برادرم کبیر علی نے پاکستان کے ایک بے مثال طبیعیات دان طبیعاتی و ریاضیاتی علوم کی پیچیدہ گھنڈیوں کو نہایت سہل البیان اسلوب میں کھولنے والے پرویز ہود بھائی کے لیے لکھا گیا ایک مضمون (اس لنک پہ کلک کریں) پڑھا تو کچھ سوال بھی ذہن میں اٹھے۔
خاکسار اس زمانے سے پرویز ہود بھائی کا مداح ہے جب پاکستان میں ایک ہی ٹیلی ویژن چینل پی ٹی وی ہوتا تھا اور پی ٹی وی پر پرویز ہودبھائی فزکس اور سائنس کے بارے میں پروگرام کیا کرتے تھے۔ ایک بہترین استاد بہترین مقرر اور نظری فزکس کے پیچیدہ مسائل کو خوبصورت اردو زبان اور سلیس اسلوب میں بیان کرنے میں پرویز ہود بھائی بے مثال آدمی مجھے تب بھی لگتے تھے اور آج بھی لگتے ہیں۔ اور اس معاملے میں ان کا درجہ احمد جاوید سے بھی فائق ہے کہ یہ خالص "اردو زبان” میں فزکس کے سے پیچیدہ تصورات پر گھنٹوں گفتگو کر سکتے ہیں۔
یہ بات نہیں کہ ہود بھائی کوئی قابل آدمی نہیں ہے محض ایک ناکارہ دماغ ہے قطعاً نہیں۔ پرویز ہود بھائی اپنے میدان کے یقیناً ایک منفرد آدمی ہیں۔ اتنے منفرد کے پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں میں اگر ان جیسا خوش بیان فزکس دان تلاش کیا جائے تو شاید دو چار بھی نہ نکلیں۔
ایک شے ہے فزکس اور خالص سائنس۔ اس میں ہود بھائی یقیناً بہت اونچا مقام رکھتے ہیں۔ مگر ایک شے ہے فلسفۂ سائنس اور بشریاتی و سماجیاتی علوم۔ ہود بھائی جب ان میدانوں میں قدم رنجہ فرما تے ہیں تو پھر یہاں ان کی حیثیت رویہ اور طور طریقہ وہی ہوتا ہے جو کوئیں میں بند کسی ایسے مولوی کا ہوتا ہے جس سے ہمارے ہود بھائ بہت نالاں رہتے ہیں۔
اب آتے ہیں اس سوال کی طرح کہ یہ کیوں پوچھا جاتا ہے کہ ہود بھائی نے کونسی چیز ایجاد کی ہے، فزکس میں کیا تیر مارا؟ کبھی غور کیجیے تو یہ ہود بھائی کے لیے ایک الزامی طعنہ ہوتا ہے۔ ہود بھائی متنازع شخصیت اپنی فزکس دانی کی وجہ سے نہیں بنتے، یا اگر بنتے ہوں گے تو پاکستان میں نہیں، بلکہ اس سبب سے بنتے ہیں کہ یہ اپنی خصوصی مہارت کے میدان کے علاوہ دوسروں کے گھر میں جاکر ان پر اسی گھٹیا سطح کی طنز و تعریض کرتے ہیں جس گھٹیا سطحی پن کا طعنہ یہ اپنی سوچ کے مخالف مذہبی طبقے کو دیا کرتے ہیں۔ اس سطح پر پرویز بھائی بھی ویسے ہی اتاولے ہٹ دھرم ضدی ہتھ چھٹ اور آپے سے باہر ہو جانے والے نظر آتے ہیں، اور انہی کی طرح غصے میں پیر پٹختے چلاتے اور اپنے مخالف کی نیت پر حملہ کرنے لگتے ہیں جس کا الزام یہ اور انکے ہمنوا مذہبی طبقے کو دیا کرتے ہیں۔ اس بات کے ثبوت کے لئے ان کے کچھ مناظرے اور پرانے ٹی وی پروگرام دیکھے جاسکتے ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی تھی کہ پانی سے گاڑی چلانے کے مدعی آغا وقار جیسے ہونق کے سامنے بھی یہ شائستہ کلام ماہر طبیعیات اس درجہ اشتعال کا مظاہرہ کیوں کر رہا ہے! مجھے تو یوں لگا جیسے واقعی آغا وقار کے پانی نے ان کا انجن گرم کردیا تھا۔????
فزکس کے میدان میں ہود بھائی کے مقالات بھلے کو بین الاقوامی سطح کے امپیکٹ فیکٹر والے پرچوں میں چھپتے ہونگے، مگر پاکستان میں وہ آدمی تو یقیناً ان سے یہ سوال کرے گا نا کہ 60 سال تک آپ جس یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے ہیں خالص فزکس کے میدان میں آپ کی کوششوں سے اس یونیورسٹی کے، مثلاً، شعبۂ طبیعیات کی رنکنگ کی کس سطح پر فائز ہے؟۔
جناب مصنف کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ہمارے یہ خوبرو ہود بھائی نظری فزکس کے ماہر ہیں نہ کہ کوئی میزائل یا چاند گاڑی ایجاد کرنے والے کوئ انجینئر۔ لیکن اگر طبیعیات و ریاضی کا یہ ماہر مذہبی لوگوں پر اس مضمون کی چاند ماری کرنے میں حق بجانب ہے کہ ان کی وجہ سے پاکستان میں سائنس کی ترقی نہیں ہو رہی اور مولوی طبقہ سائنس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، تو ان سے یہ سوال تو بجا طور بھی کیا جانا چاہئے نا کہ اے سائنسدان بھائی سائنس کی ترقی کے لیے تو آپ حکومت نے آپ جیسے لوگوں کو رکھا ہوا ہے، آپ نے فزکس کے میدان میں ایسا کون سا شیر نر مارا ہے، کون سا ایسا نظریہ دیا یا نئی تھیوری متعارف کروائی جس نے عالمِ طبعی کے بارے میں سوچنے کا ڈھنگ ہی بدل دیا یے؟
ہود بھائی کی اگر کوئی ایسی کاوشیں ہوں تو راقم ان بہ تمام عجز و نیاز ان سے واقف ہونا چاہتا ہے!
ہمارے ہی ملک میں ڈاکٹر رضی الدین صدیقی اور ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی جیسے لوگ بھی تھے۔ یہ لوگ اپنے اپنے خصوصی میدان- ریاضی و کیمیا- کے علاوہ علم و ادب فلسفہ و تصوف اور شاعری موسیقی و مصوری جیسے فکری اضافی میدانوں کے بھی شہسوار تھے۔ مگر قوم نے کبھی ان سے سوال نہیں کیا کہ رضی الدین صدیقی نے ریاضی و احصا کی کونسی نئی مساوات ایجات کی یا سلیم الزماں صدیقی نے پھپھوندی سے پینسلین ایجاد کی، یا کینسر کا حل تجویز فرمایا یا نہیں۔ اس کے پاس پرویز ہودبھائی سے اگر کوئی ایسا سوال کیا جاتا ہے تو صرف اس لئے کہ پرویز ہود بھائی طعنہ زنی کرنے میں پہل کرتے ہیں۔
اب ایک آخری بات کہہ کر اپنی بات ختم کرتا ہوں اور اس بات کے لئے معذرت خواہ ہوں کہ میں اس کی کوئی زیادہ تفصیلات میں نہیں جا سکوں گا۔ لگتا ہے کہ بعض اعتبارات سے جناب جاوید احمد غامدی اور پرویز ہود بھائی کسی نفسیاتی گرہ کے سبب مسلمان امت کی ان اجتماعی آرزوؤں سے صدیوں کے فاصلے پر ہیں جن سے اقبال اپنے وجود کی گہرائیوں میں جڑا ہوا تھا یا حتیٰ کہ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی اور سلیم الزماں صدیقی اپنی محدود سی بساط کے مطابق اپنی قوم و ملک کے مسائل و سروکاروں سے جڑے رہے تھے۔‘‘