وہ لطیفہ تو آپ نے سن ہی رکھا ہو گا کہ ایک شخص دوسرے سے اپنا دکھڑا کہہ رہا تھا کہ اس کے پانچ بچے ہیں اور ان میں سے چار کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں۔ مخاطب نے پوچھا کہ پانچواں تو ٹھیک ہے نا۔ اس پر وہ بولا جی! مگر وہ شاعر نکل آیا ہے۔ خود میرے اپنے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ پیش آیا۔ آج سے کئی برس پہلے میری پروفیسر منگیتر نے جب اپنی رفقائے کار کو بتایا کہ میں شاعر ہوں تو انہوں نے اس سے اظہارِ ہمدردی کیا۔ مگر شادی کے بعد مجھے دیکھا تو کہا کہ تو تو کہتی تھی شاعر ہے یہ تواچھا بھلا آدمی ہے! شاعروں اور ادیبوں بارے قدرے کھِسکے ہوئے ہونے کا یہ عمومی تاثر کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شاعر، صوفی، ادیب، مصور، موسیقاراور دیگر تخلیقی فنکار معروف معنوں میں نارمل نہیں ہوتے۔ ان میں کوئی نہ کوئی نفسیاتی ٹیڑھ ضرور ہوتی ہے۔ ان کا اندازِ فکر و احساس عام افراد سے مختلف ہوتا ہے۔ وہ ایک اعتبار سے معاشرے کے انحرافی کردار ہوتے ہیں۔ وہ معاشرے کی بندھی ٹکی ڈگر سے ہٹ کر سوچنے اور محسوس کرنے کی بنا پر معمول کی نفسیات کے حامل نہیں ہوتے۔ ان پر اکثرو بیشتر طاری ہونے والی غیر معمولی کیفیات اور زندگی میں ان کی ترجیحات کے حوالے سے خود ان کے اپنے اہلِ خانہ، عزیز و اقارب اور دوست احباب ان کے سامنے نہیں تو ان کی عدم موجودگی میں انہیں ذرا ہلا ہوا شخص قرار دیتے ہیں۔ وہ ان کی جن عادات ،رویوں اور خیالات کے پیشِ نظر ایسا سمجھتے ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے کتابی ونصابی تعریف کے مطابق بھی وہ نارمل متصور نہیں ہوتے۔ مگر ہم سب مانتے ہیں کہ یہ لوگ معاشرے اور تہذیب کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ بڑے حساس اور تیز نگاہ لوگ ہوتے ہیں۔ امن و محبت کے نقیب ہوتے ہیں۔ اپنی تخلیقات کے ذریعے اعلیٰ انسانی اقدار سے وابستگی پیدا کرتے ہیں۔
ادب کی دنیا تو آباد ہی انحرافی کرداروں سے ہوتی ہے۔ شاعری میں عاشق، دیوانے اور سودائی کا کردار معاشرے کی عام روش سے ہٹا ہوا کردار ہے۔ یہ دیوانہ فرزانوں سے بڑھ کر حکمت و بصیرت کی باتیں کرتا ہے۔ مجھے یاد ہے ہمارے سکول میں کبھی کبھی ایک ریٹائرڈ ماسٹر صاحب تشریف لایا کرتے تھے اور کلاس میں آ کر نصاب سے ہٹ کر ایسی باتیں کیا کرتے تھے جو ہمیں کم کم ہی سمجھ آتی تھیں مگر مختلف اور اچھی لگتی تھیں۔ ہمارے اپنے استاد کہا کرتے تھے کہ ان کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں۔ مگر اپنی منتشر گفتگو کے دوران میں وہ خود کہا کرتے تھے کہ لوگ مجھے پاگل کہتے ہیں۔ ہاں میں پاگل ہوں۔ پاگل ہوں ،اس لئے کہ میں گل ( بھید) کو پا گیا ہوں۔ بعض اوقات کوئی گہری معنویت انسان کو اپنے اردگرد سے بیگانہ کر دیتی ہے۔ ایک محویت اسے کسی اور ہی جہان میں لے جاتی ہے۔ کہتے ہیں ایک شخص اکثر و بیشتر ایک مصرعہ پڑھا کرتا تھا۔
اِس لئے مجھ کو تڑپنے کی تمنا کم ہے
دوستوں کی طرف سے دوسرا مصرع سنانے کے مطالبے پر جواب ملتا کے دوسرا مصرع بھی کبھی سناؤں گا۔ اور پھر ایک روز خلافِ معمول اسے بڑے اجلے لباس میں ملبوس دیکھ کر دوستوں نے کہا کہ خیر ہے آج کیا ارادے ہیں ؟ تو اس نے بتایا کہ آج آپ کو دوسرا مصرع سنانا ہے۔ خبر پھیلی تو سب دوست جمع ہو گئے۔ چنانچہ اس دن اس نے پورا شعر سنایا، اور دوسرا مصرع ختم ہوتے ہی تڑپ کروہیں جان دے دی۔ پورا شعر یوں تھا کہ
اِس لئے مجھ کو تڑپنے کی تمنا کم ہے
وحشتِ دل ہے بہت وسعتِ صحرا کم ہے
شعر و ادب کی دنیا میں یہ وحشت اور جنون دماغ کا خلل نہیں ہے۔ ایک برتر درجے کی آگاہی کا نام ہے۔ برتر درجے کی یہ آگاہی عقل و شعور کے متداول پیمانے توڑ پھوڑ کر رکھ دیتی ہے اور غالب و اقبال کو یہ کہنا پڑتا ہے کہ۔
ہے کہاں تمنا کا دوسر ا قدم یا رب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا
غلط تھا اے جنوں شاید ترا اندازۂ صحرا
در اصل تخلیق کاروں کی یہ نفسی نا معمولیت ہی ان سے غیر معمولی فن پارے تخلیق کرواتی ہے اور پھرنہ صرف قارئین کے ذوقِ جمال کی تسکین کرتی ہے بلکہ انہیں امکانات کی دنیا میں لے جاکر ان کے فکر و احساس کو وسعت و گہرائی سے ہمکنار کرتی ہے۔ یہی نہیں ادب انسانی شخصیت کے تضادات دور کر کے اس کی تہذیب کرتا ہے۔ یونانی ڈرامے کے حوالے سے کیتھارسس کا تصور ہمیں یہ نکتہ سمجھاتا ہے کہ رنج و غم کے جذبات کا اخراج بہت ضروری ہے۔ یہ جذبات اگر انخلا کا راستہ نہ پائیں تو انسانی شخصیت پر بڑے منفی اثرات چھوڑتے ہیں۔ اس کے اعتدال و توازن کو قائم نہیں رہنے دیتے۔ چنانچہ المیہ ڈرامے میں ہیرو کے ساتھ مناسبت پیدا ہونے سے دیکھنے والوں کے ان جذبات کا کیتھارسس ہو جاتا ہے اور شخصیت عدم توازن کا شکار ہونے سے محفوظ رہتی ہے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے شاعر اور صوفی ایسی انحرافی نفسیات کے مالک ہوتے ہیں جو ایک طرف معاشرے میں انسانی شخصیت پر اثر انداز ہونے والے منفی عوامل کے خلاف مزاحمتی قوت سے لیس ہوتی ہے اور دوسری طرف معاشرے کو تبدیل کرنے اور اس میں بہتری لانے کے عزم و ارادے کو تقویت دیتی ہے۔ اس مقصد کے لئے وہ جس جوہر کو بروئے کار لاتے ہیں اس کا نام ہے ’’عشق‘‘۔ عشق اس ترجیحی اور گہری وابستگی سے عبارت ہے جو انسانی صلاحیتوں کو ایک نقطے پر مرکوز کر دیتی ہے۔ یہ وابستگی کسی شخصیت کے ساتھ ہو سکتی ہے، کسی فن، کھیل یا پیشے کے ساتھ ہو سکتی ہے، کسی نظریے، نصب ا لعین یا آدرش کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ کوئی بھی لگن یا دُھن انسان کی سوچوں میں ارتکاز کا باعث بنتی ہے،اس کے فکر و احساس اور صلاحیتوں کو ایک سمت عطا کر دیتی ہے۔ اوراس سے جنم لینے والی یکسوئی انسانی شخصیت میں ابھرنے والے تضادات، دباؤ، تشویش اور فرسٹریشن کو ایک حد سے زیادہ سر نہیں اٹھانے دیتی۔ وہ جو کہتے ہیں نا ایک بڑا دکھ چھوٹے چھوٹے دکھوں کو بھلا دیتا ہے۔ عشق بھی ایک ایسا عظیم الشان اوردلپذیر روگ ہے جو دوسرے تمام دکھوں کو بے اثر کر دیتا ہے۔ اس نکتے کو شاعر اور صوفی بار بار سامنے لاتے ہیں۔
جیسا کہ اصغر گونڈوی کہتے ہیں۔
آلامِ روز گار کو آساں بنا دیا
جو غم ہوا اُسے غمِ جاناں بنا دیا
یا اقبال کا شعر ہے کہ
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
پھر اسی کے زیرِ اثر میں نے خود بھی اپنی شاعری کے ابتدائی زمانے میں ایسے ہی مفہوم کا ایک شعر کہا کہ
Leave a Reply