گذشتہ دنوں معاصر ویب سایٹ پر مہاتما گاندھی کے بارے میں ایک مضمون پڑھ کر افسوس ہوا کہ لکھاری کا برٹش انڈیا کی سیاست پر مطالعہ بہت سطحی ہے۔ موصوف تقسیم کے بعد کانگریسی لیڈروں کے اس رقص سے بالکل ناآشنا ہیں جو کانگریس کے اندر اقتدار پر اپنی بالادستی کیلے ہورہا تھا۔
اس تحریر میں کچھ من گھڑت قصے، کچھ غیر تصدیقی مشکوک واقعات اور زور قلم کے مجموعے سے گاندھی کو مہاتما، خدا ترس اور پاکستان دوست ثابت کرنے کی بھونڈی کوشش کی گئی ہے۔ اس مشق کا تفصیلی جواب تاریخ کی نظر سے بیان کرتا ہوں اور کوشش کی ہے تمام باتیں گاندھی کے سیاسی ہمسفر مولانا آزاد کے الفاظ میں ہی نقل کروں اور آخر میں یہ بھی بتانے کی کوشش کروں گا کہ مہاتما گاندھی اسلام، قرآن، مسلمان، اردو زبان اور پاکستان سے کتنا پیار کرتے تھے۔ فی الحال آزاد کے کچھ الفاظ ملاحظہ فرمائیں چند ہندو مورخین کی باتیں پھر کبھی بیان کروں گا جنہوں نے گاندھی کے مہاتما ہونے اور عدم تشدد کے فلسفے کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں۔
گاندھی کا مرن بھرت مسلمانوں کے قتل عام روکنے یا پاکستان کا ترکہ دلوانے سے زیادہ اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے پر تھا کہ عملی طور پر حکومت میں گاندھی کی فیصلہ ساز اہمیت ختم ہوچکی تھی نہرو اور پٹیل نے اقتدار پر قابض ہوتے ہی گاندھی کو عضو معطل بنا دیا تھا۔ گاندھی اور پٹیل کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی کی جنگ تھی جسے جھوٹے واقعات گھڑ کر نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
باپو گاندھی جی کی پاکستان کیلئے بھوک ہڑتال اور مرنے والی بات جب میں نے مولانا آزاد کی کتابوں میں تلاش کی تو وہاں جو لکھا ہوا تھا وہ پڑھ کر بخوبی جان گیا کہ مسئلہ باپو گاندھی نہیں بغض پاکستان ہے۔
آزاد نے اپنی کتاب “آزادی ہند” کے باب “منقسم ہندوستاں” میں باپو کی بھوک ہڑتال کا واقعہ، پٹیل سے تلخ کلامی اور پھر بھوک ہڑتال ختم کرنے کیلے جو چھ شرائط آزاد کو لکھوائی تھیں ان میں پیسوں کا کہیں زکر ہی نہیں ہے۔
آزاد لکھتے ہیں۔
“ہڑتال پٹیل کے روئیے کے خلاف تھی گاندھی جی کو اصل دُکھ تھا کہ سردار پٹیل جسے گاندھی جی سیاست میں لیکر آئے اور گاندھی کا چہیتا تھا وہ گاندھی سے مشورہ کی بجائے من مرضی کررہا تھا اور عملی طور پر گاندھی کے اثر سے نکل گیا تھا”۔
دوسری جگہ لکھتے ہیں
“گاندھی جی نے جب دہلی اور اس کے قرب و جوار میں امن و امان کی بحالی کے لئے برت رکھا تو عمومی تاثر یہی گیا کہ انہوں نے یہ برت ولبھ بھائی پٹیل کی بحیثیت وزیر داخلہ پالیسیوں، جن میں ہندو بلوائیوں کی درپردہ حوصلہ افزائی اور سرپرستی بھی شامل تھی، کے خلاف رکھا ہے”۔
مزید فرمایا۔
“برت رکھے جانے کے دن پٹیل کی گاندھی جی سے تلخ کلامی کی تفصیل بھی اس امر کو واضح کرتی ہے کہ پٹیل اس برت کو اپنے خلاف سمجھ رہا تھا۔ اس برت کی وجہ سے عوامی حلقوں میں پٹیل کا ایک منفی تاثر بن رہا تھا جس کے سبب پٹیل اچھا خاصا پریشان تھا”۔
قاسم سید علیگ اپنی کتاب “ابوالکلام آزاد ایک تقابلی جائزہ” میں لکھتے ہیں۔
گاندھی جی کو اپنی بےوقعتی اور کم مائیگی کا احساس ہو گیا تھا اور محض عزت بچانے اور دبدبہ کی دیواروں کو جو کھوکھلی ہوتی جارہی تھیں قائم رکھنے کیلئے گردن کو کچھ ڈھیلا کردیا تھا پہلے گاندھی جی کانگریس سے مرضی کی پالیسیاں طے کروا لیتے تھے اور جب کانگریس میں توانائی آگئی (اقتدار) تو گاندھی کو دوسری بنچ پر بیٹھنے کیلئے مجبور ہونا پڑا ورکنگ کمیٹی ہر بات فیصلہ پہلے طے کرلیتی اور گاندھی کے پاس مجبوراً اس پر توثیق کے علاوہ کوئی چارہ نا رہ جاتا تھا۔
کانگریس نے تقسیم کے بعد گاندھی کو کس طرح نظر انداز کیا اور ہر بات مذاق اڑانے کے انداز میں مسترد کرتی تھی اس کا اندازہ ایک مثال سے ملتا ہے
آزادی کے بعد گاندھی نے کہا اب کانگریس کو توڑ دینا چاہئے کیونکہ اس کے قیام کا مقصد پورا ہوگیا ہے لیکن پارٹی کے سینئر لیڈر نے سخت مخالفت کی کیونکہ کانگریس جو کچھ گاندھی سے حاصل کرنا چاہتی تھی وہ مل چکا تھا اور اب گاندھی کے پاس دینے کیلئے کچھ نا تھا لہذا کانگریس نے انہیں (گاندھی) کوڑے دان میں پھینک دیا۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گاندھی نے یہ بھی محسوس کرلیا تھا کہ کانگریس اب انہیں سکہ رائج الوقت نہیں سمجھتی اسی احساس زیاں نے انہیں نمک کی طرح گھلا دیا تھا۔
آگے چل کر آزاد گاندھی بارے لکھتے ہیں کہ
دوسری جنگ عظیم گاندھی کیلئے بڑا مشکل تھا وہ اس بربادی کو روکنے کیلئے کچھ نا کرسکتے تھے لیکن ان کی اندرونی کشمکش کی یہ کیفیت تھی کہ انہوں نے بعض موقعوں پر خودکشی کرنے کا زکر کیا ہے اگر ان تکلیفوں کا تدارک کرنے کی طاقت نہیں ہے تو کم ازکم اپنی زندگی کا خاتمہ کرکے یہ سب کچھ دیکھنے سے انکار تو کرسکتا ہوں۔ انہوں نے بار بار مجھ پر دباؤ ڈالا کہ ان کے خیالات کی تائید کروں مگر اپنے آپ کو ان سے اتفاق کرنے پر آمادہ نا کرسکا۔
کے ایم پانیکر کے الفاظ۔
اسی ماہ 16 جنوری 1948 کو ماؤنٹ بیٹن شکار کیلئے بیکانیر گیا وہاں کیمبل جانسن کی ملاقات ریاست کے دیوان کے ایم پانیکر سے ہوئی۔ پانیکر نے کہا۔
” گاندھی کے برت کا رخ بلاشبہ پٹیل کی طرف ہے اور اس کا نتیجہ اچھا نکلے گا۔ ”
پانیکر کا خیال تھا کہ اگرچہ مشین پٹیل کے کنٹرول میں ہے تاہم اسے اچھی طرح پتہ ہے کہ عوام الناس گاندھی کے قابو میں ہیں اور وہ چاہے بھی تو مہاتما کے اثر کو توڑ نہیں سکتا گاندھی نہرو کو تقویت دینا چاہتا ہے لیکن اس عمل میں پٹیل کو ختم بھی نہیں کرنا چاہتا گاندھی صرف یہ چاہتا ہے کہ پٹیل گھٹنے ٹیک دے۔
برت کے آغاز اور اس کے دوران گاندھی جی کے بیانات اور ان کے قریبی رفقاء کے بیان کردہ واقعات میں آپ کو کہیں یہ تذکرہ نہیں ملے گا کہ گاندھی جی کے برت کا پاکستان کو رقم کی ادائیگی سے کوئی بھی تعلق تھا۔ اب گاندھی کے کچھ بیانات اسلام، قرآن، مسلمان، اردو زبان اور پاکستان بارے ملاحظہ فرمائیں۔ یہ صرف اس لئے نقل کئیے ہیں آپ جان لیں جو انسان مسلمانوں اور پاکستان سے اس درجہ نفرت کرتا ہوں وہ ان کیلئے مرن بھرت رکھے گا۔
” مسلمان یا تو عرب حملہ آوروں کی اولاد ہیں یا ہمیں سے جدا کئے ہوۓ افراد۔ اگر ہم اپنا وقار چاہتے ہیں تو تین علاج ہیں۔ ایک تو یہ کہ اسلام سے ہٹا کر انہیں اپنے دھرم میں واپس لایا جاۓ۔ اور اگر یہ نہ ہوسکے تو ان کے آبائی وطن میں لوٹا دیا جاۓ۔ اور اگر یہ بھی دشوار ہو تو ان کو ہندوستان میں غلام بنا کر رکھا جاۓ۔ ”
"سوراجیہ ( آزادی ) کے چاہے کتنے ہی معنی لوگوں کو بتاؤں پھر بھی میرے نزدیک سوراجیہ کا ایک ہی معنی ہے، اور وہ ہے رام راجیہ ( ہندو کی حکومت )”۔
میں اردو بھاشا کا اس لئے مخالف ہوں کہ اس کے اکثر الفاظ قرآنی بھاشا میں ہیں۔ (کاش البرنی کی مسلم انڈیا مطبوعہ 1942)
اردو ایک بدیشی زبان ہے اور ہماری غلامی کی یادگار ہے۔ اس زبان کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہیے۔ اردو جو ملیچھوں کی زبان ہے نے ہندستان میں رواج پاکر ہمارے قومی مقاصد کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔
ایک بار گاندھی نے کہا مجھے مطالبہ پاکستان کی سمجھ نہیں آتی۔
اگلے دن صحافی نے اخبار میں سرخی لگا کر جواب دیا “گاندھی جی کچھ دیر انتظار کرلیں دنیا کے نقشے پر پاکستان بنا کر سمجھا دیا جائے گا”
اب آخر میں گاندھی اور انگریز کے پیار محبت کی کہانی گاندھی کی زبانی سنیں۔ مہاتما گاندھی عدم تعاون کی تحریک کے دوران گرفتار ہوئے تو مارچ 1922 میں احمدآباد کی عدالت میں اپنے کارنامے گنواتے ہوئے فرمایا۔
"1890 اور 1906 میں ساؤتھ افریقہ میں برطانیہ کے لیے کام کیا اور پہلی جنگ عظیم میں بھی تاج برطانیہ کی خدمت کی۔ دونوں مواقع پر مجھے تمغہ جات ملے اور لارڈ ہارڈنگ نے جنوبی افریقہ میں میرے کام کے صلہ میں قیصر ہند کا تمغہ عطا فرمایا جب 1914 میں جنگ چھڑی تو میں نے لندن میں ہندوستانی باشندوں بالخصوص طلبا کی ایک والنٹیئر کور تیار کی پھر 1917 میں جب ہندوستان میں لارڈ چیمسفورڈ نے فوجی بھرتی کے لیے اپیل کی میں نے باوجود خرابی صحت کے اس وقت تک فوجی بھرتی کرائے جب تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ اب سپاہیوں کی ضرورت باقی نہیں رہی۔”
حوالہ جات۔
آزادی ہند کا باب منقسم ہندوستاں۔ مولانا آزاد
ابوالکلام آزاد ایک تقابلی جائزہ۔ قاسم سید علیگ
گاندھی کا ینگ انڈیا اخبار میں ایک کالم
گاندھی کی 27 مارچ 1930 کو ایک تقریر کا اقتباس
آریہ سماج کانفرنس میں خطاب نومبر 1936