ایک زمانہ تھا جب میں نے اور میرے دوستوں نے سیاست پر بات کرنا شروع کی۔ ہم سب دوست میٹرک کرچکے تھے یہ میٹرک میں ہوں گے۔ اخبار اور PTV واحد ذریعہ تھا خبروں پر رسائی کا۔ انصار عباسی جیسے صحافی جو میرے سکول سے نکلے تھے ہمارے پسندیدہ صحافی تھے۔ حامد میر تو ہر دل عزیز۔ جرت اور بہادری کا نشان سمجھے جاتے تھے۔ مجیب شامی کی تو بات ہی الگ تھی۔ غرض یہ کہ یہ تمام ہمارے ہیرو تھے اور خاص کر طلعت حسین وہ تو آئیڈیل تھے سب کے۔ ان کا بولنے کا انداز، لکھنے کا انداز اور سچ کے ساتھ۔ طلعت صاحب انتہائی غیر جانبدار صحافی تھے۔ میری ماں کہتی تھی کاش میرا بھی طلعت جیسا بیٹا ہوتا۔
پھر وقت گزرتا گیا اور ہم ان سب کو پڑھتے پڑھتے بڑے ہو گے۔ ہم نے نواز شریف، بینظیر کے تمام ادوار انہی تمام صحافیوں کو پڑھتے اور سنتے گزارے۔ وقت بہت تیزی سے گزرا اور پھر ہم نے ان سب کو پرائیویٹ چینلز پر دیکھنا شروع کر دیا۔ ان میں کچھ صحافیوں کا اضافہ بھی ہو گیا۔ جن میں سر فہرست جاوید چوہدری تھے- ان کا پروگرام ہم سب شوق سے دیکھتے تھے۔ ان سب کو دیکھتے دیکھتے ہم نے مشرف کا زمانہ گزار دیا۔ ہارون رشید سب نے ایک دن کہا کہ "الله اس وقت تک دنیا سے بندے کو نہیں اٹھاتا جب تک اس کا باطن ظاہر نہ کر دے”۔ بس یہ بات سچ ثابت ہوئی۔
پرنٹ میڈیا کا سب سے زیادہ فائدہ ان صحافیوں نے جو اٹھایا وہ یہ کہ اگر ان کی تحریر پڑھ کر کچھ سوال ہمارے ذہنوں میں پیدا ہوتے وہ ان سے کیے نہ جا سکتے اور اگر ان کا کچھ جھول یا جھوٹ سامنے آجاتا تو وہ بھی ہم کسی کو نہ بتا پاتے۔ کئی مرتبہ غصہ بھی آتا تھا لیکن کیا کرتے یہ تو ہمارے ہیرو تھے۔
پھر سوشل میڈیا کا زمانہ آیا اور ہم جیسے لوگ جو کمپیوٹر پروفیشنل تھے بہت جلدی اپنایا- سوشل میڈیا نے ہمیں سوال کرنے کی اجازت دے دی اور غصہ نکلنے کی بھی- ہم نے سوشل میڈیا کو بھرپور استعمال کیا مشرف کے خلاف اس دور میں ہمارا وقت یا کام پر یا شوشل میڈیا پر اپنے ہیروز کے پروگرام پروجیکٹ کرنے میں گزر جاتے- نہ کھانے کا ہوش نہ کوئی اور ہوش- سارا غصّہ سوشل میڈیا میں مشرف ، امریکی ڈرون حملوں ، TTP کے خلاف اور عدلیہ تحریک کا حق میں نکلتا-
پھر جمہوریت بحال ہو گئی بہت سی قیمتی جانیں گئی- معصوم لوگ شہید ہوئے- ہم سمجھے پاکستان کیلئے ہم نے اپنا کردار بھرپور ادا کیا- چلتے چلتے آج جمہوریت کو ١٢ سال ہونےکو ہیں- شکر ہے الله کا سب ٹھیک ہو رہا ہے اور الله کے حکم سے سب ٹھیک ہو ہو گا انشاللہ- لیکن یہاں تک پہنچتے پہنچتے میں نے اپنے تمام ہیروز کھو دیے۔
اب میں نہ کسی کو پڑھتا ہوں اور نہ ان کو سننا پسند کرتا ہوں۔ لیکن بادل نخواستہ سننا پڑتا ہے کیوکہ اب پاکستان کی جنگ لڑنی ہے تو ان کے خلاف- کیونکہ یہ سب اپنی قدر کھو چکے ہیں اور قیمت تو انہوں نے کہی نہ کہی سے لے ہی لی ہونی ہے۔ اور اگر کسی نے اپنی قیمت نہیں بھی لی تو وہ اپنی آنا کا اتنا برا قیدی ہے کہ اس کی تسکین کیلیے پاکستانی اداروں کے خلاف بات کرتا نظر اتا ہے۔ کوئی اپنے پیٹرول پمپ کے کاروبار چھن جانے پر تلملا رہا ہے تو کوئی PTV کے چیئر میں ہوتے ہووے ’گولیوں‘ اور دوائیوں کا حساب دے رہا ہے – کوئی اداروں پر بلا وجہہ الزام اور سنسر شپ کا رونا رو رہا ہے حالانکہ وہ پروگرام تواتر سے کر رہا ہے۔
ان سب کو ہمارے پاکستانی بھائی بھرپور جواب دے رہے ہیں اور سوال بھی اٹھا رہے ہیں – انشاء للہ ہماری جنگ پاکستان کیلیے ہمیشہ جاری رہے گی چاہے وہ پرویز مشرف ہو، نواز شریف ہو، یا ان جیسے بے قدر صحافی ہوں جو صحافت پر بھی دھبہ ہیں۔