حکومت کی طرف سے حالیہ ٹیکسوں کے نفاذ, اس پر تاجر برادری کی ہڑتال اور اپوزیشن و میڈیا ہاوسز کی ہاہاکار سے قطع نظر اگر غور کیا جائے تو یہ مانے بنا چارہ نہیں کہ ہماری معیشت کا بیرونی قرضوں کے بنا سانس لینا محال ہے۔ اور قرض دینے والے کا آپ سے قرض کی واپسی کے لئے گارنٹیاں مانگنا کوئی غیرقانونی یا غیر اخلاقی بات بھی نہیں ہے۔ ہاں اسکا کھلے بندوں اظہار اور عوام کو آگاہ کرنا خطرناک ضرور ہے۔ وسائل و تجارت نہ ہونے کی وجہ سے لے دے کے حکومت کے پاس دو تین راستے ہی بچتے ہیں کہ وہ قرض کی واپسی کے لئے رقم کے بندوبست بارے ان اقدامات کی یقین دہانی ہی نہ کرائے بلکہ فوری اقدامات بھی اٹھائے۔ اول محصولات کے لئے ٹیکسوں کا نفاذ و اضافہ، دوئم یوٹیلٹیز کی قیمتوں میں اضافہ، سوئم غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی۔
بدقسمتی سے پچھلی کچھ دہائیوں سے آئی ایم ایف ہماری سب حکومتوں کا میجر انویسٹر رہا ہے جسکے پاس پیسہ ہی نہیں بازو موڑنے کا گر بھی ہے۔ لیکن وہ کام پس پردہ رہ کر کرتا ہے ورنہ حکومتوں کا عوامی و خود مختار ہونا مشکوک ہو کر انہیں عوام میں ڈسکریڈٹ کر دیتا ہے۔ یہ معاشی غلامی بھی شخصی غلامی ہی کی ایک بگڑی ہوئ شکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تقریبأ ہر دور حکومت میں عالمی مالیاتی اداروں کو پاکستان اور اسکی عوام سے ہمدردی کا مروڑ اٹھتا ہے اور وہ حکومت وقت پر براہ راست یا بالواسطہ قرصْ لینے کے لئے دباو ڈالتے ہیں اور مربوط تجارت کے ذریعے ایسے حالات پیدا کرتے ہیں کہ قرض ناگزیر نظر آتا ہے۔ ہر نئی حکومت خزانہ خالی ہونے اور فوری عالمی ادائیگیوں مین مشکلات کا رونا رو کر ایک طرف ٹیکسوں کا نفاذ اور قیمتوں مین اصْافہ کرتی ہے تو دوسری طرف سودی نظام میں خود کو جکڑا پاکر نیا قرض لینے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ اور ہر قرض لینے والی سیاسی پارٹی بطور آپوزیشن حکومت میں آنے سے پہلے اور حکومت چھن جانے کے بعد عوامی ہمدردی میں قرض کے لین دین پر سیاست کرتی ہے۔
تاجر طبقہ تو ہے ہی چھوٹا آی ایم ایف ہے جو ہر دور حکومت میں بالعموم اور جب قانون کی عملداری نہ ہو اور عدالت کمزور (جیسا پاکستان میں الحمدللہ شروع سے ہے) بالخصوص لوٹ گھسوٹ میں شامل رہتا ہے۔ اب بھی انہیں عام آدمی سے قطعی ہمدردی نہیں۔ وہ تو عوام سے سیلز ٹیکس وصول کر کے حکومت کو دینے پر راصْی نہیں۔ ایف بی آر کی طرف سے تاجروں پر ڈاکومینٹیشن کے اطلاق کا نقصان عام آدمی کی بجائے ان تمام تاجروں کو ہے جو ٹیکس چوری کے مرتکب ہیں۔ اور اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو تاجروں کی 99 فیصد اکثریت اس کار خیر میں شریک ہے یہی وجہ ہے کہ وہ کمائ بند کر کے ہڑتال کرنے پر مائل ہیں۔
عام آدمی جسکے شعور کی آنکھ پر جہالت کی پٹی بندھی اور جسکی جبلت اسکے پیٹ کے تابع ہے بہت آسانی سے دھوکہ کھا جاتا ہے۔ عام آدمی کے پاس ان علاقائ اور عالمی سود خور جونکوں کو نجات دہندہ سمجھ کر انکے بچھائے جال میں پھنسنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہے نہ بچ نکلنے کا اختیار۔
رہے ہمارے دانشور اور سیاسی لیڈر تو کچھ پورا ادراک نہیں رکھتے اور جو ادراک رکھتے ہیں وہ عالمی سامراج کے پے رول پر ہیں۔ افسوس کہ اس غریب ملک اور اسکی ننگی بھوکی عوام کو باشعور و باضممیر لیڈرشپ نہیں مل پائی۔
آخری بات – ایسا بھی نہیں کہ عالمی ساہوکاروں کا واحد ہدف پاکستان ہے۔ بلکہ تقریبأ تمام ترقی پذیر و پسماندہ ممالک انکے نرغے میں ہیں۔ اور ایسا بھی نہیں کہ کوئ انکی ان بہیمانہ چالوں سے بچ نہ نکلا ہو۔ ترکی سمیت دنیا کے کئی ممالک کامیابی سے عالمی قرصْوں کی لعنت سے چھٹکارا پا چکے ہیں لیکن وہاں عوام با شعور اور دانشور و لیڈر مخلص تھے۔
پر ہماری منتخب و چنتخب حکومتوں کو تو قرصْ کی شراب پی کر مستی میں جھومنا ہوتا ہے۔ میگا پراجیکٹس پر افتتاحی تختیاں لگانا ہوتی ہیں تاکہ عوام کو مہنگے لائف اسٹائل کا جھانسہ دے کر ووٹ بنک بڑھا سکیں۔ سو ملکی خزانہ پر بوجھ ڈالتے انکم سپورٹ فنڈز اور میٹرو ٹائپ کے سبسیڈائزڈ منصوبے بنانا ہوتے ہیں۔ عوام کو مرغوں, بٹیروں اور کتوں کی طرح آپس میں لڑا کر تماشا دیکھنا ہوتا ہے۔