اقبال پہ جن مغربی فلسفیوں کے اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے ان میں نطشے بھی شامل ہیں ۔ عام طور پہ اس رائے کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اقبال نے مرد مومن کا تصور نطشے کے تصور ِ فوق البشر (Ubermensch) سے اخذ کیا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں تحقیق سے کم کام لیا گیا ہے اور ظاہری الفاظ کے سحر میں آکر سطحی مشابہت کا اظہار زیادہ کیا گیا ہے۔
ہربرٹ ریڈ نے اقبال اور نطشے کے مابین فرق کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’ نطشے کی اساس اشراف کی جھوٹی معاشرت پہ استوار ہے جب کہ میری دانست میں اقبال کا تصور زیادہ پائدار بنیادوں پہ مستحکم ہے۔ نطشے اور والٹ وہٹ مین کے مقابلے میں اقبال نے اس صداقت کا زیادہ یقینی طور پر احساس کیا ہے۔وہٹ مین کا ربانی اوسط خاصا جسیم ہے اور بطور ایک تصور اس میں توانائی کی شدت کا فقدان نظر آتا ہے جب کہ نطشے کا سپر مین سماج کا باغی ہے لہذا جبلی طور پر اس کا وجود ہمارے لیے نہ ہونے کے برابر نظر آتا ہے ۔ اقبال کا مرد کامل تو خود ہی ایک ربانی اوسط ہے۔‘‘
لوس کلوڈ میتخ بھی دونوں کا موازنہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ :
’’ بعض ناقدین نے اقبال پر نطشے کے فلسفیانہ اثرات کے بارے میں ضرورت سے زیادہ ہی اصرار کیا ہے اور وہ اس ضمن میں اس حد تک چلے گئے ہیں جیسا کہ اقبال نطشے کا شاگرد ہو اور اس کا تتبع کر رہا ہو لیکن یہ انداز نظر غلط ہے اور کوتاہ بینی پہ مبنی ہے ۔‘‘
اقبال کی اپنی رائے یہ ہے کہ وہ جب اس تصور کے نقوش مرتب کررہے تھے اس وقت وہ نطشے کے اس تصور سے آگاہ نہ تھے۔اس رائے کو بھی ایک طرف رکھتے ہوئے دیکھنا یہ چاہیے کہ اقبال کے مرد مومن اور نطشے کا فوق البشر میں کون کون سے پہلو مماثلت رکھتے ہیں۔ جب ہم گہرائی میں اتر کر جائزہ لیتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں مماثل پہلوبہت کم اور متخالف پہلو بہت زیادہ ہیں ۔ اقبال نطشے کے مداح ضرور ہیں ۔ وہ اس کی شعلہ مقالی اور بے باکی کو سراہتے ہیں۔ اس نے جس طرح مغربی تہذیب و تمدن اور اس کے مصنوعی اخلاق کی بیخ کنی کی ہے، وہ اس کی ستائش کیے بغیر نہیں رہتے۔ وہ نطشے کی تیغ گفتارکو رشک کی نظر سے دیکھتے کیوں کہ بقول ان کے اس نے یورپی افکار کی دنیا کو پارہ پارہ کردیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ نطشے کے قلم میں بجلی کا کڑکا پوشیدہ ہے اور اس نے مغرب کے دل میں نشتر چبھو دیا ہے اور اس کے ہاتھ عیسائیت کے خون سے سرخ ہیں۔ وہ ایسا شخص ہے جس نے حرم کی طرز پہ بت خانہ تعمیر کیا ہے ۔اس کا دل مومن جب کہ دماغ کافر ہے ۔
گر نوا خواہی ز پیش او گریز
در نئے کلکش غریو تندر است
نیشتر اندر دل مغرب فشرد
دستش از خون چلیپا احمر است
آنکہ بر طرح حرم بت خانہ ساخت
قلب او مومن و دماغش کافراست
نطشے نے عیسائی اخلاقیات کے حد سے زیادہ سکونی ، گوشہ نشینی ، اور دست برداری پہ اکسانے والے فضائل مثلاً رحم و خدا ترسی ، انکسار ، فروتنی ، قناعت اور حلم پرحملہ کیا ہے ۔ اقبال نطشے کی طرح ان فضائل کا یکسر انکار تو نہیں کرتے مگر وہ گوسفندی کو بھی پسند نہیں کرتے۔ وہ قوت ، شان و شوکت ، سطوت و جلالت کو اپنے مرد مومن کی خوبیاں بتاتے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ نطشے سے قریب معلوم ہوتے ہیں۔مگر نطشے نے فوق البشر کی جمالی خوبیوں پہ بہت کم زور دیا ہے جب کہ اقبال جلال کے ساتھ ساتھ جمال کو بھی مرد کامل کی اہم خصوصیت قرار دیتے ہیں۔ مرد مومن وہ طوفان ہی نہیں جس سے دریائوں کے دل دہل جاتے ہیں بلکہ وہ شبنم بھی ہے جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہوتی ہے۔ وہ رزم حق و باطل میں فولاد ضرور ہے مگر حلقہ یاراں میں بریشم کی طرح نرم بھی توہے۔ جب کہ نطشے کے فوق البشر میں تندی ہی تندی ہے۔
اقبال اور نطشے نے خودی کے جومراحل مرتب کیے ہیں ان میں جو ظاہری مماثلت نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ دونوں نے جن مراحل کا ذکر کیا ہے وہ تعداد میں تین ہیں اور دونوں نے اونٹ کا استعارہ استعمال کیا ہے ۔ اونٹ کا استعارہ دراصل عربی و اسلامی روایت سے زیادہ قریب ہے اور زیادہ قرین قیاس یہ ہو سکتا ہے کہ اقبال نے یہ اسلامی روایت سے اخذ کیا ہے اور یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ نطشے کا یہ استعارہ بھی عرب روایت ہی سے ماخوذ ہو۔بہرحال اب دیکھتے ہیں کہ ان مراحل میں کس حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ نطشے کے پہلے مرحلے پہ خودی اونٹ بن جاتی ہے ، دوسرے پہ شیر اور تیسرے پہ بچے کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اس کے بقول :
"Three metamorphoses of the Spirit do I designate to you: how the spirit becometh a camel, the camel a lion, and lion at last a child.”
پہلے مرحلے میں جب خودی اونٹ کی طرح گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ اس پہ زیادہ سے زیادہ بوجھ ڈالا جائے ۔ تاکہ وہ اپنی قوت بازو کو زیادہ سے زیادہ آزما سکے ۔
What is heavy? So asketh the load-bearing spirit; then kneeleth it down like the camel and wanteth to be well laden.
What is the heaviest thing, ye heroes, asketh the load-bearing spirit, that I may takes
upon me and rejoice in my strength.”
پھر خودی مختلف بوجھ لادے اپنے آپ کو بھوکا پیاسا رکھے ریگستان میں دوڑتی ہے ، یہ خوف ، توکل اور نفس کشی کی منزل ہے ۔ لیکن پھر اس سنسان ریگستان میں دوسرا تغیر واقع ہوتا ہے اور خودی اونٹ سے شیر بن جاتی ہے ۔ اب یہ مکمل آزادی چاہتی ہے ۔ اس کے لیے یہ اپنے اندر بہت زیادہ قوت کو مجتمع کر لیتی ہے اور بے خوف ہو جاتی ہے۔
” But in the loneliest wilderness happenth the second metamorphosis: here the spirit
becometh a lion; freedom will it capture, and lordship in its own wilderness.”ـ
خودی کے تیسرے مرحلے پر خودی شیر سے ایک بچہ بن جاتی ہے ، بچے ہی کی طرح معصومیت سے لبریز اور بھولی بھالی سی۔
” Innocence is the child, and forgetfulness, a new beggining, a game, a self-rolling wheel, a first movement, a holy Yea.”
اقبال نے بھی نطشے کی طرح خودی کے تین مراحل بیان کیے ہیں ۔ اقبال کے نزدیک خودی کا پہلا مرحلہ اطاعت ہے ۔اس مرحلے پہ خودی اونٹ کی طرح خدمت اور محنت و مشقت کو اپنا شعار بنا لیتی ہے۔ وہ ہمیشہ زندگی کی مشکلات کے مقابل صبر و استقامت ہی سے کام لیتی ہے۔ اونٹ جب صحرا سے گزرتا ہے تومکمل صبر اور خاموشی سے مسلسل اپنے مالک کے حکم کی تعمیل میں محوِ سفر رہتا ہے اور بہت کم آرام کرتا ہے۔
خدمت و محنت شعار اشتر است
صبر و استقلال کار ِاشتر است
یہ مرحلہ نطشے کے پہلے مرحلے سے کسی قدرمماثلت رکھتا ہے۔ نطشے کے ہاں بھی پہلے مرحلے پہ خودی اونٹ کی طرح صبر و استقلال کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اقبال کے ہاں دوسرا مرحلہ ضبط نفس کا ہے ۔ نطشے کے ہاں بھی اونٹ پہلے مرحلے پہ ضبط نفس کا مظاہرہ کرتا ہے مگر یہ وہ ضبط نفس نہیں جس کی اقبال تلقین کررہے ہیں۔ اقبال اس مرحلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نفس اونٹ کی طرح اپنے آپ کو پالنے والا ، ضدی اور سرکش ہے۔ یعنی یہاں خودی اونٹ نہیں بلکہ نفس اونٹ ہے جس پر خودی کو سواری کرنی ہے۔
نفس تو مثل شتر خود پرور است
خود پرست و خود سوار و خود سر است
مگر نطشے یہ نہیں بتاتا کہ ضبط نفس کی منزل سے کیسے گزرا جائے ۔جب کہ اقبال تربیت نفس کے لیے ایک جامع لائحہ عمل پیش کرتے ہیں ۔ اس کے لیے وہ توحید پہ ایمان کو بہت ضروری تصور کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک جب تک انسان کے ہاتھ میں لاالہ کا عصاہے وہ ہر قسم کے خوف کے طلسم کو توڑ سکتا ہے کیوں کہ اقبال کے نزدیک خوف خودی کو ضعف پہنچاتا ہے اور خودی کا استحکام اس کے بغیر ممکن نہیں ۔
تا عصائے لاالہ داری بدست
ہر طلسم خوف را خواہی شکست
اقبال ضبط نفس کے لیے اسلام کے بنیادی ارکان یعنی نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰۃ تجویزکرتے ہیں ۔ان کے خیال میں لاالہ اگر صدف ہے تو نماز اس کا گوہر ہے ۔ یہ ان کے نزدیک حج اصغر کے مترادف ہے ۔یہ بری اور بے حیائی کی باتوں سے بچاتی ہے ۔ روزہ انسان کو شکم پروری سے بچاتا ہے۔ حج گھر بار کو چھوڑنے کی تعلیم دیتا ہے اور وطن کی محبت کو دل سے نکال کر تمام ملت اسلامیہ کو ایک لڑی میں پرو دیتا ہے۔ زکوٰۃ مال و دولت کی محبت کو دل سے نکال کر مساوات کا درس دیتی ہے۔ یہاں اقبال اور نطشے کے درمیان فرق واضح طور پہ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ نطشے اقبال کے برعکس اپنے سپر مین کو ہر قسم کی مذہبی پابندیوں سے آزاد دیکھنا چاہتا ہے۔
اقبال کے نزدیک ضبط نفس سے گزر کر ہی انسان نیابت الٰہی کی منزل پہ پہنچ سکتا ہے ۔ یہ منزل نطشے کی دوسری منزل سے ایک سطحی مماثلت رکھتی ہے جہاں خودی شیر بن جاتی ہے ۔ نطشے نے شیر کا استعارہ روحانی قوت کے طور پر استعمال نہیں کیا ۔ اس کے ہاں یہ کافی حد تک درندگی ، چیر پھاڑ اور تخریبی قوت کے طور ہی پر استعمال ہوا ہے۔ نطشے اپنے فوق البشر کے لیے روحانی نہیں بلکہ جسمانی اور ذہنی قوت پر اصرار کرتا ہے ۔ اقبال کا انسان کامل جتنا بھی قوی اور اختیارات کا مالک ہے وہ خدا کا نائب ہے ۔ لہذا وہ خدائی احکامات کے سامنے سر جھکاتا ہے ۔ جب کہ نطشے کا فوق البشر خدا کا نائب نہیں بلکہ خود خدائی کا دعویدار ہے ۔ نطشے نے خدا کی موت کا اعلان کردیا تاکہ فوق البشر اس کی جگہ لے سکے ۔اس کے بقول :
” Well take heart, ye higher men! Now only travaileth the mountain of human future. God
hath died: now do we desire the superman to live.”
اقبال کے خیال میں نطشے کے فلسفے کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں مقام کبریا کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں :
اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں
تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے
لہٰذا اقبال کے مرد مومن اور نطشے کے فوق البشر میں جو واضح فرق ہے وہ ہے اطاعت خداکا ۔ اطاعت خدا ہی مرد مومن کو رفیع مقام پہ فائز کرتی ہے۔
اے سوار ِ اشہب دوراں بیا
اقبال کے تصور انسان کامل کو نطشے کے تصور فوق البشر سے جوہری لحاظ سے جو ایک اورشے ممتاز کرتی ہے وہ ہے اقبال کا تصورِ عشق ۔اقبال کے نزدیک مرد مومن کا عشق اور اس کی خودی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔ ان کے نزدیک عشق کا تجربہ ہی دراصل خودی کا تجربہ ہے۔ یعنی عشق کی وجودی صورت ایک اور صرف ایک ہے اور وہ خودی ہے۔ عشق وجودی اعتبار سے خودی ہی کی ایک صورت ہے ۔ عشق خودی کا جوہر ہے ۔ عشق دراصل عین ِ وجود ہے۔آہ نطشے کا فوق البشر اس جوہر سے محروم ہے۔
اگر بغور دیکھا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ اقبال کا تصور مرد کامل نطشے کے سپر مین سے زیادہ جامعیت کا حامل ہے۔ اقبال نطشے کی طرح خودی کے قائل ضرور ہیں مگر نطشے کا سپرمین صرف خوددار بلکہ اس کی خودی اپنی حدوں سے باہر نکل کر ایک منفی شکل اختیار کر لیتی ہے اور وہ ہے انتہا درجے کی خود غرضی ، خود پسندی اور خود پرستی جب کہ اقبال کا مرد مومن خود پرست اور خود پسند ہرگز نہیں ۔ اقبال ذاتی خودی ہی پر زور نہیں دیتے بلکہ اجتماعی خودی کے بھی قائل ہیں ۔ یہ اجتماعی خودی ہی ہے جو ذاتی خودی کی تحدید کرتی ہے اور ذاتی خودی کے عوارض کو قابو میں رکھتی ہے۔ نطشے کا سپر مین ایک شتر بے مہار ہے جو اپنی ذاتی غرض کو اجتماعی غرض پہ فوقیت دیتا ہے۔ لہذا اقبال کا انسان کامل خود بان کے علاوہ جہاں بین و جہاں بان بھی ہے ۔نطشے سپرمین کے لیے بعض ایسی خصوصیات کو بھی روا رکھتا ہے جو شر کی علامت ہیں مثلاً وہ کہتا ہے کہ سپرمین اپنے مقاصد کے حصول کے لیے دھوکہ دہی ، انتقام اور کینہ پروری پر بھی اتر سکتا ہے۔ جب کہ اقبال کہیں بھی اپنے سپرمین کے لیے منفی ہتھکنڈوں اور ناجائز ذرائع کا استعمال تجویز نہیں کرتے۔
اقبال کا مرد مومن نطشے کے سپر مین کے برعکس مادی دنیا ہی نہیں بلکہ روحانی دنیا کا بھی باسی ہے ۔ وہ گوناگوں جسمانی ، نفسی اور روحانی خوبیوں کا حامل ہے اور اپنے خدا کی طرح جمیل و جلیل ہے اوروہ درد و سوز ِ آرزو مندی جیسی متاع بے بہا کا مالک ہے ۔وہ حامل خلق عظیم ہے ۔ وہ نرم دم گفتگو اور گر م دم جستجو ہے اور اس کا یقیں نقطہ پرکار ِ حق ہے۔خدا کی محبت اور بندگی ہی سے اس کا گریباں مطلع صبح نشورہے اور اس کے سینے میں آتش اللہ ہو ہے۔اس کی زندگی سوز و تب و درد و داغ سے عبارت ہے اوراس کے افکار عمیق جب کہ نگاہ عفیف ہے ۔ اس کا ذوق و شوق ، اس کا سرور ، اس کا نیاز اور اس کا ناز دیدنی ہے اوراس کا دل ِ بے نیاز ہر دو جہاں سے غنی ہے ۔اس کی ادا دلفریب ہے اور اس کی نگہ دلنواز ہے۔ نطشے کے سپرمین میں اس کے دنوں کی تپش اور شبوں کا گداز کہاں اور اسے اس کاسوز و گداز ِسجود کہاں میسر۔
اقبال نے نطشے ہی کے لیے یہ کہا تھا:
حریف نکتہ توحید ہو سکا نہ حکیم
نگاہ چاہیے اسرار ِ لا الہ کے لیے