی تاریخ کا مطالعہ اس بات کا جواب ”نہیں“ میں دیتا ہے۔ ہر جگہ، ہر تاریخی موڑ پر”نہیں“ کے بعد اثبات آیا ہے۔ اگر کچھ ”نہیں“ ہو گا تو لازماً کچھ ”ہو گا“۔ ”ہاں“ کا”نہیں“پر انحصار نہیں۔ ”ہاں“ تو تنہا رہ سکتا ہے مگر ”نہیں“ تو بس ”ہاں“ کے نہ ہونے کا نام ہے۔ یعنی ”نہیں“ کا اپنا وجود ہی نہیں۔ وہ بس ”ہاں“ کے عدم کو ظاہر کرتا ہے۔
بہت سے افراد ہر جملہ، ہر بات ”نہیں“ سے شروع کرتے ہیں۔ ان کے پاس آپ کے ہر جملے، ہر خیال، ہر تجربے کے لئے محض تردید ہی ہوتی ہے۔ مثلاً آپ کہتے ہیں کہ یار فلاں شے تو بہت اچھی ہے تو جواب آتا ہے ”نہیں۔ فلاں شے تو اس سے بھی بہتر ہے۔ “ آپ کہتے ہیں کہ ”فلاں شے بہت بری ہے“ تو جواب آتا ہے ”نہیں، فلاں شے تو اس سے بھی بری ہے“ یا ”نہیں، وہ شے تو بہت اچھی ہے۔ “
یہ پورا منظر نامہ دراصل ایک شدید نوع کے عدم تحفظ کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ”نہیں“ والے دراصل اپنی طرف آنے والے ہر خیال کو کرکٹ بال کی طرح سمجھتے ہیں جو ان کی وکٹ اڑانے آ رہی ہے۔ اب یہ اپنا ”نہیں“کا بلا سنبھال کر ہر آنے والے خیال پر چھکا مارنا چاہتے ہیں، رن بنانا چاہتے ہیں۔ یہ دراصل قلعہ بند ذہن ہے جو اپنے وجود کے باہر موجود دنیا کے ہر خیال کو اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ یہ ذہن اگر بہت بڑی جست لگائے گا تو ہر شے پر ہاں ہاں کرنے لگے گا۔ اس ذہنی منظر نامے میں یا تو قلعہ بندی ہے یا شکست ہے، دوسری کوئی صورت نہیں۔
خیالات کے رد و قبول کے اس عمل میں دراصل وہ انسان سب سے مناسب ذہن کو ظاہر کرتا ہے جو ہر خیال کا تجزیہ کر سکنے کی اہلیت رکھتا ہو اور خیالات کا ڈی این ای (DNA) ٹیسٹ کرنا جانتا ہو۔ جن افراد کو تاریخ انسانی نے جینئس قرار دیا ہے ان میں ایک بڑی اہم صلاحیت مشترک تھی اور وہ تھی ایک مربوط فلسفہ۔ جینئس ایک ایسا ذہن رکھتا ہے کہ جس سے وہ اپنی حیات اور کائنات کی تشریحات کرنے کی اور ایسی تشریحات کرنے کی جن میں باہم تضاد نہ ہو، اہلیت رکھتا ہے۔ جینئس نہ تو مجسم”نہیں“ہوا کرتا ہے نہ ہی مجسم اثبات۔ وہ ایک فکری نظام کے ذریعے ”ہاں“ یا”نہیں“کرتا ہے۔ اس کے برخلاف جب ہر چیز کو بغیر سمجھے نفی در نفی کا چکر چل رہا ہو تو مطلب یہ ہے کہ دراصل اپنی انا کے بت کا اثبات ہو رہا ہے اور یہ”نہیں نہیں“دراصل غیر محفوظ اور لولی لنگڑی انا کی پرستش کا ورد ہے۔
”نہیں“ نہ اپنی نہاد میں اچھا ہے نہ ہی برا۔ اس کی قدر بس اس سے ہی متعین ہوتی ہے کہ اس کے بعد ہاں کس چیز کے لئے آتا ہے۔ ”لا“ کے بعد ”الا“ آنا چاہئے ورنہ لا اتنا بڑا خلاء پیدا کرتا ہے کہ وہ نفی کا گیت گانے والے کو نگل لیتا ہے۔ خیالات سے بھاگنے میں خیر نہیں، ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کر کے ان کے کباڑ کو پھینک کر کارآمد کو خود میں جذب کرنے میں ہی فلاح ہے۔ آئیے کوئی اصولِ فکر اختیار کریں اور پھر نفی یا اثبات کریں۔ نہ مطلق نفی نہ مطلق اثبات۔ خودی کی نفی، حق کا اثبات۔ خود کی نفی، خدا کا اثبات۔