یہ تجویز ملی ہے کہ ہندسے اُردو کی بجائے انگریزی والے استعمال کیے جائیں تو نوجوانوں کو پڑھنے میں زیادہ آسانی ہو گی۔ اس لیے اس دفعہ سے یہی کیا جا رہا ہے۔ پچھلی قسط (اس لنک پہ دیکھئے) سے میں نے یہ انداز بھی اختیار کیا ہے کہ پوری قسط میں بیان ہونے والے مختلف باتوں کو قسط کے آخر میں کسی ایک بات میں اکٹھا کر دوں۔ خاص طور پر قسط کے پہلے دو پیرا گرافوں کا آخری دو پیراگرافو ں کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ اس کے علاوہ اس دفعہ قسط کے آخر میں ایک سوال بھی پوچھا جا رہا ہے۔ مصنف۔
1967پاکستان میں نئی زندگی کا سال تھا۔ سیاسی سرگرمیوں پر پابندی 31دسمبر 1966 کو ختم ہوئی اس لیے نیا سال نئی امنگیں، نئی رونق اور نئے ہنگامے لے کر آیا۔ مشرقی پاکستان میں یہ چہل پہل مغربی پاکستان سے زیادہ محسوس کی جا سکتی تھی۔ وجہ شاید یہ رہی ہو کہ دو سو سال سے بنگال سیاسی شعور اور سیاسی جوش میں پورے برصغیر میں سب سے آگے رہا تھا۔ ہندوستانی قومیت ہو یا آل انڈیا مسلم لیگ، دونوں نے یہیں جنم لیا تھا۔
یکم مئی 1967کو ڈھاکہ میں مشرقی اور مغربی پاکستان کی پانچ سیاسی جماعتوں نے پاکستان جمہوری تحریک کے نام سے متحدہ محاذ بنایا۔ آٹھ نکات پیش کیے جن میں یہ مطالبات شامل تھے کہ پاکستان ایک جمہوری وفاق ہو، صوبوں کو خودمختاری دی جائے، دس سال کے اندر اندر ملک کے دونوں حصوں کے درمیان اقتصادی عدم مساوات ختم کی جائے اور نیوی کا ہیڈکوارٹر مشرقی پاکستان میں منتقل ہو جائے۔ دوسری سیاسی جماعتیں بھی اس سے ملتے جلتے مطالبات پیش کر رہی تھیں۔ حکومت ان مطالبات کی مخالفت کر رہی تھی۔
—-
اس دوران وحید مراد کی ٹیم دو فلموں کی تیاری میں مصروف رہی تھی، ’’احسان‘‘ اور ’’دوراہا‘‘۔
’’احسان‘‘، فلم آرٹس کی پیشکش تھی اور 30 جون 1967 کو ریلیز ہوئی۔ اسکرپٹ مسرور انور نے لکھا۔ ہمیشہ کی طرح موسیقار سہیل رعنا، فلمساز وحید مراد اور ہدایتکار پرویز ملک تھے۔ وحید، زیبا، ابراہیم نفیس، نرالا، روزینہ، خورشید کنول، ایم سلیم اور بے بی جگنو کے علاوہ کچھ اہم مہمان اداکاروں نے نفسیاتی ہسپتال کے مریضوں کا کردار ادا کیا۔ ان میں ظہور احمد، قاضی واجد اور آغا سرور شامل تھے۔ ایک اہم کردار قائداعظم کے ڈرائیور آزاد نے کیا تھا جنہیں اداکاری کا شوق فلموں کی طرف لے آیا تھا۔ چونکہ ’’احسان‘‘ وحید کی اہم ترین فلموں میں شمار ہوتی ہے اور کافی دیکھی جاتی ہے، اس لیے اس کے ذریعے قائداعظم کے اتنا قریب رہنے والا ایک شخص بھی آیندہ نسلوں کے سامنے ہمیشہ موجود رہے گا۔
فلم ریلیز ہونے سے بہت پہلے29ستمبر 1966 کو زیبا کی شادی محمد علی سے ہو چکی تھی (اس کے بعد وہ وحید کے ساتھ زیادہ تر اُنہی فلموں میں ہیروئین آئیں جن کے معاہدے پہلےسے ہو چکے تھے، اس لیے ان فلموں کا سلسلہ جلد ہی ختم ہو گیا)۔
کہانی کا مرکزی کردار ڈاکٹر عامر (وحید) ایک ذہنی معالج ہے۔ وہ ایک یتیم اور بے سہارا لڑکا ہے جس نے ایک مہربان طبیعت رکھنے والے نواب صاحب (آزاد) کے گھر میں پرورش پائی ہے۔ نواب کی ایک رشتہ دار سائرہ (زیبا)، نوجوانی کے عالم میں بیوہ ہو جاتی ہے تو وہ بھی اپنی کمسن لڑکی زیب (بے بی جگنو) کو ساتھ لے کر وہاں آ جاتی ہے۔ عامر زیب سے کافی شفقت کے ساتھ پیش آنے لگتا ہے اور جب اُسے نواب کی لڑکی (روزینہ) کے ذریعے سائرہ کے دُکھوں کا احساس ہوتا ہے تو وہ سائرہ سے شادی کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ نواب چونکہ عامر کی شادی اپنی لڑکی کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں، اس لیے سخت ناراض ہوتے ہیں لیکن عامر کے ایک سینئیر ڈاکٹر بیچ میں پڑ کر اُنہیں سمجھاتے ہیں، ’’عامر تو رسولِ اکرمؐ کی قائم کی ہوئی مثال پر عمل کرنا چاہتا ہے، اور آپ اُس کے راستے کی دیوار بن گئے ہیں۔ عامر تو مذہب کے بنائے ہوئے تعمیری راستوں پر چلنا چاہتا ہے، اور آپ اُسے انگاروں میں دھکیل رہے ہیں!‘‘
نواب صاحب مان جاتے ہیں۔ عامر اور سائرہ کے نکاح کے موقع پر مولوی صاحب کی مختصر سی تقریر میں بھی یہ مرکزی خیال دہرایا جاتا ہے:
’’معزز حاضرین! عجیب سا لگتا ہے لیکن نکاح سے قبل میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ شادی ایک مقدس مذہبی فریضہ ہے اور خصوصاً بیوہ سے شادی کرنا اسلام کی نظر میں افضل اور احسن سمجھا جاتا ہے۔ خود ہمارے رسولِ اکرمؐ نے اِس کی مثال قائم کی اور زمانے کو بتایا کہ جن عورتوں سے تقدیر اُن کے سہاگ چھین لیتی ہے، اُنہیں نئی زندگی شروع کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ آج میں بہت خوش ہوں۔ میں ڈاکٹر عامر اور اُن کے متعلقین کو داد دیتا ہوں کہ اُنہوں نے سُنّتِ رسولؐ کی یاد کو زندہ کیا۔ ‘‘
عامر زیب سے بھی سگے باپ کی طرح محبت اور شفقت کے ساتھ پیش آتا رہتا ہے۔ لیکن ایک دن اُسے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک مریض (ابراہیم نفیس) جو یادداشت کھو کر اُس کے ہسپتال میں پڑا ہوا ہے، حقیقت میں سائرہ کا شوہر اشرف ہے جسے مردہ سمجھ لیا گیا تھا۔ اس کی یادداشت اب تک اس لیے واپس نہیں لائی جا سکی تھی کہ اُس کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ نئی معلومات کی مدد سے عامر اُس کا حافظہ بحال کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
وہ اپنا فرض پورا کرنے کے لیے ایسا کرتا ہے ورنہ جانتا ہے کہ نتیجہ اُس کی اپنی بربادی ہو سکتا ہے، اور فوری طور پر کچھ ایسا ہی لگتا ہے۔ اشرف ایک انتہائی بے رحم اور بدمعاش انسان ثابت ہوتا ہے جس نے پہلے بھی سائرہ کی زندگی کو جہنم بنا رکھا تھا۔ اب سائرہ اُس کے پاس واپس جانے سے انکار کرتی ہے تو وہ زیب کو اُٹھا کر لے جاتا ہے۔ عامر اُس کے تعاقب میں جاتا ہے تو وہ عامر کو قتل کرنے لگتا ہے۔ اس موقع پر زیب بڑی معصومیت کے ساتھ التجا کرتی ہے، ’’خدا کے لیے میرے ابو کو نہ مارئیے۔ ‘‘ جب وہ کہتا ہے، ’’تمہارے ابو یہ نہیں، میں ہوں، زیب! ‘‘ تو زیب جواب دیتی ہے، ’’نہیں نہیں، آپ میرے ابو نہیں ہو سکتے۔ آپ میرے ابو ہوتے، مجھ پر ظلم نہ کرتے۔ ‘‘عامر کے بارے میں زیب کہتی ہے، ’’اُنہوں نے مجھے پیار دیا۔ خوشیاں دیں۔‘‘ اشرف ہار مان لیتا ہے اور لکھ دیتا ہے کہ سائرہ اس کی طرف سے قانونی طور پر آزاد ہے، ’’میں ڈاکٹر عامر کے احسان کو بھول بیٹھا تھا۔ ‘‘
فلم کا سب سے مقبول نغمہ مہدی حسن کی گائی ہوئی ایک غزل ہے۔ اس کا لطف اٹھانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسے کہانی کے مرکزی خیال سے وابستہ کر کے اس پر غور کیا جائے۔ غزل ہے:
اک نئے موڑ پہ لے آئے ہیں حالات مجھے
دل نے جو مانگی وہی مل گئی سوغات مجھے
دُور رہ کر بھی خیالوں میں مرے پاس ہو تم
کتنے پیارے ہیں یہ جذبات یہ لمحات مجھے!
دل میں اِک اجنبی احساس کی خوشبو جاگی
آج لگتی ہے ہر اِک بات نئی بات مجھے
تم کبھی خود کو مری آنکھوں سے چُھپ کر دیکھو
کیا کہوں تم میں نظر آتی ہے کیا بات مجھے!
—-
وحید اُس مقام پر پہنچ چکے تھے جہاں معاشرے پر لازم تھا کہ اُ ن کے خیالات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے۔ دنیا میں مدتوں سے یہ اصول رائج ہو چکا تھا کہ جو فلمساز اپنی بنائی ہوئی فلموں کے ہر شعبے میں دلچسپی لیتے ہیں، اُن کی فلموں سے اُن کی سوچ کا اندازہ لگایا جائے۔ وحید بلاشبہ اس زمرے میں آتے تھے، اور اب ان کی بنائی ہوئی فلموں کی تعداد بھی اتنی ہو چکی تھی کہ یہ کام کیا جا سکے۔
اُن کے اور اُن کے ساتھیوں کے کام کو محض سستی تفریح قرار دے کر معاشرہ اُن کے ساتھ نہیں بلکہ خود اپنے ساتھ کتنی بڑی زیادتی کر رہا تھا، شاید کبھی اس کا اندازہ لگایا جا سکے۔ سہیل رعنا نے بہت عرصہ بعد ایک انٹرویو میں کہا، ’’میں نے اپنے آپ سے پوچھا کہ اگر موسیقی اتنی بری چیز ہے تو پھر وہ موسیقی کیا تھی جو ہمیں امیر خسرو نے دی؟ شاہ عبداللطیف بھٹائی اور دوسرے صوفیوں کے کام کے بارے میں ہم کیا کہیں گے؟ ہم کیسے دہرے معیار رکھتے ہیں! ہم قوالوں اور غزل گانے والوں کو سنتے ہیں لیکن انہیں کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ میں نے فیصلہ کیا کہ میں ان دہرے معیاروں کو بدلوں گا۔‘‘
فلم ’’دوراہا‘‘ کا موضوع یہی تھا۔ یہ سہیل رعنا اور پرویز ملک نے پروڈیوس کی۔ کہانی اور مکالمے مسرور انور نے لکھے۔ موسیقی سہیل رعنا نے دی۔ منظرنامہ اور ہدایات پرویز ملک کی تھیں۔ شمیم آرا اس سے پہلے وحید کی پروڈیوس کی ہوئی فلم ’’انسان بدلتا ہے‘‘ کی ہیروئین بھی تھیں لیکن اُس فلم میں وحید ہیرو نہیں تھے۔ ’’دوراہا‘‘ پہلی فلم تھی جس میں وحید اور شمیم آرا ہیرو اور ہیروئین کے طور پرساتھ آئے، اور یہ25ا گست 1967 کو ریلیز ہوئی۔
کہانی کا مرکزی کردار ندیم (وحید) ایک گلوکار ہے۔ اپنے پروفیسر(طالش) کے الفاظ میں، ’’بڑا ذہین لڑکا تھا۔ چاہتا تو بڑا افسر بن سکتا تھا۔ مگر اُس نے اپنے شوق کو ہی اپنا پیشہ بنا لیا۔ ‘‘ جب اُس کے لیے پروفیسر کی بیٹی (شمیم آرا) کا رشتہ مانگا جاتا ہے تووہ سخت ناراض ہو کر اُس سے کہتے ہیں، ’’تم اپنے آپ کو بھول بیٹھےہو۔ نغموں کی جھولی پھیلا کر پیٹ پالنے والا گویّا کسی روشن مستقبل کی ضمانت نہیں بن سکتا۔ ‘‘ وہ جواب دیتا ہے، ’’لیکن مجھے تو اِس پیشے میں کوئی برائی نظر نہیں آتی، ‘‘ تو پروفیسر کہتے ہیں، ’’برائی تو معمولی جیب کترے کو بھی اپنے پیشے میں نظر نہیں آتی۔ ‘‘ اُس کی اِس دلیل کے جواب میں کہ ’’جیب کترا معاشرے کی لعنت ہے، پروفیسر صاحب! اور یہ فن معاشرے کی ضرورت، ‘‘پروفیسر کا فیصلہ ہے کہ ’’ہمارے نزدیک یہ ضرورت طوائفوں کے بازار میں بِکتی ہے۔‘‘
اِس رویے کے خلاف اس کردار کا احتجاج وہ نغمہ ہے (احمد رشدی کی آواز میں)، جس کے بارے میں وحید نے ریڈیو پر اپنے آخری انٹرویو میں اِس خواہش کا اظہار کیا کہ اُن کے بعد یہ نغمہ بجتا رہے:
بھولی ہوئی ہوں داستاں، گزرا ہوا خیال ہوں
جس کو نہ تم سمجھ سکے میں ایسا اِک سوال ہوں
تم نے مجھے بھلا دیا، نظروں سے یوں گرا دیا
جیسے کبھی ملے نہ تھے، اک راہ پر چلے نہ تھے
تھم جاؤ میرے آنسوؤ! اُن سے نہ کچھ گلہ کرو
وہ حُسن کی مثال ہیں، میں عشق کا زوال ہوں
کرنا ہی تھا اگر ستم، دینا تھا عمر بھر کا غم،
عہدِ وفا کیا تھا کیوں؟ چاہت سے دل دیا تھا کیوں؟
تم نے نگاہ پھیر لی، اب میں ہوں میری بے بسی!
ویران شب کے چاند کا کھویا ہوا جمال ہوں
ویران شب کے چاند کے کھوئے ہوئے جمال کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ ضرور واپس آتا ہے۔ ’’دوراہا‘‘ کا مرکزی کردار بھی مختلف ذہنی ادوار سے گرزنے کے بعد بھلا دئیے جانے اور فنا ہو جانے کے خوف پر قابو پا کر ہمیشہ کی زندگی حاصل کر لیتا ہے۔ یہ دائمی زندگی، وفا کی وجہ سے ملتی ہے اور یقین کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے:
مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو، مجھے تم کبھی بھی بھلا نہ سکو گے،
نہ جانے مجھے کیوں یقیں ہو چلا ہے مرے پیار کو تم مٹا نہ سکو گے!
مری یاد ہو گی جدھر جاؤ گے تم، کبھی نغمہ بن کے کبھی بن کے آنسو،
تڑپتا مجھے ہر طرف پاؤ گے تم!
شمع جو جلائی ہے میری وفا نے، بجھانا بھی چاہو بجھا نہ سکو گے!
—-
’’دوراہا‘‘ کے بعد چاروں دوستوں کے نام صرف ایک اور فلم کے کریڈٹس میں اکٹھے آئے، اور وہ ’’اُسے دیکھا اُسے چاہا‘‘ تھی، جس کا آغاز غالباً اسی زمانے میں ہوا لیکن کئی برس میں مکمل ہونے کے بعد 1974ء میں ریلیز ہوئی اور فلاپ رہی۔ ’’دوراہا‘‘ کے بعد عملاً ٹیم ٹوٹ چکی تھی۔ اس حوالے سے جب وحید کے آخری دنوں میں ٹی وی پروگرام ’’سلور جوبلی‘‘ میں پوچھا گیا تو اُنہوں نے کہا:
’’ ’دوراہا ‘ وہ فلم ہے جس نے اِس ٹیم کو توڑا۔ ’ارمان‘ اور ’احسان‘، وہ میری فلمیں تھیں۔ اُس کے بعد میرے یہ جو ساتھی ہیں – وہ میرے بچپن کے دوست بھی ہیں، ساتھی بھی ہیں، جوائنٹ ہماری ٹیم بھی تھی – اِنہوں نے سوچا کہ جی ہم اپنی ایک فلم کیوں نہ بنائیں۔ اگر ’ارمان‘ اور ’احسان‘ چلتی ہیں، وحید مراد کی، تو ہم خود بناتے ہیں ایک فلم۔ ٹیم انہوں نے برقرار رکھی لیکن وہ فلم باوجود اس کے کہ اُس کے گانے اچھے تھے، کچھ اچھی باتیں بھی تھیں، فلم نہیں چلی۔ اب اِسے آپ لَک کہہ لیجیے، قسمت کہہ لیجیے۔‘‘
پرویز ملک نے وحید کی وفات پر اپنے تعزیتی مضمون میں صرف اتنا لکھا، ’’وحید کو چونکہ ہدایت کاری سے بھی لگاؤ پیدا ہو گیا تھا اس لیے اس کے ادارے میں اب میری ضرورت باقی نہیں رہی تھی۔ میں نے اس چیز کو محسوس کرتے ہوئے دوسری راہیں تلاش کرنا شروع کر دیں اور وحیدمراد فلم اشارہ سے ہدایت کاروں کی فہرست میں شامل ہو گیا۔ ‘‘ لیکن 1996یا 1997 میں مجھے زیادہ تفصیل سے پوچھنے کا موقع ملا تو اُنہوں نے کہا کہ وحید اپنی ٹیم کا معاضہ خاطرخواہ بڑھانے پر تیار نہیں تھے۔ اس گفتگو کے کچھ عرصہ بعد ’’ڈان‘‘ اخبار میں اپنے ایک مضمون میں بھی اُنہوں نے یہی لکھا (یہ مضمون میں نے اُنہی دنوں پڑھا تھا لیکن اب میرے پاس موجود نہیں ہے)۔
1993 میں سہیل رعنا کا انٹرویو کرتے ہوئے میں نے اُن سے بھی اس ٹیم کے ٹوٹنے کے بارے میں پوچھا لیکن اُنہوں نے کہا کہ یہ ضروری نہیں تھا کہ وحید کی تمام پروڈکشنز میں وہی موسیقی دیں۔ ’’احسان‘‘ کے بعد فلم آرٹس کی اگلی پیشکش، ’’سمندر‘‘، کا موضوع ایسا تھا کہ اُس میں موسیقی دینے کے لیے دیبو بھٹاچاریہ زیادہ مناسب تھے۔ اس سے اگلی فلم ’’اشارہ‘‘ میں دوبارہ سہیل رعنا نے موسیقی دی۔ ’’اشارہ‘‘ کے مکالمے اور نغمات بھی مسرور انور نے ہی لکھے تھے اور بعد میں بھی فلم آرٹس کی بعض فلموں میں اُن کے نغمات شامل کیے گئے۔
پرویز نے دوسرے پروڈیوسروں کے لیے جن فلموں کی ہدایات دیں اُن میں سے صرف تین میں وحید ہیرو تھے۔ یہ ’’جہاں تم وہاں ہم‘‘ (1968)، ’’اُسے دیکھا اُسے چاہا‘‘ (1974) اور ’’دشمن ‘‘(1974) تھیں۔ پرویز نے اپنے تعزیتی مضمون میں لکھا:
’’ فلم دشمن کے دوران وحیدمراد کے اور میرے درمیان کچھ غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں۔ بات کچھ بھی نہیں تھی۔ وحیدمراد اب چونکہ سپراسٹار ہو گیا تھا اس لیے ظاہر ہے کہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے سب کو کم وقت دیتا تھا۔ میری چونکہ اس سے بہت پرانی دوستی تھی میں ان باتوں کو کچھ ضرورت سے زیادہ ہی محسوس کرتا تھا۔ دوستی میں فرق آنے لگا تو ایک دن ہم دونوں نے بیٹھ کر اس بات کا تجزیہ کیا۔ میں نے محسوس کیا کہ اگر یہ ہدایت کار اور سپراسٹار والا تعلق قائم رہا تو ہماری بچپن کی دوستی ختم ہو جائے گی۔ اس لیے فیصلہ کیا کہ ہم کاروبار پر اپنی دوستی کو قربان نہیں کریں گے۔ آئندہ صرف دوستی رہے گی اور بس…!
’’ساری غلط فہمیاں دُور ہو گئیں۔ جب ملتے پیار سے ملتے۔ پرانی یادوں کو دہراتے۔ خوب ہنستے۔ خوب گپیں لگاتے۔ لیکن ستم ظریفی کہ کاروباری لاتعلقی کی بنا پر آہستہ آہستہ ہم دُور ہونے لگے۔ وہ اپنے کاموں میں مصروف رہا اور میں بھی اپنی جدوجہد میں لگا رہا۔‘‘
1967 ہی میں ’’دیور بھابھی‘‘ بھی ریلیز ہوئی۔ اس فلم نے رانی کو کامیابی سے ہمکنار کیا ورنہ اس سے پہلے ان کی فلمیں ناکام رہی تھیں جن میں سے’’ساز اور آواز‘‘ میں وہ وحید کے ساتھ بھی آ چکی تھیں۔ ’’دیور بھابھی‘‘ کے نغمات فیاض ہاشمی نے لکھے تھے، جن میں سے بعض ضربُ المثل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں، جیسے ’’تھری چئیرز فار بھابھی ہپ ہپ ہُرے‘‘، ’’میرا گھر میری جنت‘‘، ’’تم وہی ہو لو تمہیں آج بتا دیتے ہیں‘‘، ’’نہ آئے آج بھی تم کیا یہ بے رخی کم ہے‘‘ اور ’’یہ کاغذی پھول جیسے چہرے مذاق اُڑاتے ہیں آدمی کا‘‘۔
’’ارمان‘‘ کے بعد سے 1968 کے آخر تک بطور اداکار وحید کی ریلیز ہونے والی باقی فلمیں ’’ہونہار‘‘، ’’جوش‘‘، ’’جاگ اُٹھا انسان‘‘، ’’انسانیت‘‘، ’’دیور بھابھی‘‘، ’’پھر صبح ہو گی‘‘، ’’ماں باپ‘‘، ’’رشتہ ہے پیار کا‘‘، ’’جانِ آرزو‘‘اور ’’دل میرا دھڑکن تیری‘‘ تھیں۔ ان میں سے ہر ایک کئی لحاظ سے قابلِ ذکر ہے۔ تقریباً ہر فلم کا کوئی نہ کوئی نغمہ بیحد مشہور ہے لیکن بعض تو زبان اور محاورے کا حصہ بن گئے ہیں یا ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں، جیسے ’’رات چلی ہے جھوم کے‘‘ (جوش)، ’’دنیا کسی کے پیار میں جنّت سے کم نہیں‘‘ (جاگ اٹھا انسان)، ’’کیا ہے جو پیار تو پڑے گا نبھانا‘‘ (دل میرا دھڑکن تیری)، ’’بتا کیا یہی ہے تیرا پیار‘‘ (دل میرا دھڑکن تیری) اور ’’تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں، ایسے تو حالات نہیں‘‘ (دل میرا دھڑکن تیری)۔
—-
جس طرح وحید کی ٹیم ٹوٹی تھی، اُسی طرح پاکستان جمہوری تحریک میں شامل جماعتیں بھی الگ الگ ہو گئیں۔ اس کے بعد 6 جنوری 1968 کو حکومت نےاعلان کیا کہ بھارت کے مقام اگرتلہ پر سازش ہوئی ہے کہ ملک توڑ کر مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا جائے، اور مشرقی پاکستان کے بہت سے افسر سازش میں ملوّث ہیں۔ عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمان پہلے سے جیل میں تھے۔ اُنہیں بھی سازش میں ملوّث بتایا گیا۔ کچھ روز بعد ڈھاکہ کے امریکن قونصل خانے نے واشنگٹن کو رپورٹ بھیجتے ہوئے خصوصیت سے ذکر کیا کہ حکومت کے رویے نے نوجوان بنگالیوں میں خوف پھیلا دیا ہے۔
یہ حالات تھے جب 10 مارچ 1968 کو فلم آرٹس کی ’’سمندر ‘‘ ریلیز ہوئی۔ اس کے ہدایتکار رفیق رضوی تھے۔ مصنف آغا نذیر کاوش تھے۔ نغمات صہبا اختر نے لکھے جنہوں نے بعد میں ’’میں بھی پاکستان ہوں‘‘ جیسے قومی نغمے لکھے اور ’’شاعرِ پاکستان‘‘ کہلائے۔ موسیقی مشرقی پاکستان کے ہندو موسیقار دیبو بھٹاچاریہ نے دی۔ ہیروئین کے لیے وحید نے مشرقی پاکستان کی ایک ایسی مشہور اداکارہ کو پسند کیا جنہوں نے پہلے کبھی مغربی پاکستان میں کام نہیں کیا تھا۔ یہ شبنم تھیں۔
کہانی مچھیروں کی ایک بستی کے بارے میں تھی۔ راجہ (وحید) اور جیرا (حنیف) وہاں رہنے والے دو دوست ہیں۔ جیرے کو ہمیشہ سے شوق رہا ہے کہ وہ بستی کا سردار بن جائے۔ ایک بیرونی دشمن، جگّو سیٹھ (راشد)، اپنے مفادات کی خاطر دونوں دوستوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنا چاہتا ہے۔ وہ جیرے کے دل میں راجہ کی طرف سے بدگمانی پیدا کر دیتا ہے جس کے بعد جیرا دشمن کی طرف جھکنے لگتا ہے۔
یہ ایک خالص سیاسی موضوع ہے۔ شروع سے آخر تک بستی کے عوام ’’سردار ‘‘ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور پوری فلم ایسے مکالموں سے بھری پڑی ہے جن میں ’’سردار ‘‘ کی بجائے ’’صدر ‘‘ اور ’’بستی ‘‘ کی جگہ ’’ملک‘‘ لگانے سے وہ اُس زمانے کے سیاسی حالات پر تبصرے بن جاتے ہیں، مثلاً ایک کردار (قربان جیلانی) کہتا ہے، ’’ہمیں ایسے سردار کی ضرورت نہیں۔ ‘‘ یہی بات اُس زمانے میں اکثر سیاسی رہنما صدر ایوب کے بارے میں کہہ رہے تھے اور سال کے آخر تک وہ تحریک بھی شروع ہو گئی جس کے نتیجے میں ایوب خاں کو صدارت چھوڑنی پڑی۔ اس تحریک کے دوران یہ چرچے بھی ہوتے رہے کہ اُن کی صحت ٹھیک نہیں رہتی ہے۔ اُن کے جانشین یحییٰ خاں کی شراب نوشی اور فرائض سے غفلت کے چرچے آج تک عام ہیں۔ ان آنے والے دنوں کی جھلک بستی کے سردار منگا کی کیفیات میں دیکھی جا سکتی ہے، جو خود بھی ایک موقع پر کہتا ہے، ’’ میں یہ اچھی طرح سمجھ چکا ہوں کہ میں بستی کے حالات کا مقابلہ نہ کر سکوں گا۔ بیماری، شراب اور بڑھاپے نے مجھ سے مقابلہ کرنے کی طاقت چھین لی ہے۔ میں اب خود بھی یہ چاہتا ہوں کہ اپنی ذمہ داریاں کسی اور کو سونپ دوں۔‘‘
ایک موقع پر سردار کے چہیتے افراد بستی والوں پر ظلم ڈھاتے ہیں تو سردار بستی والوں کو کسی کاروائی سے روکنے کے لیے کہتا ہے، ’’قانون کی حفاظت کرنا میرا کام ہے۔ ‘‘ راجہ جواب دیتا ہے، ’’قانون کی حفاظت کرنا بستی کے ہر آدمی کا فرض ہے!‘‘
کہانی میں بار بار محسوس کروایا گیا ہے کہ’’جگّو سیٹھ‘‘ ایک بیرونی قوّت ہے۔ نُوری سردار سے کہتی ہے، ’’بابا، جگّو سیٹھ ہماری بستی کا آدمی نہیں ہے۔ اُس کی خاطر بستی والوں سے بگاڑ کیوں پیدا کرتے ہو؟‘‘ سردار کا کہنا ہے، ’’میں جگّو سیٹھ کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں سنا سکتا۔ میں اُس کے احسانوں سے بہت دبا ہوا ہوں…بستی والوں کی تم فکر نہ کرو۔ جگّو سیٹھ اُن سے خود نبٹ لے گا۔ ‘‘ جگّو سیٹھ کے عزائم اقتصادی نوعیت کے ہیں، مثلاً وہ کہتا ہے، ’’منڈی پر قبضہ میرا ہے۔ جو بھاؤ میں چاہوں گا اُسی پر اُنہیں مچّھی بیچنا پڑے گی۔‘‘
بعض مکالمے اُس زمانے کے مشرقی اور مغربی پاکستان کے باہمی معاملات کی روشنی میں ایک خاص لطف دیتے ہیں، مثلاً ’’جب تم دونوں کا اکیلے بیٹھنے کو جی چاہتا ہے تو اکٹھے اکیلے کیوں نہیں بیٹھتے؟‘‘ راجہ کا کہنا، ’’اگر جان سے سے زیادہ پیاری چیز مانگنے والا مجھے جان سے بھی پیارا ہو، تو؟‘‘ اور، ’’اگر تم ساری دنیا کی بادشاہت کو بھی رشوت بنا کر لے آؤ تو میں اپنے دوست سے غداری نہیں کر سکتا۔ ‘‘ اسی طرح بستی والوں کا کہنا:
’’آج راجا اور جیرے نے محبت کے جس بندھن کو مضبوط بنایا ہے وہ بستی کے ہر آدمی کے دل کی دھڑکن بنا رہے گا۔ یہ محبت، یہ دوستی انشأاللہ ہمیشہ زندہ رہے گی۔ ہماری بستی ہمیشہ آباد رہے گی۔‘‘
مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان زمین کا نہیں بلکہ صرف سمندر کا راستہ تھا۔ یہ مطالبہ بھی ہو رہا تھا کہ نیوی کا ہیڈکوارٹر مشرقی پاکستان منتقل کر دیا جائے۔ اس لحاظ سے فلم کا نام، ’’سمندر ‘‘، ویسے ہی معنی خیز ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹائٹل سونگ بھی ایسے ساتھیوں کے بارے میں ہے جن کے درمیان سمندری رشتہ ہے (یہ نغمہ احمد رشدی، مسعود رعنا اور کورس کی آوازوں میں ہے)۔ رفیق رضوی جنہوں نے یہ فلم ڈائرکٹ کی، اُنہی کی فلم ’’بیداری ‘‘ کے ایک نغمے میں مشرقی پاکستان کا تعارف اس طرح کروایا گیا تھا کہ ’’ اس کو طوفانوں نے پالا ہے‘‘۔ ’’سمندر‘‘ کے ٹائٹل سونگ میں بھی یہ الفاظ موجود ہیں کہ ’’ہم طوفانوں کے پالے ہیں‘‘۔ لیکن اس نغمے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ عام طور پر ایک ہی وطن کے رہنے والے اپنے آپ کو ایک زمین کی اولاد یا ایک دھرتی کے بیٹے کہتے ہیں۔ لیکن متحدہ پاکستان ایک ایسا’’وطن‘‘ تھا جس کے دو حصے ایک دوسرے سے طویل فاصلے پر واقع تھے اس لیے دونوں کی زمینیں الگ الگ تھیں۔ ایک ایسے وطن کے حوالے سے اپنے آپ کو دھرتی کے بیٹے کہنے کی نسبت واقعی یہ کہنا زیادہ مناسب تھا کہ ’’ہم بیٹے ہیں سمندر کے! ‘‘ ایک ایسے وطن کے رہنے والوں کو سمندر جیسے ظرف کی ضرورت بھی تھی، اُنہیں سمندر سے وسعت سیکھنے کی ضرورت بھی تھی اور اُنہیں ایک ایسا اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت بھی تھی جو سمندری طوفانوں کا مقابلہ بھی کر سکتا ہو:
ساتھی! تیرا میرا ساتھی ہے لہراتا سمندر!
ہم بیٹے ہیں سمندر کے! ہم طوفانوں کے پالے ہیں!
ہر مشکل سے ہم ہنس ہنس کے ٹکرانے والے ہیں!
اِسی نے ہم کو جینا سکھایا، اسی کے ہم ہیں لال
کبھی نہ خالی آئے اِس میں ڈوب کے اپنے جال
یہ وہ سخی ہے جس کے گھر میں کبھی پڑا نہ کال
کیسا داتا ہے موتی برساتا سمندر!
موج سے موج گلے جائے تو بنتی ہے دھار
لہر میں لہر ملے تو ساتھی لہراتا ہے پیار
ہاتھ میں ہاتھ رہے تو بن جاتی ہے وہ دیوار
جس کے آگے پانی ہے ٹکراتا سمندر!
اِس ٹائٹل سونگ کو ملا کر فلم کے تین نغموں کا تعلق بستی کے سیاسی معاملات سے ہے۔ ان سبھی میں فطرت سے تعلق کے احساس کے ساتھ ساتھ فطرت کی طاقتوں پر غالب آنے کا جذبہ بھی موجود ہے۔ ٹائٹل سونگ میں انسان سمندر کا بیٹا بھی ہے، سمندر نے اس کی پرورش بھی کی ہے لیکن انسان کے لیے پھر بھی ضروری ہے کہ اپنے اتحاد کے ذریعے ایک ایسی دیوار بنائے’’جس کے آگے پانی ہے ٹکراتا سمندر‘‘۔ ایک اور نغمہ ہے، ’’ٹھہرو، ستم کی لہرو! ساتھی نہ چھوٹ جائے، یہ دل نہ ٹوٹ جائے! طوفاں نہ جیت جائے، یہ دل نہ ڈوب جائے!‘‘ فلم کے آخری نغمے میں انسان ایسی دنیا بسانے میں کامیاب ہو چکا ہے جو فطرت سے زیادہ حسین اور مکمل ہے، اور جس کی روشنی چاند ستاروں سے بڑھ گئی ہے:
ہمارے دلوں کی انوکھی خوشی کو نظر نہ لگائیں، نظاروں سے کہہ دو!
ہمارے چراغوں کی کرنیں چُرانے ستارے نہ آئیں، سِتاروں سے کہہ دو!
راجہ اور نُوری کے عشقیہ نغموں میں ایک اندرونی کشمکش کا اظہار ہے (یہ احمد رشدی اور رُونا لیلیٰ کی آوازوں میں ہیں)۔ پہلے نغمے میں نوری کہتی ہے کہ محبوب مجھے بلا رہا ہے اور دل مجھے روک رہا ہے (’’جُلمی بلائے مجھے، آ آ آ‘‘)۔ بستی کی ایک تقریب میں یہ دونوں ایک نغمہ پیش کرتے ہیں جس میں راجہ نُوری سے تقاضا کر رہا ہے کہ وہ اپنی حفاظت کی ذمہ داری اُس کے سپرد کر دے لیکن وہ اس بات میں خوف محسوس کر رہی ہے (’’موہے ڈر سا لاگے‘‘)۔
ہم عام طور پر مشرقی پاکستان سے وہاں کے سیاسی رہنما اور مغربی پاکستان سے یہاں کی حکمراں قوتیں مراد لیتے ہیں۔ لیکن اگر دونوں طرف کے غریب عوام مراد لیے جائیں جنہوں نے بمشکل بائیس برس پہلے مل کر پاکستان کو تخلیق کیا تھا، تو شاید مغربی پاکستان اُس وقت مشرقی پاکستان سے وہی کہنا چاہتا ہو جو راجہ نے ایک نغمے میں نُوری کو مخاطب کر کے کہا ہے:
یوں رُوٹھ نہ گوری مجھ سے، دل ٹوٹ گیا جو تجھ سے جوڑا نہ جائے گا!
تُو چھوڑ کے جس کو چل دے چاہت تو نہیں وہ آنچل
زنجیر نہیں ہے لیکن یہ پیار ہے ایسا بندھن
تُو چاہے بھی تو تجھ سے توڑا نہ جائے گا!
یہ پیار نہیں وہ کاجل جو آنکھوں میں چھُپ چھُپ جائے،
یہ ساتھ نہیں وہ مہندی جو ہاتھوں سے چھُٹ چھُٹ جائے،
یہ ساتھ کبھی بھی تجھ سے چھوڑا نہ جائے گا!
جو آج کو تُو نے کھویا تو بعد میں ہو گا صدمہ
یہ بات بھی سُن لے میری، جو بیت گیا وہ لمحہ
آنچل کی طرح پھر تجھ سے موڑا نہ جائے گا!
نُوری، راجہ کو مخاطب کر کے جو نغمہ گاتی ہے، اُس وقت شاید مشرقی پاکستان کی روح بھی مغربی پاکستان سے یہی کہہ رہی ہو:
کچھ دل کی بات سمجھ لیتے کچھ سمجھاتے تو اچھا تھا،
تم جاتے ہو تو جاؤ مگر نہ جاتے تو اچھا تھا!
آنکھوں سے اگر تم دُور ہوئے سانسوں کی مہک بن جاؤ گے
بیچین کرو گے کیا مجھ کو تم خود ہی چین نہ پاؤ گے
ڈھونڈے گی مجھے سو بار نظر!
تم جاتے ہو تو جاؤ مگر نہ جاتے تو اچھا تھا!
دامن سے ہوائیں اُلجھیں گی جو مجھ سے ہاتھ چھڑاؤ گے
ہر ذرّہ راستہ روکے گا تم کس کس کو ٹھکراؤ گے!
ہے میرے پیار کی سب کو خبر!
تم جاتے ہو تو جاؤ مگر نہ جاتے تو اچھا تھا!
بستی کے دستور کے مطابق نئے سردار کا انتخاب کشتی کی دوڑ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ بستی والے راجہ سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ دوڑ میں حصہ لے کیونکہ جیرے کا جھکاؤ جگّو سیٹھ کی طرف ہو گیا ہے۔ اگر جیرا سردار بنا تو بستی والوں کا استحصال جاری رہے گا۔ اگرچہ جیرا اس وقت تک راجہ کے ساتھ بڑی بے مروتی کا اظہار کر چکا ہے لیکن راجہ اب بھی دوست کا مقابلہ نہیں کرنا چاہتا کونکہ بقول اُس کے، ’’جیرا میرے خلاف نہیں ہے۔ اُسے دشمن نے بہکا دیا ہے۔ ‘‘ بہن (روزینہ) اُسے طعنہ دیتی ہے:
’’بھلا بستی والوں کی مصیبتوں سے ہمیں کیا؟ ہاں، مگر ایک بات بتا دے۔ اگر کسی نے مجھے بزدل بھائی کی بہن کہا تو میں اُسے کیا جواب دوں گی؟ تجھے کسی نے غدار کہا تو میں کیا کہوں گی؟ اور اگر کسی نے پوچھا کہ راجہ کالی چٹان سے ڈر گیا یا جگّو سے تو میں کیا جواب دوں؟‘‘
اس قسم کے سوالات کا جواب اپنے ضمیر سے حاصل کرنے کے لیے راجہ مزار پر جاتا ہے جہاں دو قوال ’’دمادم مست قلندر، سخی شہباز قلندر‘‘ گا رہے ہیں۔ مزار پر جمع ہونے والوں کے لباس مختلف علاقائی شناختوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ جبکہ دونوں قوالوں کے سر پر جناح کیپ ہیں۔ صوفی کے مزار پر دھمال سنتے ہوئے راجہ چُپ چاپ آنسو بہاتا رہتا ہے، اور وہاں اُس کا دل جو حل تجویز کرتا ہے اُس کے مطابق وہ اگلی صبح کشتی کی دوڑ میں حصہ لے کر جیرے کو شکست دے دیتا ہے۔ بستی کی سرداری اُسے مل جاتی ہے تو وہ بھری پنڈال میں جیرے سے کہتا ہے:
’’تو شاید میرے سردار بننے پر خوش نہیں ہے۔ تُو کیا جانے سردار کیا ہوتا ہے، اُس کی ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں؟ سردار خود دُکھ اٹھاتا ہے لیکن بستی والوں کو سُکھ پہنچاتا ہے۔ سردار وہ نہیں جو جگّو سیٹھ کے ہاتھوں میں کھیلنے لگے! …سردار وہ ہے جو جگّو کے ظلم کو کچلنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ سردار بستی کا نگہبان اور بستی والوں کے حق کا رکھوالا ہوتا ہے۔ تُو اگر ناؤ کی دوڑ جیتتا، تُو اگر سردار ہوتا تو کیا یہ سب کچھ کر سکتا تھا؟‘‘
جیرا جواب دیتا ہے، ’’ہاں میں اِس سے بھی زیادہ کرتا!‘‘
اِس پر راجہ سرداری کا نشان اُس کے حوالے کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’پھر میں تیری یہ امانت تجھے سونپتا ہوں، ساتھی! … مجھے سردار بننے کی کوئی خواہش نہیں۔ تیری تمنا پوری ہو جائے، یہی میری خوشی ہے۔ میں بس یہ چاہتا ہوں کہ تُو اِس امانت کی لاج رکھ لے۔‘‘
جیرا اُس کی تمام توقعات پوری کر دیتا ہے اور دونوں مل کر جگّو سیٹھ کوبھی شکست دے دیتے ہیں۔ اس طرح لعل شہباز قلندر بھی کہانی کا ایک ان دیکھا کردار بن جاتے ہیں کیونکہ اُنہی کا دھمال سنتے ہوئے راجہ نے بستی کے مسئلے کا یہ حل تلاش کیا تھا۔ اتفاق سے ٹائٹل سونگ میں بھی’’لال‘‘ اور ’’سخی‘‘ کے الفاظ موجود ہیں (اگرچہ وہاں کسی اور حوالے سے ہیں)۔ بہرحال، قلندر کی بارگاہ سے راجہ جو روحانیت حاصل کرتا ہے، وہ اُسے ترکِ دنیا نہیں سکھاتی بلکہ اتحاد اور قربانی کے ذریعے ایک مثالی دنیا تخلیق کرنے کی راہ دکھاتی ہے۔
—-
کیا ’’سمندر‘‘ اُس زمانے کے قومی حالات کے بارے میں کوئی اشارہ کرتی ہے؟ یہ سوال نہ کبھی وحید سے پوچھا گیا اور نہ انہیں جواب دینے کی ضرورت پڑی۔ البتہ سلمیٰ مراد کا کہنا ہے کہ وحید جب بھی کسی نئی فلم کا آغاز کرنے لگتے تھے، یہی کہتے تھے کہ ’’ایک پیغام دینا ہے‘‘۔
مجھے پہلی دفعہ 23 نومبر 2007 کو خیال آیا کہ ’’سمندر‘‘ کو مشرقی اور مغربی پاکستان کے تعلقات کے بارے میں ایک علامتی کہانی بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ خیال اتفاقاً نہیں آیا بلکہ اس کے پیچھے ایک طویل ذہنی سفر تھا جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔ ایک سال بعد میں نے ’’ڈان‘‘ اخبار میں اپنے ایک مضمون میں اس کا کچھ ذکر کیا اور پھر 2010 میں ’’ڈان‘‘ ہی میں اس پر پورا مضمون لکھا۔ دونوں مضامین میری توقع سے زیادہ مقبول ہوئے (ان میں سے دوسرے مضمون کا ترجمہ مجھے ایک دفعہ اُردو کے ایک فلمی اخبار میں بھی دکھائی دیا اگرچہ میرا حوالہ نہیں دیا گیا تھا)۔
آج دس گیارہ برس بعد میں کچھ اور بھی کہنا چاہتا ہوں۔ ایک دفعہ علامہ اقبال نے اپنے ایک شاعر دوست مولانا گرامی کے ایک شعر کی تشریح کی تو گرامی نے کہا کہ انہوں نے شعر کہتے ہوئے یہ نہیں سوچا تھا۔ اس پر اقبال نے ایک خط میں لکھا کہ جب ایک فنکار کو کوئی’’اِنسپریشن‘‘ (الہام یا القأ) ہوتی ہے، تو ضروری نہیں کہ وہ اُس کے تمام معانی سے واقف بھی ہو، اس لیے ’’اگر گرامی کے خیال میں وہ معانی نہ تھے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ اُن کے الفاظ میں تو موجود ہیں۔‘‘ (اقبال کا خط بنام نیازالدین خاں 19 اکتوبر 1919)۔ بالکل اسی طرح ہمیں بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ’’سمندر‘‘ میں بہرحال یہ معانی موجود ہیں کہ اگر ہمیں وہ عہد نبھانا ہے جس پر پاکستان کی بنیاد ہے، تو پھر ہمیں’’سمندر‘‘ کے ہیرو جیسا بننا پڑے گا۔ یہ اُس نئی سیاسی زندگی کی ایک تشریح بھی ہے جو 1967 کے آغاز پر بیدار ہوئی تھی۔ اس لیے اصل سوال یہ ہے کہ کیا اُس زمانے کے رہنماؤں کو ’’سمندر‘‘ کے ہیرو جیسا بننا چاہیے تھا؟
—جاری ہے—
اگلی قسط، ’’زمانے کا اشارہ‘‘ ہو گی۔ یہ وحید مراد کی 1969 اور 1970 میں ریلیز ہونے والی فلموں کے بارے میں ہے، جن میں اُن کی اپنی پروڈیوس کی ہوئی’’اشارہ‘‘ اور ’’نصیب اپنا اپنا‘‘ کے علاوہ ’’عندلیب‘‘، ’’انجمن‘‘ اور دوسری یادگار فلمیں شامل ہیں۔ جمعہ 21 دسمبرکی شام کو پڑھیے۔
ویڈیوز:
’’احسان ‘‘ کے کچھ مناظر:
https://www.facebook.com/watch/?v=278196196374971
102’’دوراہا‘‘ کا نغمہ ’’بھولی ہوئی ہوں داستاں‘‘:
https://www.youtube.com/watch?v=4GPWmBmyqA8&feature=youtu.be
’’سمندر‘‘ کا نغمہ ’’یوں رُوٹھ نہ گوری مجھ سے‘‘:
’’سمندر‘‘ کا نغمہ ’’ساتھی! تیرا میرا ساتھی ہے لہراتا سمندر!‘‘: