کتنے دنوں سے میں سلیم پر لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں کتنی مرتبہ ساتھ گزارے ہوئے دنوں کو حافظے میں زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان دنوں کے ساتھ اپنی آنکھ مچولی چل رہی ہے۔ آس پاس منڈلانے لگتے ہیں جیسے اب آئے پکڑ میں۔ مگر آتے آتے ایک دم سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ میں تو یادوں ہی کا شناور ہوں۔ یہاں ایسا کیوں ہے۔ شاید اچانک چلے جانے والے یادوں میں جلدی واپس نہیں آیا کرتے یا میری یادیں سُست رو ہیں۔ منور ہونے میں بہت میں وقت لگاتی ہیں یا ممکن ہے سلیم کو یا دبن کو واپس آنے میں ابھی تامل ہو۔
بہت کوشش سے کچھ دھندلی تصویریں ذہن میں ابھرتی ہیں۔ فی الحال وہی سہی۔
پہلی تصویر۔ فیض عام انٹر کالج میں ایک ادبی شام۔ ایک کم عمر طالب علم چپ چاپ سا بیٹھا ہے باری آنے پر شعر سناتا ہے۔ رنگِ اقبال میں رنگے ہوئے قطعات۔
دوسری تصویر۔ وہی طالب علم خاکی کرتا پائجامہ، کاندھے پہ بیلچہ، چپ راست، چپ راست، چپ راست۔
یہ تصویر بھی اپنا آگا پیچھا بتائے بغیر دھندلا جاتی ہے۔
تیسری تصویر۔ بیلچہ غائب، خاکی کرتا پائجامہ ندارد، ویہ عام سا سفید کرتا پائجامہ، یاروں کی منڈلی جمی ہوئی ہے۔ لطیفہ بازی ہو رہی ہے۔ منڈلی میں کوئی شاعر، کوئی ہاکی کا کھلاڑی، کوئی قاری، میرا اس منڈلی میں کیسے گزر ہوا۔ اس نوخیز سے کہ نام سلیم احمد تخلص ہنر رکھتا ہے کیسے تعارف ہوا کیسے ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھا۔ کچھ یاد نہیں آتا۔ میرا فیض عام سے کیا تعلق۔ میں میرٹھ کالج کی مخلوق ہوں مگر ایسی مخلوق جو کسی ٹکڑی کسی منڈلی میں شامل نہیں ہے۔ ہاں اب اس منڈلی سے مانوس ہوتا چلا جا رہا ہوں۔
یہ تصویر بھی جلدی دھندلا جاتی ہے جو نئی تصویر ابھرتی ہے اس میں شاموں کا طور بدلا ہوا ہے اب شہر میں عسکری صاحب وارد ہو چکے ہیں ہم حیران ہو کر دیکھتے ہیں کہ اچھا یہ حر امجادی اور جھلکیاں والے محمد حسن عسکری ہیں۔ پھر ان کے قریب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ تو اب شامیں عسکری صاحب کے لیے وقف ہیں۔ روز بلا ناغہ ان کے ہمراہ لمبی ٹہل ہوتی ہے۔ رفتہ رفتہ اس ٹہل کی ایک منزل ٹھہرتی ہے۔ کرار صاحب کا گھر جس کا مردانہ علامہ مشرقی سے بچھڑے ہوئے نوجوان خاکساروں کا مہمان خانہ بھی ہے۔ ہفت روزہ الامین، کا دفتر بھی اردو میں ایم اے کرنے والوں کا کلاس روم بھی اور یاروں دوستوں کی بیٹھک بھی۔ تو روز شام کو ہم گھومتے پھرتے وہاں پہنچتے۔ لمبی بیٹھک کی۔ رات پڑے واپس۔
اچانک روز و شب کا رنگ بدلتا ہے۔ قریب و دور سے فسادات کی خبریں آرہی ہیں۔ میرٹھ کی فضا کشیدہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ گڑھ مکیٹشر کے سانحے کے رد عمل میں یہاں ابھی پچھلے دنوں ایک فساد بھی ہو چکا ہے۔ سو اب فضا میں بہت تناتنی ہے۔ دن تو خیریت سے گزرتا ہے مگر شام کے بعد کا کوئی اعتبار نہیں کہ کس وقت اکیلے وکیلے آدمی کے ساتھ کیا واردات گزر جائے۔ سو زندگی کا یہ طور ٹھہرا ہے کہ دن دن میں باہر کے سارے کاموں سے فراغت حاصل کی اور شام ہوتے ہوتے لپک جھپک اپنے اپنے گھروں کو واپس۔ پھر اپنے اپنے گھروں میں بند، اپنے اپنے محلے میں مقید۔ مسلمان کی مجال نہیں کہ شام کے بعد ہندوئوں کے کسی بازار سے گزر جائے، کسی محلے میں قدم رکھے۔ ادھر ہندو کی ہمت نہیں کہ مسلمانوں کے محلے میں گزر کرے۔ مگر عسکری صاحب کے گھر کا انوکھا جغرافیہ ہے۔ ہندوئوں کا لمبا بازار۔ دائیں بائیں دکانوں کے عقب میں ہندو گھر۔ ایک نکڑ پر جا کر ایک گلی آتی ہے جس میں تین چار مسلمان گھر ہیں انہیں میں ایک گھر عسکری صاحب کا ہے۔ ہم بہت کوشش کرتے ہیں کہ شام سے پہلے اٹھ لیں۔ مگر کرار صاحب کی گفتگو ہمیں باندھے رکھتی ہے۔ تحصیل والی سڑک کے نکڑ پر پہنچتے پہنچتے رات ہو جاتی ہے۔ پھر عسکری صاحب اپنی راہ اور میں اور سلیم اپنی راہ کہ ہم خیر نگر سے ادھر گھنٹہ گھر کے پار اس علاقے میں رہتے ہیں جو خالصتاً مسلمان علاقہ ہے ’’یار سلیم، یہ راستہ تو بہت خطرناک ہے۔ کہیں اردو ادب کا نقصان نہ ہو جائے‘‘۔ عسکری صاحب کو نکڑ پر چھوڑ کر واپس ہوتے ہوئے میں نے کہا۔
سلیم نے قہقہہ لگایا۔ ’’اردو ادب خطرے میں ہے‘‘۔
رفتہ رفتہ ہم سنجیدہ ہوتے گئے۔ پھر ہم نے طے کیا کہ کل سے ہم عسکری صاحب کو انکے گھر تک چھوڑ کر آئیں گے۔
دوسرے دن ہم اپنے پروگرام پر عمل کرتے ہیں۔ بازار کے نکڑ پر پہنچ کر عسکری صاحب ہم سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہم ساتھ لگے چلے جا رہے ہیں۔ دکانیں تیزی سے بند ہوتی چلی رہی ہیں۔ لوگ کتنی تیزی میں ہیں۔ جب ہم واپس ہوتے ہیں تو پورا بازار بند ہو چکا ہے۔ سڑک اندھیر ہے۔ دور تک کوئی آدمی نظر نہیں آتا۔ ہاں ایک نکڑ پر اپنے پرانے ٹھکانے پر گول گپوں والا اپنا خوانچہ جمائے بیٹھا ہے۔ چند نوجوان گول گپے کھانے میں مصروف ہیں۔
’’انتظار، گول گپے کھائیں‘‘۔
’’پاگل ہوئے ہو۔ بس چلے چلو‘‘۔
سلیم میری ایک نہیں سنتا آگے بڑھ کر خوانچے کے پاس جا کھڑا ہوتا ہے۔ اب ایک دونا اس کے ہاتھ میں ہے۔ ایک دونا میرے ہاتھ میں۔ سلیم گول گپے کھاتے کھاتے پھریری لیتا ہے اور لطیفہ سنانا شروع کر دیتا ہے۔ ارد گرد کھڑے گاہک تیز نظروں سے ہم دونوں کو دیکھتے ہیں۔
’’یہ تم نے کیا حرکت کی‘‘۔ وہاں سے آگے نکل کر میں نے باز پرس کی۔
’’یار اب تو ہمیں روز ہی اس راستے سے گزرنا ہے میں نے سوچا کہ گربہ کشتن روز اول پہلے ہی دن ہم ان پر جتا دیں کہ ہم ڈرنے والی مخلوق نہیں ہیں‘‘۔
یہ بھی پڑھئے: سلیم احمد بنام احمد جاوید : تاریخی خطوط
یہ تصویر بھی دھندلا جاتی ہے۔ اس کے ساتھ پورا میرٹھ میرے حافظے میں دھندلا جاتی ہے۔ اب جو تصویر ابھرتی ہے اس میں میرٹھ کہیں نہیں ہے۔ سپیشل ٹرین دوڑی چلی جا رہی ہے۔ ہم مشرقی پنجاب سے گزر رہے ہیں۔ میں ہوں، سلیم ہے، سلیم کی منڈلی کے کچھ دانے، سلیم کے افرادِ خاندان، عسکری صاحب کے افراد خاندان، حسن مثنیٰ، صولت، رفعت۔ خوف ہمارا ہم سفر ہے دن تو جیسے تیسے گزر جاتا ہے۔ رات سو اندیشوں وسوسوں کے ساتھ آتی ہے۔ پوری ٹرین کے اندر اندھیرا ہے۔ ہدایت ہے کہ دیا سلائی بھی نہ جلائی جائے۔ کھڑکیاں بند رکھی جائیں۔ مگر سلیم سگریٹ پئے بغیر زیادہ دیر نہیں رہ سکتا۔ ماچس گھستا ہے۔ اندھیرے میں بیٹھے مسافر شور مچاتے ہیں۔ ماچس بجھائو۔ ماچس بجھائو۔ سلیم کی سگریٹ پینے کی طلب پوری ہوتے ہوتے رہ جاتی ہے۔
اب گاڑی کسی سٹیشن پر نہیں رک رہی۔ سٹیشن آنے پر تیزی سے گزرتی ہے۔ مگر غیر آباد مقامات سے گزرتے ہوئے کبھی کچھوے کی چال چلتی ہے، کبھی رک کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ حفاظتی دستہ نیچے اتر کر دور تک سرچ لائٹوں سے ارد گرد کا جائزہ لیتا ہے۔ گاڑی پھر چل پڑی ہے۔
اس مرتبہ گاڑی بیچ جنگل میں رکی ہے۔ حفاظتی دستے کا کوئی سپاہی ہمارے کمپارٹمنٹ کے آس پاس نظر نہیں آتا۔ مکمل سناٹا۔ دل زور زور سے دھڑک رہے ہیں۔ ہم گھپ اندھیرے میں ایک دوسرے کے دل کی دھڑکن صاف سن سکتے ہیں۔ اندھیرے میں ایک سرگوشی۔ ’’حملہ ہونے والا ہے‘‘۔ اور اچانک سلیم احمد رواں ہو جاتا ہے۔ ’’یار ایک لطیفہ یاد آ گیا‘‘۔ ایک لطیفہ دوسرا لطیفہ۔ غضبناک آنکھیں اندھیرے میں سلیم کو گھور رہی ہیں جیسے اسے کھا جائیں گی۔ مگر سلیم رواں ہے۔ ہماری محفل زعفراں زار بن جاتی ہے۔
’’آپ لوگوں کو شرم آنی چاہیے‘‘۔ اندھیرے میں ایک غصیلی آواز۔
’’کس بات پر‘‘؟ سلیم معصومیت سے پوچھتا ہے۔
ایک بوڑھی عورت جس نے اندھیرے سے فائدہ اٹھا کر اپنا سفید برقعہ اتار کر الگ رکھ دیا ہے۔ سمجھاتی ہے۔ ’’بیٹے یہ ایسی باتوں کا وقت نہیں ہے۔ کلمہ پڑھو‘‘۔
بوڑھی عورت کے اس مکالمے کے ساتھ تصویر دھندلا جاتی ہے۔ بعد کا سفر بالکل یاد نہیں آ رہا۔ بس اتنا یاد ہے کہ مغلپورہ سٹیشن پر پہنچ کر ہم ایک دوسرے سے جدا ہو گئے تھے۔ ہٰذا فراق بینی و بینکم۔ پاکستان آ گیا۔ میری اپنی راہ۔ سلیم کی اپنی راہ۔ میں لاہور میں۔ سلیم کراچی کی طرف۔
میں اپنے پرانے دھرانے کاغذ ٹٹول رہا ہوں۔ شاید خط کا کوئی پرزہ نکل آئے اور اس سے مجھے اس زمانے کی کچھ باتیں یاد آجائیں۔ ہاں ایک پرزہ نکل آیا۔
’’تم سے ملے ہوئے اتنے دن گزر گئے کہ اب بے انتہا ملنے کو جی چاہتا ہے یہاں کے ماحول کو تم جانتے ہی ہو۔ کوئی اتنا بھی نہیں کہ جس کے پاس ایک آدھ گھنٹہ بیٹھ کر گپ ہی مار لوں۔ ایک وہی جمیل صاحب۔ انہیں کو اوڑھ لو یا بچھا لو۔ کہاں میرٹھ کی زندگی کہاں یہ دن شماری۔ بس یوں سمجھ لو کہ جس طرح بن پڑ رہی ہے کاٹ رہا ہوں۔ اس حالت میں تم لوگوں کو خط لکھتا ہوں اور اس کا جواب نہیں آتا تو سخت غصہ آتا ہے۔ اور مایوسی سی ہوتی ہے‘‘۔
میں حیران ہوتا ہوں۔ وہ تو اپنی پوری منڈلی کو لے کر کراچی پہنچا تھا۔ سعید بور، امید فاضلی، قیام الدین وغیرہ وغیرہ۔ ویسے ٹھیک بھی ہے۔ اکھڑ کر جمنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ لو چند ہی سال بعد کا ایک پرزہ بر آمد ہو گیا۔ ارے اب تو یار میرے کے تیور ہی بدلے ہوئے ہیں۔
’’مجھے اعتراف ہے کہ میں تمہاری اور تمہاری نئی نسل کی طرح دھیمے الفاظ نہیں لکھ سکتا یہ تو اس وقت ممکن ہے جب پانی خاموشی سے بہنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔ کل ایک صاحب سے دیر تک تمہارا ذکرِ خیر ہوتا رہا۔ تمہاری ٹیبل ٹاک قسم کی کوئی چیز پڑھ آئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ادب میں یہ گورکھے کہاں سے داخل ہو گئے ہیں۔ میں نے کہا باقی حضرات کو تو میں جانتا نہیں مگر حضرت انتظار کا حدود اربعہ مجھے معلوم ہے‘‘۔
اصل میں اب سلیم کراچی میں رچ بس چکا ہے۔ منڈلی جمع ہو چکی ہے، ایسی منڈلی کہ میرٹھ کی منڈلی اس کے آگے کیا بیچتی ہے۔ اور اب ادب میں میری اور اس کی راہیں الگ ہیں۔ میں اس کے حساب سے لاہوریا بن چکا ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ اب تم لالو کھیت کے مفکر کہلانے کے حقدار ہو ادب میں میری جو روش ہے اس پر سلیم کو اعتراض ہے۔ سلیم پر جو سودا سوار ہوتا ہے وہ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ لمبی طنز و تعریض کے بعد افہام و تفہیم۔ بس جیسے اب شیر و شکر ہو گئے ہیں۔ مگر پھر اختلاف کا کوئی پہلو پیدا ہو جاتا ہے اور پھر وہی طنز و تعریض کا سلسلہ اور اب مجھے یاد آ رہا ہے کہ وہ سلیم کے آخری ایام تھے جب مجھے حریت میں اس کے کالم پڑھ کر اندیشہ ہوا کہ کہیں میرا یار شعر و ادب تیاگ کر خالص مصلح نہ بن جائے۔ میں روک ٹوک کرنے کی ٹھانتا ہوں۔ مگر سلیم اس وقت بہت زوروں میں ہے۔ اپنے مصلحانہ جوش میں میری ایسی کی تیسی کر دیتا ہے۔ سلیم کو تو غصہ آ گیا۔ اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ اچھا تھوڑے دن چپ رہتے ہیں۔ اس کا دماغ ٹھنڈا ہو جائے۔ پھر مزاج پوچھیں گے۔
مگر مزاج پوچھنے کی پھر نوبت کہاں آئی۔ موت کا فرشتہ بیچ میں کود پڑا۔
سلیم احمد کی ایک یادگار تحریر: تہذیب کا جن: سلیم احمد