دین اور سماجی علوم یا دین اور موجودہ (social sciences) سوشل سائنسز۔
اس گفتگو کا محرک ایک تصور اور ایک جذبہ ہے، یعنی کہ موجودہ سماجی علوم نے مل کر جو ایک نیا تصورِ انسان وضع کیا ہے اور اسے قریب قریب عالمگیر حیثیت دے دی ہے، اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے دین میں ودیعت فرمودہ تصورِ انسان کی ایسی تفصیل اور ایسے استدلال کے ساتھ اس کا بیان اور اظہار کیا جائے کہ موجودہ سماجی علوم کا انسان کے بارے میں جو مجموعی نظریہ ہے، وہ دین کے بخشے ہوئے، دین کے مقرر کردہ معیار پر کامیابی کے ساتھ، علمی تفوق کے ساتھ اور شعور کی گہرائیوں کے ساتھ پرکھا جا سکے اور دینی معیارات پر علوم کے پرکھے جانے کے نتائج خود ان علوم میں جاری منطق کے لیے قابل قبول یا واجب التسلیم ہو جائے۔ یہ ہمارے دین کے علماء کی چند بہت بڑی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ہے کہ وہ دین کے غلبے کو شعور کی تمام اقلیموں میں ثابت کریں۔
یہ دین وجود کے تمام دائروں میں بھی غالب رہنے کے لیے آیا ہے اور اسی طرح یہ دین ذہن اور شعور کے تمام گوشوں کو بھی روشن کرنے آیا ہے۔ یہ دین نہ عالم ِوجود کے کسی چھوٹے بڑے حصے کو اللہ سے غیر متعلق رہنے دینے کا امر کرتا ہے، اجازت دیتا ہے اور نہ ہی یہ شعور کی کسی بھی گہرائی، کسی بھی تہہ کو حق سے غیر متعلق رہنے کی اجازت دیتا ہے، allow کرتا ہے۔ چاہے انفس ہو، چاہے ہمارے شعور میں موجود کائنات ہو، چاہے ہمارے باہر حاضر دنیا ہو، مسلمان کی حیثیت سے حتی المقدور، ہم سب کی بہت بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ان انفس و آفاق کو ایک ہی روشنی سے روشن اور ایک ہی امر کے تابع کر کے دکھائیں اور وہ ہے حق۔
سر سید احمد خان کی آمد تحریک مجاہدین کا براہ راست رد عمل تھی۔ سر سید احمد خان صاحب کی تحریک سید احمد شہید صاحب کی تحریک مجاہدین کا براہ راست جواب تھی انگریزوں کی طرف سے، تو ان کے، سر سید احمد کے تہذیبی، تعلیمی، اخلاقی رول ماڈل بن جانے کی وجہ سے حادثاتی طور پر یا کسی نالائقی کے نتیجے میں، ہوا یہ کہ ذہن جو مغرب نے بنایا تھا، منطق جو مغرب میں ایجاد کی تھی، تصور دنیا جو مغرب نے دیا تھا اور حتیٰ کہ اخلاق اور انسان وغیرہ کے تمام بنیادی تصورات جو مغرب نے اپنے project of enlightenment کے نتیجے میں ایجاد کئے تھے، پیدا کئے تھے، سرسید نے ان تمام چیزوں، ان تمام مغربی تصورات کو بہت اٹل معیارات بنا کر مسلم ذہن اور مسلم تہذیب دونوں پر apply کر دیا۔
اس قوم کی بد نصیبی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، جس کے ہیرو سرسید احمد خان ایسے لوگ ہوں۔ اس تہذیب کے افلاس کو ناپا نہیں جا سکتا، جس تہذیب کی صورت گری سر سید یا ان کی تحریک کے نتیجے میں ہوئی ہو۔ تو ہم وہ نقصان تاحال بھگت رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں مسلم سوسائٹی اور مسلم ذہن کی تشکیل میں سب سے زیادہ مؤثر کردار سرسید احمد خان نے ادا کیا اور یہ سرسید احمد خان کے ہی کام کا اور انہی کی تحریک کا نتیجہ ہے کہ آج ہم شعوری یا غیر شعوری، ارادی یا غیر ارادی طور پر مغرب کو اپنے لئے معیار بنا چکے ہیں۔ یعنی ہمارے لیے ترقی کا معیار مغرب ہے، ہمارے لئے اخلاق کا معیار مغرب ہے، ہمارے لئے علم کا معیار مغرب ہے، ہمارے لیے تمام سماجی، سیاسی، معاشی نظاموں کا معیار مغرب ہے، یعنی کہ شعوری طور پر اور کہیں غیر شعوری طور پر۔ اتنے بھیانک چنگل میں گھرجانے کے بعد ہم سب کی اور خصوصاً ہمارے اہل علم ہی کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ مغرب کے اس نفسیاتی، تہذیبی اور سماجی غلبے کو توڑنے کے لئے چند بامعنی اور مؤثر تحریکوں اور کاوشوں کا، ایک تنظیم، ایک ترتیب اور ایک علمی دیانت کے ساتھ آغاز کرے۔ اس کے بغیر ہماری بقاء کے بہت سارے دروازے بند ھو جائیں گے۔ یہ اتنا ضروری کام ہے۔ تو خیر اس وقت سرسید پر نقد و جرح فی الحال گفتگو کا موضوع نہیں ہے، یہ صرف ہم پس منظر کے طور پر بتا رہے ہیں کہ ہندی مسلمانوں کی تاریخ میں صرف ایک ہی dialectical set up ہے اور وہ ہے تحریک مجاہدین اور سر سیداحمدخان کی تحریک کا ٹکراؤ اور اس ٹکراؤ کے نتیجہ کے میں بعض خارجی عوامل کی امداد کے نتیجے میں سر سید احمد خان کی تحریک، ان کے بنائے ہوئے discourse، ان کے دیے ہوئے world views کی فتح اور ہم اسے بھگت رہے ہیں۔ تو موجودہ صورتحال یہ ہے۔
علم کی کوئی بھی قسم ہو اور علم کسے کہتے ہیں؟ ‘اپنے اور اپنی دنیا کے بارے میں ذہن کا کسی مستقل موقف قائم کرنے کے لائق ہو جانا۔ کیونکہ علم کا مطلب ہے ذہن اپنے موضوع کے بارے میں چند عارضی یا مستقل مواقف کی تشکیل کرنے کے لائق ہو جائے تو یہ لیاقت علم کہلاتی ہے۔ تو ان معنوں میں میں عرض کر رہا ہوں کہ آج علم کا کوئی بھی شعبہ ہو، یعنی علم بعنوان سائنس ہو، بعنوان طبیعات ہو، علم بمعنی سماجیات ہو، یعنی چاہے وہ سائنسی علوم ہوں، چاہے سماجی علوم ہوں، علم کی یہی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ان میں سے ہر قسم کو مغرب نے دین کے لئے اجنبی بنانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ آج دنیا کو چلانے والا، انسانی ذہن کی تربیت کرنے والا، انسان کے عملی مقاصد کو پورا کرنے والا کوئی علم کوئی knowledge discipline ایسا نہیں ہے، تو پھر اس پہ جیسے تاکید سے کہہ رہا ہوں کہ بلا استثناء کوئی جدید علم ایسا نہیں ہے، جو مذہبی ذہن اور دینی شعور کو اپنے اندر داخل ہونے کا راستہ فراہم کرتا ہو۔
یعنی آج ہر علم بلااستثناء دینی شعور کے مسلمات و معتقدات سے یا تو براہ راست اپنی قوت انکار کے ساتھ متصادم ہے یا اس سے ایک تحقیر کے ساتھ لاتعلق ہے۔
تو آج کے علوم سے بننے والا ذہن گویا یا تو مذہب کے انکار پر اپنی تمام دستیاب استعداد ِتیقن سے کھڑا ہوا ہے، crystallized ہو چکا ہے یا پھر یہ کہ مذہب کو وہ ویسی ہی حقارت سے، مذہبی اعتقادات کو وہ ویسی ہی حقارت سے لاتعلقی کی نظر کئے ہوئے ہے، جس طرح ہم دلدل سے لاتعلق ہو جاتے ہیں، جس طرح ہم کیچڑ سے لاتعلق ہو جاتے ہیں۔ تو یہ دو طرح کے مزاج جدید علمی ماحول نے پوری طرح اپنے سے تربیت پانے والے اذہان میں inject کر دیے ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی بھی مغربی علم، اس علم کے اوریجنل اور فیکچوئل مقدمات اور مقاصد کے ساتھ اس علم کی منطق کی مطابقت کرتے ہوئے حاصل کیا جائے اور اس علم کے حصول کے نتیجے میں آپ اپنے دینی شعور کی پرداخت یا نمو کا کوئی ذریعہ حاصل کر سکیں۔ اس وقت سر دست ساری دنیا میں کوئی علم ایسا نہیں ہے، جو دینی شعور کے اعتقادات کے لیے معاون نظامِ استدلال فراہم کر سکتا ہو، جو دینی اخلاق کی تربیت کا ذریعہ بن سکتا ہو، جو ذہن کے دینی مقاصد کو قبول کر کے اس کے حصول کے عارضی یا مستقل راستے سجھا سکتا ہو۔ اس وقت کوئی علم عملاً ایسا موجود نہیں ہے اور جیسا کہ میں نے عرض کیا، اس کو پھر اطمینان کے لئے دہرا دیتا ہوں کہ اب علم یا تو دین اور دین کے مقدمات، مسلمات، معتقدات کا کھلا ہوا انکار ہے اور وہ انکار ایسا ہے، کہ اسے کیوں کہ ایک طاقت کی پشت پناہی حاصل ہے تو اس انکار کی شدت بہت بڑھی ہوئی ہے، اس انکار کا تحکم بہت بڑھا ہوا ہے اور تمام علوم کیونکہ اس انکار کو مدلل بنانے کے لیے تیار بیٹھے ہوئے ہیں، تو اس انکار کے لیے، جس جس طرح کے کلینیکل یا ایمپیریکل شواہد چاہیے ہیں، وہ شواہد بھی دوسرے علوم اسے مہیا کر رہے ہیں۔
اب علم یا تو دین اور دین کے مقدمات، مسلمات، معتقدات کا کھلا ہوا انکار ہے اور وہ انکار ایسا ہے، کہ اسے کیوں کہ ایک طاقت کی پشت پناہی حاصل ہے تو اس انکار کی شدت بہت بڑھی ہوئی ہے، اس انکار کا تحکم بہت بڑھا ہوا ہے اور تمام علوم کیونکہ اس انکار کو مدلل بنانے کے لیے تیار بیٹھے ہوئے ہیں، تو اس انکار کے لیے، جس جس طرح کے کلینیکل یا ایمپیریکل شواہد چاہیے ہیں، وہ شواہد بھی دوسرے علوم اسے مہیا کر رہے ہیں۔
یہ تاریخ ادیان میں پہلی مرتبہ ہوا ہے، یہ تاریخ کفر و ایمان میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کفر اتنا زیادہ قابل قبول بنا ہو، کفر اتنا زیادہ مدلل بنا ہو، کفر کو اتنا زیادہ کلینیکل تیقن حاصل ہو گیا ہوں، یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ پرسوں ایک جگہ بات ہو رہی تھی تو میں نے ایک تجویز عرض کی، جس پر مجھے تو فی الحال یقین ہے کہ یہ صحیح تجویز ہے، تاوقت یہ کہ اس کی تردید نہ ہو جائے، اصلاح نہ ہو جائے، کہ مغرب کو ہر اعتبار سے، زندگی کی ہر سطح پر ذہن کے ہر پہلو سے خود پر غیرموثر کئے بغیر ہم اپنے ایمان کو شعور کا منبع اور مرجع نہیں بنا سکتے۔
مطلب مغرب سے لڑنا ہو یا مغرب کے جال میں پھنسنا ہے، تو براہ راست ذہنی تصادم کے بغیر بالکل بے نیازی کی حالت میں چیزوں کو نئے سرے سے define کرو، جس میں definer تمہارا ایمانی شعور ہو۔
علم کی ایک اور تعریف ہے ‘چیزوں کی تعریف کے ملکہ کو حاصل کر لینا‘۔
علم کسے کہتے ہیں؟ ‘تعریف الشیء عند الذہن۔ تعریف شے ذہن میں۔ ذہن میں شے کی تعریف کا مکمل ہو جانا، شے کا define ہو جانا یہ علم ہے۔
تو کیونکہ مغرب نے گویا اک دھند پھیلا رکھی ہے، جس نے اس سارے کرہ ارضی کو اور انسان کی جو ایک گلوبل ذہنیت ہے، اس کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، تو اس کے اندر رہتے ہوئے کوئی مثبت بامعنی اور ایمانی کام نہیں کیا جا سکتا۔ خود کو اس دھند سے نکالے بغیر ہم اس سورج کی طرف نظر کرنے کے لائق نہیں ہو سکتے، جو سورج ہمیں اللہ نے دے رکھا ہے اور جو کبھی غروب ہونے کے لئے ہے ہی نہیں۔ تو اس کے لئے ضروری ہے کہ مغرب اور اس کے تمام علمی structure سے، مغرب اور اس کے تمام عقلی مواقف سے، خود کو بے نیاز رکھ کر ہم دنیا کومومنانہ نظر سے دیکھ کر اپنے علم کی تعریف اور شے کی تعریف دونوں خود وضع کریں، اپنے ایمانی شعور کی مدد اور راہنمائی سے۔
یہ ہم لوگوں کا اور خصوصا ہمارے اہل علم کا یہ بہت ہی بڑا فریضہ ہے، تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم جیسےـــ (بھائی میں مربوط لیکچر نہیں دے سکتا، مطلب میں کوئی لیکچرر تھوڑی ہوں، میں تو دوستوں کے درمیان بیٹھ کے بات کرنے والا ہوں، تو ذرا بہت زیادہ، یہ لیکچر ایسی فضا بن جاتی ہے تو گھبراہٹ ہونے لگتی ہے، تو مطلب اس قابل تھوڑی سمجھتا ہوں، میں لوگوں کو کچھ باتیں بتاؤں، تو ویسے ہی مطلب یہ ربط میں ہے تو اللہ کا شکر ہے اور ربط میں نہیں ہے تو اس کی آپ کی طرف سے اجازت ہے گویاـــــ) تو وہ ہمارا تصور علم کیا ہے؟ یہ ہم پر اسی طرح واضح ہونا چاہیے، جس طرح عقیدہ توحید و رسالت کا واضح ہونا ضروری ہے، کہ ہماری دو چیزیں ہم پر بہت بہت تیقن کے ساتھ واضح ہونی چاہیے ہیں۔
ہمارا تصور علم کیا ہے؟
ہمارا تصور وجود کیا ہے؟
ہمارا تصور کائنات و دنیا کیا ہے؟
ایک فقرہ کہہ کے آگے بڑھتا ہوں تو اس کی تفصیل ابھی بعد میں کرتا ہوں۔
ہمارا تصور علم ہے، کہ ہر شےچاہے وہ شعور کے اندر located ہو، چاہے وہ شعور کے باہر موجود ہو، ہر شے ہر subject اور ہر object، یہ اللہ کی قابل اعتبار نشانی ہے۔ ہر شے اپنے essence میں، ہر چیز اپنے جوہر میں، ہر چیز اپنی ماہیت میں، ہر شے اپنی غایت میں، اللہ کی نشانی ہے اور اس کے تجزیے کے نتیجے میں برآمد ہونے والا کوئی بھی جز اس کے اللہ کی نشانی ھونے کی حیثیت کو بڑھانے کے لائق ہونا چاہیے، گھٹانے کی طرف نہیں جانا چاہیے۔ اگر کسی شے کا clinical material مادی تجزیہ مجھے اس شے کو اللہ کی نشانی کے مرتبے سے گرانے پر مائل کر رہا ہے ،تو مجھے اس پورے تجزیے کو، پوری logic کو بلا تکلف اعتماد کے ساتھ رد کر دینا چاہیے، تو ہمارا تصور علم یہ ہے کہ شے کو اس کے تمام mechanics کے ساتھ، اس کی تمام کلینیکل تجزیاتی تفصیل کے ساتھ، اس کے تمام فطری اور مادی دروبست کے ساتھ جاننے کی کوششیں کرتے رہو، لیکن شے کے بارے میں اپنے اس شعور کو ہمیشہ شے سے حاصل ہونے والے ہر عارضی اور مستقل علم پر حاوی ، غالب اور مسلط رکھو، کہ یہ چیز اللہ کی نشانی ہے۔ تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ شے سے وابستہ شعور کی عارضی ضروریات تو پوری ہوتی یا پوری نہ ہوتی رہیں گی، یعنی کہ وہ غلط اور صحیح علم کی تمیز کے دائرے میں رہیں گی، لیکن شے کے بارے میں جو تمہارا آخری علم ہے، وہ صحیح ہو گا، حقیقی ہو گا، یعنی شے اپنی حقیقت میں اللہ کی نشانی ہے، اپنی صورت میں میرے ذہن کے لئے ایک دعوت ہے کہ آؤ اور میرا تجزیہ کر کے مجھے اپنے مصرف میں لاؤ۔
واضح ہے نا؟
تو میں شےکی صورت کے تجزیے میں غلطی کرنے کی پوری آزادی رکھتا ہوں، شے کی صورت کو سمجھنے میں غلطیوں کا تسلسل مجھے اللہ سے دور نہیں کرتا۔ حتی کہ شے کی صورت کو اچھی طرح جاننے اور سمجھنے میں غلطی بھی مجھے شے کی حقیقت یعنی اس کے اللہ کی نشانی ہونے کے جوہر سے دور نہیں کرے گی۔ آپ سمجھیں، دنیا میں کس تہذیب کا، کس علم کا تصور ایسا ہے، جس میں غلطی بھی مفیدِ تحقیق ہو، جس میں غلطی بھی آپ کو اپنے object کی حقیقت سے جڑا ہوا رکھتی ہو۔
تو ہمارا تصور علم یہ ہے، کہ ممکن ہے کہ میں اس میز کی لکڑی کا تجزیہ کرنے میں ناکام رہا، ممکن ہے کہ میں پانی کا کیمیکل analysis کرنے میں غلط ہو گیا، لیکن جو میرا مسلمہ علم ہے، کہ پانی ہو یا میز، یہ دونوں ایک ہی اللہ کی دو نشانیاں ہیں، اس پر کوئی فرق نہیں پڑا ان علمی غلطیوں سے، ان تجزیاتی اغلاط سے۔
تو ہمارے تصور علم کی بنیاد اور غایت ہی یہ ہے کہ شے کے بارے میں ایک مستقل perspective قائم کرو اور شے سے حاصل ہونے والے تمام ادراکات کو اس مستقل تناظر کی تشکیل، تعمیر، تقویت اور تکمیل میں عملاً صرف کر کے دکھاؤ۔ یعنی کہ کسی چیز کے بارے میں تمہاری علمی غلطی بھی اس چیز کی حقیقت سے مزید قرب کا ذریعہ بن جائے۔ تو اس تصور علم کو، جو ایمانی شعور کا مرکز ہے، یعنی جو ایمانی شعور کا principle content ہے، جو ایمانی شعور کا بہت بڑا مسلمہ ہے، جو اصول ہے، اس علم کو عملاً تمام علوم کا بانی، موجد اور generator بنا کر دکھانا، یہ مسلم اہل علم کی ذمہ داری ہے۔
تو یہاں ذرا سا دیکھ لیتے ہیں کہ سماجی علوم سے کیا مراد ہے؟ social sciences سے کیا مراد ہے؟ جن کو دین کے تابع رکھنا ضروری ہے اور یہ ابوجہل کو کلمہ پڑھوانے سے کم عمل نہیں ہو گا۔ اگر آپ سماجی علوم کو دین کے تابع رکھنے میں کامیابی حاصل کر لیں تو ان شاء اللہ اس میں اتنا ہی اجر ہے جتنا ابوجہل وغیرہ کو کلمہ پڑھانے میں، بلکہ آج کل تو جہل ابوجہل کی استطاعت سے بہت زیادہ ہے۔
تو سماجی علوم اصل میں ایک کیل پر نصب گھومنے والا پاٹ ہے، وہ کیل ایک سوال ہے، یعنی تمام سماجی علوم ـــ ابھی اس کی فہرست بھی بنانے کی کوشش کرتے ہیں ـتمام سماجی علوم مختلف زاویوں سے ایک مستقل اور پرماننٹ سوال کے جوابات دینے کی کوششیں ہیں۔
وہ مستقل سوال ہے، ’انسان کیا ہے‘؟
تمام سماجی علوم اس سوال کی گونج سے بھرے ہوئے ہیں اور اس سوال کا اپنے اپنے زاویے، اپنے اپنے تناظر اور اپنے اپنے مقاصد کے ساتھ جوابات فراہم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ ‘انسان کیا ہے، کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی اندرونی بناوٹ کیا ہے اور وہ دنیا کیا ہے جس میں انسان ایک فعال کردار کے طور پر رہتا ہے۔ سماجی علوم گویا انسان اور انسانی دنیا کا تجزیہ کرکے اِن کو ڈیفائن کرنے کی کوششیں کرنے والے علوم ہیں۔ سماجی علوم کی، اللہ نے چاہا، تو یہ مکمل تعریف ہے۔ سماجی علوم میں جو بنیادی علوم ہیں، جن کے بارے میں ہمارا دینی موقف واضح ہونا چاہیے، جس پر ہمارے دینی شعور کو غالب ہونا چاہیے، مطلب صرف جاننا ہی نہیں چاہیے بلکہ غالب ہو کر دکھانا چاہیے، وہ ہیں: نفسیات، تاریخ اور فلسفہ تاریخ، لسانیات اور جمالیات، (فلسفے کا ایک شاخ کے طور پہ ذکر لکچر میں بعد میں کیا گیا ہے)۔ ان کے علاوہ بھی فہرست میں ضمنی علوم بہت سے ہیں، باقی علوم ان کے ضمن میں ہیں، سب کٹیگریز ہیں۔
اس دور میں، یعنی یہ وہ دور ہے، جس کے بارے میں اسی دور کے ایک بہت بڑے سوشل تھیورسٹ، سماجی علوم کے بہت ہی بڑے نام مشل فوکو نے کہا کہ مغرب کا جدید آدمی بائیو پروڈکٹ ہے۔ اب جو اس مشل فوکو کو جانتا ہے، وہ جانتا ہے کہ مشل فوکو بیسویں صدی کے سب سے بڑے اذہان میں سے ایک ہے، جس کا بہت زیادہ اثر پوسٹ ماڈرنزم کی تعمیر میں ہوا ہے، تو خیر اس جملے کا کیا مطلب ہوا کہ ویسٹ کا جدید آدمی بائیو پروڈکٹ (bio product) ہے۔ اس کا مطلب جاننے کے لئے ہمیں ایک تفصیل میں جانا چاہیے، وہ تفصیل یہ ہے کہ انسان کے بارے میں کسی مستقل تصور کی تلاش یا قبولیت کا عمل اس وقت سے ہے، جب سے انسانی ذہن کام کر رہا ہے۔
تو انسان کی تعریفات کے چند مدارج، مراتب اور ڈگریز ہیں۔ ان میں ایک ہے کہ انسان بائیولوجیکل بینگ (Biological being) ہے، انسان حیاتیاتی وجود ہے، مادے میں حرکت اور نمو پیدا ہو جائے تو وہ حیات ہے۔ انسان ایک نامیاتی یا حیاتیاتی وجود ہے، انسان ایک جبلی وجود ہے، اب حیات سے ترقی کر کے جبلت ــ جبلت کا مطلب ہے، کہ یہ کچھ خواہش رکھتی ہے، ان خواہشات کا ادراک رکھتی ہے اور ان خواہشات کی تکمیل کرنے والے قابل حصول یا ناقابل حصول ذرائع بھی رکھتی ہے، جبلت کہتے ہیں خواہشات کے محرک کو ــــ میری تمام خواہشات کا محرک میری کوئی نہ کوئی جبلت ہے۔ تو انسان کی ڈیفینیشن اپنے دوسرے دوسرے درجے میں وہی جبلت کی ہے۔ انسان ایک instinctive being ہے، جبلی وجود ہے۔ یا ہماری اصطلاح میں کہیں انسان ایک طبیعت ہے، پہلا درجہ انسان جسم ہے، دوسرا درجہ انسان طبیعت ہے۔ تیسرا درجہ ہے انسان ایک عقلی وجود ہے، ذہنی وجود ہے۔ یعنی انسان چیزوں کو دیکھ کر ان کی ان دیکھی حقیقت تک پہنچنے کی ضرورت کو محسوس کرتا ہے اور اس ان دیکھی حقیقت کی طرف رہنمائی کرنے والا کوئی اشارہ اس کے اندر سے یا باہر سے دستیاب ہو جائے، تو اس اشارے کو appreciate اور قبول اور اینالائز کر سکتا ہے، تو انسان ایک ریشنل بینگ (Rational Being) ہے۔ اگلا درجہ ہے، انسان ایک ماڈل بینگ (Model Being) ہے، انسان ایک اخلاقی وجود ہے، انسان خیر و شر کے بنیادی اقدار کا شعور رکھتے ہوئے خیر کو اختیار کرنے اور شرسے بچنے کے لیے درکار مجاہدہ عقلی آمادگی کے ساتھ کر سکتا ہے۔ اگلا درجہ ہے کہ انسان ایک روحانی وجود ہے۔ اب یہ تمام اصطلاحی میں دینی طور پر ڈیفائن نہیں کر رہا، یہ فلسفیانہ اصطلاحیں ہیں اور ہاں وہ تو بتانا ذہن سے نکل ہی گیا کہ فلسفہ بھی ایک سوشل سائنس ہے، یہ نام نہیں لیا تھا میں نے، تو انسان کے روحانی وجود کا مطلب یہ ہے کہ یہ میٹا فیزیکل امور کا علم رکھے بغیر ان کا اثبات کر سکتا ہے، یہ شعور کا آخری درجہ ہے، یہ وجود کی آخری سطح ہے۔ عقل کا منتہٰی ہے، کہ وہ کچھ چیزوں کو نہ جان سکنے کے یقین کے باوجود ان چیزوں کے ظہور کو اپریشیٹ کر کے ان غائب از عقل چیزیں کو ماننے کے قابل ہو۔ تو اس وجہ سے انسانی شعور میں علم کی تکمیل کا جو نکتہ ہے، وہ جاننے کا نکتہ نہیں ہے ماننے کا نکتہ ہے۔ یعنی علم اپنی تکمیل میں ماننا بن جاتا ہے، جاننا نہیں رہتا۔ علم اپنی تکمیل میں ایک اجمال محکم بن جاتا ہے، تفصیل نہیں رہتا۔ باقی آپ کبھی اپنے اپنے ذہن میں جھانک کر دیکھ لیں، تو آپ کے جو اٹل معتقدات ہیں، آپ ان کو مذہبی معنی میں نہ بھی لیں، آپ کے دنیا کے بارے میں جو اٹل مسلمات ہیں، وہ مجمل حالت میں موجود ہیں، ان کا مفصل کر دینا آپ کو لگے گا کہ آپ کے بس سے باہر ہے، یعنی انسانی شعور کی سب سے قیمتی متاع شعور پر حکومت کرنے کے لئے ہوتی ہے شعور کا موضوع بننے کے لئے نہیں ہوتی۔
جیسے اب نمبر ہے، نمبر ٹائم سپیس چھوٹا بڑا ہونا اونچا نیچا ہونا، یہ عقلی شعور کے عقلی مسلمات ہیں۔ یعنی عقل اپنے کسی تصور کی تشکیل نہیں کر سکتی ٹائم اور اسپیس کے مسلمات سے باہر نکل کر، عقل اپنی کسی دلیل کو تعمیر نہیں کر سکتی، نمبر اور contradiction کی پابندی کے اصول سے بے نیاز ہو کر۔ لیکن اگر عقل سے کہا جائے کہ ٹائم کہاں ہے، سپیس کہاں ہے، اس کو دکھا دو، اس کو چکھا دو، اس کو سجھا دو، اس کو یقین کی حد تک مدلل بنا دو، ایمپیریکل بنا دو، عقل سے کہا جائے کہ ایک سیب اور ایک امرود میں جو ایک مشترک ہے، اس ایک کا وجود دکھا دو، تو عقل کے لئے یہ پورا سوال نامانوس ہے، تو اسی لئے انسانی ذہن اپنے مسلمات کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کو مصنوعی سوالات سمجھنے اور قرار دینے کا نیچرل اور ریشنل حق رکھتا ہے، اس پہ شرمانے کی ضرورت نہیں۔ یعنی انسانی شعور کے جو بنیادی ترین مسلمات ہوتے ہیں، جو اس کے تمام علوم کی تشکیل میں سبسٹینس اور جوہر کے طور پر شریک حال رہتے ہیں، وہ مسلمات ،وہ بنیادی دلائل، خود استدلال کے نتائج نہیں ہوتے، خود کسی علمی حرکت کے نتائج نہیں ہوتے، بلکہ وہ علم کا منبع ہوتے ہیں۔ علم پیدا ان سے ہوتا ہے، وہ علم سے ثابت نہیں ہوتے۔
مشل فوکو کا کہنا یہ ہے، موجودہ ویسٹ کا جو جدید آدمی ہے، اس نے اپنے شعور اور اپنے ہونے کی تمام بلند سطحوں کا انکار کر دیا ہے، ان سے بےرخی اختیار کر لی ہے، ان سے لاتعلقی اختیار کر لی ہے اور خود کو Darwinism کے اثر سے یا بعض تہذیبی محرکات کے نتیجے میں خود کو جسمانی اور بائیولوجیکل وجود کی سطح تک محدود رکھنے پر آمادگی پیدا کر لی ہے۔ پورا پوسٹ ماڈرنزم اس فقرے کی تفصیل ہے، کہ انسان ایک بائیو پروڈکٹ ہے۔ خیر اب اس کی تفصیل میں کیا جاتے ہیں، کارل مارکس سے لے کر مشل فوکو تک بہت سارے مدارج ہیں، تو جس طرح قرآن شریف ایک حق کے بیان اور اظہار کی جہت پر کھڑا ہو کر انسانی علم اور انسان کی تمام علمی، جمالیاتی، ادبی، فلسفیانہ استعدادوں کو چیلنج کرتا ہے، کہ لاؤ اس آیت کو اس کے لفظی دروبست کے ساتھ مقابلہ کر کے دکھا دو، اس آیت کا اس کی معنوی ہیئت کے ساتھ مساوات رکھنے والا کوئی بیان کری ایٹ کر کے دکھا دو۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا، اس کا مطلب کیا ہے، کہ قرآن سے تربیت پاکر اپنے شعور کو یکسو رکھنے والے آدمی کے لئے ضروری ہے، کہ اس کا ایمان اپنے دور کے تمام علوم اور تہذیبی اقدار کے لیے ایک چیلنج بن کر رہے، کہ آؤ علمی سطح پر میرے شعور کی برابری کر کے دکھاؤ اور عملی سطح پر میرے اخلاق کا مقابلہ کر کے دکھاؤ۔ یہ قرآن پر ایمان کا ایک فطری نتیجہ ہے، قرآن کے وارث ہونے کی ایک نیچرل کوالیفیکیشن یہ ہے کہ قرآن نے جو شعور تمہیں عنایت فرمایا ہے، اس شعور کو ذہن اور شعور کی تمام مروج اور متداول قسموں سے پیدا ہونے والے تمام استدلال پر غالب کر کے دکھاؤ، غالب رکھ کر دکھاؤ۔ تو اسی وجہ سے ہمارے سلف، اللہ ان کی قبریں روشن رکھے، اللہ ان کی قبریں ٹھنڈی رکھے، اللہ ان کی یادیں ہمارے دل میں زندہ رکھے، اللہ ان کے جذبہ اتباع کو ہمارے اندر کبھی کمزور نہ پڑنے دے، وہ کیا لوگ تھے کہ اپنے زمانے میں انسان اور انسانی نفسیات اور انسانی تہذیب کی صورت گری کرنے یا کرسکنے والے تمام علوم پر منتہیانہ دسترس رکھتے تھے اور ہر علم کو گویا پیشانی سے پکڑ کر ایمانی شعور کی تحویل میں دے دیتے تھے، یہ کام اہل علم کا نہیں ہے؟ کہ آج اخلاق اور ذہن کی تعمیر میں جن علوم کا کردار بلاشک و شبہ صادق ہو چکا ہے تمام علوم کو ایمان کے تابع کر کے دکھائیں، ان تمام اقدار کو عمل صالح سے مغلوب رکھ کے دکھائیں یہ مسلمان کا فریضہ نہیں ہے؟ یہ مسلمانوں کی ذمہ داری نہیں ہے؟ وہ ذہن میں بھی سبقت لے جا کر دکھائیں اور اخلاق میں بھی فوقیت حاصل کر کے دکھائیں اس کے بغیر مسلمان ہونا ایک غیر ذمہ داری کے ساتھ اسلام کو مان لینے کا عمل تو ہو سکتا ہے لیکن اسلام قبول کیے جاتے ہی جو ذمہ داری کا شعور فطری طور پر دے دیتا ہے ہمیں اس کے لئے کسی کاوش اور استدلال کی ضرورت نہیں، اس ذمہ داری سے روگردانی ہے یا جو ہماری نوبت آ چکی ہے کہ ہم ہر چیز کو سمجھنے کے لئے ویسٹ کے Episteme کو اختیار کرنے کے پابند ہو چکے ہیں، اس صورتحال کو سمجھو کہ آج تمہارے کسی بھی نظریے، دنیا کے بارے میں علم اور تصور کے بننے کا ساراعمل جو ہے وہ ویسٹ کے مادہ علم سے عمل میں آتا ہے، تشکیل پاتا ہے، تو یہ کتنی بڑی نالائقی ہے میری کتنی بڑی نا اہلی ہے، میری کتنی بڑی غفلت ہے میری، کہ انسانی وجود اور شعور دونوں کو سیراب کرنے والا پانی مغرب کے چشمہ زہراب سے آتا ہے یعنی مغرب کا جو زہراب کا چشمہ ہے اس سے تم اپنے شعور کے درختوں اور پودوں کو پانی دے رہے ہو اور اگر اس سے نہ نکلے اور اس سے نکلنے کی بہت منظم کوششیں نہ کی تو پھر شناختی کارڈ والے اسلام کے علاوہ کوئی مسلمانی باقی نہیں رہے گی۔
مثال کے طور پر فلسفے کو لے لیں، سوشل سائنسز میں کلاسیکل hierarchy کے مطابق روایتی نظام مراتب کے مطابق سوشل سائنسز میں سب سے بڑی حیثیت فلسفے کی تھی، جو اب نہیں رہی، لیکن بہرحال سوشل سائنسز بلا استثناء فلسفے کی ذیلی شاخیں (offshoots) ہیں اور نیچرل سائنسز بھی، یعنی یہ فزکس وغیرہ بھی پہلے فلسفے کے شعبے تھے۔ اگر ارسطو کو آپ پڑھیں تو اس میں سائنسی علوم بھی فلسفے کے شعبے تھے، نفسیاتی علوم بھی فلسفے کے شعبے تھے، تو فلسفے کا مقصود تھا، اس کائنات کی ایک مشترک حقیقت یقیناً ہے اس کائنات کی حقیقت واحدہ یقیناً ہے، لیکن اس حقیقت واحدہ کا تجربی شعور ہمیں حاصل نہیں ہے، اس حقیقت واحدہ پر عقلی دلائل وضع کیے جاسکتے ہیں، لیکن اس کا مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا، تو فلسفے کا اصل موضوع یہ تھا کہ اس حقیقت واحدہ کے اثبات کے لئے قائل کر دینے والے دلائل ایجاد کرے اور ان دلائل میں اتنی شدت پیدا کرے کہ اس حقیقت واحدہ کے تجربی مشاہدے کی خواہش غائب ہو جائے ،یہ فلسفے کا اصل مقصد تھا، یعنی فلسفے کے آغاز سے، تو وہاں بھی اگر آپ دیکھیں یعنی کلاسیکل فلسفے کو اور سقراط وغیرہ سے پہلے کے فلسفہ کو، ہندوستان کے فلسفے کو، اس میں آپ کو صاف نظر آئے گا فلسفہ وحی کے نہ ہونے کے ماحول میں دین جیسا ہمہ گیر، ہمہ جہت ڈسکورس بننا چاہتا ہے۔ یعنی فلسفے کا مطلب ہے یونان کا فلسفہ، یونان کی تہذیب وحی سے جیسے خالی تھی، جب فلسفہ پیدا ہوا فلسفہ گویا شعور کی ایمانی خواہشات کو عقل کی کمک لے کر پوری کرنے کا نام تھا۔ اس کے بعد اس کلاسیکل فلسفے پر ضرب لگائی ڈیکارٹ نے، اس نے مابعد الطبعیات اور مادے کو ایک دوسرے سے منقطع کر کے ان دونوں کے لیے درکار دلائل کو ایک دوسرے پر غیر مؤثر کر کے شعور کے دو حصے کر کے، کہ خدا کو خدا کی طرح مانو چیزوں کو خدا کے حوالے سے ماننا چھوڑ دو، نہ چیزوں میں خدا کو دیکھو نہ خدا سے چیزوں کو جوڑ کے دیکھو، یہ ہے اس کے فلسفے کا بہر حال خلاصہ۔ تو فلسفہ ایک کل تھا، جس میں ایک اندر سے ڈیکارٹ نے دھماکہ کر دیا۔ اندر دھماکا ہونے کے بعد اس کل کے تمام اجزاء اس سے منحرف ہوتے چلے گئے۔ یہ ہے جدید دنیا، جدید سماجی علوم، جو فلسفے کے کل میں ڈیکارٹ اور ہیوم کی طرف سے کئے گئے دھماکوں کے نتیجے میں اس کے منحرف اجزاء کی حیثیت سے اپنی الگ الگ حیثیتیں بنانے میں اور منوانے میں کامیاب رہے۔
اب جو صورتحال ہے، وہ یہ ہے کہ اس وقت کسی حقیقت واحدہِ کائنات کی کوئی بھی جستجو کسی بھی علم کا موضوع نہیں ہے۔ موجودہ جو صورتحال ہے اس میں حقیقت اور صورت کے اصطلاحوں سے پیدا ہونے والے ذہن کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اس میں میٹافزیکل حقائق کو مان لینے، مان سکنے کی کوئی گنجائش کوئی اجازت نہیں ہے۔ اس میں جو کچھ ہے، وہ فزیکل ہے یا psychic ہے، یہ بات میری دانست میں ایسی ہے جو ممکن ہے کہ کتابوں میں پڑھنے میں دیر لگے تو اس کو میں تھوڑا سا اور واضح کر دوں کہ ہماری تشخیص یہ ہے کہ ذہن کو مابعد الطبعیات یا ہم اپنی اصطلاح میں کہیں تو ایمانی تناظر سے عاری کرنے کے بعد، کیونکہ ذہن کی میٹا فیزیکل امنگوں کو ختم نہیں کیا جاسکتا، تو اس کے اس شور سے اس آواز سے بچنے کے لئے جہاں ذہن ما بعدالطبیعی حقائق کو طلب کرتا ہے، اس آواز سے بچنے کے لئے انہوں نے نفسیات اور تھیوری آف پرسیپشن کا سہارا لیا۔
اب آپ ان کا دجل دیکھیے کہ شعور جو ہے، وہ خدا کے حضور میں رہے بغیر چیزوں کو اپنے علم کا حصہ بنا ہی نہیں سکتا۔ یہ ذہن کی فطرت ہے کہ اگر خالق کائنات کا حضور اگر پہلے سے اسے میسر نہ ہو تو وہ کائنات کے بارے میں کسی بھی علم کی صحیح یا غلط تعبیر یا تشکیل نہیں کر سکتا ۔تو انہوں نے ذہن کو اس کی فطرت سے ہٹانے کی کاوش کی ہے۔ اس کاوش کو اب نئے ذہن کی تعمیر میں صرف کرنے اور ذہن کو اس کی فطرت اصلی سے ہٹانے کے لئے جہاں وہ کہتا ہے، خدا کہاں ہے، جس کی مدد سے میں چیزیں ڈیفائن کرو ں، ‘خالق کائنات کہاں ہے، جس کی مدد سے میں کائنات کے میکینکس کو سمجھوں وہ ہدایت کہاں ہے جو مجھے اس نظام فطرت کے سمجھنے کو، حقیقت کو جاننا ممکن بناتی ہے، تو اس کے لئے انہوں نے علم نفسیات میں نظریاتی جہتیں پیدا کی ہیں، وہ جو بات میں کہہ رہا ہوں میرے خیال میں اس بات پر ہمیں غور کر کے اور اس سے مطابقت رکھنے والے مواقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے شعور کے تمام مابعد الطبیعی تقاضوں کو اسکی لاشعوری سرگرمیاں قرار دے دیا، یعنی نفسیات نفسیات کسے کہتے ہیں، جدید نفسیات کی کیا ڈیفینیشن ہے، جدید نفسیات نام ہے انسٹنکٹ instinct اور شعور میں تعلق کی قسمیں اور ان کی تاثیرات دریافت کرنے کا، کہ کچھ محرکات ہیں جن سے میری طبیعت پسند نا پسند کا مزاج تشکیل پاتا ہے، کچھ جبلتیں ہیں جو میرے وجود کے حیوانی عنصر کے قیام کے لئے ضروری ہیں، ان جبلتوں کا میرے شعور کی بلند سطح یعنی میرے ذہن اور شعور سے پریکٹیکل اور فنکشنل ایفیکٹیو تعلق کیا ہے، اس کے جواب کو نفسیات کہتے ہیں۔
تو انہوں نے یہ کیا، کہ جتنا شعور میں گونج تھی، خدا ہے، خدا ہے، مالک ہے، خالق ہے، معبود ہے، اس گونج سے ذہن کے کان کو بہرا کرنے کے لیے انہوں نےذہن کو سکیڑ دیا اور شعور کو اس کی فطری ساخت میں لاشعور قرار دے دیا۔ لاشعور کا مطلب یہ ہے، کہ جس کے contents کی مدد سے آپ کسی علم کی تشکیل نہیں کر سکتے۔ جس کے contents آپ کے تخیل کی تشکیل میں تو استعمال ہو سکتے ہیں، لیکن لاشعور میں موجود چیزوں کو جوڑ کر آپ کوئی حقیقی علم اور واقعی دانش تخلیق نہیں کر سکتے۔ (یہ) علم کہلانا کوالیفائی نہیں کرتا۔ تو اب آپ اس دھوکے کو دیکھیے اور اس کے مقابلے میں اپنی ذمہ داریوں کو دیکھیے، کہ انہوں نے شعور کی خدا طلبی، شعور کی آخرت خوئی، شعور کے اندر فطرت میں رکھا ہوا ملکہ خداشناسی اس طرح انسانی ذہن سے لاتعلق کر دینے میں کامیابی حاصل کی، اپنی تہذیب میں تو انہوں نے پوری کامیابی حاصل کی۔
آج تمہارے کسی بھی نظریے، دنیا کے بارے میں علم اور تصور کے بننے کا ساراعمل جو ہے وہ ویسٹ کے مادہ علم سے عمل میں آتا ہے، تشکیل پاتا ہے، تو یہ کتنی بڑی نالائقی و نا اہلی ہے، کتنی بڑی غفلت ہے میری، کہ انسانی وجود اور شعور دونوں کو سیراب کرنے والا پانی مغرب کے چشمہ زہراب سے آتا ہے یعنی مغرب کا جو زہراب کا چشمہ ہے اس سے تم اپنے شعور کے درختوں اور پودوں کو پانی دے رہے ہو اور اگر اس سے نہ نکلے اور اس سے نکلنے کی بہت منظم کوششیں نہ کی تو پھر شناختی کارڈ والے اسلام کے علاوہ کوئی مسلمانی باقی نہیں رہے گی۔
شعور کا جو ایمانی ڈیٹا ہے، اس کے تخیل کا حصہ ہے، اس کے خوابوں کا حصہ ہے، اسے اس کی بیداری سے کوئی تعلق نہیں۔ لاشعور کا مطلب ہے سویا ہوا شعور، جو خواب دیکھ رہا ہے۔ تو سوئے ہوئے شعور کے خوابوں کو بیداری سے غیر متعلق شعور کی بیداری سے غیر متعلق کرنے کی جو انہوں نے ایسی کوشش کی، جس کی بنیاد پر ان کی موجودہ تہذیب اور موجودہ ذہن کا پورا ڈھانچہ کھڑا ہوا ہے، اب وہ اس پورے مزاج کو، اس پوری perception کو، اس پوری مصنوعی حالت کو مسلط کر رہے ہیں، اپنے علوم کے ذریعے، اپنے مختلف نظاموں کے ذریعے سے، اپنی طاقت کے ذریعے سے، اپنے آپ کو ہراعتبار سے ناگزیر اور پرکشش بنا لینے کے ذریعے سے، (وہ) ہمیں اس طرف کھینچ رہے ہیں کہ ہم بھی اپنے ایمانی شعور کو لاشعور کے قبضے میں دے کر اس کی امنگوں سے اس کے مسلمات سے، اس کے معتقدات سے فارغ، بے نیاز اور غافل ہو جائیں۔
یہ صر ف ایک نفسیات کا معاملہ نہیں ہے، لسانیات (بھی اس لیے استعمال ہو رہی ہے) جو اس وقت فلسفے کی آخری پناہ گاہ ہے۔ فلسفے کو فزکس وغیرہ نے دیس نکالا دے دیا، اب مغرب میں فلسفہ کی آخری پناہ گاہ لسانیات ہی ہے۔ لسانیاتی فلسفہ باقی رہ گیا، باقی فلسفی اچکوں کی طرح کام کر رہے ہیں ، کچھ ادھر سے، کچھ ادھر سے لے کر وہ اپنا کام چلا رہے ہیں۔ فلسفہ مغرب میں بھی عالم نزع میں ہے۔
لسانیات میں آپ دیکھیں، انسانی ذہن اور اس کے نظریے کا تعلق بالکل اسی انداز کا ہوتا ہے، جس انداز کا تعلق لفظ اور اس کے معانی میں ہوتا ہے۔ انسانی ذہن اپنے نظریے اور مسلمے اور عقیدے کو اسی طرح محفوظ رکھتا ہے، اسی طرح contain کرتا ہے، جس طرح contain کرنے کی عادت لفظ کی ہے، یعنی لفظ جس طرح معانی کو اپنے اندر رکھتا ہے، انسانی ذہن ایسے ہی اپنے حقائق کو contain کرتا ہے۔ اگر لفظ میں معانی کا وجود مشتبہ قرار دے دیا جائے، اگر لفظ اور معانی کے سارے تعلق کو فرضی اور خیالی مان لیا جائے، تو اس کے نتیجے میں لامحالہ یہ ماننا ناگزیر ہو جاتا ہے کہ ذہن اور اس کے عقیدے کا تعلق بھی فرضی ہے، اضافی ہے۔ اگر آپ لفظ میں موجود معانی کو یہ کہہ رہے ہیں، کہ یہ لفظ کے ساتھ نسبت رکھنے میں مفروضے کی طرح ہے، یعنی معانی لفظ کے لیے ایک مفروضہ ہے، ویسے ہی آپ گویا یہ کہہ رہے ہیں کہ ذہن کے لیے اس کا ایمان، اس کا عقیدہ ایک مفروضہ ہے۔
آج کل، ادب اور فلسفہ کے قارئین deconstruction کی تھیوری سے ضرور واقف ہوں گے۔ ایک فلسفی گزرا ہے حال ہی میں، دریدا، اس نے یہ تھیوری پیش کی ہے۔ اس تھیوری کا ایک حصہ ہے suspension of meaning ، یعنی معنی کا تعطل، وہ یہ کہتا ہے کہ ہم جو چیز بھی لفظ یا کسی بھی indicator سے اخذ کرتے ہیں، وہ معانی نہیں ہوتے، بلکہ معانی کی طرف اشارہ کرنے والی کچھ قابل ادراک چیزیں ہوتی ہیں، وہ معانی کی فرضی صورتیں ہوتی ہیں، معانی ہمیشہ معطل رہتا ہے، ہمیشہ suspended رہتا ہے، معانی نہ کبھی لفظ کی تحویل میں آتا ہے نہ کبھی ذہن کے قبضے میں آتا ہے، اب آپ یہ سوچیے کہ یہ کتنی گہری ضرب ہے اس ذہن پہ، جو یہ کہتا ہے کہ میرے لیے میرے معانی حقیقی اور یقینی ہیں اور جو یہ جانتا ہے، کہ لفظ جن معانی کو express کر رہا ہے، وہ مفروضے نہیں ہیں، حقائق ہیں۔
اس کے علاوہ بھی آپ معاشیات میں چلے جائیں، اخلاقیات میں، جس میں بھی چلے جائیں۔ آپ کسی بھی پہلو سے کسی بھی سوشل سائنس کو دیکھ لیں، آپ کو واضح لگے گا کہ ان لوگوں نے ایک منصوبے کے طور پہ دینی ذہن کو شعور کی اقلیم سے خارج کر دینا ٹھان رکھا ہے، تو ایسی نامساعد، ناموافق اور ناسازگار علمی صورتحال میں ہم سب کا یہ اجتماعی فریضہ ہے کہ ہم اپنے ایمان کو اپنے شعور کا منبع اور مرجع بنا کر دکھائیں، ہم اپنے ایمان کو اپنے علوم کا ماخذ اور علوم کا مقصود بنا کر دکھائیں۔ ہم اپنے تصور علم کو اس طرح عمل میں لا کر دکھائیں، جس میں غلطی سے ڈرنے کی ضرورت نہ ہو، کیوں نہ ہو، کیوں کہ اس کی مقصود صحت مجھے حاصل ہے۔ جیسے میں نے عرض کیا، کہ ہر چیز خدا کی نشانی ہے، یہاں ہر شے کا علم اس کی حقیقت سمیت مکمل ہو گیا، اب اس کی صورت کے تجزیے میں دو آدمی مختلف ہو سکتے ہیں، دونوں صحیح یا دونوں غلط ہو سکتے ہیں، وہ ثانوی بات ہے۔ تو سب سے پہلے ہمیں ایمان کا ام العلوم ہونا ثابت کرنا ہے اور اس کےلیے بہت ضروری ہے کہ ہم چیزوں کو اس تعریف ‘ہر چیز خدا کی نشانی ہے کے سائے میں رکھ کر لائقِ علم بنائیں کہ یہ سب اللہ کی متعدد مختلف نشانیاں ہیں۔
تعلیم کا مطلب ہے کہ ذہن اور اخلاق میں فرق نہ رہے، جو علم اچھا آدمی نہ بنائے وہ علم نہیں اور جو علم ذہن کو حالت تسکین fulfilled حالت میں نہ رکھے، وہ بھی علم نہیں۔ تو طبیعت خیر کی بنیاد پہ تسکین میں رہے، ذہن حق کے اثر پر تسکین میں رہے، بس یہی علم ہے، جسے یہ دونوں حالتیں فراہم ہو جائیں، وہی علم ہے۔ تویہاں کا تعلیمی نظام، تعلیمی مقاصد، قابل رشک ہیں۔ یہاں کی پروڈکٹس قابل رشک ہیں۔
تو میری گزارش ہے کہ آپ حضرات (شعبہ تعلیم کے منتظمین، مربی حضرات، سسٹمز کے مالکان) مہربانی فرما کر اپنے نصاب تعلیم میں، اپنے تدریسی عمل میں اس چیز کو بھی شامل کر لیں کہ ایمان کو تمام علوم کا مبداء واحد کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ ایمانی شعور کو شعورکی دیگر تمام faculties کا مربی اور سر پرست کیسے بنایا جا سکتا ہے۔
شعور کی کئی faculties ہیں نا، مذہبی شعور ہے، اخلاقی شعور ہے، جمالیاتی شعور ہے، عقلی شعور ہے، یہ کانٹ کی تقسیم ہے۔ اس میں ہم سب پہ لازم ہے، کہ ہم اپنے ایمانی شعور کو جمالیاتی شعور کا بھی مربی بنائیں، عقلی شعور کا بھی رہبر بنائیں، اخلاقی شعور کا بھی کفیل بنائیں، یہ ہماری ذمہ داری ہے اور اپنے ہر تعلیمی عمل میں اس ذمہ داری کو مقصود کے طور پہ پیش نظر رکھنا چاہیے، کہ میرا جمالیاتی شعور بھی اللہ کے حضور سے سیراب ہو، میرا عقلی شعور بھی اللہ کے حضوری میں رہنے سےمانوس ہو، یہ ہم سب کے لیے بہت ضروری ہے۔
جیسا کہ سقراط نے کہا تھا کہ علم کے نتائج اگر اخلاقی نہیں نکلتے، تو وہ علم نہیں ہے۔ یہ بات سقراط سےکہیں زیادہ تیقن اور تحکم سے ہم کہہ سکتے ہیں، ہمیں کہنے کا حق ہے کہ علم کے نتائج اگر اخلاقی نہیں ہیں تو وہ دینی علم نہیں ہے، کیونکہ دینی علم اللہ کے خوف سے شروع ہوتا ہے، اللہ کے خوف پہ تمام ہوتا ہے، اس کی محبت کو سمیٹ کر، اس کی معرفت کو سمو کر۔ بس اللہ ہم سب کو اس لائق بنائے کہ اگر ہم نے اپنی ذمہ داری کا صحیح احساس کیا ہے، تو ہم اسے مؤثر انداز میں عمل میں لانے کے لائق بنائے۔
موضوع سے متعلق چند سوالات اور احمد جاوید صاحب کے جوابات:
1) اللہ کی نشانی کا مطلب کیا ہے، یہ نشانی دیکھ کر ہر سائنسدان پہچانتا کیوں نہیں؟ اس درمیان میں کون سی کڑی غیر موجود ہے؟
ج: جس نے اپنے شعور کے اس حصے کو بیدار نہ رکھا، جو اسے اللہ کی طرف سے ودیعت کیا گیا ہے اپنی نشانیاں دیکھنے کے لیے، تو وہ اللہ کی کھلی کھلی نشانیوں کو بھی دیکھنے کے لائق نہیں ہو سکتا، تو اگر کوئی سائنسدان، دہریے اور فلاسفہ چیزوں کو اللہ کی نشانی کے طور پہ نہیں دیکھتے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنے شعور کو اس کی فطری اصل سے ہٹا کر اسے اپنے اوپر حاکم بنایا ہے۔
2) کیا physical اور Biological سائنسز میں Ethics کو شامل کر کے مذہب کو replace کیا گیا ہے؟ مذہب سے شعور کو کس حد تک مطمئن کیا جا سکتا ہے؟
ج: Ethics اور Physical سائنسز کے درمیان جو تعلق ہے، یہ جدیدیت کے بڑے منصوبوں میں سے ایک تھا، کہ یہ سائنس کی بنیاد پہ، سائنسی تصور وجود کی بنیاد پر انسان اور اس کی دنیا، انسان اور اس کے نفس کے تمام مطالبات پورا کرنے کا بیڑا اٹھا رہے تھے، تو انہوں نے Ethics اور physics کا فرق، جو شاید لازمی تھا، فطری تھا، اسے ختم کر دیا۔ تو Ethics بلاشبہ اپنی بعض حالتوں میں اصل میں نام ہی شعورِ تعلق اور جذبہ تعلق کی تعلیم کا ہے۔ Ethics کسے کہتے ہیں، اللہ نے مجھے اور آپ کو ایک نظام تعلق میں پیدا کیاہے، اس نظام تعلق کے متعدد کردار ہیں اللہ سمیت، تو اس تعلق کو productive رکھنا، effective رکھنا، اس تعلق کو برقرار رکھنا صحیح سمت میں، یہ میری آپ کی ذمہ داری ہے، تو اس تعلق کو صحیح سمت میں، productive حالت میں برقرار رکھنے کی تدابیر کے مجموعے کو Ethics کہتے ہیں۔ تو یہ ظاہر ہے کہ Ethics اگر اپنی فلسفیانہ حالت میں بھی ہو، تو وہ خدا تک پہنچنے کا ایک داعیہ ضرور پیدا کرے گی، ورنہ خدا تک نہ پہنچ سکنے کا قلق ضرور ہم میں منتقل کرے گی، لیکن جدید اخلاقیات ان دونوں اوصاف سے اس لیے خالی ہے، کہ جدید اخلاقیات organization کے اصول پہ کھڑی ہے، تعلق کے اصول پہ نہیں۔ تو جدید نظام تعلق organizational ہے، پورا مغرب organization کو برقرار رکھنا چاہتا ہے، وہ کسی ایسے نظام تعلق کو نہیں مانتا، جو میرے قلب کی تسکین کرے، میرے روح کو بالیدہ کرے، میرے فطری اخلاقی مطالبا ت کی تکمیل کا وسیلہ بن سکے۔ جدید اخلاقیات دراصل سرمایہ دارانہ ایجنڈا میں سرمایہ دارانہ تنظیم کو برقرار رکھنے کا ایک حربہ و حیلہ ہے۔ دل کی شمولیت کے بغیر کوئی اخلاق نہیں ہے۔ خدا کے تعلق اور دل کی شمولیت کے بغیر کوئی اخلاق نہیں ہے۔ تو انہوں نے خدا سے تعلق کو تو بالکل خارج کر دیا اور دل کو شامل ہونے سے روک دیا اور دل کے انکار کرنے کا ڈول ڈال دیا ہے۔
3) نفسیا ت کو رد کرنے میں علم تصوف کی مدد کس طر ح حاصل کی جا سکتی ہے اور کیا وہ اس بارے میں مفید ہو سکتا ہے؟
ج: علم تصوف کو استعمال کیے بغیر جدید دین دشمن نفسیات کو رد کرنے میں مشکل پیش آئے گی، کیونکہ صوفیا نے انسانی نفس میں موجو د جوہر ِبندگی کی گہرائیوں میں اتنی سیر کر رکھی ہے، کہ ہمیں اسے رائیگاں نہیں جانے دینا چاہیے۔ صوفیا کی انفسی بصیرت علماء کی انفسی معرفت سے بہت زیادہ ہے۔ تو ہمیں اسے کام میں لانا چاہیے، اس کی غلطیوں کو دور کرتے ہوئے، اس کے درست پہلوؤں کو قبول کرتے ہوئے اور قابل عمل بناتے ہوئے۔
سب سے بڑی بات تو یہ کہ ایک عقیدے پہ کھڑے ہو جائیں، کہ انسان تعلق باللہ میں وفادار رہنے کے لیے، تعلق باللہ کے مادے سے پیدا ہوا ہے اور اس تعلق باللہ کے برقرار رکھنے کے امتحان سے گزرنے کے لیے اس دنیا میں بھیجا گیا۔ اس کے نتیجے میں آپ نفسیات کے بڑے بڑے برج گرا سکتے ہیں، جب آپ یہ کہیں کہ انسان کی حقیقت بندگی ہے۔ انسان کوئی Bio Product نہیں، کوئی Rational نہیں ہے، یہ سب ہے، مگر اس کا جو Definition Umbrella ہے، وہ یہ ہے کہ انسان ‘عبداللہ ‘ہے۔ اس کے شواہد، نفسیات سے، احوال سے، شعور سے فراہم کریں، یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔
4) پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب نے کہاہے کہ بارہ سو سال، یعنی چھ سو سال قبل مسیح اور چھ سو سال بعد مسیح میں سارے فلسفے آ چکے تھے، بعد میں صرف اس کی تشریح ہے۔ یعنی پرانی شراب اور نئی بوتلیں۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟
ج: نام نہ لکھتے تو اچھا تھا، لیکن بہرحال یہ بات درست نہیں، بالکل بھی درست نہیں ہے۔ اگر آپ نام نہ لیتے تو میں اپنی بات کو مدلل کرتا۔
5) مسلمانوں میں بالعموم اور (ان کے) اہل علم میں بالخصوص یہ ذہن پایا جاتا ہے، کہ جب فلسفہ حالت نزع میں ہے، تو پھر اسے پڑھنے کا کیا فائدہ؟ کیا یہ ذہن درست ہے؟
ج: فلسفے کو اس رسی کی طرح نہیں پکڑنا چاہیے، جیسے کوئی ڈوبتا ہوا آدمی اپنی طرف آنے والی رسی کو پکڑتا ہے۔ فلسفہ ہمارے کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ فلسفہ تو ایسا ہے، کہ جیسے دل گھبراتاہے تو فلاں معجون کھا لو، تو دل گھبرانا رک جائے گا۔ تو ذہانت بڑھانی ہو تو فلسفہ بھی پڑھ لو، ذہانت بڑھانے میں یہ معاون ثابت ہوتا ہے اور ذہانت کو بڑھانا بہرحال ایک دینی ضرورت ہے۔ تو فلسفہ سے ہم کوئی رہنمائی تھوڑی حاصل کرتے ہیں، فلسفہ سمجھیے کہ ہمارے طبی ضرورت ہے۔
6) جو نوعیت آپ نے بیان فرمائی کہ سوشل سائنسز کو ایمان کے تابع کرنا ضروری ہے، تو کن خطوط پہ یہ کام ہو سکتا ہے؟ کچھ نکات؟
ج: یہی سب باتیں میں عرض کرنے کی کوشش کر رہا تھا، علم کہتے ہیں اپنے بنیادی تناظر perspective کو مفید ِعمل بنا لینا۔ اگر آپ کا بنیادی تناظر perspective ثابت ہو جائے اشیاء کی مدد سے، object کی مدد سے، تو وہ علم ہے۔ علم بنیادی تناظر پیدا نہیں کرتا، بلکہ اس سے جنم لیتا ہے۔ کوئی بھی علم خلا میں نہیں پیدا ہوتا، وہ ایک بنیادی perspective، شعور میں ایک بنیادی مقصود پہلے سے موجود ہوتا ہے، تمام علوم اس مقصود کو عمل میں لانے کے لیے، لائقِ حصول بنانے کے لیے، قابلِ تصدیق بنانے کےلیے وجود میں لائے جاتے ہیں۔
ہمارا بنیادی تناظر یہ ہے، موجودہ صورتحال میں، اگر ہم دو چیزوں پر علمی زور کے ساتھ اصرار کرنے کے لائق ہو جائیں تو ان شاءاللہ ہم ایمان اور علم کے درمیان گمشدہ کڑیوں کو پھر سے ڈھونڈ لیں گے اور وہ یہ کہ
‘کائنات مخلوق ہے، انسان کی حقیقت بندگی ہے۔
یہ دو، آپ ذرا سا اس پہ علوم پیدا کر کے دکھائیں، تو علم کا پورا جدید ابلیسی سٹرکچر گر جائے گا، جو انہی دو کے خلاف اعتقادات پہ کھڑا ہوا ہے، کہ کائنات مخلوق نہیں ہے اور انسان فلاں فلاں وجود ہے۔
7) جو لوگ یہ (جدید) علوم پڑھتے ہیں، ان کے (اداروں کا) ماحول جس طرح مرعوب کن ہوتا ہے، تو ماحول کے غیر محسوس اثرات سے کیسےبچا جا سکتا ہے؟ کتابیں، افراد اور بعض اوقات ماحول اس سب کا کیا کیا جائے؟ (سوال کی آواز غیر واضح تھی، سو مفہوم بیان کر دیا ہے کسی حد تک)
ج: اگر اس کا کوئی علمی جواب مانگا جا رہا ہے، تو مایوسی ہو گی شاید، عملی ایک پہلو بتاتا ہوں۔
داڑھی لمبی کریں، کندھے پہ رومال رکھیں، عمامہ باندھیں اور کسی بھی انسٹی ٹیوٹ میں چلے جائیں، آپ غیر متاثر رہیں گے۔ وہ سب آپ سے ڈرے ڈرے رہیں گے۔ تو اسلام میں ایک روحِ فاروقیت بھی چل رہی ہے نا، کہ شیطان عمر رضی اللہ عنہ کے سائے سے بھاگتا ہے۔ بس عمر رضی اللہ عنہ کی سی وضع اختیار کر لیں۔
وہ لوگ بہت ظلم کر رہے ہیں، جو ہماری دینی وضعوں کو قانونی بحثوں میں ڈال کر بے کشش بنا رہے ہیں، غیر ضروری بنا رہے ہیں۔
میرے ایک دوست تھے احمد حسن مرحوم، بہت ذہین، ان کا سا ذہین میں نے دیکھا ہی نہیں اور ان کا سا متقی بھی کم ہی دیکھا ہے۔ وہ کینیڈا اور فرانس میں رہتے تھے اور وہاں دعوت کا کام کرتے تھے۔ دعوت کا منہج ان کا یہ تھا کہ کسی بھی شعبے کے کسی بھی بڑے آدمی سے وقت لیتے تھے پہلے اور اس کے بعد وہ پہلی کوشش یہ کرتے تھے کہ اس شعبے کے اس ماہر کو یہ یقین ہو جائے کہ وہ اپنے discipline میں کچھ نہیں جانتا، تو وہ اس سے یہ اقرار کروا لیتے تھے۔ فزکس والے سے ملے تو چار چھ ملاقاتیں کرنے کے بعد وہ یہ اعتراف کرنے کے قابل ہو جاتاتھا کہ ’’احمد حسن! تم بتاؤ فزکس کیا ہے‘‘۔
تو اس طرح انہوں نے اس کلاس کے سینکڑوں لوگ مسلمان کیے۔ کینیڈا اور فرانس میں، اکیلے کام کرتے تھے۔ تو ان سے کسی نے پوچھا کہ وہاں آپ survive کیسے کرتے ہیں، وہ کہنے لگے کہ یہی چپل، یہ اٹنگا پاجامہ، یہ کاندھے پہ دھرا رومال، یہی مجھے SURVIVAL کے لیے درکار ہے اور یہی میرے کام آ رہا ہے۔
جو حقیقت اپنی سٹینڈرڈ فارمز کو چھوڑ دے، وہ حقیقت اپنے dilute ہونے کا سامان کرتی ہے۔ اوضاع مذہبی جو ہیں، ان کے تسلسل میں رخنہ ڈالنا، ان کے تعلق میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے۔
تسوید: بابر نثار، عاشر نثار، ابو عمر
نوٹ:
تسوید کے دوران خطیب کے الفاظ اور جملے اسی ترتیب سے پیش کیے گئے ہیں، جیسے لکچر میں موجود ہیں، البتہ کہیں کہیں تقریر کو تحریر کے اسلوب میں ڈھالنے کے لیے جملے کے ابتدائی حصہ کو آخری اور آخری کو درمیانی بنایا گیا ہے، لیکن یہ معدودے چند مقامات ہیں۔ بعض اوقات پہ مشکل لفظ کو آسان سے بدلا گیا ہے اور ایک آدھ جگہ انگریزی لفظ کا ترجمہ بھی ساتھ ہی کر دیا گیا ہےاور کہیں کہیں تفہیم کے لیے قوسین میں اشارہ جات بھی ہیں۔
یہ بھی ملاحظہ کیجئے: سٹیفن ہاکنگ کی موت اور نیم مولوی و نیم مارکسی کا فتنہ: پیرالطاف