گھنے پیڑوں کے کھردرے بدن چھیل کر بہتی ہوا پتوں کی سسکاریاں سُن کر لمحہ بھر کو ٹھٹکتی غضب ناک ہوتی اور پھر سے اپنی نادیدہ انگلیوں سے پیڑو ں کی بدن نوچنے لگتی۔ بادلوں سے اُترتی دھند منظر نگلنے لگی تھی۔
”سنومیرا جی چاہا دھند کے حلق میں ہاتھ ڈال سارے منظر نکال لوں اور دوبارہ اپنی جگہ پر بو دوں۔ “
سایہ آہستگی سے بولا۔
میرا پاؤں زور سے پتھر سے ٹکرایا انگوٹھے کا ناخن اُکھڑ گیا تھا بھل بھل لہو بہنے لگا۔ پتھریلی دیوار پر بیٹھا کوّا پوری طاقت سے چلایا۔
”چل ہٹ“سائے نے اُسے پتھر مارنا چاہا۔
”شش۔ یہ سندیس لاتا ہے…… کالے کوّے…..کیا سندیس لائے؟ “ دیوار پر بیٹھا سایہ ہنسنے لگا۔
”تم جانتی ہو پیروں تلے سے بہشت کھینچ کر جہنم دہکا دی جائے تو آنے والی نسلوں کے چہروں پر کوڑھ اُگنا شروع ہو جاتا ہے۔ بدصورت اور سفاک کوڑھ جو لپلپاتی زبان سے بدن چاٹنا شروع کر دیتا ہے جھڑتے ہوئے ماس سے اُٹھتا تعفن صدیوں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ “
سائے نے سرگوشی کی۔
”تم بہت بولتے ہو۔ “
”اور تم میری کبھی بھی نہیں سنتیں۔ “
”اب سنوں گی۔ “
”تم ایسی کیوں ہوگئی ہو؟۔ ۔ ۔ بے حس، پتھر جیسی۔ “ سایہ سسک اٹھا۔
”پاگل روتے نہیں۔ ۔ ۔ لوگ۔ ۔ ۔ لوگ ہنستے ہیں۔ ۔ ۔ سب ہنستے ہیں۔ ۔ ۔ دیکھو۔ ۔ ۔ میرا پیر دیکھو نا۔ ۔ ۔ دکھتا ہے۔ ۔ ۔ گندہ۔ ۔ ۔ مٹّی سے سَنا ہوا۔ ۔ ۔ اسی لیے۔ ۔ ۔ “
”کیا اسی لیے؟“
”بہشت۔ ۔ ۔ بہشت نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیروں تلے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صرف جہنم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جہنم ہے۔ “
سائے نے بڑھ مجھے گلے لگالیا، آنسو گرتے رہے۔
”زریں اِنکار مت کرنا میں مر جاؤں گا۔ “ آواز بہت قریب سے آئی تھی۔
یہ مرتضیٰ تھا۔ ۔ ۔ ہمارے پیرو مرشد کا بیٹا جو مجھ ناس پٹّی پر مر مٹا تھا۔
”زری آپ سے پہلے دم دے دے گی صاحبا۔ ۔ ۔ لیکن دھرتی کی دھول آسمان چڑھ کر بھی دھول ہی رہتی ہے۔ “
”نہیں زری پارس چھو جائے تو دھول بھی زرنگار ہو جاتی ہے۔ “
دھند کی سرد پوریں بدن ٹٹول رہی تھیں پیروں تلے چِرچِراتے ننھے ننھے پتھر ماس میں اُترے۔
تو میںاچانک خوفزدہ ہو گئی۔
”کوڑھ۔ ۔ ۔ ۔ کوڑھ ہوگیا۔ ۔ ۔ ۔ مجھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بُو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بُو آرہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب کو آتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھ سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب کو بُو آتی ہے۔ “ دروازے دھڑ دھڑ کھلنے بند ہونے لگے، سایہ مجھ سے روٹھ کر پتھریلی دیوار پر جا بیٹھا اُس کی آنکھوں میں غصہ اور دکھ تھا۔
”بخت میں کالک تھی۔ ۔ ۔ ۔ کالے کوّے جیسی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سندیس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تھا سندیس کوّے کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سندیس تھا۔ “
”میری بات کا جواب دو“ سایہ بضد تھا۔
”تم جاؤ۔ ۔ ۔ جاؤتم۔ ۔ ۔ نہیں بولوں گی۔ ۔ ۔ تم سے نہیں بولوں گی۔ ۔ ۔ روشنی۔ ۔ ۔ بتی بجھاؤ۔ ۔ ۔ آنکھیں دکھتی ہیں۔ ۔ ۔ جاؤ۔ “ میں چیخی۔
مرتضیٰ کی سانسیں میرے گالوں سے ٹکرا رہی تھیں۔ آنکھوں سے دونوں جہاں کی بیقراریاں چھلک پڑیں۔ میرے دل میں ہُوک سی اُٹھی اور میں ڈھ گئی۔
”سنو۔ “ میں نے کچھ کہنا چاہا لیکن لبوں پر لگا گرم ہونٹوں کا قفل نہ کھل سکامیں کسمساکر پیچھے ہٹ گئی۔
اُس کی گیلے ہونٹوں پر عجیب سی مسکان تھی۔ میں خواہ مخواہ ہی بدن چُرانے لگی۔
”اب کہو۔ “ سایہ دیوار سے اُتر کر پھر سے میرے پہلو میں آن بیٹھا۔
”کیا؟“
”کیا یہ غلطی نہ تھی؟“
”وہ اچھا ہے۔ ۔ ۔ بہت اچھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم سے بھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سنا تم نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم سے اچھا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ۔ “
یکایک روشنی کا جھماکا ہوا، دھند اندھے چوپائیوں کی طرح بھاگنے لگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مٹّی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت ساری مٹّی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گرنے لگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گرتی گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گرتی گئی۔
’مٹّی ہٹاؤ۔ ۔ ۔ مٹّی ہٹاؤ۔ ۔ ۔ ۔ پاؤں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٹانگیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاتھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ باہر نکالو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے باہر نکالو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نکالو نا۔ “ اور سایہ سسکتا رہا۔
” زریں!“ماں نے مجھے جھنجوڑ ڈالا۔
”آں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا ہوا ماں؟“
میں بوکھلا گئی، ماں کی آنکھوںمیں حیرت تھی۔
” تُو کام کرتے کرتے کہاں کھو جا تی ہے۔ “ دیکھو تو روٹی جل گئی۔
ماں نے جلی ہوئی روٹی توے سے اُتار کر مجھے تادیبی نظروں سے دیکھا۔
”اللہ جانے دھیان کہا ں ہوتا ہے اِ س لڑکی کا۔ “
” میرا دھیان۔ “
بے اختیار میری اُنگلیاں میرے لبوں سے ٹکرائیں۔ توے پر روٹی کے ٹکڑے کالے ہو رہے تھے۔ چھت پر بیٹھا کوا آنگن میں اُتر آیا۔
ایک سرد لہر میرے وجود میں اُٹھی اور مجھے ڈبوگئی۔ رات مصلّے پر میری آنکھ سے پھسلتے آنسو مجھے شرمسار کرگئے تھے۔ اُس کے حضور جاتے ہوئے قدموں میں لغزش تھی۔ کہیں اندر گناہ کا احساس اُمڈ آیا تھا۔ ” صرف احساس کیوں؟“
سایہ سفاک ہو چلا تھا۔
”گناہ کو کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔ “
میں خاموش رہی۔
”یہ گناہ نہ تھا۔ “
سائے نے لمحہ بھر مجھے دیکھا۔ اُس کے لبوں پر مسکراہٹ اُبھری اور پھر وہ ہنستا چلا گیادیوانہ وار۔ میرا جی چاہا اِس کا منہ نوچ لوں، منحوس نہ ہو تو۔ ۔ ۔
” دیکھ زری۔ “
مرشد زادے نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ میرے اندر ہلچل مچ گئی۔ کئی دنوں تک شرمندہ شرمندہ مصلے پر کھڑا ہونا یاد آیا۔ اس نے میری بے چینی بھانپ لی اور مسکراتے ہوئے میرا ہاتھ چھوڑ دیا۔
” میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ “
میں اُ س کی بات سن کر بے جان سی ہو گئی۔
” یہ نہیں ہو سکتا قرنوں کے بُعد مٹا نہیں کرتے مرتضیٰ۔ “
میں تلخ ہو گئی۔
” میرا اعتبار کر زری۔ “
اُس کے لہجے میں کچھ تھا، میں ایک بار پھر سے ڈھ گئی۔
نصیب کو پنکھ لگ جائیں تو دھنک چھوئی جاسکتی ہے اور میں نے دھنک چھو لی تھی۔ ہمارے نکاح میں صرف میرے رشتے کے ماموں اور مرتضیٰ کا ایک دوست شامل تھے۔ ماں بے خبر تھی۔ میں اُس سے آنکھ ملاتے ہوئے ڈر رہی تھی۔ مبادا وہ دھنک لمحوں کی تفسیر نہ پڑھ لے۔
پیڑوں کے بدن نوچتی ہوا سسکنے لگی۔ بادلوں سے اُترتی دھند ذہنوں پر جم رہی تھی۔ منظر سرمئی بے کیفی اُوڑھ کر پتھر ہوگئے۔ میری پوروں سے دھنک رنگ چھٹنے لگے۔ جنت کی مشکبار مٹّی میں تھوہر اُگ آیادھنک لمحے جانے کب کالی رات کو نیوتا دے بیٹھے غبار بڑھنے لگا۔ ۔ ۔ ماں بہت یاد آئی۔
مجھے دروازے کی دھاڑ یاد ہے۔ ۔ ۔ گھنی مونچھوں تلے کف اُڑاتے لب اور برمے کی طرح روح میں اُترتی چنگھاڑ۔
”حرامزادی تجھے میرا ہی بیٹا ملا تھا پھانسنے کو۔ “
گال پر دھرے انگارے نے سر میں چھید کرنا شروع کردیا۔
” سرکار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ میں اُٹھ کھڑی ہوئی۔
چرر کی آواز کے ساتھ پھٹتی ہوئی آستین اور رِستا ہوا لہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ـ ”ہم نے شا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گال پر ایک اور انگارہ سلگ اُٹھا۔ میں دیوار میں جالگی۔
میرے ہاتھ میری کوکھ پر تھے۔ ۔ ۔ ۔ ”کیا میں اِسے بچا پاؤں گی۔ “
”تُو میرے بیٹے کی رکھیل بننے لائق نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تجھے بیوی بنائے گا؟“
بڑی سرکار نے میرے کانوں میں خوف اُنڈیلا۔
” ہمارے ٹکڑوں پر پلنے والی دو کوڑی کی لڑکی۔ ۔ ۔ ۔ مالکن بننے چلی ہے۔ “
تلے دار کھسّے کی کھرداری نوک پوری طاقت سے میری کمر سے ٹکرائی۔ خوف درندہ ہے، زندہ انسانوں کی سانسیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پی کر پلتا ہے۔ میں نے اِ س آسیب کو خود سے جدا کرنا چاہا، لیکن ناکام رہی۔
چار تنومند سانڈوں کے بازوؤں میں جکڑا مر تضیٰ بُری طرح چِلا رہا تھا۔ سانولی رنگت والےنے بڑی سرکار کے اشارے پر جانے کیا کیا، مرتضیٰ ایک لاش کی طرح اُن کے بازوؤں میں جھول گیا، میری سانسیں رُکنے لگیں۔
”یہ وجہ تھی۔ “
سائے کی سرگوشی اُبھری، وہ بدستور دیوار پر بیٹھا ہوا تھا۔
”یہاں گناہ و ثواب الگ الگ تُلتا ہے، حیثیت کے مطابق۔ ۔ ۔ اور تُو۔ ۔ ۔ تُو کیا ہے؟۔ ۔ ۔ ۔ ایک کمی کی اولاد۔ ۔ ۔ تیرا ثواب پر حق ہے؟۔ ۔ ۔ لاکھ پڑ ھ لکھ لے۔ ۔ ۔ تیری اوقات نہیں بدلے گی۔ “
سایہ پھر ہنسنے لگا۔
”سر دکھتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ بہت۔ ۔ ۔ ہنسو مت۔ ۔ ۔ ۔ دکھتا ہے۔ ۔ ۔ “
” تم سمجھ کیوں نہیں رہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ سائے کی آواز میں بے بسی تھی۔ ”لیکن اب سمجھنے کا فائدہ بھی کیا۔ “
”میں بُری ہوں۔ ۔ ۔ بتاؤ۔ ۔ ۔ بتاؤ نا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بُری ہوں۔ “
”نہیں تم بُری نہیں۔ ۔ ۔ نہیں بُری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گدھ بھوکے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پانی میں زہر گھلا ہوا ہے، آئینے ڈرتے ہیں۔ ۔ ۔ اچھا ہے یہاں سے چلی جاؤ۔ ۔ ۔ جاؤ یہاں سے“
سا یہ پھر سے رونے لگا۔
”میںنے۔ ۔ ۔ ۔ میں نے تو۔ ۔ ۔ ۔ بس ایک بوسہ۔ ۔ ۔ ۔ ایک بوسہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ناراض ہے؟“
”آسمان محدود ہو جائے تو کب نظر آتا ہے۔ “
سائے نے منہ پھیر لیا۔
”کیا ہوا ؟۔ ۔ ۔ روتے نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاگل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں روئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں نا۔ “
وہ منہ موڑے کھڑا رہا۔
”لوگ دیکھ رہی ہو؟“
اُس نے میدان میں چاروں طرف کھڑے لوگوں کی طرف اشارہ کیا۔
”یہ مداری ہیں۔ ۔ ۔ ۔ بے بسی کا تماشا لگاتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ۔ ۔ ۔ وہ بڑی بڑی سفید پگڑیاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کوّے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اِس کوّے سے بدتر ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ روٹی چھنتا ہے۔ ۔ ۔ یہ زندگیاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گدھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زندہ انسانوں کو نوچنے والے گدھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ“
سایہ کچھ اور کہنا چاہتا تھا، لیکن سر میں جیسے دھماکا سا ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ آنکھوں میں گرنے لگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گاڑھا اور سرخ۔ ۔ ۔ ۔ ”خون۔ ۔ ۔ ۔ خون۔ ۔ ۔ ۔ “
سایہ بری طرح چِلّانے لگا۔
”میرا بیٹا بے گناہ ہے۔ “
بڑی سرکار دھائی دے رہے تھے۔
”مگر ہم نے تو شادی کی تھی۔ “
سایہ جانے کس سے مخاطب تھا۔
”نہیں میری بیٹی۔ ۔ ۔ ۔ “
ماں رو رہی تھی۔
” بات پوری کرو۔ ــ“
بڑی سفید پگڑی چِلّائی۔
تم نے اپنی بیٹی کی شادی کب کی تھی۔ ؟
ماں خاموش تھی اور ماموں غائب۔
” ایک بات سمجھ نہیں آئی، یہ لڑکی آپ کے بیٹے کا نام کیوں لے رہی ہے؟“
سفید پگڑی الجھ ہوئی تھی۔
”یہ میرے بیٹے کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ “
” وہ تو پچھلے چار ماہ سے گاؤں آیا ہی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ آپ سب سے گواہی لے سکتے ہیں، اس لڑکی کا دماغ خراب ہے آپ نے دیکھا نہیں۔ ۔ ۔ وہ مسلسل اپنے آپ سے باتیں کیے جارہی ہے۔ “
دھماکے تیز ہورہے تھے۔ ۔ ۔ سیال ہر طرف سے رسنے لگا۔ ۔ ۔ درد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے انتہا درد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منہ میں لہو کا ذائقہ گھل رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہونٹ۔ ۔ ۔ ۔ ہونٹ۔ ۔ ۔ دیکھو نا۔ ۔ ۔ “ نچلا ہونٹ درمیان سے بُری طرح پھٹ چکا تھا۔
”مرتضیٰ“ سایہ چِلّایا۔
” دیکھونا اَمرت رَس میں ڈوبی قاشیں۔ “
ایک اور بڑا پتھر چہرے پر لگا۔ رخسار کی ہڈی اندر دھنس گئی۔ چہرہ پچک گیا تھا۔
اچانک سایہ لرزنے لگا۔ تین ماہ اندھیری کوٹھڑی میں گزار کر روشنی آنکھوں میں چبھنے لگی تھی۔ کلائیوں میں بندھی رسیوں کے نشان کاٹنے لگے۔ بڑی سرکار کے سارے وفادار کتے روز کوٹھڑی کا دروازہ کھولتے بند کرتے۔ سایہ انھیں دیکھ کر کونے میں دبک جاتا، لیکن آنے والا اُسے دبوچ لیتا۔ ۔ ۔ ۔ اُس کی چیخیں۔ ۔ ۔ “
”چپ ہوجاؤ۔ ۔ ۔ چپ ہوجاؤ۔ ۔ ۔ دروازہ۔ ۔ ۔ دروازہ بند کرو۔ ۔ ۔ بتی بجھادو۔ ۔ ۔ بجھا دو۔ ۔ ۔ “ وہ چیختا جاتا۔
”۔ ۔ ۔ درد۔ ۔ ۔ ۔ بہت درد ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ “
میں بھی چیخنے لگی، لیکن درد تھما نہیں۔ ۔ ۔ ۔ بڑھتا گیا۔ ۔ ۔ ۔ روز۔ ۔ ۔ ۔ ۔
”کالک کیسے اُترے گی۔ ۔ ۔ کیسے؟“
”یہ لڑکی بدکار ہے، ثبوت کی ضرورت تو نہیں ہے نا“
بڑی سرکار نے ابھرے ہوئے پیٹ کی طرف اشارہ کیا۔
”ہمارا دین کہتا ہے بدکاری کا مرتکب سنگسار کردیا جائے۔ “
سفید پگڑی فیصلہ صادر کر چکی تھی۔
” آپ سب کی کیا رائے ہے؟“
”ایسے گناہگار کو معاف کرنے کا مطلب پروردگار کو ناراض کرنا ہے۔ اِس نیک کام میں پہل میری طرف سے ہوگی۔ “
سایہ دھاڑ رہاتھا، گڑگڑا رہاتھا۔ ۔ ۔ ۔ اپنی بے گناہی کے واسطے دے رہا تھا۔
” سندیس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سندیس ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوّے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کالے کوّے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ لیکن کوّا دیوار خالی کرچکا تھا۔
”وہ مرجائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “
سایہ بلک اُٹھا ”میرا بچہ مر جائے گا۔ “
”میرا بچہ مر جائے گا۔ “
میں بھی اُس کے ساتھ چِلّانے لگی۔
لیکن ہاتھ نہیں رکے، پتھر بڑھنے لگے اور سائے کے سوال بھی۔
آنکھوں میں لہو بھرنے لگا تھا۔ منظر دھندلا گیا۔ سائے نے ایک نظر مجھے دیکھا۔ بڑھ کر سفید پگڑی کے منہ پر تھوکا اور دیوار پر جا بیٹھا۔
سارے نیکو کار پتھر برساکر اپنے اپنے گناہ دھونے میںمصروف تھے۔ اندھیرا بڑھنے لگا۔ ۔ ۔ شاید شام ہو رہی تھی یا بادلوں سے اُترتی دھند نے منظر نگل لیا تھا۔ ۔ ۔ ایک اور بڑا پتھر اُس کے سرسے ٹکرایا۔ ۔ ۔ سائے نے دیکھا۔ ۔ ۔ اُس کا سر ایک طرف کو ڈھلک رہا تھا۔ ۔ ۔ وہ آہستگی سے اُٹھا اور اُس کے ریزہ ریزہ وجودکے گرد بلند ہوتی پتھروں کی دیوار پر سر ٹکا دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اندھیرا پھیل چکا تھا۔